متفرق

حقیقی ماں کا ایک مرتبہ اپنا بچہ دے کر واپسی کا مطالبہ درست نہیں

سوال: کسی خاتون کا اپنی مرضی سے اپنا بچہ اپنی جیٹھانی کو دےکر، کئی سال بعد دونوں خاندانوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جانے پرماں کی طر ف سے بچہ کی واپسی کے مطالبہ کے بارے میں ایک خط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں موصول ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 24؍جون 2020ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:

جواب: عام دنیوی اشیاء کی لین دین میں جب انسان اپنی مرضی اور خوشی سے کسی کو اپنی چیز دےدیتا ہے توپھر اس چیز کی واپسی کے مطالبہ کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اولاد اگرچہ اس قسم کی دنیوی اشیاء میں تو شمار نہیں ہوتی لیکن پھر بھی جب کوئی شخص اپنی مرضی اور خوشی سے کسی کو اپنا بچہ دےدے اور دوسرا شخص اسے اپنی اولاد کی طرح رکھے تو پھر اس کی واپسی کا مطالبہ بھی اخلاقاً پسندیدہ نہیں اسی لیے جماعتی قضاء نے تمام حالات کا جائزہ لےکر یہی فیصلہ دیا ہے کہ حقیقی ماں کا اپنے بچہ کی واپسی کا مطالبہ درست نہیں۔

میرے نزدیک اگر بچہ کی عمر نوسال سے زیادہ ہے تو اب فقہی اصول خیار التمییز کے تحت اس معاملے کا فیصلہ ہونا چاہیے اور بچے سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے، جہاں بچہ اپنی مرضی اور خوشی سے جانے کا عندیہ دے بچہ کو وہیں رکھا جائے۔

اللہ تعالیٰ آپ دونوں خاندانوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے، آپ خدا تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے محض اس کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کےلیے اپنے جائز حقوق چھوڑ کر ان جھگڑوں کو ختم کرنے والے ہوں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button