حدیث

امتِ مسلمہ میں آئندہ زمانے میں نمودار ہونے والے واقعات کے حوالے سے حدیث(ثم تکون خلافۃ علیٰ منھاج النبوۃ)کی پُر معارف تشریح

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام اپنے خط میں حضرت ثوبانؓ سے مروی ایک حدیث کہ ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا تمہارے ایک خزانہ کی خاطر تین شخص قتال کریں گے (اور مارے جائیں گے) تینوں خلیفوں (حکمران )کے بیٹے ہوں گے لیکن وہ خزانہ ان میں سے کسی کو بھی نہ ملے گا۔ پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے وہ تمہیں ایسا قتل کریں گے کہ اس سے قبل کسی نے ایسا قتل نہ کیا ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے کچھ اور باتیں بھی ذکر فرمائیں جو مجھے یاد نہیں، پھر فرمایا جب تم ان (مہدی) کو دیکھو تو ان کی بیعت کرو اگرچہ تمہیں برف پر گھٹنوں کے بل گھسٹ کر جانا پڑے۔ کیونکہ وہ خلیفۃ اللہ المہدی ہیں۔‘‘ درج کر کے اس کے ایک حصہ کی تشریح کر کےاس بارے میں حضور کی رائے دریافت کی۔ نیز حدیث کے ایک حصہ کے بارے میں مزید وضاحت چاہی ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 30؍مئی 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: آپ نے اس حدیث کا حوالہ البحر الزخار سے درج کیا ہے جبکہ یہ حدیث صحاح ستہ میں سے سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی میں بھی روایت ہوئی ہے۔ حدیث میں بیان کنز اور خلیفوں کے بیٹوں کے بارے میں آپ کی بیان کردہ تشریح ایک ذوقی تشریح ہے۔

میرے خیال میں اس حدیث میں آنحضورﷺ نے امت مسلمہ میں آئندہ زمانے میں نمودار ہونے والے مختلف واقعات کی خبردی ہے۔ جن میں بعض واقعات دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض روحانی امور سے متعلق ہیں۔ خزانے سے مراد اگرچہ بہت سے علماء نے خانہ کعبہ کا خزانہ مراد لیا ہے، مگر وہ خزانہ تو بہت سے حکمرانوں کے ہاتھ لگا بھی ہے۔ اس لیے حدیث میں مذکور خزانہ سے مراد خانہ کعبہ کا خزانہ مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حدیث میں حضورﷺ فرما رہے ہیں کہ وہ خزانہ ان میں سے کسی کو نہیں ملے گا۔

لہٰذا اس سے مراد وہ روحانی خزانہ ہے جس کی آنحضورﷺ نے اپنے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃکے اجرا کی صورت میں بشارت عطا فرمائی تھی۔ اور چونکہ اس خزانے کو پانے کےلیے قرآن کریم نے سب سے اوّل شرط ایمان اور عمل صالح قرار دی ہے، جو ان دنیاوی حکمرانوں میں مفقود ہو چکی تھی، اس لیے انہوں نے اس کے حصول کےلیے قتال یعنی جنگیں تو بہت کیں لیکن کسی کے ہاتھ وہ روحانی خزانہ نہ آیا۔

اسی لیے اس حدیث میں آنحضورﷺ نے خزانے کےلیے قتال کرنے والوں کےلیے صرف ’’ابن خلیفۃ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یعنی وہ خلیفہ بمعنی جانشین ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ خلیفہ یا نبوت کی بنا پر ملنے والی خلافت کے تابع خلیفہ نہیں ہوں گے۔ جبکہ اسی حدیث میں حضورﷺ نے اس شخص کےلیے جسے یہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا روحانی خزانہ ملنا تھا ’’خلیفۃ اللّٰہ المہدی‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔

اس حدیث میں مسلمانوں کے قتل و غارت کا جو ذکر ہے، آپ نے اس کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ مہدی کے ذریعہ ہو گا۔ جو میرے نزدیک درست نہیں ہے۔

اگر اس سے مراد ظاہری قتل وغارت اور خون ریزی لی جائے تو یہ مہدی کے ذریعہ ہر گز نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے مراد حضورﷺ کی ایک دوسری حدیث (مندرج مشکوۃ المصابیح) میں ’’مُلْكًا عَاضًّا‘‘ اور’’مُلْكًا جَبْرِيَّةً‘‘ کے الفاظ میں بیان پیشگوئی کے مطابق، ان ہر دو ادوار میں مسلمانوں کی آپس کی جنگوں میں ہونے والی خون ریزی اور کشت و خون ہے۔ نیز تیرھویں صدی میں منگولوں کے ہاتھوں ہونے والی مسلمانوں کی قتل و غارت مراد ہے۔

خلیفۃ اللہ المہدی کے ذریعہ اس قتل و غارت کے وقوع پذیر نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے آنے والے مہدی کی ایک نشانی ’’يَضَع الْحَرْب‘‘ یعنی وہ جنگ و جدال اور کشت و خون کا خاتمہ کر دے گا۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ) بیان فرمائی ہے۔ پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو حضورﷺ آنے والے مہدی کو امن و آشتی کا علمبردار قرار دے رہے ہوں اور دوسری طرف اسی کے ذریعہ امت محمدیہ کے افراد کی ایسی خون ریزی کی اطلاع دے رہے ہوں جیسی خون ریزی پہلے زمانوں میں کبھی کسی نےنہ کی ہو؟

پھر اس حدیث میں راوی کا یہ بیان کہ ’’اس کے بعد حضورﷺ نے کچھ اور باتیں بھی فرمائیں جو مجھے یاد نہیں۔‘‘ خاص توجہ کا متحمل ہے۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ امور دجال کے ظہور کے بارے میں ہوں کیونکہ متعدد ایسی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں حضورﷺ نے دجال کے فتنہ کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا اور اس کے مقابلے کےلیے اپنی امت کو مسیح موعود کی آمد کی خوشخبری عطا فرمائی۔ راوی کے مطابق ان باتوں کے بعد حضورﷺ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا ذکر فرمایا اور ان کی بیعت کو لازمی قرار دیتے ہوئے تاکیداً فرمایا کہ اگر تمہیں برف کی سلوں سے گھٹنوں کے بل گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو ضرور اس کی بیعت کرنا، کیونکہ وہ خلیفۃ اللّٰہ المہدی ہے۔

پس حضورﷺ نے اس حدیث میں تین الگ الگ زمانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک وہ زمانہ جب حضورﷺ اور خلافت راشدہ کا مبارک دور حسب منشائے الٰہی اختتام پذیر ہوجائے گا۔ اور ا س کے بعد مسلمان آپس میں جنگ و جدال کریں گےاور اپنے ہی لوگوں کو تہ تیغ کرکے ان کا خون بہائیں گے، اس وقت وہ روحانی خزانے سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسرا وہ زمانہ جب مسلمانوں کے دنیاوی لحاظ سے بھی کمزور ہو جانے کی وجہ سے ان کے غیر مسلم مخالفین انہیں خونریزی کا نشانہ بنائیں گے۔ اور پھر تیسرا وہ زمانہ جب آنحضورﷺ کی بشارتوں کے مطابق امام مہدی اور مسیح محمدی کی بعثت ہو گی اور امت محمدیہ کا وہ حصہ جو حضورﷺ کے اس غلام صادق اور روحانی فرزند کی بیعت کر کے اس کی آغوش میں آ جائے گا، اس کےلیے ایک مرتبہ پھر اسی ترو تازگی کا زمانہ آئے گا جس کا مشاہدہ امت محمدیہ نے اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے عہد مبارک میں کیا تھا اور اِس وقت پھر ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کی نوید ان خوش نصیبوں کےلیے پوری ہو گی۔

حدیث میں مندرج قتل و غارت کو اگر استعارۃ ًلیا جائے تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس طرح صحیح بخاری میں ’’يَضَع الْحَرْب‘‘ والی حدیث میں مذکورہ ’’فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ‘‘ کا حقیقی مطلب صلیب توڑنا اور سؤر مارنا نہیں۔ بلکہ اس سے مراد عیسائیت کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دینا مراد ہے، اسی طرح امام مہدی کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل سے مراد ان میں راہ پا جانے والے غلط عقائد کا قلع قمع کرنا اور دین کی تجدید کر کے اسے آنحضورﷺ کی تعلیمات کے عین مطابق دنیا میں رائج کرنا ہو گا۔

پس میرے خیال میں اگر اس حدیث کو اس طرح لیا جائے تو زیادہ بہتر تشریح بنتی ہے اور قتل کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button