پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

نومبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

ایک اَور احمدی ناظر کے خلاف مقدمہ!

لاہور (28؍ نومبر 2020ء): ناظر امور عامہ اور ترجمان جماعت احمدیہ پاکستان سلیم الدین کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور نے مقدمہ کا اندراج کرلیا۔ یہ مقدمہ 28؍ اکتوبر 2020ء کو تعزیرات پاکستان کی دفعات 295-A، 153-A، اورالیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016ءکے سیکشن 11 ایف آئی آر نمبر 2020/99 کے تحت درج ہوا۔ واضح رہے کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-Aکے تحت ملزمان کو دس برس تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

یہ مقدمہ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ شہزاد احمد بریار کی درخواست پر درج کیا گیا جس میں اس نے بتایا کہ یوٹیوب پر ایک پروگرام میں سلیم الدین احمد نے کثرت کے ساتھ اسلامی اصطلاحات کا استعمال کیا اور‘‘اعلانِ ختم نبوت فارم’’ پر تبصرہ کرکے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ سیشنز کورٹ لاہور نے مدعی کی درخواست سنتے ہوئے سائبر کرائم ونگ لاہور کو مقدمہ دائر کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

یاد رہے کہ یہ حکم نامہ موصوف کو کسی قسم کی اطلاع یا نوٹس دیے بغیر جاری کردیا گیا۔یہ بات بھی اہم ہے کہ مذکورہ پروگرام یوٹیوب پر سات برس قبل نشر کیا گیا تھا۔

مفروضے کی بنیاد پر ایک احمدی گرفتار!

راجن پور (16؍ نومبر 2020ء): راجن پور شہر پولیس سٹیشن میں ایک احمدی محمد آصف بدر کو ایف آئی آر نمبر 20/535 شق 216 کے تحت 16؍ نومبر 2020ءکوگرفتار کر لیا گیا۔

آصف بدر کو اپنے بھائی کو فرار کروانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جو پانچ دیگر احمدی ملزمان کے ساتھ ایک مقدمے میں نامزد تھے۔ ایک دن قبل یعنی 15؍ نومبر 2020ء کو پولیس سٹیشن راجن پور میں نئے آنے والے تفتیشی افسر نے بستی اللہ یار کا دورہ کیا تھا جس میں احمدیوں کو مذکورہ افراد کے فرار میں مدد دینے کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے ٹھیک اگلے دن، آصف بدر کو گرفتار کرلیا گیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں مولوی کا اثرو رسوخ

لاہور: ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور نے احمدیوں کے خلاف مندرجہ ذیل دو مقدمے درج کیے تھے

1.وقار احمد اور دیگر پر نومبر 2019ء میں مقدمہ بنا اور وقار احمد کو گرفتار کرلیا گیا۔

2.روحان احمد، عثمان ملک، اور حافظ طارق شہزاد کے خلاف 26؍ مئی 2020ء کو مقدمہ درج کیا گیا۔ اس وقت تینوں ملزمان سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بعد ازاں اس مقدمے میں ملک ظہیر احمد کو بھی نامزد ملزمان کے دوست کی حیثیت سے ان کی معاونت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔

ان مقدمات کے حوالے سے مندرجہ ذیل امور اہم ہیں

1 ملزمان قرآن کریم کی تعلیم اور تحقیق سے منسلک تھے۔

2 اس مقدمے کے مرکزی ملزمان کا تعلق تدریس اور تحقیق سے ہے۔

3 ان مقدمات کو درج کرانے اور ملزمان کو گرفتار کرانے میں ایک ملا ملوث ہے۔

4 ان سارے مقدمات میں تعزیر پاکستان کی دفعہ 295-Cلگائی گئی ہے جس کے تحت ملزمان کو عمر قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

5 علاوہ ازیں، ان سارے مقدمات میں جماعت احمدیہ پاکستان کے سینئر عہدیداران کو ناجائز طور پر نامزد کردیا گیا۔

ان حالات کے تحت ہماری یہ درخواست بالکل جائز تھی کہ ان مقدمات کو راولپنڈی منتقل کردیا جائے۔ تاہم مخالفین نے اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا اور کمال یہ ہے کہ معزز جج صاحب نے اس پر حکم امتناعی بھی جاری کردیا! لاہور میں اس مقدمے کی پیروی وہی ایف آئی اے کی ٹیم کرے گی جس نے یہ مقدمہ قائم کیا تھا۔

جماعتِ احمدیہ پاکستان کی مرکزی قیادت کو مقدمات کا سامنا

ربوہ ( نومبر 2020ء): جماعتِ احمدیہ پاکستان کے لیے بہت سنجیدہ اور تشویش ناک صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ جعلی اور خودساختہ مقدمات کے ذریعے جماعتِ احمدیہ پاکستان کی مرکزی قیادت کو گرفتاری اور طویل المدت قید کا خدشہ ہے۔

ماضی قریب میں حسن معاویہ نے جماعت احمدیہ کے افراد اور سینئر عہدیداران کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔ یہ سارے مقدمات بدنیتی پر مبنی ہیں اور ان میں تعزیراتِ پاکستان کی نہایت سنگین نوعیت کی شقوں کا نفاذ کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر، طالبِ علم جامعہ احمدیہ وقار احمد، پرنسپل جامعہ احمدیہ، اورایک لیکچرر جامعہ احمدیہ ربوہ، کے خلاف 12؍ نومبر 2019ء کو سائبر کرائم قوانین کے تحت FIRنمبر 2019/152 کے ضمن میں احمدی مخالف تعزیراتِ پاکستان 298-C، توہین مذہب کی شق 295-A,، PECA-11، اور تعزیرات پاکستان نمبر 120-B، 109، اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ وقار احمد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم اور اس کی ‘‘غلط تشریح’’ کو شیئر کیا ہے۔

ان شقوں کے تحت ملزمان کو عمر قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

اسی طرح ایک اور احمدی معلم روحان احمد کو بھی اسی طرح کی شقوں کے تحت مقدمہ بنا کر گرفتار کرلیا گیا۔ ایف آئی آر نمبر 2020/29 میں سینئر احمدی عہدیداران کے نام بھی شامل ہیں۔ تمام ملزمان کو عمر قید تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

چند ہفتوں بعد ملک ظہیر احمد نے تفتیشی افسر سے گرفتار احمدیوں کے کیس کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا تو تفتیشی نے انہیں بھی انہی شقوں کے تحت گرفتار کرلیا حالانکہ ملک ظہیر احمد کا اس کیس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اس واقعہ کی وجہ سے ملک ظہیر کے سر پر بھی عمر قید کی سزا منڈلا رہی ہے۔

اس مقدمے کے اندراج اور ملک ظہیر احمد کو گرفتار کرکے تفتیشی افسر نے ان کے آئینی حقوق کو پامال کیا ہے جواحمدیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی بدترین مثال ہے۔

ملا معاویہ نے تعزیراتِ پاکستان کی شق نمبر 22Aاور 22Bکے تحت سیشن کورٹ لاہور میں درخواست دائر کی ہے کہ تمام احمدی ملزمان کو گرفتار کیا جائے جن میں جماعت احمدیہ پاکستان کی مرکزی قیادت شامل ہے۔ ایف آئی اے کے افسران نے عدالت کو بتایا ہے کہ وہ اس سلسلے میں تمام ضروری اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ یہ واقعہ حالات کی سنگینی کا پتہ تو دیتا ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ ہر باشعور شخص کو اس بات پر تشویش ہونا لازمی ہے۔

جماعتِ احمدیہ پاکستان کے مندرجہ ذیل افراد پر مقدمات درج ہوچکے ہیں :ناظر اعلیٰ جماعتِ احمدیہ پاکستا ن ایف آئی آر 20/29، ناظر اشاعت ایف آئی آر 20/29، ناظر تعلیم ایف آئی آر 20/29، ناظراصلاح و ارشاد ایف آئی آر 20/124، ناظر امورِ عامہ، ایف آئی آر 20/99، پرنسپل جامعہ، ایف آئی آر 19/152، پروفیسر جامعہ، ایف آئی آر 19/152، وائس پرنسپل، نصرت جہاں انٹر کالج، ایف آئی آر 20/29، صدر خدام الاحمدیہ پاکستان، ایف آئی آر 20/29۔

ان کے علاوہ دیگر افرد پر مقدمات درج ذیل ایف آئی آر نمبر پر دائر کی گئی ۔

ایف آئی آر 20/29، ایف آئی آر 20/29، ایف آئی آر 19/152، ایف آئی آر 20/77

مندرجہ بالا افراد میں سے 5 افراد پہلے ہی گرفتار ہوچکے ہیں۔ اس معاملہ پر مندرجہ ذیل ریمارکس اہم ہیں۔

  1. پاکستان میں سائبر کرائم قوانین، دہشت گردی کے خلاف قوانین اور توہین مذہب کے قوانین نیک نیتی کے ساتھ بنائے جاتے ہیں۔ ان قوانین کے نفاذ کے وقت ذمہ داران نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان قوانین کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اب حسن معاویہ جیسے بااثر ملا بعض ناعاقبت اندیش افسران کے ساتھ ملک کر ان قوانین کا بے دردی کے ساتھ استحصال کررہے ہیں۔ قرآن کریم کی وجہ سے کسی پر مقدمہ بنا دینا یا اسےجیل میں ڈالنا ایسا ہی ے جیسا آپ کسی اور مقد س کتاب کو پڑھنے پر مقدمہ بنا دیں۔
  2. وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آھنگی کو ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہیے جو ملک میں مذہبی ہم آھنگی کو فروغ نہیں دینا چاہتے۔
  3. ان مقدمات میں تعزیرات 295-A، 295-B، وغیرہ سنگین شقوں کو استعمال سراسر بدنیتی پر مشتمل ہے۔
  4. جماعتِ احمدیہ پاکستان کی مرکزی قیادت کے خلاف ان مقدمات کا بننا بہت سنگین معاملہ ہے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button