پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مرتبہ: مطہر احمد طاہر۔ جرمنی)

اکتوبر2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

یک طرفہ ریاستی بیانیے نے معاشرے کی اکثریت کے ذہنوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت اور تعصب کوٹ کوٹ کر بھردیا ہے

احمدیوں کو سماجی ہراسانی کا سامنا

کراچی (اکتوبر 2020ء):اگرچہ پاکستان میں ہر فرد احمدیوں کا مخالف نہیں ہے لیکن یک طرفہ ریاستی بیانیے نے معاشرے کی اکثریت کے ذہنوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت اور تعصب کوٹ کوٹ کر بھردیا ہے۔ سماج پر مولوی کے تسلط کی وجہ سے احمدی اپنا نقطۂ نظر عوام کے سامنے بیان نہیں کرپاتے، جس کی وجہ سے پاکستان کی نئی نسل احمدیوں کی تاریخ اور ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات سے نابلد ہے۔

سید محمد شاہ ایک احمدی ہیں اور آپ کی فیملی کراچی کے مرکزی علاقے صدر کی رہائشی ہے۔ موصوف اور آپ کی اہلیہ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے آپ کے اہل خانہ کو احمدی ہونے کی وجہ سے ان کے چند ہمسایوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔

ان کی دو بیٹیاں اسی علاقے میں ایک استاد کے پاس ٹیوشن پڑھنے جاتی تھیں مگر لیکچرر نے ان کی بیٹیوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے ٹیوشن پڑھنے آنے سے منع کردیا۔مقامی انٹرنیٹ کمپنی نےسید محمد شاہ صاحب کے گھر کا انٹرنیٹ منقطع کردیا اور پوچھنے پر کمپنی کے ملازم نے بتایا کہ اس کے افسران ِبالا نے اسے ان کا کارڈ ریچارج کرنے سے روک دیا تھا۔

شاہ صاحب کی بہنیں بھی اس علاقے میں معروف احمدیہ ہال کے قریب رہتی ہیں۔ان کا بجلی کا کنکشن متعدد مرتبہ منقطع کیا جاچکا ہے۔ہمسایہ خواتین ایک دوسرے کو ان کا مقاطعہ کرنے کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔ان کے بیٹے کی موٹر سائیکل کو لڑکے کئی مرتبہ نقصان پہنچا چکے ہیں۔حال ہی میں مقامی شرپسندوں نے ان کے بیٹوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کیں اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پوسٹس لگائیں۔علاوہ ازیں مخالفین نے جماعت احمدیہ کے خلاف بھی نفرت سے بھرا ہوا پراپیگنڈا کیا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ مخالفین ان احمدیوں کا پانی کا کنکشن بھی کاٹ چکے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ صورت حال متاثرہ احمدی خاندانوں کے لیے بہت تشویشناک ہے۔

کراچی میں احمدیوں کو معاشرتی مخالفت کا سامنا

ماڈل کالونی، کراچی (اکتوبر 2020ء):ایک احمدی عاطر رؤف ایک آئس کریم کی دکان پر کام کرتےتھے اور ان کا مینیجر ان کے کام سے مطمئن تھا۔ ایک دن دکان کے کیشیئر کو پتہ چلا کہ آپ کا تعلق احمدیہ جماعت سے ہے اور وہ احمدی ہیں۔اس نے سارے سٹاف کو اس بات کی اطلاع دے دی۔پھر سٹاف نے مل کر مینیجر پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ یا تو وہ دکان پر کام کریں گے یا یہ۔

اس پر مینیجر نے عاطر رؤف کو بلوایا اور کہا کہ اگرچہ وہ ان کے کام سے مطمئن ہے لیکن وہ اپنے سٹاف کے خلاف نہیں جاسکتا۔ چنانچہ انہیں کام چھوڑنا پڑا۔

اسی طرح ایک اور احمدی رضوان احمد طاہر کراچی کے معروف علاقے ماڈل کالونی میں آپٹیکس کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے بارے کسی کو علم نہ تھا لیکن کسی طرح ایک دکاندار کو اس بات کی خبر ہوگئی۔اس نے پوری مارکیٹ میں ان کے احمدی ہونے کے متعلق بتادیا۔اب ارد گرد کے تاجر بھی ان سے اس بابت استفسار کررہے ہیں اور بعضوں نے تو ان کی مخالفت بھی شروع کردی ہے۔

احمدی کو اپنے گھر سے مقدس کلمات مٹانے کا کہا گیا

ٹنڈو بھاگو، ضلع بدین (اکتوبر 2020ء):مقامی جماعت احمدیہ کے صدر ظہیر الدین کو پولیس سٹیشن سے SHO کی کال موصول ہوئی جس میں انہیں پولیس سٹیشن آنے کو کہا گیا تھا کیونکہ ان کے خلاف کسی نے شکایت درج کرائی تھی۔انہیں بتایا گیا کہ ٹنڈو بھاگو کی مجلس تحفظ ختم نبوت کے جنرل سیکرٹری کی شکایت پر انہیں اپنے گھر پر آویزاں ’’ماشاء اللہ‘‘ ختم کرنا ہوگا۔ انہیں بتایا گیا کہ چونکہ وہ احمدی ہیں اس لیے وہ ان کلمات کو استعمال نہیں کرسکتے۔ یاد رہے کہ ’’ماشاءاللہ‘‘ ان اسلامی کلمات میں شامل نہیں ہے جن کا استعمال احمدیوں کے لیے ممنوع ہے۔

ظہیر الدین نے پولیس کو بتایا کہ یہ کلمہ مستری نے پندرہ برس قبل گھر کی تعمیر کے دوران لکھا تھا اور نہ وہ خود اسے مٹاسکتے ہیں نہ ہی کسی سویلین کو اسے مٹانے کی اجازت دیں گے۔ اگر پولیس ایسا کرنا چاہے تو بے شک کرلے لیکن اس میں ان کی رضامندی نہیں ہو گی۔

اس پر SHO نے فریق مخالف کے نمائندے کو فون کیا اور اسے پولیس سٹیشن بلوایا تا کہ وہ مل کر گھر سےیہ کلمہ مٹا سکیں۔ تاہم ابھی تک اس معاملے پر مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

کوٹ عبد المالک میں احمدیوں کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورت حال

فیکٹری ایریا، کوٹ عبد المالک (اکتوبر 2020ء):کوٹ عبد المالک کی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے احمدی مخالف بینرز شہر کے مختلف حصوں میں آویزاں کیےگئے جس میں احمد رضا خان کا ختم نبوت پر فتویٰ درج کیا گیا تھا جس کے مطابق عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کی شناخت کی بنیاد اور ہمارے مذہب کا اہم جزو ہے۔اس بینر میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث درج کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ حضور اکرمﷺکے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ دجال، کافر، کاذب، مرتد اور واجب القتل ہوگا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے لکھا گیا کہ آپ نے نہ صر ف یہ کہ نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ کئی ایسے مضامین بھی تحریر کیے جن سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیںاوران عقائد کی وجہ سے احمد رضا خان نے ان کو (نعوذباللہ) مرتد منافق کہا تھا۔

پولیس نے ان تمام بینرز کو اتروا دیا اور اعلیٰ افسران کو پولیس اور سپیشل برانچ کی جانب سے علاقے میں فرقہ وارانہ صورت حال پر ایک رپورٹ بھی ارسال کی گئی۔

یاد رہے کہ اس علاقے میں کچھ عرصہ قبل ایک احمد ی قمرضیاء کو شہید کردیا گیا تھا۔ یہاں کی صورت حال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے اور علاقے کے احمدی خوف و ہراس کا شکار ہیں۔

اٹک میں نفرت انگیزی کےواقعات

اٹک (اکتوبر 2020ء):اٹک میں ان دنوں احمدیوں کی مخالفت تیزی پکڑ رہی ہے اور مخالفین پوری قوت کے ساتھ احمدیوں کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔

ایک مقامی ملا قاری عبد الرؤف نے علاقے کی مسجد میں دکانداروں اور تاجروں کو اکٹھا کرکے احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کی۔ اس نے فرانس میں ہونے والی اسلام مخالف کارروائیوں کا بھی ذکر کیا۔ مولوی نے سامعین کو فرانسیسی مصنوعات اور قادیانیوں کے بائیکاٹ پر ابھارتے ہوئے کہا کہ قادیانی بھی فرانسیسسیوں کے بھائی ہیں۔

ضلع اٹک کی کئی دکانوں کے باہر یہ بیان چسپاں کیا گیا ہے کہ ’’یہاں قادیانیوں کے ساتھ کسی قسم کا لین دین نہیں کیا جاتا۔‘‘

شمیم رمضان، کامرہ ضلع اٹک کی رہائشی ہیں اور اسفند بخاری ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ملازمت کرتی ہیں۔ مخالفین نےان کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ چند دن قبل تحریک لبیک پاکستان کی شوریٰ کے ایک ممبر حفیظ اللہ علوی نے عوام کو شمیم رمضان کے خلاف اشتعال دلایا۔ مقامی میڈیا میںاور سوشل میڈیا ان کے خلاف نفرت انگیز رپورٹس بھی چھپ چکی ہیں۔

احمدی کو گاؤں چھوڑنے کا کہہ دیا گیا

بستی نور، ضلع عمر کوٹ (اکتوبر 2020ء):ایک احمدی ریحان احمد کا ایک غیر احمدی کے ساتھ فیس بک پر رابطہ تھا۔ ابتدا میں ان دونوں کے درمیان بہت عمدہ مراسم تھے۔ پھر غیر احمدی شخص بانی سلسلہ احمدیہ ؑکی شان میں انتہائی ہتک آمیز زبان استعمال کرنے لگا۔ جس کے جواب میں ریحان احمد نے جذبات کی رو میں بہہ کر ملاں کے خلاف سخت کلمات ادا کر دیے جس پر غیر احمدی نے ایک مولوی کے ایما پر پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرادی۔ ملاؤں کے اصرار پر ریحان احمد کو پولیس سٹیشن بلوایا گیا جہاں پر ملاؤں نے تھانے کا گھیراؤ کر کے شور شرابا شروع کردیا۔پولیس نے وقتی طور پر انہیں حراست میں لے لیا۔ جب تھانے سے جانے کی اجازت ملی تو ملاؤں نے ان پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ البتہ پولیس نے بیچ بچاؤ کر کے انہیںبچا لیا اور احمدی سے تحریری معافی نامہ لیا۔

اس واقعے کے بعد بھی مولوی ان کوگاؤں میں رہنے کی صورت میں نتائج کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

کاروبار میں احمدی کی مخالفت

راجن پور (اکتوبر 2020ء):سفیر خالد ایک احمدی ہیں اور آپ کوٹلہ نصیر میں ایک سٹور چلاتے ہیں، جو کہ راجن پور سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان کی دکان کے ساتھ ہی غیر احمدیوں کی بھی کئی دکانیں ہیں۔

مخالفین گاہکوں کو کہتے ہیں کہ خالد قادیانی ہے اس لیے وہ ان سے سامان نہ خریدیں۔ اس پراپیگنڈے کی وجہ سے گاہک اب ان سے اشیانہیں خریدتے بلکہ بعض تو خریدی ہوئی اشیا بھی واپس کردیتے ہیں۔ان حالات میں موصوف کو بہت محتاط رہنا پڑ رہا ہے۔

قصور میں احمدی کو مشکلات

قصور (13؍اکتوبر 2020ء):ایک احمدی علیم احمد شاہد ایک چکی پر اپنی گندم پسوانے گئے تو چکی کے مالک نے یہ کہہ کر ان کی گندم پیسنے سے انکارکردیا کہ وہ قادیانیوں کی گندم نہیں پیسے گا۔ چنانچہ اس پر ان کو کسی اَور چکی پر جانا پڑا۔

اس واقعے کے دو دن بعد جس مولوی کے کہنے پر چکی مالک نے گندم پیسنے سے انکار کردیا اس مولوی کا ایک کار حادثہ ہوا جس میں اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button