خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍نومبر2021ء

احمدی اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو اس سوچ کے ساتھ کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل میں مدد کرنی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانا ہے

تحریکِ جدیدکے ستاسیویں (87) سال کے کامیاب اور بابرکت اختتام اور اٹھاسیویں (88) سال کے آغاز کا اعلان

اللہ کے فضل سے تحریک جدید کے مالی نظام میں جماعت کو 15.3 ملین پاؤنڈ کی مالی قربانی کی توفیق ملی جو پچھلے سال سے آٹھ لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اپنے محدود وسائل کے ساتھ جس کام کو بھی شروع کرتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ایسی برکت ڈالتا ہے کہ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ شاید یہ اس کام میں کئی ملین پاؤنڈز کا خرچ کر رہے ہیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ یہ غریب لوگوں کے پیسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت پڑتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے چھوٹے کام بھی بڑے ہو کر نظر آتے ہیں

اللہ تعالیٰ جب دنیاوی منافعوں سے بھی نوازتا ہے تو اس سے بھی ایک احمدی کی اس طرف توجہ ہوتی ہے کہ یہ میرے کسی کمال کی وجہ سے نہیں بلکہ قربانی کا نتیجہ ہے اور یہ ایک احمدی کی سوچ ہے کسی اور کو یہ سوچ نہیں آسکتی

نئے احمدی ہوں یا پرانے کوئی بھی جب سنتا ہے کہ جماعت احمدیہ کس طرح پیسے خرچ کرتی ہے اور کہاں کہاں خرچ کرتی ہے تو اس کا ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ جن جماعتوں میں اس طرف توجہ کم ہے اگر وہ اس طرف توجہ دیں اور مقاصد بتائیںا ور اہمیت بتائیں تو ان کے چندے بڑھ سکتے ہیں

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍نومبر2021ء بمطابق 05؍نبوت1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنین کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے

پاک مال سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ

کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال کے خرچ کے حوالے سے جب کہیں باتیں کی ہیں تو صرف یہی بتایا کہ مال خرچ کرنے والے مومن ہیں۔ کہیں صدقات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے صدقات کے حوالے سے بات کی ہے۔ کہیں زکوٰة کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے خرچ کا فرمایا ہے۔ پھر جو قربانی کرنے والے اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں اس مال کا مصرف بھی بتایا کہ کس طرح خرچ کرنا ہے، کہاں خرچ کرنا ہے جیسا کہ الٰہی جماعتوں کا طریق ہے کہ وہ اپنے مال کو پاک کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتی ہیں۔

جماعت میں بھی اسی طرح مالی قربانیوں کا سلسلہ قائم ہے۔

جماعت کے افراد کو بھی پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور جو قربانیاں وہ دیتے ہیں وہ کس طرح پھر خرچ کی جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام جس مشن کو لے کر آئے تھے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانا۔ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں ہے بڑا وسیع کام ہے دنیا میں اس پیغام کو پھیلانا۔ اور بہرحال اس کے لیے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سمجھتے ہوئے کہ اپنا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو، یہ اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے احمدی اپنی مالی قربانیوں کے ایسے ایسے نمونے پیش کرتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان اس یقین پر پہلے سے بڑھ کر قائم ہو جاتا ہے کہ

یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہی فرستادے ہیں جن کے ذریعہ سے آخری زمانے میں اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلنی تھی۔

اگر اس ایک نشان کو مخالفین غور سے دیکھیں اور اپنے دلوں کے بغضوں کو نکال کر انصاف سے کام لیں تو احمدیت کی سچائی کی یہی نشانی ان کے دل بلا وجہ کی مخالفت سے پاک کر سکتی ہے لیکن ان کے دل تو پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں خاص طور پر علماء کے، نام نہاد علماء کے۔ بہرحال ان کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدی اپنے مال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو اس سوچ کے ساتھ کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل میں مدد کرنی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانا ہے۔ بےشک یہ اللہ تعالیٰ کا مومنین سے وعدہ ہے کہ تم جو بھی خرچ کرتے ہو، جو مال بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہو اسے میں کئی گنا بڑھا کر لوٹاؤں گا لیکن بہت سے احمدی ایسے ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہے۔ اگر دنیاوی فائدہ پہنچتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ان کی یہ سوچ ہے کہ قربانی سے اللہ تعالیٰ ہمارے سے راضی ہو اور ہماری عاقبت سنورنے کے سامان پیدا ہو جائیں۔

جماعت احمدیہ کوئی ارب پتیوں کی جماعت نہیں ہے۔ ایسی جماعت ہے جس کی اکثریت غریب لوگوں پر یا اوسط درجہ کے لوگوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود قربانی کا ایک جذبہ ہے۔ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اسلام کی نشأتِ ثانیہ میں ہمارا بھی حصہ ہو جائے اور پھر ان کی

معمولی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو کر لاکھوں کروڑوں پاؤنڈ کے برابر پھل لاتی ہیں۔

پس اصل چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبولیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اپنے محدود وسائل کے ساتھ جس کام کو بھی شروع کرتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں ایسی برکت ڈالتا ہے کہ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ شاید یہ اس کام میں کئی ملین پاؤنڈز کا خرچ کر رہے ہیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ یہ غریب لوگوں کے پیسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت پڑتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے چھوٹے کام بھی بڑے ہو کر نظر آتے ہیں۔

یہاں یہ بھی بتا دوں کہ جب جماعت بڑھتی ہے تو مختلف قسم کی سوچ رکھنے والے اور کم تربیت والے یا پرانے احمدیوں میں سےبھی تربیت کی کمی کی وجہ سے ایسی سوچ رکھنے والے نظر آ جاتے ہیں، گھروں میں بھی باتیں کرتے ہیں، بچوں کے سامنے بھی باتیں کرتے ہیں، بچوں کے ذہنوں میں بھی سوال اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں جو یہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کیوں اور کس لیے چندہ دیں؟ تو پہلے تو یہ عہدیداروں کا کام ہے کہ اپنے رویوں اور عمل سے لوگوں کے شکوک دور کریں۔ لوگوں میں اعتماد قائم ہو۔ پتہ ہو کہ جو چندہ لوگ دے رہے ہیں اس کا ایک خاص مصرف ہے اور وہ اسی مقصد کے لیے خرچ ہوتا ہے۔ دوسرے پیار سے انہیں سمجھائیں کہ مالی قربانی کی کیا اہمیت ہے۔ خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ چیز کتنی اہم ہے اور یہ مالی قربانی جو کر رہے ہوتے ہیں تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی رضا ان کو ملتی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ یہ قربانی کہاں خرچ ہوتی ہے۔ اشاعتِ اسلام پر خرچ ہوتی ہے۔ ٹی وی چینل ہمارا چل رہا ہے اس پر بے شمار خرچ ہوتا ہے ۔کتب شائع ہو رہی ہیں۔ قرآن کریم کی اشاعت ہو رہی ہے۔ غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے پر خرچ ہو رہا ہے۔ مبلغین کی تعلیم اور ان کے ذریعہ تبلیغ پر خرچ ہو رہا ہے۔ مساجد بن رہی ہیں۔ اسی تعلق میں اَور بہت سے جماعت کے خرچ ہیں۔ تو یہ بات میں نے اس لیے نہیں کہی کہ خدا نخواستہ لوگوں میں بہت زیادہ سوال اٹھنے لگ گئے ہیں۔ اس لیے بتائی ہے کہ

جب جماعت پھیلتی ہے تو پھیلاؤ کی وجہ سے شر پھیلانے والے اور شیطانی وساوس پیدا کرنے والے بھی آ جاتے ہیں جو فتنہ کی کوشش کرتے ہیں اور کم تربیت یافتہ ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت کے افراد ایسی پختہ سوچ رکھتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ نظام جماعت چلانے کے لیے اخراجات کی ضرورت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرو۔

پس جماعت میں ایسی بےشمار مثالیں ہیں کہ لوگ اپنے پاس کچھ نہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی نہ کسی ذریعہ سے انتظام کر کے خرچ کر دیتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسی قربانیوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے وعدہ کے مطابق کہ

وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ

اور اس کو وہاں سے رزق دے گا اور دیتا ہے جہاں سے رزق آنے کا اسے خیال بھی نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ بھی اس طرح اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور احمدی یہ نہیں کہ صرف قرآن کریم میں پڑھتے ہیں بلکہ آج بھی اس کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔ اس بارے میں اپنے تجربات لکھتے ہیں۔ میں اس کی مثالیں بھی پیش کروں گا۔ یہ کوئی پرانی باتیں نہیں ہیں کہ پرانے لوگوں کی کہانیاں ہم سن رہے ہوں بلکہ ایسے تجربات سے اللہ تعالیٰ آج بھی مومنوں کے ایمان مضبوط کرتا ہے اور نہ صرف جن پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں، جو براہ راست فضل حاصل کر رہے ہیں ان کو فائدہ ہوتا ہے اور ان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے بلکہ جو ان کے قریب رہنے والے ہیں ان کے بھی ایمان مضبوط ہوتے ہیں۔ انہیں بھی اس مالی قربانی کا اس وجہ سے احساس ہوتا ہے اور وہ بھی پھر اپنی قربانیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ میں مثالیں پیش کروں گا تو جو لوگ مجھے اپنی قربانیوں کے بارے میں خط لکھتے ہیں، ان کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔

گنی کناکری

کی ایک مثال ہے۔ مبلغ انچارج نے لکھا کہ جب میرے خطبے میں سے جو مَیں نے تحریک جدید کے چندے کے بارےمیں دیا تھا بعض ایمان افروز واقعات پڑھ کے جماعت کو سنائے اور ان کو کہا کہ یہ نمونے تمہیں بھی دکھانے چاہئیں تو ایک خاتون میمونہ صاحبہ کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ گھر میں اخراجات کے لیے رقم نہیں تھی اور ان کے شوہر اپنے کام کے سلسلہ میں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ جمعہ کی نماز کے بعد ان کے والد نے انہیں ایک لاکھ گنی فرانک کی رقم تحفةً دی جس پر وہ بتاتی ہیں کہ میں اس شش و پنج میں تھی کہ چندہ دوں یا گھر کے اخراجات کے لیے اس رقم کو استعمال کروں۔ پھر میںنے دعا کر کے آدھی رقم یعنی پچاس ہزار فرانک چندہ تحریک جدید میں ادا کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بات کو چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تین لاکھ فرانک کی رقم معجزانہ طور پر عطا کی جہاں سے مجھے کوئی گمان بھی نہیں تھا کہ رقم ملے گی۔ اس پر میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور کہتی ہیں کہ میرے ایمان میں بھی بہت اضافہ ہوا۔

کینیڈا

کی ایک مجلس کی صدر کہتی ہیں کہ سیکرٹری تحریک جدید نے بجٹ کو پورا کرنے کی تحریک کی تو نادہندگان ممبرات کے بقایا جات کے ٹوٹل جب دریافت کیے گئے تو وہاں کے لحاظ سے وہ 325 ڈالر کی ایک معمولی رقم تھی ۔کہتی ہیں میں نے سوچا کہ میں اپنے پاس سے ہی ادا کر دیتی ہوں لیکن جب میں نے بنک اکاؤنٹ دیکھا تو وہاں تو کوئی رقم نہیں تھی بلکہ مائنس میں اکاؤنٹ تھا۔ تین ڈالر زائد خرچ ہوئے ہوئے تھے لیکن کہتی ہیں اگلے دن جب میں نے اکاؤنٹ چیک کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے اکاؤنٹ میں تین ہزار ڈالر سے بھی کچھ زائد رقم تھی۔ کہتی ہیں کہ یہ وہ رقم تھی جو بہت عرصہ سے pendingتھی اور اس کے ملنے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب یہ نیت دیکھی کہ میں بقایا ادا کرتی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کی ادائیگی کے سامان پیدا کر دیے اور فوری طور پر وہ رقم جو کافی عرصہ سے pendingتھی وہ مل گئی۔ پھر

ساؤتھ افریقہ

سے ایک دوست شاہین صاحب کہتے ہیں کہ میں نے تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کی اور اپنے بنک اکاؤنٹ میں موجود آدھی رقم اس مدّ میں دے دی۔ کہتے ہیں یہ کوئی بڑی رقم نہیں تھی مگر ان کو مدنظر یہ تھا کہ تحریک جدید کی ادائیگی کا یہ آخری مہینہ ہے۔ اگر اب چندہ نہ دیا تو پھر موقع ملے یانہ ملے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ ادائیگی کر دی اور کہتے ہیں اسی دن ان کے والد صاحب بھی انہیں ملنے آئے اور انہوں نے کہا کہ انہوں نے کچھ رقم ٹرانسفر کی ہے جو انہیں مل جائے گی اور ضروریات پوری ہو جائیںگی۔ شاہین صاحب کہتے ہیں جو رقم ان کے والد صاحب سے ملی وہ چندہ تحریک جدید میں دی گئی رقم سے بیس گنا زیادہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے والد صاحب سے ملنے والی اس رقم پر پھر چندہ ادا کر دیا اور پھر کہتے ہیں کہ جب میں نے کہا کہ میری آمد بڑھ گئی اور مجھے کہیں سے رقم اللہ تعالیٰ نے دے دی جہاں سے مجھے امید نہیں تھی پھر جب چندہ ادا کیا تو اسی دن شام کو ان کے کام کی جگہ سے مالکن کا فون آیا کہ تم اگر خواہش رکھتے ہو تو ہم تمہیں دبئی میں ایک نوکری دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے ہاں کر دی اور اس طرح ان کو بیرون ملک میں ایک بہت اچھے روزگار کا بھی بندوبست ہو گیا۔ کہتے ہیں یہ دو واقعات اتفاقی نہیں ہیں بلکہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فضل محض چندہ دینے سے اور قربانی کرنے سے ہوا ہے۔ پھر

آسٹریلیا

کے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت کے ایک ممبر بتاتے ہیں کہ انہوں نے چندہ دینے کا وعدہ کیا۔ ان کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے۔ وعدے کے مطابق جب چندہ ادا کیا تو دل میں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے توخدا تعالیٰ مجھے سو گنا بڑھا کر دے گا۔ اس طرح بھی بعض سوچ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک پلاٹ خریدا ہوا تھا جس کی ویلیو بڑھنے کی کوئی خاص امید نہیں تھی لیکن چندے کی ادائیگی کے بعد کہتے ہیں کہ معجزانہ طور پر اس پلاٹ کا منافع سو گنا سے بھی زیادہ بڑھ گیا اور کہتے ہیں اس بات پر میرا پختہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مالی قربانی کو قبول کرتے ہوئے یہ فضل فرمایا۔ پھر مبلغ

قزاخستان

لکھتے ہیں کہ وہاں ایک لوکل مخلص احمدی علی بیگ صاحب ہیں۔ انہوں نے دس ہزار تینگے (Tenge)جو اُن کی کرنسی ہے تحریک جدید وغیرہ میں ادا کیے اور کہتے ہیں اس کے بعد میں کام پر چلا گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد کمپنی کے اعلیٰ افسر نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہماری کمپنی کو اس دفعہ بہت منافع ہوا ہے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پوری کمپنی میں سے تین لوگوں کو اچھا کام کرنے پر ایک لاکھ کا بونس دیں گے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس چندے کی وجہ سے دس گنا کر کے مجھے عطا کر دیا اور اس کی مجھے کوئی امید نہیں تھی۔ پھر

برمنگھم یوکے

سے بھی ایک صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے اپنی فیملی کے ساتھ 2016ء میں بیعت کی تھی اور بیعت سے پہلے مالی حالات کافی خراب تھے اور قرض بھی بہت زیادہ تھا۔ جماعت میں آ کے جب اپنی حیثیت کے مطابق چندوں کی ادائیگی شروع کی بلکہ بعض دفعہ حیثیت سے بڑھ کر بعض تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا تو کہتے ہیں بیعت کے ابتدائی ایام کا واقعہ ہے کہ میری اہلیہ کو ایک سکول کے پروگرام میں تبلیغی سٹال لگانا تھا، میں نے اپنے کام سے چھٹی لے لی تا کہ بچوں کو سنبھال سکوں۔ اس چھٹی کی وجہ سے سو پاؤنڈ کا نقصان ہونا تھا۔ اس وقت کے مالی حالات اچھے نہیں تھے اور ہمارے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔ بہرحال کہتے ہیں کہ میں نے سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ کے کام کے لیے چھٹی لینی ہے قربانی دینی چاہیے تو میں نے رخصت لے لی لیکن اللہ تعالیٰ نے کچھ اَور سوچ رکھا تھا۔ کہتے ہیں جب میری اہلیہ اپنا کام ختم کر کے گھر پہنچی ہیں تو میرے باس کا فون آیا کہ اگر ہو سکے تو ایک گھنٹے میں کام کی جگہ پہنچ جاؤ کیونکہ ایمرجنسی کام آگیا ہے۔ کہتے ہیں میں نے فوراً روانگی کی۔ اس دن صرف ایک گھنٹہ کام کیا اور پورے دن کے پیسے سو پاؤنڈ مل گئے۔ گھر آ کر میں نے اپنی اہلیہ کو بتایا۔ دونوں نئے نئے احمدی ہوئے تھے۔ کئی روز تک ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام پا کر خوش ہوتے رہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔

وکیل المال تحریک جدید قادیان کہتے ہیں:

جماعت احمدیہ کرولائی صوبہ کیرالہ، انڈیا

کے ایک دوست ہیں، بڑے صاحب حیثیت ہیں۔ اچھے کاروباری ہیں اور تحریک جدید کی ادائیگی میں غیر معمولی جوش بھی رکھتے ہیں۔ ہر سال بڑی خطیر رقم پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں اس سال کورونا کے حالات کی وجہ سے مالی وسائل ایسے نہیں تھے کہ بڑی رقم دے سکیں۔ حصہ آمد وغیرہ دوسرے چندوں کی ادائیگی تو کر دی لیکن تحریک جدید کی ادائیگی کے لیے گنجائش نہیں تھی۔ کہنے لگے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ چندے کی ادائیگی کی توفیق عطا فرماتا ہے ابھی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی لیکن بہرحال توکّل تھا کہ اللہ تعالیٰ ضرور انتظام کر دے گا تو میں ادا کروں گا۔ کہتے ہیں اختتام سے صرف دو دن پہلے دس لاکھ روپے کی بڑی رقم انہوں نے تحریک جدید میں پیش کی۔ کہتے ہیں جمعہ کے دن مربی صاحب نے خطبہ کے دوران چندہ تحریک جدید کی ادائیگی کی طرف پھر توجہ دلائی اور کچھ پرانے واقعات میرے خطبہ میں سے پڑھ کے ان لوگوں کو سنائے۔ بہت متاثر ہوا اور دس لاکھ کے بجائے تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے کا چندہ پیش کیا اور اس کے بعد ان کو امید ہے کہ ایک پراجیکٹ جو سرکاری تھا وہ مل جائے گا اور یہ کہتے ہیں اگر وہ مجھے مل گیا تو تحریک جدید میں اَور بڑی رقم بھی ادا کروں گا۔ بہرحال امراء میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں میں ایسا طبقہ ہے جو قربانی کا جذبہ رکھتا ہے اور جو پیسے آتے ہیں تو چھپاتے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

برکینا فاسو

کے مبلغ حبیب صاحب لکھتے ہیں کہ ایک ممبر ہمارے سورے سعیدو (Sore Seydou) صاحب ہیں۔ سترہ سو فرانک سیفا ان کا بقایا تھا اور سال ختم ہونے میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا تھا تو بہرحال انہوں نے کوشش کر کے دو ہزار سیفا ادا کر دیا جو بقایا سے کچھ زیادہ تھا۔ کہتے ہیں کہ چندہ ادا کیے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ کسی واقف کار نے دس ہزار فرانک مجھے بھیج دیا اور پھر ایک گھنٹے میں مزید دس ہزار فرانک سیفابھیج دیا اور ساتھ فون کر کے کہا کہ یہ کُل بیس ہزار فرانک سیفا بطور تحفہ میں نے تمہیں بھیجے ہیں تو سعیدو صاحب کہتے ہیں کہ اس واقف کار نے آج تک مجھے کوئی پیسے نہیں بھیجے اور یہ پہلی دفعہ ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے دو ہزار فرانک بقایا ادا کیا تو اللہ تعالیٰ نے بڑھا کر بیس ہزار فرانک سیفا دو گھنٹے کے اندر اندر ادا کروا دیا تو اس طرح لوگوں کے ایمان بھی بڑھتے ہیں۔

سیرالیون

میں ایک جگہ لنگی (Lungi) ہے۔ اس ریجن کے معلم عبداللہ صاحب لکھتے ہیں کہ بڑی عمر کے ایک ممبر پاءجے۔ایم۔کائن (Pa J.M.Kaine) صاحب ہیں۔ ان کا پچھلے سال تحریک جدید کا وعدہ پچیس ہزار لیون تھا اور اس سال انہوں نے وعدہ پچاس ہزار لیون لکھوایا۔ وہ مالی لحاظ سے مشکلات کابھی شکار تھے جب تحریک جدید کی وصولی کے بارے میں اعلان کیاگیا تو انہوں نے لوکل مشنری سے پوچھا کہ میرا وعدہ کتنا ہے؟ جب انہوں نے بتایا کہ پچاس ہزار لیون تو بڑی حیرت ہوئی۔ انہوں نے کہا یہ کس طرح میں نے لکھوا دیا ہے۔ میں تو خود ادا نہیں کر سکتا۔ بہرحال ان کو کہا کہ یہ آپ نے خود ہی لکھوایا ہے۔ بہرحال خاموش ہو گئے۔ اگلے ہفتے کہتے ہیں انصار کی میٹنگ تھی اور آ کے بتایا کہ میرے پاس ساٹھ ہزار لیون تھے۔ بیس ہزار لیون میں گھر چھوڑ آیا ہوں اور چالیس ہزار لیون چندہ تحریک جدید میں ادا کرنے کے لیے لایا ہوں۔ اب میرے پاس واپس جانے کا کرایہ بھی نہیں ہے۔ بہرحال کہتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ آپ نے قربانی کی۔ اللہ تعالیٰ آپ کا انتظام کر دے گا۔ کہتے ہیں پیدل ہی گھر جا رہے تھے کہ رستے میں ایک پرانا جاننے والا مل گیا۔ بڑے عرصے بعد اس سے ملاقات ہوئی تھی اور دوست سے باتیں کرتے رہے۔ جب وہ دوست جانے لگا تو جاتے جاتے تیس ہزار لیون نکال کے ان بزرگ کو تحفہ دے دیا۔ پھر یہ بزرگ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ایک جاننے والی خاتون تھیںان کا پتہ کرنے کے لیے ان کی صحت کے بارے میں پوچھنے کے لیے گھر چلا گیا۔ جب وہاں سے اٹھ کے جانے لگا تو اس نے دس ہزار لیون دیا اور کہنے لگی یہ کرایہ کے طور پر استعمال کر لیں اور کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان کی چندے میں دی ہوئی رقم ان کو اسی طرح لوٹا دی۔ پھر انہوں نے اس سے وعدہ بھی پورا کر دیا جو پچاس ہزار کا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ صرف یہی نہیں اس کے بعد ایک اَور فضل بھی ہوا کہ ایک عزیز بیرون ملک مقیم تھے۔ ان کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ کافی عرصہ سے آپ سے رابطہ نہیں ہو سکا اور میں آپ کو بطور تحفہ چار لاکھ لیون بھجوا رہا ہوں۔ صرف برابر کی رقم نہیں دی بلکہ دس گنا بڑھا کے بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کروا دی اور اس طرح کہتے ہیں کہ مجھے اپنی قربانی کرنے کی بھی توفیق مل گئی اور میرے ایمان میں بھی اضافہ ہوا۔ پھر

گنی کناکری

کا ریجن بوکے (Boke) ہے۔ وہاں کے ایک گاؤں کے مشنری کہتے ہیں کہ تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کے سلسلہ میں ہفتہ تحریک جدید منایا گیا۔ خطبہ جمعہ میں توجہ دلائی۔ انفرادی طور پر گھروں میں دورہ بھی کیا۔ ایک مخلص احمدی دوست جبریل صاحب ہیں جو پیشے کے لحاظ سے بڑھئی ہیں۔ ان کے گھر گئے اور انہیں چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ میں نے آج کے اخراجات کے لیے بیس ہزار فرانک رکھے ہوئے تھے وہ میں سب چندے میں ادا کرتا ہوں۔ اب اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں لیکن دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول فرمالے۔ جبریل صاحب بتاتے ہیں کہ پچھلے تین ماہ سے انہوں نے ایک لکڑی کا بیڈ فروخت کرنے کے لیے تیار کیا ہوا تھا لیکن کوئی خریدار نہیں آ رہا تھا۔ چندے کی ادائیگی کے کچھ ہی دیر بعد ایک شخص بیڈ خریدنے آ گیا اور اس نے ایک ملین اور پانچ لاکھ فرانک میں وہ خرید لیا۔ اس پر جبریل صاحب نے فوراً ہمارے مشنری کو فون کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہماری قربانی کو قبول کیا بلکہ کئی گنا بڑھا کر اس نے ہمیں لوٹا دیاہے اور یہ بات وہ اپنے دوستوں کو بھی بتاتے ہیں تا کہ ان کے بھی ایمان مضبوط ہوں۔

منیر حسین صاحب فری ٹاؤن

سیرالیون

کے مبلغ ہیں۔ کہتے ہیں کہ خادم صوفی سونگو (Sufi Songo) صاحب پڑھائی کر رہے ہیں۔ طالب علم ہیںا ور پڑھائی کے سلسلہ میں مسجد میں مقیم ہیں۔ جب انہوں نے میرا خطبہ سنا۔ ریکارڈنگ سنی ہو گی یا گذشتہ سال کا تحریک جدید کا خطبہ سنا ہو گا جس میں مالی قربانی کرنے والے لوگوں کا میں نے ذکر کیا تھا تو کہتے ہیں: میں نے بڑی توجہ سے سارا خطبہ سنا اور میرے اندر اس بات کا بہت جوش اور جذبہ پیدا ہوا کہ کاش میں بھی مالی قربانی میں حصہ لے سکتا لیکن مشکل یہ تھی کہ میں طالب علم ہوں اور کوئی بھی کام نہیں کرتا اور پڑھائی کا خرچہ بھی مشکل سے پورا ہوتا ہے لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود میرے اندر بہت بےقراری پیدا ہوئی۔ میں نے سیکرٹری تحریک جدید کو اپنا پانچ لاکھ لیون کا وعدہ لکھوا دیا جو کہ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ اس کے بعد میں ان کی ادائیگی کے لیے کچھ پریشان ہوا اور رات دن میں نے دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا فرمائے اور میں اپنا وعدہ پورا کر سکوں۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد میرا ایک رشتہ دار اپنے بیٹے کو لے کر آیا کہ اسے احمدیہ سکول میں داخل کروانا ہے۔ میں نے سکول کے پرنسپل سے بات کی تو انہوں نے بچے کو داخلہ دے دیا۔ بچے کے والد نے مجھے ایک لاکھ لیون دیے اور کہا کہ تمہارے کھانے وغیرہ کے کام آئیں گے یہ رکھ لو۔ اس دن کہتے ہیں میرے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا لیکن میں نے یہ ساری رقم چندہ تحریک جدید میں ادا کر دی کہ وعدہ جو ہے اس کا کچھ حصہ تو پورا ہو۔ کچھ دن بعد کہتے ہیں کہ ایک نامعلوم نمبر سے فون آیا کہ ایک کام کرنا ہے اور اس کا اچھا معاوضہ بھی ادا کریں گے۔ کیا تم تیار ہو؟ میں نے فوراً حامی بھر لی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے معاوضہ کے طور پہ مجھے ایک ملین لیون ملے جس سے میں نے اپنا وعدہ تحریک جدید فوری طور پہ ادا کر دیا۔

گیبون

کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں ایک نومبائع عیسیٰ دیندانے (Dindane Issa) صاحب ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیعت اور باقاعدگی کے ساتھ چندہ کی ادائیگی سے قبل میری حالت یہ تھی کہ بسا اوقات دو ہفتے یا تین ہفتے گزر جاتے تھے مگر کام نہیں ملتا تھا مگر جب سے باقاعدگی سے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے تو اب تقریباً روزانہ ہی کام مل جاتا ہے اور یہ بڑی دور سے آ کے باقاعدہ چندہ ادا کرتے ہیں بلکہ جتنا چندہ ادا کرتے ہیں اتنا ہی ٹیکسی کا کرایہ بھی دیتے ہیں اب ان کا انتظام کیا گیا ہےکہ بجائے دوہرا خرچ کرنے کے اپنے گھر سے ہی چندہ بھجوا دیا کریں۔

اردن

سے ایک خاتون فجر عطایا صاحبہ کہتی ہیں کہ مجھے احمدیت میں داخل ہوئے بائیس سال ہو گئے ہیں۔ جب سے میں احمدی ہوئی ہوں میں نے دیکھا ہے کہ میں جب بھی چندہ دینے کی نیت کرتی ہوں اللہ تعالیٰ غیب سے مدد فرما کر پیسوں کا انتظام کر دیتا ہے۔ بعض دفعہ تو بالکل اتنے ہی پیسے آ جاتے ہیں جتنے چندہ دینے کی نیت ہوتی ہے۔ یہ جماعت کی برکت ہے۔ کہتی ہیں میں نے انجنیئرنگ کی ہوئی ہے۔ گھر پر ہی کچھ کام مل جائے تو کر لیتی ہوں۔ میری عادت ہے کہ چندہ جات کے لیے اپنے خاوند سے پیسے نہیں لیتی کیونکہ اکثر ان کا ہاتھ تنگ ہوتا ہے بلکہ اپنی ذاتی کمائی سے چندہ دیتی ہوں۔ اس سال میں نے سمجھا کہ میں نے تحریک جدید چندہ ادا کر دیا ہے لیکن درحقیقت میں بھول گئی تھی۔ جب یاددہانی کروائی گئی تو میرے پاس ایک دینار بھی نہیں تھا۔ میں اسی فکر میں تھی کہ چندہ کیسے ادا ہو گا؟ لیکن ایک طالبہ میرے پاس آئی کہ مجھے ٹیوشن پڑھا دیا کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹیوشن فیس سے چندہ بھی ادا ہو جائے گا اور کچھ بچ بھی جائے گا۔

برکینا فاسو

کی بوکوبَدَالہ (Bokubadala) ایک جماعت ہے۔ وہاں کے صدر جماعت بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس کچھ غیراز جماعت دوست آئے اور کہنے لگے کہ ہم لوگ آپ لوگوں کی فصلوں کو دیکھ کر حیران ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ آپ لوگوں نے جماعت کے تعمیر ہونے والے سکول میں زیادہ وقت دیا ہے جبکہ آپ کی فصلوں کی دیکھ بھال کرنے والا پیچھے کوئی نہیں تھا لیکن باوجود اس کے آپ کی فصلیں ہماری نسبت زیادہ اچھی ہیں۔ اس کے برعکس ہم لوگوں نے اپنا سارا وقت اپنی زمینوںکو دیا ہے لیکن پھر بھی ہماری فصلیں اتنی اچھی نہیں ہوئیں جتنی آپ لوگوں کی ہوئی ہیں۔ اس پر صدر صاحب نے انہیں بتایا کہ ہم سب لوگوں نے یہ وقار عمل اللہ تعالیٰ اور جماعت کے لیے کیا تھا اور جتنا وقت ہم سکول کو دیتے تھے ساتھ یہ دعا بھی کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تُو ہی ہماری فصلوں کی حفاظت کرنا کیونکہ ہم نے تجھ پر ہی توکّل کیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو سن لیا اور ہماری فصل بھی اچھی ہو گئی اور اب ہم نےچندہ بھی اس کے مطابق ادا کر دیا۔

بچے بھی کس طرح قربانی کا شعور رکھتے ہیں۔

ایسے بچے جو غریب ممالک میں ہیں اور ایسا شعور ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے بچوں کو، پڑھے لکھے بچوں کو بھی بعض جگہ یہ شعور نہیں ہے۔ اس کا واقعہ یوں ہے کہ حسین یوسف صاحب زنجبار کے علاقے کے مبلغ کہتے ہیں۔ بچے مسجد سے باہر کھیل رہے تھے تو ایک بزرگ وہاں سے گزرے انہوں نے خوش ہو کر بچوںکو ٹافیاں خریدنے کے لیے چودہ سو شلنگ دیے۔ بچے پیسے لے کر ایک احمدی دکاندار کے پاس گئے اور ان پیسوں کے سکے تبدیل کروا لیے۔ چھوٹا چینج کروا لیا۔ اور اپنے اپنے حصوں کے پیسے بجائے ٹافیاں خریدنے کے چینج کرا لیے۔ نوٹ تڑوا لیا اور سب بچے سکے لے کر مسجد آئے اور اپنے اپنے حصے کے پیسوں میں سے ایک ایک سو شلنگ چندہ ادا کیا اور بڑی خوشی سے اپنی اپنی رسید اپنے پاس رکھی۔ جب احمدی دکاندار کو علم ہوا کہ بچوں نے چندہ ادا کرنے کے لیے سکے تبدیل کروائے تھے تو اس کی بھی حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ اور یہی بچے ہیں جو ان شاء اللہ جماعت احمدیہ کی مضبوط بنیادیں بن جائیں گے۔ پھر

بچوں کی قربانی کا ایک اور عجیب نظارہ

ہے۔ یہ بھی تنزانیہ کا ہی ہے۔ اس کے بارے میںسموئے (Samuye) کے معلم لکھتے ہیں کہ جماعت میں تین بچے ہیں جو چوتھی جماعت میں پڑھتے ہیں، باقاعدگی سے مسجد میں تعلیمی اور تربیتی کلاسز میں شامل ہوتے ہیں۔ تینوں بچوں کے گھرانے مالی لحاظ سے غریب ہیں۔ کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں۔ گذشتہ ماہ سے یہ آپس میں مقابلہ کرتے تھے اور مقابلے میں چندہ تحریک جدید ادا کرنے کی طرف ان کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر ایک علیحدگی میں اپنا چندہ لاتا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ جتنی بھی رقم اس کے پاس موجود ہے وہ ادا کرے اور اس طرح انہوںنے کسی نے پانچ سو ،کسی نے چار سو، سات سو شلنگ جو بھی ان کے پاس تھا دیا اور کہتے ہیں کہ جب ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ تم جو یہ چندہ تحریک جدید لاتے ہو، یہ پیسے کہاں سے لے کے آتے ہو؟ ایک نے بتایا کہ اپنی والدہ کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں مدد کرواتا ہوں تو جیب خرچ کے طور پر جو پیسے ملتے ہیں اس میں سے چندہ تحریک جدید کے لیے رکھ لیتا ہوں اور کہتے ہیں کہ جب سے میں نے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے ہمیشہ لکڑیوں کے گاہک فوری طور پہ مل جاتے ہیں اور کبھی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے بچے نے بتایا کہ وہ بھی اپنی جیب خرچ میں سے چندے کی رقم علیحدہ کرتا ہے۔ تیسرے بچے نے بتایا کہ اس کے گھر کے قریبی درختوں پر پھل وغیرہ لگتے ہیں۔کبھی کبھار وہ اپنے کھانے کے لیے پھلوں سے زائد کو بیچ بھی دیتا ہے جس سے حاصل ہونے والی رقم سے چندہ ادا کر دیتا ہے۔ ان تینوں بچوں نے چندے کی برکات کا بھی بیان کیا کس طرح چندہ کی ادائیگی سے ان کی زندگی میں سکون محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو ایمان و اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے۔ یہ ہے ایمان جس سے ہمارے بچے بھی مزہ لوٹتے ہیں۔

بیلیز،دنیا کے بالکل دوسرے کونےسے ایک اَور بچے کی مثال۔

ایک، ایک کونہ، ایک دوسرا کونہ لیکن سوچیں کیسی ایک جیسی مثالیں ہیں۔ مبلغ انچارج بیلیز لکھتے ہیں کہ بیلیز میں ایک چودہ سال کے بچے نے مسجد کی تعمیر کے دوران اپنی ساری جمع پونجی مسجد کے لیے پیش کی۔ اس نے تحریک جدید میں بھی قربانی کی ایک اعلیٰ مثال پیش کی ہے۔ بچہ بہت غریب ہے۔ بہت غریب گھرانے سے اس کا تعلق ہے۔ مشکل سے ان کے والد گھر کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جب مربی صاحب نے تحریک جدید کی اہمیت کے بارے میں بتایا تو اس بچے نے ایک ڈالر پیش کیا اور کہا کہ یہ میرے گھر والوں کی طرف سے ہے اور مربی صاحب بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے لیے مالی لحاظ سے اتنی قربانی کرنا بھی بہت بڑی بات تھی لیکن اس بچے دانیال نے کہا کہ میرا نام اس میں نہ لکھیں۔ یہ میں نے اپنے گھر والوں کی طرف سے دیا ہے۔ میں اپنا حصہ بعد میں دوں گا۔ چنانچہ اگلے دن اس بچے نے مزید دس ڈالر پیش کیے اور کہا مجھے یقین ہے کہ اللہ ہمارے گھر والوں پر ضرور فضل کرے گا۔ اپنی طرف سے بھی ساتھ ہی پیش کر دیے۔

کس طرح اللہ تعالیٰ نئے شامل ہونے والوں کے دل میں قربانی کا جوش پیدا فرماتا ہے اور کس طرح انہیں نوازتا ہے۔ اس بارے میں

مراکش

کے ایک صاحب نور الدین صاحب کہتے ہیں 2017ء میں بیعت کے بعد مالی قربانی میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت میری آمدن بالکل معمولی تھی۔ کہتے ہیں ایک دن جماعت کی ویب سائٹ پر انہوں نے میرا خطبہ سنا جہاں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اور دیگر احمدیوں کی مالی قربانیوں کا بتا رہا تھا ۔ تو کہتے ہیں کہ اس سے میرے دل میں ایک جوش پیدا ہوا اور چند دن کے بعد صدر جماعت مراکش سے میں نے کہا کہ میں نظام وصیت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ انہوںنے بعض شرائط اور فرائض بتائے جس سے میرا جوش مزید بڑھا اور وصیت کر لی۔ پھر چند ماہ بعد میرے حالات بہتر ہو گئے اور مجھے ایک کمپنی میں اچھی تنخواہ والا جاب مل گیا۔ میں اب اسی کمپنی میں ایک اَور شہر میں بطور مینیجر کام کر رہا ہوں۔ میری تنخواہ صرف تین سال میں تین گنا ہو چکی ہے۔ کمپنی کا اعتماد مجھ پر اس حد تک بڑھا کہ جب میں مراکش کے دارالحکومت سے دوسرے شہر جانے لگا تو مجھے مینیجر نے کہا کہ

اگر تمہاری طرح کام کرنے والا کوئی اور احمدی ہو اور جاب چاہتا ہو تو بتاؤ۔

کہتے ہیں یہ سن کر میں بڑا جذباتی ہوا۔ آنکھوں میں آنسو آئے۔ میں نے اپنے شہر کے ایک احمدی دوست سے بات کی اور اسے یہ جاب مل گئی۔ اسے بھی اب مینیجر بنا دیا گیا ہے۔ تو کہتے ہیں چندہ دینے کی وجہ سے میری فیملی کا مجھ پر پریشر ہے اور بعض رشتہ داروں کی طرف سے بھی استہزاکا سامنا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ مجھے چندے کی ادائیگی کی وجہ سے کبھی مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

آسٹریلیا

کے مربی صاحب پرتھ سے لکھتے ہیں کہ ایک خادم ہے جس نے ابھی اس سال کا تحریک جدید کا چندہ ادا نہیں کیا ہوا تھا۔ چندہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تو اس نے بتایا کہ کووِڈ کی وجہ سے کام نہیں ملا۔ مالی مشکلات ہیں لیکن چند روز بعد دوبارہ ملا تو اس نے بتایا کہ میں نے اپنا چندہ پورا کرنے کے لیے گھر کا کچھ سامان تھا وہ بیچا ہے تا کہ چندہ ادا کر سکوں اور کہتے ہیں جیسے ہی میں نے ایسا کیا ابھی کچھ دن گزرے تھے کہ مجھے کام کے اعتبار سے چار نئے کنٹریکٹ مل گئے اور ساتھ ہی ایک نئی جاب بھی مل گئی جو سارے ایکسپینسز، (All Expenses Paid Job)تھی اور اس کی انکم بھی پہلے سے زیادہ بڑھ کر تھی اور پھر میں نے دیکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اپنے گھر کا سامان بیچ کے میں نے چندہ ادا کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فوراً لوٹا بھی دیا۔

پھر آسٹریلیا ساؤتھ کے ایک دوسرے شہر کے سیکرٹری تحریک جدید کہتے ہیں۔ ایک مخلص دوست کا چندہ تحریک جدید بقایا تھا۔ جب توجہ دلائی گئی تو وہ کہتے ہیں میں نے اپنا گھر بیچنے کے لیے لگایا ہوا ہے جونہی گھر بکے گا میں ادائیگی کر دوں گا۔ دو دن کے بعد اس کو فون آیا اور انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے میرا گھر غیر متوقع طور پر منافع میں بکا ہے اور انہیں یقین تھا کہ چندہ کی ادائیگی کے وعدہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے وعدے سے چھ گنا زیادہ تحریک جدید میں چندہ کی ادائیگی کر دی۔ اللہ تعالیٰ جب دنیاوی منافعوں سے بھی نوازتا ہے تو اس سے بھی ایک احمدی کی اس طرف توجہ ہوتی ہے کہ یہ میرے کسی کمال کی وجہ سے نہیں بلکہ قربانی کا نتیجہ ہے اور یہ ایک احمدی کی سوچ ہے کسی اور کو یہ سوچ نہیں آ سکتی۔

ارجنٹائن

کے مبلغ لکھتے ہیں کہ مَیں نے مالی قربانی کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک مضمون لکھا اور اس میں میرے خطبہ کے یہ الفاظ لکھے کہ

نومبائعین کو بتایا جائے کہ مالی قربانی دینی ضروری ہے۔ ان کو بتائیں کہ تمہارے پاس جو احمدیت کا پیغام پہنچا ہے یہ تحریک جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کی وجہ سے پہنچا ہے

اس لیے اس میں شامل ہوں تا کہ تم اپنی زندگیوں کو بھی سنوارنے والے بنو اور اس پیغام کو آگے پہنچانے والے بھی بنو۔ یہ اقتباس انہوں نے میرے خطبہ سے لیا اور شائع کیا۔ کہتے ہیں جب یہ مضمون افراد جماعت کو بھجوایا گیا تو ایک خادم انس حزقیل (Anas Ezequiel) صاحب نے میرے سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ تحریک جدید کے چندے کی ادائیگی کے لیے مشن ہاؤس آنا چاہتے ہیں۔ سخت گرمی کے باوجود سکول کی چھٹی کے فوراً بعد پبلک بس پر ایک گھنٹے سے زائد سفر کر کے وہ مشن ہاؤس پہنچے اور ایک ہزار ارجنٹین پیسو (Argentine peso)تحریک جدید کے لیے پیش کیے۔ کہتے ہیں مجھے بڑا تعجب ہوا۔ ان کے معاشی حالات ایسے نہیں تھے اور ابھی خود سکول کے طالب علم ہیں۔ ان کی آمد کا خاص ذریعہ بھی نہیں تھا۔ فیملی کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے۔ کہتے ہیں پیسوں کی قلت کی وجہ سے اس دن موصوف نے خود بھی دوپہر کا کھانا نہیں کھایا ہوا تھا۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے دل پر خلیفہ وقت کے اس اقتباس نے خاص اثر پیدا کیا ہے کہ نومبائعین کو بھی تحریک جدید میں اس لیے شامل ہونا چاہیے کیونکہ ان تک احمدیت کا پیغام تحریک جدید کے توسط سے پہنچا ہے۔ کہنے لگے کہ ایک طرف میں نے یہ الفاظ پڑھے اور دوسری طرف اسی دن قرآن کی آیت کا مطالعہ کیا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شہداء اور ان کی قربانیوں کو فوت شدہ مت خیال کرو بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں۔ کہنے لگے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی ایسی قربانی کروں جس کے فوائد اور نتائج میرے فوت ہونے کے بعد بھی زندہ رہیں۔ کہنے لگے کہ میری فیملی نے جو سب غیر مسلم ہیں میری سالگرہ کے موقع پر کچھ رقم تحفہ کے طور پر دی تھی۔ چنانچہ اس رقم میں سے جو بھی میرے پاس اس وقت باقی تھا وہ سب کا سب میں نے تحریک جدید میں پیش کر دیا ہے تا کہ اس رقم سے دوسروں تک احمدیت کا پیغام پہنچ سکے جس طرح کہ مجھ تک پہنچا ہے۔ یہ ہے جو احمدیت قبول کرنے کے بعد لوگوں میں انقلابی حالت پیدا ہوتی ہے۔

نئے احمدی ہوں یا پرانے ،کوئی بھی جب سنتا ہے کہ جماعت احمدیہ کس طرح پیسے خرچ کرتی ہے اور کہاں کہاں خرچ کرتی ہے تو اس کا ایک خاص اثر ہوتا ہے۔

جن جماعتوں میں اس طرف توجہ کم ہے اگر وہ اس طرف توجہ دیں اور مقاصد بتائیں اور اہمیت بتائیں تو ان کے چندے بڑھ سکتے ہیں۔

بہرحال

لائبیریا

کا ایک واقعہ ہے۔ ایک لوکل معلم مرتضیٰ صاحب ہیں اور ایک ایسی جماعت میں ہیں جہاں زیادہ تر نومبائعین ہیں اور عیسائیت سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تحریکِ جدید کے سلسلہ میں اپنی ایک جماعت کے دورے پر گئے جس وقت وہ گاؤں پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا۔ زیادہ تر لوگ باہر اپنے کھیتوں میں کام کے لیے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ میں آج رات یہیں قیام کروں گا اور اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گا جب تک سو فیصد احباب اس بابرکت تحریک میں شامل نہ ہو جائیں۔ رات کو جب سب لوگ گاؤں واپس آئے تو انہوں نے ساری جماعت کے سامنے تحریک جدید کی عظیم تحریک کا پس منظر اور اہمیت بیان کی اور سب کو شامل ہونے کی تحریک کی۔ اللہ کے فضل سے سب احباب نے اور خواتین نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔ اگلی صبح جب واپس جانے لگے تو کسی نے کہا کہ ایک دوست الفانسو صاحب ہیں جو دو ماہ سے باہر اپنے کھیتوں میں رہ رہے ہیں اور وہ تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے لیکن آپ ان کے پاس پہنچ نہیں سکتے کیونکہ ایک تو ان کی زمین بہت دور ہے۔ دوسرے بارشوں کی وجہ سے راستہ بھی بند ہے۔ معلم صاحب نے کہا کہ میں ان کے پاس بھی پہنچوں گا تاکہ آپ کی جماعت کے سو فیصد احباب اس بابرکت تحریک میں شامل ہوں۔ احباب جماعت نے روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اصرار کیا۔ کچھ دوست بہرحال ان کے ساتھ ہو لیے۔ اڑھائی گھنٹے کے پیدل سفر کے بعد جب یہ لوگ الفانسو صاحب کے پاس پہنچے تو ان کو بھی حیرت ہوئی اور خوشی بھی ہوئی۔ فوری طور پر انہوں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کیا۔ الفانسو صاحب کے بیوی بچے بھی ان کے ساتھ ہی مقیم تھے۔ بیوی ابھی احمدی نہیں ہوئی تھی۔ یہ سارا منظر دیکھ کر اس کی بیوی نے کہا کہ میں احمدیوں کے دین کی خدمت کے جذبہ سے بہت متاثر ہوئی ہوں چنانچہ آج سے میں بھی اس جماعت میں داخل ہوتی ہوں اور میرے بچے بھی اس جماعت کا حصہ ہوں گے۔ اس طرح اس کی برکت سے ایک خاندان کو احمدیت میں شامل ہونے کی بھی توفیق مل گئی۔

بیعت میں آنے کے بعد کس طرح لوگوں کو ادراک ہوتا ہے کہ مالی قربانی کس قدر ضروری ہے۔

مالی

سے ایک مبلغ لکھتے ہیں: ایک ریجن میں ایک صاحب سیڈو صاحب ہیں۔ ایک روز احمدیہ مشن ہاؤس کیتا میں تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے اپنا تحریک جدید کا چندہ پیش کیا کہ تحریک جدید کا سال ختم ہونے والا تھا اور میں کافی دنوں سے پریشان تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے اور میں تحریک جدید کا کیا ہوا وعدہ پورا کر سکوں اور آج مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے اور میں آیا ہوں۔ ایک ٹانگ سے معذور تھے۔ ان کو جب کہا گیا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی، بتا دیتے ہم خود آپ کے پاس پہنچ جاتے۔ تو بڑے جوش سے بولے کہ میں نے امام مہدی کو مانا ہے اور میں ظاہری جسمانی کمزوری کے باوجود اپنے آپ کو کچھ تندرست لوگوںسے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کا درد رکھتا ہوں اور شاید ایسی حالت میں میرا خدا تعالیٰ کے دین کی بہتری کے لیے یہاں تک پیدل چل کر آنا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جائے اور میری بخشش کا سبب ہو جائے۔

بینن

سے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک لوکل معلم موتوواما (Moutowama) ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے زون کی ایک نومبائع جماعت میں دورے پر گئے۔ وہاں کے صدر جماعت اسماعیل صاحب نے کہا ہم شروع سے مسلمان ہیں اور ہمیشہ ہر سال کچھ نہ کچھ مالی قربانی یا فی سبیل اللہ کے نام پر اللہ کی راہ میں اپنے امام کو دیتے چلے آئے ہیں۔ یہ پہلا سال تھا کہ ہم احمدی ہوئے ہیں اور پہلی بار ہم نے جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی ہے۔ اس سے قبل امام کو ہم جو بھی دیتے تھے وہ انہی کے تصرف میں آتا تھا لیکن جب ہم نے جماعت احمدیہ کے مبلغ سلسلہ سے مالی قربانی میں دی جانے والی رقم کے مصارف کے متعلق سوال کیا اور جواب میں جو عظیم الشان مصارف انہوں نے ہمیں مالی قربانی کے بتائے اس سے ہم ناآشنا تھے۔

جماعت اس معمولی سی دی گئی رقم کو بھی ضائع نہیں کرتی بلکہ اس معمولی دی گئی رقم کو بھی پوری دنیا میں ہونے والے چھوٹے بڑے ہر طرح کے فلاحی کاموں اور اشاعت اسلام میں صرف کرتی ہے اور ایک شخص جو چند فرانک بھی چندہ دیتا ہے وہ اس کا بہترین اجر پاتا ہے۔

چنانچہ قربانی کے اس فلسفے کو سمجھ کر ہم نے تحریک جدید میں چندہ دیا اور ہم نے محسوس کیا کہ اس سال ہمارے گھروں میں مالی مشکلات بھی نہیں آئیں اور ہماری اور ہمارے بچوں کی صحت پر جو ہم آئے دن خرچ کرتے تھے وہ بھی امسال نہیں کرنا پڑا۔ ہماری نمازوں کی حاضری پہلے سے بہتر ہو گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہماری حفاظت فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بار مالی قربانی کے بعد ہمیں دلی سکون اور اطمینان بھی تھا کہ ہماری قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ جی افریقہ میں رہنے والے دُور دراز کے اَن پڑھ لوگ سوچ ہی نہیں رکھتے۔ یہ ایسی پختہ سوچ اور ایسے اعلیٰ خیالات ہیں کہ بڑے پڑھے لکھے لوگوں کے بھی ذہنوں میں نہیں آتے۔ کس طرح انہوں نے سارا کچھ بیان کیا اور مالی قربانی کی اہمیت کس طرح ان پر واضح ہوئی۔

یہ ہے انقلاب جو بیعت کے بعد لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اسلام کی اشاعت کے لیے قربانی کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی پاک کمائی سے قربانی کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ قربانی مقبول بھی ہو اور اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو۔

اب میں

تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان

بھی کروں گا اور بعض کوائف بھی پیش کروں گا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ستاسیواں(87) سال 31؍ اکتوبر کو ختم ہوا تھا۔

اٹھاسیواں(88)سال شروع ہو چکا ہے

اور

اللہ کے فضل سے تحریک جدید کے مالی نظام میں جماعت کو 15.3 ملین پاؤنڈ کی مالی قربانی کی توفیق ملی جو پچھلے سال سے آٹھ لاکھ بیالیس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔

جرمنی دنیا بھر کی جماعتوں میں نمایاں طور پر آگے ہے۔

پاکستان کے اقتصادی حالات بھی خراب ہیں۔ قربانیوں میں تو وہ بڑھتے ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ علاوہ اس کے آج کل ویسے بھی مشکلات میں گرفتار ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مقدمے بازی اور کسی نہ کسی کے خلاف کیس بنتا رہتا ہے اور قانون جو ہے وہ ان کو جتنا دبا سکتا ہے، تنگ کر سکتا ہے،کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی پریشانیوں کو بھی دور کرے اور وہ بھی آزادی سے اپنی تمام activitiesکر سکیں۔ اجتماعات بھی ہوں۔ جلسے بھی ہوں اور کھل کر اپنی قربانیوں کے اظہار بھی کر سکیں۔ وہ تو اظہار نہیں کریں گے لیکن ان کے اظہار ہم کر سکیں۔ مجبوریوں کی وجہ سے ان کی بعض قربانیوں کا ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

بہرحال اس کے علاوہ جو قربانی کرنے والے ہیں جرمنی کا تو میں نے بتایا نمبر ایک ہے۔ اس کے بعد برطانیہ ہے۔ پھر امریکہ نمبر تین پہ ہے۔ نمبر چار پہ کینیڈا۔ نمبر پانچ پہ مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ نمبر چھ پہ بھارت ہے۔ نمبر سات پہ آسٹریلیا۔ نمبر آٹھ پہ انڈونیشیا۔ نمبر نو پہ گھانا۔ نمبر دس پہ پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔

افریقن ممالک

میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے نمایاں پوزیشن جو ہے وہ گھانا کی ہے۔ پھر نائیجیریا کی۔ پھر برکینا فاسو کی۔ پھر تنزانیہ کی۔ پھر سیرالیون کی۔ سیرالیون میں پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ بہتری ہو سکتی ہے اور بہت بہتری کی گنجائش ہے لیکن جو توجہ دینی چاہیے وہ دے نہیں رہے۔ اگر صحیح طرح لوگوں کو بتایا جائے تو لوگ قربانی کرنے والے ہیں جیسا کہ میں نے واقعات بتائے ہیں۔ پھر گیمبیا ہے۔ پھر بینن۔ پھر یوگنڈا۔ پھر کینیا۔ پھر لائبیریا۔

شاملین میں اضافے کے لحاظ سے

نائیجیریا نمبر ایک پہ ہے۔ پھر گیمبیا ہے۔ پھر سینیگال ہے۔ پھر گھانا۔ پھر تنزانیہ۔ پھر گنی کناکری۔ ملاوی۔یوگنڈا ۔گنی بساؤ ۔کونگو کنشاسا۔ برکینا فاسو ۔کونگو برازاویل ۔

اور شاملین میں افریقہ کے علاوہ جو دوسرے ملک ہیں ان میں بڑی جماعتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں جرمنی نمبر ایک پہ ہے۔ پھر برطانیہ ہے۔ پھر ہالینڈ ہے۔ پھر بنگلہ دیش ہے۔ پھر ماریشس ہے۔

دفتر اول کے کھاتے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام جاری ہیں۔

جرمنی کی پہلی دس جماعتیں

جو ہیں ان میں روئڈر مارک(Rödermark)۔ نوئس (Neuss)۔ مہدی آباد (Mehdi-Abad)۔ کولون (Köln)۔ روڈگاؤ(Rodgau)۔ نیڈا (Nidda)۔ فلورس ہائم (Flörsheim)۔ پنےّ برگ(Pinneberg)۔فرانکنتھال (Frankenthal)اور اوسنا بروک(Osnabrück)۔

جو پہلی دس لوکل امارتیں

ہیں ان میں ہیمبرگ(Hamburg)۔ فرینکفرٹ(Frankfurt)۔ گروس گیراؤ (Gross-Gerau)۔ ڈٹسن باخ (Dietzenbach)۔ ویزبادن(Wiesbaden)۔ مورفلڈن (Mörfelden)۔ ریڈشٹڈ(Riedstadt)۔ من ہائم(Mannheim)۔ ڈامشٹڈ(Darmstadt) اور روسلزہائم(Rüsselsheim)۔

پاکستان میں تحریک جدید کی قربانی

میں وصولی کے لحاظ سے لاہور اول ہے۔ پھر ربوہ ہے۔ پھر کراچی ہے۔ ضلعوں میں اسلام آباد کا ضلع ہے۔ پھر گوجرانوالہ۔ سیالکوٹ ہے۔ پھر عمرکوٹ ہے۔ پھر ملتان ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے۔ میر پور خاص ہے۔ اٹک ہے۔ میر پور آزاد کشمیر ہے اور ڈیرہ غازی خان ہے۔

اور وصولی کے اعتبار سے زیادہ قربانی کرنے والی امارت ڈیفنس لاہور ہے۔ امارت گلشن اقبال کراچی ہے۔ امارت عزیز آباد کراچی ہے۔ امارت ٹاؤن شپ لاہور ہے۔ امارت ماڈل ٹاؤن لاہور ہے۔ امارت مغل پورہ لاہور ہے۔ امارت دہلی گیٹ لاہور ہے۔ امارت کلفٹن کراچی ہے۔ بہاولنگر شہر ہے۔ حافظ آباد شہر ہے۔

برطانیہ کے پہلے پانچ ریجن

جو ہیں ان میں مسجد بیت الفتوح ریجن ہے۔ پھر نمبر دو پہ مسجد فضل ریجن ہے۔ پھر اسلام آباد ریجن ہے۔ پھر مڈلینڈز (Midlands) ریجن۔ بیت الاحسان ریجن۔ اور مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی دس بڑی جماعتیں یہ ہیں: فارنہم (Farnham)پھر اسلام آباد۔ پھر ساؤتھ چیم (South Cheam)۔ پھر مسجد فضل۔ پھر ووسٹر پارک(Worcester Park)۔ برمنگھم (Birmingham)۔ ساؤتھ والسال(South Walsall)۔ آلڈر شاٹ(Aldershot)۔ جلنگھم(Gillingha)۔ٹلفورڈ(Tilford)۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی جو جماعتیں ہیں

وہ ہیں میری لینڈ(Maryland) ۔ لاس اینجلیس (Los Angeles)۔ ڈیٹرائٹ (Detroit)۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔ شکاگو (Chicago)۔ سیئٹل (Seattle)۔ سینٹرل ورجینیا (Central Virginia)۔ اوش کوش(Oshkosh) ۔ اٹلانٹا (Atlanta)۔ جارجیا (Georgia)۔ پھر ساؤتھ ورجینیا (South Virginia)۔ پھر ہیوسٹن (Houston)۔ پھر یارک (York)پھر بوسٹن(Boston)۔

وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی لوکل امارات

ہیں وان (Vaughan)۔ پھر پیس ولیج (Peace Village) اور کیلگری (Calgary) دونوں برابر ہیں۔ پھر وینکوور (Vancouver)۔ پھر ٹورانٹو ویسٹ (Toronto West)۔ پھر ٹورانٹو (Toronto)۔

انڈیا کی پہلی دس جماعتیں

جو ہیں ان میں قادیان نمبر ایک پہ ہے۔ پھر کوئمبٹور (Coimbatore) ہے۔ پھر حیدر آباد ہے۔ پھر کرولائی (Karulai)ہے۔ پھر پتھہ پریم۔ کلکتہ۔ بنگلور ۔کیرنگ۔ کالی کٹ۔ میلا پالم ۔

اور قربانی کے لحاظ سے جو صوبہ جات ہیں ان میں کیرالہ نمبر ایک پہ ہے۔ پھر تامل ناڈو۔ پھر جموں کشمیر۔ پھر کرناٹک ۔تلنگانہ ۔اڑیسہ۔ پنجاب ۔بنگال۔ دہلی۔ لکش دیپ۔

آسٹریلیا کی پہلی دس جماعتیں

یہ ہیں میلبرن لانگ وارِن(Melbourne Long Warren)۔ کاسل ہل(Castle Hill)۔ مارسڈن پارک(Marsden Park)۔ میلبرن بیروک (Melbourne Berwick)۔ ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)۔ پین رتھ(Penrith)۔ اےسی ٹی کینبرا(ACT Canberra)۔پیراماٹا (Paramatta)۔ ایڈیلائڈ ویسٹ(Adelaide West)۔

اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 26؍نومبر2021ءصفحہ5تا10)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button