متفرق مضامین

جنّات کی حقیقت (قسط 10)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد، تاویل و استدلال کے مقابل


اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

جنّات کی حقیقت از حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(گذشتہ سے پیوستہ)’’ساتواں ثبوت ان جِنّات کے انسان ہونے کا یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کا دعویٰ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہ فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا۔ (الاعراف: 159)

اس جگہ جِنّوں کو رسالت میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر جِنّ بھی کوئی علیحدہ قوم ہے، اور اس کے لئے بھی آپ پر ایمان لانا ضروری تھا، یا جائز ہی تھا تو یوں فرمانا چاہیئے تھا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ وَ الْجِنُّ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا۔

مگر یہ تو قرآن کریم میں کہیں نہیں آیا۔ پس جو جِنّ آپ پر ایمان لائے، وہ قرآنی تشریح کے مطابق انسانوں میں سے ہی تھے، اور اسی وجہ سے آپ پر ایمان لانے کے مکلّف تھے۔ ایک اور آیت اس مضمون کے بارہ میں اس سے بھی واضح ہے۔ اور وہ سورۃ سبا ءکی آیت:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ۔ (سباء: 29)

ہے۔

كَافَّةً کَفَّ

سے نکلا ہے۔ جس کے اصل معنی جمع کرنے اور روکنے کے ہیں۔ پس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ اے محمدﷺ ہم نے تجھے صرف اس لئے مبعوث کیا ہے کہ تو انسانوں کو جمع کرے، اور کسی انسان کو اپنی تبلیغ سے باہر نہ رہنے دے۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تجھے صرف انسانوں کو جمع کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اور بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسانوں کے سوا کوئی اور بھی مخلوق ہے اور وہ بھی محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانے کی مکلّف ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انسانوں میں سے کوئی آپ کی دعوت سے باہر نہیں، انسانوں کے سوا کوئی اور مخلوق آپ پر ایمان لانے کے لئے مکلّف بھی نہیں۔ اس وجہ سے جن مومن جِنّوں کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے وہ انسان ہی تھے کوئی اور مخلوق نہ تھے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم میں جِنّ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (1) جِنّ وہ تمام مخفی مخلوق جو غیر مرئی شیطان کی قسم سے ہے۔ یہ مخلوق اسی طرح بدی کی تحریک کرتی ہے جس طرح ملائکہ نیک تحریکات کرتے ہیں، ہاں یہ فرق ہے کہ ملائکہ کی تحریک وسیع ہوتی ہے۔ اور ان کی تحریکیں محدود ہوتی ہیں۔ یعنی ان کو زور ان پر حاصل ہوتا ہے جو خود اپنی مرضی سے بدخیالات کی طرف جھک جائیں۔ انہیں شیاطین بھی کہتے ہیں۔ (2)جِنّ سے مراد قرآن کریم میں Cave menبھی ہے۔ یعنی انسان کے قابل الہام ہونے سے پہلے جو بشر زمین پر رہا کرتے تھے۔ اور کسی نظام کے پابند نہ تھے۔ ہاں آئندہ کے لئے قرآن کریم نے یہ اصطلاح قرار دے لی کہ جو لوگ اطاعت کا مادہ رکھتے ہیں ان کا نام انسان رکھا۔ اور جو لوگ ناری طبیعت کے ہیں اور اطاعت سے گریز کرتے ہیں ان کا نام جِنّ رکھا۔ (3) شمالی علاقوں کے وہ لوگ یعنی یورپ وغیرہ کے جو ایشیا کے لوگوں سے میل ملاپ نہ رکھتے ہوں اور جن کے لئے آخرزمانہ میں حیرت انگیز دنیاوی ترقی اور مذہب سے بغاوت مقدر تھی ان کا ذکر سورۃ رحمٰن میں کیا ہے۔ (4)غیر مذاہب کے لوگوں کو اور اجنبیوں کو جنہیں بعض اقوام جیسے ہندو اور یہود کوئی نئی مخلوق سمجھتے تھے۔ ان کو عام محاورہ کے مطابق جِنّ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جیسے حضرت سلیمان کے جِنّ یا رسول کریمﷺ پر ایمان لانے والے لوگ۔ میرے نزدیک دوزخ میں جانے والے جن جِنّات کا ذکر آتا ہے، ان سے مراد یا تو وہی ناری طبیعت والے لوگ ہیں جو اطاعت سے باہر رہتے ہیں اور کسی مذہب یا تعلیم کو قبول نہیں کرتے۔ اور انسان دوزخیوں سے مراد وہ کفار ہیں جو کسی نہ کسی مذہب سے اپنے آپ کو وابستہ کرتے ہیں۔ یا پھر اقوام شمال مغرب کو جِنّ قرار دیا ہے، جیسا کہ عرف عام میں یہ لوگ ان ناموں سے مشہور تھے۔

یہ جو فرمایا:

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ

اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ جن کو ہم جِنّ کہتے ہیں ان کی طبیعت میں ناری مادہ ہے، یعنی جلد اشتعال میں آجاتے ہیں اور اطاعت برداشت نہیں کر سکتے۔ حضرت آدم سے پہلے بشر کی حالت یہی تھی۔ حضرت آدم پہلے انسان تھے جنہوں نے اخلاقی اور تمدّنی کمال حاصل کیا۔ اس وجہ سے الہام جس کا تعلق تمدّن اور اخلاق سے ہے سب سے پہلے آپ پر ہی نازل ہوا۔ پس جو لوگ اس تمدّن اور نظام میں شامل ہوئے، انہوں نے گویا اپنے نفسوں کو مار دیا، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا نقش اپنے دلوں پر کندہ کروا لیا۔ پس وہ طینی کہلائے۔ کیونکہ طین نقش قبول کرتی ہے۔ اور جن لوگوں نے نظام میں آنے کی نسبت انفرادی آزادی کو مقدم رکھا، اور کسی کی اطاعت کا جُؤا گردن پر رکھنے سے انکار کیا وہ ناری کہلائے۔ یعنی جس طرح آگ کا شعلہ قابو میں نہیں آتا، اسی طرح وہ بے قابو ہو گئے۔ اور بوجہ زمین کے اندر رہنے کے وہ جِنّ کہلائے۔

اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ۔

جِنّوں کو آگ سے بنایا، پھر تم کس طرح کہتے ہو کہ اس سے مراد ناری طبیعت ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے:

خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ۔ (الانبياء: 38)۔

جس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ انسان کو (اللہ تعالیٰ نے) جلدی سے پیدا کیا۔ محقق مفسرین لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ کہ انسان کی طبیعت میں عجلت اور جلدبازی ہے۔ یہ نہیں کہ جلدی نام کسی مادہ کا ہے۔ جس سے انسان کو بنایا گیا ہے۔ اور وہ لکھتے ہیں کہ یہ عربی کا عام محاورہ ہے کہ جو شےکسی کی طبیعت میں داخل ہو، اس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ وہ اس سے پیدا کیا گیا۔ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ ضُعۡفٍ۔ (الروم: 55)۔

یعنی خدا تعالیٰ وہ ہے جس نے تم کو اس حالت میں پیدا کیا کہ تمہاری طبیعت میں کمزوری ہوتی ہے، یعنی پیدائش کے وقت بچہ کمزور ہوتا ہے۔ اور دوسرے کی امداد کا محتاج ہوتا ہے۔ اس آیت کے بھی یہ معنی نہیں کہ ضعف کوئی لکڑی یا مٹی کی قسم کی شے ہے جس سے خداتعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے۔

یہ تعلیق ختم کرنے سے پہلے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ کئی پرانے بزرگ کم سے کم اس خیال میں میرے ساتھ شریک ہیں کہ وہ جِنّ کوئی نہیں ہوتے جو انسانوں سے آکر ملیں، اور ان پر سوار ہو جائیں اور ان سے مختلف کام لیں۔ چنانچہ علامہ ابن حیّان اپنی تفسیر بحر المحیط کی جلد 5صفحہ 454پر لکھتے ہیں کہ: جبائی کا قول ہے کہ یہ آیت:

اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ۔ (الحجر: 41)

(جو آیت زیر تفسیر کےچند آیات بعد ہی ہے) ان لوگوں کے دعویٰ کو ردّ کر دیتی ہے جن کا یہ خیال ہے کہ شیطان اور جنوں کے لئے ممکن ہے کہ انسانوں پر غلبہ پا لیں۔ ان کی عقلوں کو خراب کر دیں، جیسا کہ عام لوگوں کا عقیدہ ہے۔ اور بعض دفعہ عوام ان امور کو جادوگروں کی طرف بھی منسوب کرتے ہیں۔ اور یہ سب دعوے اللہ تعالیٰ کی نص صریح کے خلاف ہیں۔

اگر کہا جائے کہ بعض بزرگوں نے جِنّات کا ذکر کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روحانی نظارے ہیں۔ اور عالمِ مثال میں ایسی باتیں نظر آجاتی ہیں۔ انہوں نے کشف میں بعض امور دیکھے، اور چونکہ عوام میں جِنّات کا عقیدہ تھا اور قرآن کریم میں بھی لفظ جِنّ استعمال ہوا ہے، انہوں نے ان مثالی وجودوں کو اصلی وجود سمجھ لیا۔

میرا اپنا تجربہ اس بارے میں یہ ہے کہ کئی مختلف وقتوں میں لوگوں نے مجھے ایسے خط لکھے ہیں کہ جِنّات ان کے گھر میں آتے اور فساد کرتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اپنے خرچ پر اس مکان کا تجربہ کر نا چاہا تو ہمیشہ ہی یاتو یہ جواب ملا کہ اب ان کی آمد بند ہو گئی ہے یا یہ کہ آپ کے خط آنے یا آپ کا آدمی آنے کی برکت سے وہ بھاگ گئے ہیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ جو کچھ ان لوگوں نے دیکھا، ایک اعصابی کرشمہ تھا۔ میرے خط یا پیغامبر سے چونکہ ان کی تسلی ہوئی، وہ حالت بدل گئی۔

اگر اس تفسیر کے پڑھنے والوں میں سے کسی صاحب کو اس مخلوق کا تجربہ ہو، اور وہ مجھے لکھیں تو میں اپنے خرچ پر اب بھی تجربہ کرانے کے لئے تیار ہوں۔ ورنہ جو کچھ میں متعدد قرآنی دلائل سے سمجھا ہوں یہی ہے کہ عوام الناس میں جو جِنّ مشہور ہیں اور جن کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کو چیزیں لاکر دیتے ہیں یہ محض خیال اور وہم ہے، یا مداریوں کے تماشے ہیں جن کے اندرونی بھید نہ جاننے کی وجہ سے لوگوں نے ان کو جِنّات کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ اس علم کا بھی میں نے مطالعہ کیا ہے اور بہت سی باتیں ان ہتھکنڈے کرنے والوں کی جانتا ہوں۔ ہاں یہ میں مانتا ہوں کہ ممکن ہے پہلے انسان ناری وجود ہو، اور زمانہ کے تغیرات سے بدلتے بدلتے ارتقاء کے ماتحت طینی وجود ہو گیا ہو۔ یعنی اس کی بناوٹ کی بنیاد زمینی پیدا وار پر آگئی ہو۔ اور ایسے وجود جو سب سے پہلے تیار ہوئے ان کا سردار آدم ہو، یہ کوئی بعید بات نہیں۔ علم جیالوجی سے یہ امر ثابت ہے کہ دنیا میں مٹی کا چھلکا بعد میں بنا، پہلے دنیا ایک گرم آگ کا کرّہ تھی سو ارتقاء کے لحاظ سے اگر طینی ابتدا ءسے پہلے، انسان کی ابتدا ءناری وجود سے تسلیم کی جائے تو مستعبد نہیں۔ مگر یہ امور تخمینی ہیں، ان کو یقین سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے میں نے اس کے متعلق زیادہ نہیں لکھا۔

اس مضمون کا کچھ حصہ قصّہ آدم اور شیطان میں بھی حل ہو گا۔ اس کے لئے سورۃ البقرہ میں قصّہ آدم کا موقعہ دیکھنا چاہیئے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد4صفحہ 68تا71)

جس طرح حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جِنّات کے حوالے سےکچھ تشریح قصّہ آدم و شیطان میں ملے گی تو تفسیر کا وہ حصہ قارئین کے لیے پیش ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں: ’’اوپر کی تشریح سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بھی بشر کی نسل میں تھا، حالانکہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ:

قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ اِذۡ اَمَرۡتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ۔ (الاعراف: 13)

یعنی جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا، تجھے کس امر نے اس بات سے روکا کہ تو آدم کی فرمانبرداری کرے۔ تو اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تونے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح ابلیس کی نسبت آتا ہے:

کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ۔ (الکہف: 51)

یعنی ابلیس جنون میں سے تھا تبھی اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔ اور جِنّوں کی نسبت آتا ہے:

وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ۔ (رحمٰن: 16)

اللہ تعالیٰ نے جِنّوں کو آگ کے تیز شعلہ سے پیدا کیا ہے۔ پس جب کہ انسان اور جِنّ کی پیدائش میں فرق ہے ایک طین سے پیدا ہوا ہے دوسرا آگ سے، تو ان دونوں کو ایک جنس کیوں کر سمجھا جائے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو قرآن کریم میں ابلیس اور شیطان میں فرق کیا گیا ہے۔ جہاں کہیں آدم کو سجدہ نہ کرنے کا ذکر ہے وہاں ابلیس کا ذکر ہے۔ اور جہاں کہیں آدم کو ورغلانے کی کوشش کا ذکر ہے وہاں شیطان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً انہی آیات زیر تفسیر میں جہاں سجدہ کا ذکر ہے وہاں تو ابلیس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور جب آدم کو ورغلانے کا ذکر کیا ہے تو:

فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا۔ (البقرۃ: 37)

یعنی پھرشیطان نے ان کو اس حالت سے پھسلا دیا اسی طرح سورۃ الاعراف کے رکوع نمبر 2میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے، وہاں بھی جہاں سجدہ کے حکم کا ذکر ہے ابلیس کا لفظ استعمال کیا گیا، لیکن جہاں ورغلانے کا ذکر ہے وہاں فرماتا ہے

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ(الاعراف: 21)

پھر انہیں شیطان نے شک میں ڈال دیا۔ تیسری سورۃ جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے سورۃ طٰهٰ ہے۔ وہاں بھی جہاں سجدہ نہ کرنے کا ذکر ہے، وہاں ابلیس کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن جہاں آدم کو شک میں ڈالنے کا ذکر ہے، وہاں فرماتا ہے

فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ(طٰهٰ: 121)

شیطان نے آدم کے دل میں شک پیدا کر دیا۔

ہر آیت میں دونوں مواقع پر الگ الگ الفاظ کا استعمال کرنا حکمت سے خالی نہیں۔ قرآن کریم جو لفظ لفظ میں حکمت کو مدّنظر رکھتا ہے ممکن ہی نہیں کہ اس فرق میں کہ ہر جگہ سجدہ کے ذکر میں ابلیس کا لفظ استعمال کرتا ہے اور آدم کو ورغلانے کے ذکر میں شیطان کا لفظ استعمال کرتا ہے کوئی حکمت مدّ نظر نہ رکھتا ہو۔ پس ضرور ہے کہ سجدہ سے انکار کرنے والا کوئی اور وجود ہو، اور ورغلانے والا کوئی اور وجود ہو۔ اسی وجہ سے ایک کا نام ابلیس بتایا گیا اور دوسرے کا شیطان۔ پس اگر کوئی اس شبہ پر زور دے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ نار سے پیدا کرنے کا ذکر تو ابلیس کے متعلق ہے، نہ کہ شیطان کے متعلق۔

دوسرا جواب اور یہی اصلی جواب ہے یہ ہے کہ نار سے پیدا کرنے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ابلیس یا جِنّ اسی مادی آگ سے پیدا کئے گئے تھے، بلکہ یہ ایک عربی محاورہ ہے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت ناری تھی، اور وہ اطاعت کی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ یہ محاورہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی استعمال ہوا ہے۔ فرماتا ہے:

خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ ؕ سَاُورِیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنِ۔ (الانبياء: 38)

یعنی انسان کو عجلت سے پیدا کیا گیا ہے، میں تم کو اپنی آیات دکھاؤں گا پس جلدی نہ کرو۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اس آیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عجلت اور جلدی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کو بنایا گیا ہے۔ بلکہ اس مراد صرف یہ ہے کہ انسانی طبیعت جلد باز واقع ہوئی ہے۔ وہ ہر کام کا نتیجہ جلدی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے:

اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ ضُعۡفٍ۔ (الروم: 55)۔

اللہ ہی ہے جس نے تم کو ضعف سے پیدا کیا ہے۔ اس آیت کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ضعف کوئی مادہ ہے۔ ان محاروں کی رُو سے جِنّوں کے اور ابلیس کے نار سے پیدا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ ان کی طبیعت ناری تھی۔ یعنی جب تک انسان میں تمدّن کی حکومت قبول کرنے کا ملکہ پیدا نہ ہواتھا وہ ناری مزاج کا تھا، اور اس کے لئے دوسرے کی اطاعت قبول کرنا آسان نہ تھا۔ مگر جب وہ ترقی کرتے کرتے طینی جوہر جو اُس کا اصل تھا پا گیا، تو اس میں اطاعت کے قبول کرنے کا مادہ پیدا ہو گیا۔ اور ابلیس کے مقال کا صرف یہ مطلب ہے کہ آدم تو غلام ذہنیت رکھتا ہے کہ دوسرے کی اطاعت کر سکتا ہے۔ مگر میں ناری مزاج ہوں اور دوسرے کی اطاعت نہیں کر سکتا۔ پس میں اس سے اچھا ہوں۔ اور یہ دعویٰ ابلیس اور اس کے ساتھیوں کا طبعی دعویٰ تھا۔ وہ اپنی خیالی حریت کو اطاعت سے بہتر خیال کرتے تھے۔ اور ایک نظام کے ماتحت چلنے کو عیب خیال کرتےتھے۔

قرآن کریم میں اس ناری طبیعت کا محاورہ ایک اور جگہ بھی استعمال ہوا ہے۔ فرماتا ہے کہ:

تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ۔ (اللہب: 2)

یعنی شعلہ کے باپ کے دونوں ہاتھ برباد ہو گئے، اور وہ خود بھی برباد ہو گیا۔ اس آیت میں ابو لہب یعنی شعلوں کا باپ کسی کا نام نہیں، بلکہ ایک مخالفِ اسلام کی صفت بتائی ہے۔ اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ہاں آگ پیدا ہوتی تھی۔ بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اس کی طبیعت ناری تھی، اور محمد رسول اللہﷺ کے بغض اور حسد سے جلتا رہتا تھا، اور آپ کی مخالفت میں آگ بناتا رہتا تھا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ 299تا300)

آنحضرتﷺ کی خدمت میں جِنّات کا وفد

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ’’طائف کے سفر کے متعلق یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب آپﷺ اس سفر سے واپس تشریف لا رہے تھے تو نخلہ میں رات کے وقت جبکہ آپ قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف تھے جِنّات کا ایک گروہ جو سات نفوس پر مشتمل تھا اور شام کے ایک شہر نصیبین سے آیا تھا آپ کے پاس سے گزرا، اور اس نے آپﷺ کی تلاوت کو سنا اور اس سے متأثر ہوا۔ اور جب یہ جِنّ اپنی قوم کی طرف واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم سے آپﷺ کی بعثت اور قرآن شریف کا ذکر کیا۔ قرآن شریف میں اس واقعہ کادو جگہ(سورۃ الاحقاف: 30 وسورۃ جِنّ: 2) ذکرآتا ہے۔ اور دونوں جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کو ان جِنّوں کے آنے کا خود براہ ِراست علم نہیں ہوا بلکہ ان کے چلے جانے کے بعد خدائی وحی کے ذریعہ اس بات کی اطلاع دی گئی، کہ ایک جِنّوں کا گروہ آپ کی تلاوت سن کر گیا ہے۔ حدیث میں بھی متفرق جگہ پر اس واقعہ کا ذکر آتا ہے اور گو تاریخ سے حدیث کا بیان بعض تفصیلات میں مختلف ہے مگر مآل ایک ہی ہے کہ جِنّات کے ایک وفد نے ایک سفرکی حالت میں آپﷺ کی تلاوتِ قرآن کریم کو سنا اور پھر اُس سے متأثر ہوکر اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گیا۔ یہ ممکن ہے کہ یہ واقعہ ایک سے زیادہ دفعہ ہوا ہو جس کی وجہ سے روایات میں باہمی اختلاف ہوگیا ہے۔ لیکن اس جگہ ہمیں اس واقعہ کی ظاہری تفصیلات سے زیادہ سروکار نہیں ہے، بلکہ مختصر طور پر صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اس جگہ جِنّات سے کیا مراد ہے۔ اور ان کا آنحضرتﷺ کی تلاش میں نکلنا اور پھر کلام مجید کی تلاوت سن کر واپس لوٹ جانا کس غرض و غایت کے ماتحت تھا۔ سو جاننا چاہیئے کہ جِنّوں کی ہستی کا عقیدہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کم و بیش دنیا کی ہر قوم میں پایا جاتا ہے اور مذہبی اور غیر مذہبی ہر دوقسم کے لٹریچر میں اس کا وجود ملتا ہے، مگر اس کی تفصیلات میں بہت اختلاف ہے۔ بعض قوموں کے لٹریچر میں جِنّات کے اندر ایک قسم کی خدائی طاقت تسلیم کی گئی ہے اور انہیں قابل پرستش مانا جاتا ہے۔ بعض میں ان کوبلا استثناء ایک ناپاک مخلوق قراردیا گیا ہے اور گویا شیطان اور ابلیس کی طرح خیال کیا جاتا ہے مگر اسلام ان ہر دوقسم کے خیالات کو ردّ کرتا ہے اور یہ تعلیم دیتا ہے کہ جِنّ اللہ تعالیٰ کی ایک مخفی مخلوق ہے جس میں انسانوں کی طرح اچھے اور برے دونوں قسم کے افراد پائے جاتے ہیں، لیکن اس مخلوق کا دائرہ انسانوں سے بالکل جدا ہے اور ایک علیحدہ عالم سے تعلق رکھتا ہے۔ البتہ کہیں کہیں اللہ تعالیٰ کے منشا ء کے ماتحت تمثیلی رنگ میں جِنّوں کے وجود کا خاص خاص انسانوں کو نظارہ کرادیا جاتا ہے۔ مگر ظاہر حالات میں یہ ہر دو مخلوق ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق اور واسطہ نہیں۔ قرآن شریف میں جِنّوں کا ذکرچھبیس 26مختلف مقامات پر آتا ہے۔ ان سب مقامات میں جِنّ کے لفظ سے ایک ہی معنی مراد نہیں ہیں، کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کریں گے کہ یہ لفظ عربی زبان میں مختلف معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے، لیکن ان 26مقامات کے مجموعی مطالعہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ جِنّ خدا تعالیٰ کی ایک مخفی مخلوق ہے جو انسانوں کی طرح (گو اپنی تفصیلات میں یقیناً اس سے بہت مختلف)ترقی اور تنز ل دونوں کا مادہ رکھتی ہے اور اپنے اعمال میں اچھے اور برے رستے کے اختیار کرنے کے لئے اپنی حدودِ مقرّرہ کے اندر اندر صاحب اختیار ہے۔ مگر جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے جِنّ کا لفظ قرآن کریم میں ہر جگہ اس مخفی مخلوق کے لئے استعمال نہیں ہوا، بلکہ بعض جگہ یہ لفظ غیر اصطلاحی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ دراصل جِنّ ایک عربی لفظ ہے جس کے روٹ میں چھپنے یا چُھپانے یا نظروں سے پوشیدہ ہونے یا پردہ میں رہنے یا آڑ میں آجانے یاسایہ یا اندھیرا کرنے کے معنی ہیں۔ چنانچہ عربی میں جنّت باغ کو کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کے درخت زمین پر سایہ کرکے اُسے چھپا لیتے ہیں۔ جنین اُس بچّہ کو کہتے ہیں جو ابھی رحم مادر میں ہے کیونکہ وہ رحم کے پردوں میں مخفی ہے۔ مجنّہ ڈھال کو کہتے ہیں کیونکہ اس کے پیچھے ایک جنگجو سپاہی لڑائی کے وقت میں آڑ لیتا ہے۔ جُنون دیوانگی کو کہتے ہیں کیونکہ وہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے جَنان دل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ سینہ میں مخفی ہوتا ہے۔ اسی طرح جنان رات یا لباس کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ اندھیرا کرنے یاڈھانکنےکا ذریعہ ہیں۔ جَنَن قبر یاکفن کو کہتے ہیں کیونکہ دونوں مُردے کو اپنے اندر چھپا لیتے ہیں۔ جان سانپ کو کہتے ہیں کیونکہ وہ عموماً زمین کے مخفی سوراخوں میں زندگی گذارتا ہے۔ جُنّہ اوڑھنی کو کہتے ہیں کیونکہ وہ سر اور چھاتی کوڈھانکتی ہے۔ وغیرہ ذالک۔ اس اصل کے ماتحت بعض اوقات عربی محاورہ میں جِنّ کا لفظ ایسے اُمراء و رؤساء کے لئے بھی استعمال ہوجاتا ہے جو بوجہ امارت علو منزلت اور استکبار کے عام لوگوں کی سوسائٹی میں میل جول نہیں رکھتے، اور علیحدگی میں زندگی گذارتے ہیں۔ چنانچہ بسا اوقات قرآن شریف میں جِنّ کالفظ اِنْس یعنی عامۃ الناس کے مقابلہ میں امراء کے طبقہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اور ان معنوں میں یہ لفظ عموماًبُرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسی قوموں پر بھی جِنّ کا لفظ بول دیتے ہیں جو کسی ایسی علیحدہ اور منقطع جگہ میں آباد ہوں کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کا زیادہ میل ملاپ ممکن نہ ہو۔ اور انہی دو معنوں کے پیش نظربعض محققین نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں جِنّوں کے وفد کے حاضر ہونے سے یہ مراد لیا کہ یہ لوگ یا تو خاص امراء کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں گے جنہوں نے برملا طور پر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے پرہیز کیا اور علیحدگی میں آپ کا کلام سن کر واپس چلے گئے، اور یا وہ کسی دور افتادہ قوم کے افراد ہوں گے جو اپنے ماحول کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے بالکل جدا اور علیحدہ رہتی ہوگی۔ ہمیں ان معنوں کے قبول کرنے میں کوئی تأ مل نہیں ہے۔ اور اگر نخلہ میں جِنّوں کے وفد کے حاضر ہونے سے مراداُمراء کے کسی وفد کا حاضر ہونا یا کسی دور افتادہ منقطع قوم کے افراد کا پیش ہونا مراد ہے، تو پھر اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ اشارہ ہوگا کہ اے رسول !مکّہ اور طائف میں بظاہر اپنی ناکامیوں کو دیکھ کرپریشان اور دلگیر نہ ہو کیونکہ اب وقت آتا ہے کہ عوام النّاس تو کیا بڑے بڑے امیر و کبیر لوگ تیرے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے، اور دنیا کی دور افتادہ قومیں تیری غلامی کا جؤا اپنی گردنوں پر رکھیں گی۔ لیکن اگر جِنّ سے وہ مخفی مخلوق مراد ہے جس کی تفصیلات کا ہم کو علم نہیں، لیکن اُس کا وجود نصوص قرآنی کے ساتھ ثابت ہے تو اس میں بھی کسی عقلمند انسان کو شبہ کی گنجائش نہیں ہو سکتی، کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اُس کی خلق کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ کسی مخلوق کی نظر اس کی انتہاکو نہیں پا سکتی جہاں انسان کے سوا اس مَرئی دنیا میں ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں قسم کی دوسری مخلوق موجود ہے۔ جن میں سے بعض قسم کی مخلوق مَرئی ہونے کے باوجود ہماری کوتاہ نظر سے پوشیدہ رہتی ہے اور اس مخلوق کے وجود پر علم طب اور سائنس کے دوسرے شعبے یقینی قطعی شاہد ہیں تو پھر اس بات کے ماننے میں کیا تأمل ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق جِنّ کی قِسم کی بھی موجود ہوگی جو باوجود انسانی نظر سے پوشیدہ ہونے کے اسی طرح زندہ اور قائم ہوگی جس طرح انسان اپنے دائرہ کے اندر زندہ اور قائم ہے۔ بےشک اسلام ہمیں اس رنگ میں جِنّات کی تعلیم نہیں دیتا کہ ہم موہومہ بھوتوں وغیرہ کی صورت میں کسی ایسی مخلوق کے قائل ہوں جس کے افراد انسانی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہوئے انسان کے لئے ایک تماشا بنتے پھریں اور انسان کے سامنے مختلف صورتیں بدل بدل کر اس کی تفریح یا تخویف کا سامان بہم پہنچائیں۔ یہ خیالات جاہلانہ توہّم پر مبنی ہیں۔ جن کا کوئی ثبوت اسلامی تاریخ یا حدیث یا قرآن کریم میں نہیں ملتا، مگر یہ کہ جس طرح دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار دوسری مخلوق ہے جس میں بڑی چھوٹی، کثیف لطیف، مَرئی و غیر مَرئی ہر قسم کی چیزیں شامل ہیں، اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق جِنّ بھی ہے جو جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے انسانی نظروں سے مخفی ہے اور ایک جداگانہ عالم سے تعلق رکھتی ہے۔ اور عام حالات میں انسان کے ساتھ اس کا کوئی سروکار نہیں۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس پر کوئی عقلمند اعتراض نہیں کر سکتا۔ باقی رہا یہ سوال کہ ان معنوں کی رُو سےآنحضرتﷺ کی خدمت میں جِنّات کے وفد آنے سے کیا مراد ہے، سو اس صورت میں آنحضرتﷺ کا یہ نظارہ ایک کشفی نظارہ سمجھا جائے گا، اور اس سے مراد یہ ہوگی کہ اس انتہائی درجہ پریشانی اور بے بسی کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ نظارہ دکھا کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اے رسول گو ویسے ہر وقت ہی ہماری نصرت تیرے ساتھ ہے لیکن جس طرح گرمی کی شدت خاص طور پر بادل کو کھینچتی ہے اسی طرح اب وقت آگیا ہے کہ ہماری مخفی طاقتیں تیری رسالت کی تائید میں خصوصیت کے ساتھ مصروفِ کار ہو جائیں۔ چنانچہ اس کے بعد جلد ہی حالات نے پلٹا کھایا اور ہجرتِ یثرب کا پردہ اٹھتے ہی خدا کی مخفی تجلّیات اسلام کے جھنڈے کو اٹھا کر کہیں کا کہیں لے گئیں۔ اور روایات میں جو سات کا لفظ آتا ہے سو اس سے مخفی طاقتوں کا کامل ظہور مراد ہے،کیونکہ عربی میں سات کا عدد کمال کے اظہار کے لئے آتا ہے، اور شام کے شہر نصیبین میں یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فتوحات کی رَو عرب کے شام کے ملک سے شروع ہو گی۔ واللہ اعلم۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ صفحہ184تا188، ایڈیشن2004ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے’’جِنّات کے وجود‘‘کے متعلق ایک دوست کے سوال کے جواب میں تفصیلی مضمون تحریر فرمایا۔ اس کے آخر پہ فرماتے ہیں: ’’جِنّ کے لفظ سے بہت سی چیزیں مراد ہو سکتی ہیں لیکن بہرحال یہ بالکل درست نہیں کہ دنیا میں کوئی ایسے جِنّ بھی پائے جاتے ہیں جو یا تو لوگوں کےلئے خود کھلونا بنتے ہیں یا لوگوں کو قابو میں لا کر انہیں اپنا کھلونا بناتے ہیں یا بعض انسانوں کے دوست بن کر انہیں اچھی اچھی چیزیں لا کر دیتے ہیں اور بعض کے دشمن بن کر تنگ کرتے ہیں یا بعض لوگوں کے سر پر سوار ہو کر جنون اور بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں اور بعض کے لئے صحت اور خوشحالی کا رستہ کھول دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کمزور دماغ لوگوں کے توہمات ہیں جن کی اسلام میں کوئی سند نہیں ملتی اور سچے مسلمانوں کو اس قسم کے توہمات سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ہاں لغوی معنے کے لحاظ سے ( نہ کہ اصطلاحی طور پر) فرشتے بھی مخفی مخلوق ہونے کی وجہ سے جِنّ کہلا سکتے ہیں اور یہ بات اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ فرشتے مومنوں کے علم میں اضافہ کرنے اور ان کی قوتِ عملیہ کو ترقی دینے اور انہیں کافروں کے مقابلہ پر غالب کرنے میں بڑا ہاتھ رکھتے ہیں جیسا کہ بدر کے میدان میں ہوا۔ جب کہ تین سو تیرہ(313) بے سر و سامان مسلمانوں نے ایک ہزار سازو سامان سے آراستہ جنگجو کفار کو خدائی حکم کے ماتحت دیکھتے دیکھتے خا ک میں ملا دیاتھا۔ (صحیح بخاری) پس اگر سوال کرنے والے دوست کو مخفی روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا شوق ہے تو وہ کھلونا بننے والے یا کھلونا بنانے والے جنّوں کا خیال چھوڑ دیں اور فرشتوں کی دوستی کی طرف توجہ دیں جن کا تعلق خدا کے فضل سے انسان کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔‘‘(الفضل لاہور، 13؍جون 1950ء، صفحہ 3۔ جلد38/4شمارہ137)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button