سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

13مارچ 1903ء جمعہ کے مبارک دن منارۃ المسیح کاسنگ بنیادرکھاگیا

ایک عجیب وغریب اعتراض

کہتے ہیں کہ ’’ دشمن بات کرے انہونی‘‘اور مامورین کی مخالفت کرنے والے سب سے زیادہ انہونی باتیں اور اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کی مخالفت میں اتنے اندھے ہوچکے ہوتے ہیں کہ علم وانصاف اور دیانت وتقویٰ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔منارہ سے چندسال قبل جب حضورعلیہ السلام نے جلسہ سالانہ کی بنیادرکھتے ہوئے مقررہ تاریخ پراحباب کواکٹھا ہونے کاارشاد فرمایاتو علمائےدین کہلانے والوں کی طرف سے ایسے اجتماع کوبدعت اور خلاف شریعت اسلام قراردیاگیا۔اب جب پوری طرح وضاحت کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں منارہ کی تعمیرکی اہمیت کوبیان کیاگیاتواس پریہ اعتراض کردیاگیا کہ ایسی تعمیرتو اسراف اور فضول خرچی کے زمرے میں آتی ہے۔حالانکہ اس میں اصل تو نبی اکرمﷺ کے دہن مبارک سے نکلنے والے ان الفاظ کو پورا کرنا مقصدتھااور اس پیشگوئی کوپوراکرنے کے لیے تاریخ اسلام میں پہلے دومرتبہ کوشش کرتے ہوئے مینارتعمیربھی کیے گئے۔لیکن چونکہ وہ خدائی مشیت اور حکم الٰہی کے بغیر تعمیرہوئے تھے اس لیے جل کرخاک وراکھ ہوگئے۔ لیکن کم ازکم اس سے یہ تو ثابت ہواکہ اس پیشگوئی کے مطابق میناربنائے جانے کی ضرورت اور اہمیت امت مسلمہ میں مسلّم رہی ہے۔ بہرکیف یہ اعتراض چونکہ اسی وقت ہواتھالہٰذا اسی اشتہارمیں جوابھی اوپردرج کیاگیاہے حضورؑ نے اس کاکافی ووافی جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’ اس ملک کے بعض نادان مولویوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ منارہ پر روپیہ خرچہ کرنا اسراف ہے اور پھر اس پر گھنٹہ رکھنا اور بھی اسراف۔لیکن ہمیں تعجب ہے کہ ایسی گستاخی کی باتیں زبان پر لانے والے پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبرخداﷺ کی پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اسی غرض کے لئے پہلے دو دفعہ منارہ دمشق کی شرقی طرف بنایا گیا تھا جو جل گیا۔ یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تا ایک پیشگوئی پوری ہو جائے اور نمازیوں کی تائید اور وقت شناسی کے لئے منارہ پر گھنٹہ رکھنا ثواب کی بات ہے نہ گناہ۔اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں چاہتے کہ آنحضرت ﷺ کی کوئی پیشگوئی پوری ہو۔ اگر قادیاں کے منارہ پر راضی نہیں تو چاہیئے کہ دمشق میں جا کر منارہ بناویں۔ سنن ابن ماجہ کے صفحہ 306 پر جو حافظ ابن کثیر کا حاشیہ منارة المسیح کے بارے میں ہے اس کو غور سے پڑھیں اور جہالتوں ضلالتوں سے توبہ کریں۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 423حاشیہ)

حضرت اقدس علیہ السلام نے مندرجہ بالا اقتباس میں سنن ابن ماجہ کے جس حاشیہ کاذکرفرمایاہے وہ یہ ہے :

سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ بن مریم ویاجوج ماجوج کے تحت ایک طویل حدیث میں ہے:

فَبَيْنَاهُمْ كَذٰلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسٰى ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ مَنَارَةِ الْبَيْضَاء، شَرْقِيَّ دِمَشْقَ، بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِع كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ

اس کے حاشیہ میں لکھاہواہے :

’’ قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ كَثِيرٍ هَذَا هُوَ الْأَشْهَرُ فِي مَوْضِعِ نُزُولِهِ وَقَدْ جددت مَنَارَةٌ فِي زَمَانِنَا فِي سَنَةِ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ وَسَبْعِمِائَةٍ مِنْ حِجَارَةٍ بِيضٍ، وَلَعَلَّ هَذَا يَكُونُ مِنْ دَلائل النُّبُوَّةِ الظَّاهِرَةِ قلت: هُوَ مِنَ دَّلَائِلِ النبوۃ بِلَا شک فانہ صلعم۔ أُوحِيَ إِلَيْهِ بِجَمِيعِ مَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ مما لَمْ يَكُنْ فِي زَمَانه وَقَدْ رَوَيْتُ مَرَّةً ھذا الْحَدِيثَ الصَّحِيحَ وَهُوَ قَوْلُهُ: صلعم «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَبْعَثُ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ أَمْرَ دِينِهَا» فَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ مَنْ لَا عِلْمَ عِنْدَهُ أَنَّهُ اسْتَنْكَرَ ذَلِكَ، وَقَالَ مَا كَانَ التَّارِيخُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ – (ﷺ )- حَتَّى علم جمیع ما یحدث بعدہ ولم یعلم انہ صلعم علق أُمُورًا كَثِيرَةً عَلَى مَا عَلِمَ أَنَّهُ يَحْدُثُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَوْجُودًا فِي زمنہ …… – ثم قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ كَثِيرٍ وَقَدْ وَرَدَ فِي بَعْضِ الْأَحَادِيثِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ يَنْزِلُ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَفِي رِوَايَةٍ بالاردن و فی روایۃ بِمُعَسْكَرِ الْمُسْلِمِينَ فاللَّهُ أَعْلَمُ قلت: حَدِيثُ نُزُولِہ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ عِنْدَ الْمُصَنِّفِؒ وَهُوَ عندی أَرْجَحُ وَلَا يُنَافِي سَائِرُ الرِّوَايَاتِ؛ لِأَنَّ بَيْتَ الْمَقْدِسِ هُوَ شَرْقِيّ دِمَشْقَ وَهُوَ مُعَسْكَرُ الْمُسْلِمِينَ إِذْ ذَاكَ وَالْأُرْدُنُّ اسْمُ الْكُورَةِ كَمَا فِي الصِّحَاحِ وَبَيْتُ الْمَقْدِسِ دَاخِلٌ فِيهِ فَاتَّفَقَتِ الرِّوَايَاتُ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ الْآنَ مَنَارَةٌ بَيْضَاءُ فَلَا بُدَّ أَنْ تَحْدُثَ قَبْلَ نُزُولِهِ.‘‘

(سنن ابن ماجہ صفحہ297شائع کردہ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)

الغرض نقشہ وغیرہ تیارہوا،جوکہ سیدعبدالرشیدصاحبؓ نے تیارکیااوراینٹوں کے لئے زمین حضرت میاں امام الدین صاحب عرف ماٹا چنے فروش نے دی۔(الحکم 14/21 جنوری 1940ء جلد 43 نمبر 1و2صفحہ14 کالم 1) 1901ء کے آخرتک اینٹیں وغیرہ بھی مناسب مقدارمیں تیار ہو چکی تھیں لیکن ملک میں طاعون وغیرہ کی شدت کی وجہ سے یہ کام معطل رہا۔(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ 117)

اور 1903ء کی فروری کاکوئی دن ہوگا کہ حضرت میرناصرنواب صاحب ؓ کی نگرانی میں اس کی بنیادوں کے لیے کھدائی کاکام شروع ہوا۔ جیساکہ اخبارالبدرکی اس خبرسے معلوم ہوتاہے :

’’الحمد للہ کہ مینارۃ المسیح الموعود کی تعمیر کی طیاری شروع ہو گئی ہے میر ناصر نواب صاحب کی زیر نگرانی اس کی عمارت کا انتظام ہو رہا ہے۔مسجد اقصیٰ میں کنویں کے مشرقی جانب جو میدان تھا وہاں اس کی بنیاد کھودی جارہی ہے۔‘‘

(البدر 20؍فروری 1903ء جلد 2نمبر 5صفحہ 38کالم3)

اور13مارچ 1903ء جمعہ کے مبارک دن اس کاسنگ بنیادرکھاگیا۔الحکم میں اس مبارک واقعہ کی خبراس طرح دی گئی :

اخبارمیں منارۃ المسیح کے سکیچ(Sketch) کے ساتھ ایک شعر لکھاگیا:

نظرآئے گی دنیا کو ترے اسلام کی رفعت


مسیحا کا بنے گا جب یہاں مینار یااللہ

اورخبرکاعنوان تھا:

منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ رکھی گئی

’’اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آخرمنارۃ المسیح کابنیادی پتھر13ذی الحجہ 1320ھ مطابق 13مارچ 1903ء بروز جمعہ رکھاگیا۔ بعدنمازجمعہ حضرت حجۃ اللہ المسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضورہمارے مکرم دوست حکیم فضل الٰہی صاحب لاہوری۔ مرزاخدابخش صاحب۔ شیخ مولابخش صاحب۔ قاضی ضیاء الدین صاحب وغیرہ احباب نے عرض کی کہ حضورمنارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ حضورکے دست مبارک سے رکھی جاوے تو بہت ہی مناسب ہے۔فرمایاکہ ہمیں تو ابھی تک معلوم بھی نہیں کہ آج اس کی بنیادرکھی جاوے گی۔اب آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پردعاکروں گا۔اور پھر جہاں میں کہوں وہاں آپ جاکررکھ دیں۔چنانچہ حکیم فضل الٰہی صاحب اینٹ لے آئے اعلیٰ حضرت نے اس کوران مبارک پررکھ لیا۔اور بڑی دیرتک آپ نے لمبی دعا کی۔معلوم نہیں کہ آپ نے کیسی کیسی اورکس کس جوش سے دعائیں اسلام کی عظمت و جلال کے اظہاراوراس کی روشنی کے کل اقطاع واقطار عالم میں پھیل جانے کی کی ہوں گی۔وہ وقت قبولیت کاوقت معلوم ہوتاتھا۔جمعہ کامبارک دن اور حضرت مسیح موعود منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ رکھنے سے پہلے اس کے لئے دلی جوش کے ساتھ دعائیں مانگ رہے ہیں۔یعنی دعاکے بعد آپ نے اس اینٹ پردم کیااورحکیم فضل الٰہی صاحب کودی کہ آپ اس کومنارۃ المسیح کے مغربی حصہ میں رکھ دیں۔حکیم صاحب موصوف اور دوسرے احباب اس مبارک اینٹ کولے کرجب مسجدکوچلےتوراستہ میںمولانامولوی عبدالکریم صاحب نمازجمعہ پڑھاکرواپس آرہے تھے۔مولوی صاحب کامعمول ہے کہ نمازجمعہ سے فارغ ہوکردیرتک مسجداقصیٰ میں بیٹھا کرتے ہیں کیونکہ بیرونجات کے احباب آپ کے گردجمع ہوجاتے اور ہفتہ کے حالات سناکرتے ہیں۔یابعض مسائل دریافت کرتے ہیں۔آج بھی اس معمول کے موافق آپ دیرسےآرہے تھے۔راستہ میں جب یہ حال آپ کومعلوم ہواتورقت سے آپ کادل بھرآیااوراس اینٹ کولے کراپنے سینہ سے لگایااوربڑی دیرتک انہوں نے دعاکی اور کہاکہ یہ آرزوہے کہ یہ فعل ملائکہ میں شہادت کے طورپررہے۔آخروہ اینٹ فضل الدین صاحب معماراحمدی کے ہاتھ سے منارۃ المسیح کی بنیادکے مغربی حصہ میں لگائی گئی……غرض اس عظیم الشان مینارکی بنیاد خداکے برگزیدہ ماموراورمسیح ومہدی علیہ السلام کے ہاتھ سے 13 مارچ 1903ء کورکھ دی گئی۔فی الحقیقت وہ لوگ بڑے ہی خوش قسمت اورمبارک ہوں گے جن کاروپیہ اس مبارک کام میں خرچ ہوگا۔‘‘

(الحکم 17مارچ 1903ء نمبر10جلد7صفحہ5،4کالم3،1)

………………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button