حضرت مصلح موعود ؓقرآن کریم

فضائل القرآن (3) (قسط چہارم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(قسط سوم کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل شمارہ 16؍جولائی 2021ء)

یہ دونوں تعلیمیں بظاہر بڑی خوبصورت نظر آتی ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دو۔ گو یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر ہر ایک کے پاس جو کچھ ہو وہ دے دے گا تو پھر لے گا کون۔ یہ تو ویسی ہی بات ہوگی جیسے ملانوں نے ایک رسم ِاسقاط بنائی ہوئی ہے۔ چند آدمی حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان میں سے ایک شخص ہاتھ میں قرآن لے کر دوسرے کو دیتا ہوا کہتا ہے۔ یہ میں نے تجھے بخشا اور وہ لے کر اگلے کو یہی الفاظ کہتا ہے۔ اس طرح پھرتا پھراتا وہ قرآن پھر پہلے ہی کے پاس آ جاتا ہے۔ پس انجیل کی اس تعلیم کی اگر تفصیل میں جائیں اور یہ فرض کر لیں کہ ساری دنیا اس پر عمل کرنے لگ جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ زید کا مال زید ہی کے پاس لوٹ کر آ جائے گا۔ پس یہ تعلیم عمل کے قابل ہی نہیں ہے۔ عمل کے قابل تعلیم وہی ہو سکتی ہے جس پر ہر حالت میں عمل کیا جا سکے۔

اسی طرح یہ جو حکم ہے کہ

’’جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے‘‘۔

(متی باب 6 آیت 3 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہورمطبوعہ 1922ء)

یہ حکم بھی بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر عملی طور پر اس سے بھی فائدہ کی بجائے نقصان کا زیادہ احتمال ہے۔ مثلاً ایک باپ اور بیٹا کہیں جا رہے ہیں۔ انہیں ایک ایسا محتاج مل گیا جو بھوک کے مارے بیتاب ہو رہا ہے۔ اسے دیکھ کر باپ اسے کچھ دینا چاہتا ہے لیکن بیٹے کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دے نہیں سکتا۔ کیونکہ انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ جو تیرا داہنا ہاتھ خیرات کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے۔ اب وہ کیا کرے۔ وہ بیٹے کو علیحدہ کرنے کیلئے ادھر ادھر بھیجتا ہے تا کہ اس کی عدم موجودگی میں محتاج کو کچھ دے سکے مگر بیٹا سمجھتا ہے یہ اپنا بخل چھپانے کیلئے مجھے علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ اس سے الگ نہیں ہوتا اور محتاج انسان بغیر امداد کے رہ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کا ایک یہ بھی نتیجہ ہوگا کہ نیکی مفقود ہو جائے گی۔ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر نقل کرتے ہیں اور خاص طور پر بیٹا اپنے باپ سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ایسی حالت میں کئی بیٹے ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارا باپ بڑا سنگ دل اور بے رحم ہے۔ اور بہت سے بیٹے باپ کی اس حرکت کو دیکھ کر خود بخیل ہو جائیں گے۔ کئی ایسے ہونگے جو کہیں گے کہ ہمارے باپ نے اچھا کیا ہم بھی کسی کو کچھ نہیں دیں گے۔ خواہ کوئی ہمارے سامنے بھوکا مر جائے۔ غرض یہ ایسی تعلیم ہے کہ اگر اس کی تشریح کی جائے تو دنیا کیلئے سخت خطرناک اور نقصان رساں ثابت ہو سکتی ہے۔

صدقہ کے متعلق تورات کی تعلیم

اب تورات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تورات نے یہ تو نہیں کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سارے کا سارا دے دو بلکہ صدقہ کے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ مصیبت زدہ کو دیکھ کر اس کی تکلیف کو دور کرنا چاہئے۔ گویا تورات صدقہ کی علت غائی یہ بتاتی ہے کہ مصیبت زدوں کی امداد کی جائے۔ پھر تورات صدقہ کی دو قسمیں قرار دیتی ہے ایک واجبی اور دوسرا نفلی۔ یہ انجیل سے یقیناً اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور دونوں قسم کے صدقے ضروری ہیں۔ بیشک رحم کے ماتحت صدقہ دینا بھی ضروری ہے لیکن اگر رحم کے ماتحت ہی صدقہ دیا جائے تو اس کا بُرا نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبر اور نخوت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب انسان یہ سمجھے کہ میں بڑا اور فلاں چھوٹا ہے اور میں چھوٹے کی امداد کرتا ہوں تو اس طرح کبر پیدا ہوتا ہے کیونکہ انسان خیال کرتا ہے کہ فلاں میرا محتاج ہے۔ حالانکہ دنیا کا ہر انسان دوسرے کا محتاج ہے۔ دنیوی لحاظ سے سب سے بڑی ہستی بادشاہ کی سمجھی جاتی ہے۔ لیکن بادشاہ بھی ماتحتوں کے ذریعہ ہی بادشاہ بنتے ہیں اور وہ ماتحتوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اور یہ خیال کہ میں بڑا ہوں اور مجھے کسی کی احتیاج نہیں دوسرے لوگ میرے محتاج ہیں اس کی روحانی زندگی کو کچل دینے اور اللہ تعالیٰ سے دور کر دینے والا خیال ہے۔ اس کی بجائے ہمارے اندر یہ خیال پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے اگر کسی کی مدد کی تو اس کی مدد نہیں کی بلکہ اپنی مدد کی ہے۔ اور یہ خیال اسی طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ جسے کچھ دیا جائے اس کے متعلق سمجھا جائے کہ یہ اس کا حق تھا۔ یا جو کچھ دیا گیا ہے اپنے فائدہ کیلئے دیا گیا ہے۔ دیکھو ماں اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے تو اس پر رحم کر کے نہیں پلاتی بلکہ فطرتی جذبہ کے ماتحت پلاتی ہے۔ ہاں اگر کسی دوسرے بچہ کو پلاتی ہے تو رحم سے پلاتی ہے۔ کئی ایسی مائیں ہونگی جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ تم نے اپنے بچہ کو چھ ماہ تک دودھ پلا لیا۔ یہ اس پر کافی رحم ہو گیا اب دودھ پلانا چھوڑ دو تو وہ لڑنے لگ جائیں گی۔ کیونکہ ماں بچہ کو فطری محبت سے دودھ پلاتی ہے، رحم کے طور پر نہیں پلاتی۔

صدقہ کے متعلق ویدوں کی تعلیم

اب ہم ویدوں کو لیتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے وید نہیں پڑھے وہ تو سمجھتے ہونگے کہ اتنی بڑی بڑی ضخیم جلدیں ہیں نہ معلوم ان میں کیا کیا احکام ہونگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں احکام بہت کم ہیں۔ تا ہم صدقہ و خیرات کی تعلیم کا ضرور ذکر ہے۔ وید کہتے ہیں۔ جب برہمن کوئی گائے مانگے تو اسے دے دینی چاہئے۔ جو نہ دے وہ گنہگار ہو گا اور جو دینے سے روکے وہ بھی گنہگار ہوگا۔ گویا (1)ایک طرف تو مانگنا سکھایا (2)اور پھر ایک خاص قوم کو صدقہ دلایا۔ (3)اور پھر کسی میں طاقت ہو یا نہ ہو اسے برہمن کو گائے دینے پر مجبور کیا خواہ اس کے بال بچے بھوکے مر جائیں۔ یہ وید میں صدقہ کی تعلیم ہے۔ چونکہ ہندوئوں میں برہمنوں کا زور تھا اس لئے سارا صدقہ یہی قرار دیا کہ برہمن کو دیا جائے۔ چاہے کوئی کتنا غریب آدمی ہو اس کی بیوی کا دودھ سوکھ گیا ہو اور اس کے بچے کی پرورش اسی گائے کے دودھ پر ہو رہی ہو جو اس کے گھر میں ہو پھر بھی اسے حکم ہے کہ جب برہمن گائے مانگے تو فوراً دے دے۔ اگر نہ دے گا تو سخت گنہگار ہوگا اور اس کا سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔

(The Hymns of the Atharra-Veda, Vol,II P.120 Book XIIHymn IV Benares, Published 1917)

ان ساری تعلیموں کو دیکھو۔ ان میں صدقہ جیسی عام اور موٹی تعلیم میں بھی مکمل طور پر راہنمائی نہیں کی گئی۔ اور جو لوگ کسی مذہب پر نہیں چلتے ان کے لئے ان کی اپنی مرضی راہنما ہوتی ہے۔ کسی کو جی چاہا تو دے دیا نہ چاہا تو نہ دیا۔ گویا انسان کے اپنے تجربہ سے صدقہ و خیرات کے متعلق تو کوئی قانون نہیں بنایا۔ بعض مذہبوں نے قانون بنایا مگر ناقص بنایا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح علیہ السلام یا ہندوستان کے رشیوں نے ایسی نامکمل اور ناقص تعلیم دی تھی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ان مذاہب کی موجودہ تعلیم ناقص ہے۔ اگر ان مذاہب کے بانیوں نے یہی تعلیم دی تو یہ ناقص ہے۔ اور اگر ان مذاہب کے پیروئوں نے بنائی تو ان کی مذہبی اور الہامی کتابیں ناقص ہیں۔

اخلاقی معلمین کا قول کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے

صدقہ و خیرات کے متعلق جن لوگوں نے خود تعلیم بنائی ہے اور جو اخلاقی معلمین کہلاتے ہیں انہوں نے یہ اصل بتایا ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر کرنا چاہئے۔ سوائے اس کے اَور کوئی بات صدقہ کے متعلق انہیں نہیں ملی۔ ہم ان کی اس بات کو پیش نظر رکھیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ اسلام نے اس سے بہتر تعلیم دی ہے یا نہیں۔ فی الحال ہم اس کے متعلق اتنا مان لیتے ہیں کہ یہ اچھی بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم ہر جگہ چل سکتی ہے اور ہر انسان اس پر عمل کر سکتا ہے۔ اب اگر یہ کہیں کہ صدقہ تبھی دو جب صدقے کی خاطر دے سکو تو جو لوگ اس طرح نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے۔ اور اس وجہ سے غریب صدقہ نہ ملنے پر بھوکے مریں گے۔ کیونکہ جو اس طرح صدقہ نہیں دے سکتے وہ نہیں دیں گے وہ کہیں گے جب ہم صدقہ صدقہ کی خاطر نہیں دے سکتے تو پھر اپنا مال کیوں ضائع کریں۔ اور جب وہ اس وجہ سے نہیں دیں گے تو غریب لوگ نقصان اٹھائیں گے۔

صدقہ کے مختلف پہلوئوں پر اسلام کی روشنی

اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح صدقہ و خیرات کو ایک علمی مضمون بنا دیا ہے۔

صدقہ کی مقدار

پہلی چیز صدقہ کی مقدار ہے کہ کس قدر دینا چاہئے۔ انجیل نے اس کے متعلق کہا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کا سب دے دو۔ وید کہتا ہے برہمن جو کچھ مانگے وہ اسے بلا چون و چرا دے دو۔ مگر اسلام نے اس کی حد مقرر کر دی ہے۔ اسلام کہتا ہے۔

وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا۔ اِنَّ رَبَّکَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا۔(بنی اسرائیل: 31،30)

یعنی اے انسان ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ نہ تو اپنے ہاتھ کو تو بالکل باندھ کر رکھ کہ کچھ دے ہی نہیں۔ (مغلولہ ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ کر گلے سے لگا لینے کو کہتے ہیں) اور نہ مٹھی کو اس طرح کھول کر رکھ دے کہ جس کی مرضی ہو لے جائے۔ گویا نہ تو ایسا ہو جیسا کہ انجیل میں کہا گیا ہے کہ سب کچھ دے دو اور نہ اس پر عمل ہو جو یورپ کے فلاسفروں کی تعلیم ہے کہ صدقہ دینے سے لوگوں میں سستی پیدا ہوتی ہے اس لئے صدقہ دینا ہی نہیں چاہئے۔ گویا پادری تو کہتا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ سب کچھ دے دو گو آپ کچھ بھی نہیں دیتا۔ اور فلاسفر کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں دینا چاہئے۔ بہرحال یہ دونوں قسم کی تعلیمیں موجود ہیں۔ قرآن ان دونوں کو دیکھتا ہے اور پھر کہتاہے

لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ

نہ تو ہاتھ کو سمیٹ کر گلے سے باندھ رکھو۔ یہ کہتے ہوئے کہ صدقہ دینے سے لوگوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں۔ ان میں سستی پیدا ہوتی ہے، وہ محنت و مشقت کرنے سے جی چراتے ہیں اور نہ سب کچھ دیدو۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کے دو نتائج ہوں گے۔

فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا۔

قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ جو بات کہتا ہے ساتھ اس کے دلیل بھی دیتا ہے۔ فرمایا۔ اگر تو صدقہ نہ دے گا اور کہے گا کہ فلاسفر کہتے ہیں صدقہ نہیں دینا چاہئے یہ لوگوں کے لئے نقصان رساں ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا

فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا

تیرا دل اور تیرے بڑے چھوٹے سب تجھے ملامت کریں گے اور کہیں گے کہ تو نے بُرا کیا۔ بھوکے کو کچھ نہ دیا محتاج کی مدد نہ کی۔ حاجتمند کی امداد نہ کی۔

٭…٭جاری ہے ٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button