متفرق شعراء

عشق کیا

(مبارک صدیقی)

بعد میں تسبیح کے دانوں سے عشق کیا

پہلے ‌مَیں نے اِنسانوں سے عشق کیا

روشنیوں پر پابندی تھی سو مَیں نے

دیپ جلا کر طوفانوں سے عشق کیا

مُرشد تجھ سے عشق مِرا کچھ ایسا ہے

مَیں نے تیرے دیوانوں سے عشق کیا

تیرے نام پہ جب جب پہنیں ہتھکڑیاں

وہ چُومیں اور زِندانوں سے عشق کیا

مجھ پر فردِ جرم میں یہ بھی شامل ہے

مَیں نے دل سے آذانوں سے عشق کیا

تیرے حُسن پہ وارِیں میں نے سَو غزلیں

تیری آنکھ کے مَے خانوں سے عشق کیا

عاشِق میرے پیر کی مٹی ڈھونڈتے ہیں

میں نے یار سے سَو جانوں سے عشق کیا

ہم وہ لوگ جو افسانوں میں ملتے ہیں

مست رہے اور مستانوں سے عشق کیا

میرا اُس پر جان چھڑکنا بنتا ہے

اُس نے مجھ سے ویرانوں سے عشق کیا

روزِ محشر وہ بولا جا بخشش ہے

تُو نے سارے انسانوں سے عشق کیا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button