متفرق مضامین

ربوہ

ربوہ کی ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر جان بےقرار ہے۔ …ہر دل سوگوار ہے کیونکہ ’دید ‘ کی پیاس کو بجھانے والا کوئی نہیں۔ …ربوہ منتظر ہے…

دے ہم کو یہ توفیق کہ ہم جان لڑا کر

اسلام کے سر پر سے کریں دور بلائیں

ربوہؔ کو ترا مرکز توحید بنا کر

اِک نعرۂ تکبیر فلک بوس لگائیں

ربوہؔ رہے کعبہؔ کی بڑائی کا دعا گو

کعبہؔ کی پہنچتی رہیں ربوہؔ کو دعائیں

ربوہ…ہاں وہی خطۂ زمین جس کو ماہرین قابل رہائش نہ سمجھتے تھے…وہی بیابان جہاں پانی نکلنا دنیاوی نقطۂ نظر و اسباب سے نا ممکن تھا…جہاں کبھی ویرانی چلاتی تھی…جسے ظاہری طور پر نہایت ارزاں سمجھا گیا…اسی ارزاں و معمولی سی بستی نے جو طرح طرح کے کیڑوں مکوڑوں، زہریلے سانپوں اور جانوروں کا مسکن تھی، ایک روز ایک ایسے فرستادہ کا استقبال کیا جو اپنے بلند پایہ استقلال و جواں مردی سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اسے فرش سے اٹھا کر عرش تک لے گیا، اسے پروان چڑھایا، اور اس کے باسیوں نے خدا کے نام پر اپنا سب کچھ وار کر اس ویرانے کو آباد کر دیا۔

ربوہ کے قیام کا دور ہر طرح سے تنگی و مسائل کا تھا۔ درد کے ماروں نے سڑکوں پر راتیں بسر کیں کہ خلافت کا عظیم الشان اور شفیق سایہ ان کے دردوں کو بھلانےوالا اور ان کے زخموں کا مرہم تھا۔ حضرت مصلح مو عود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوراندیش نگاہوں اور مضبوط عزم و ہمت نے لوگوں کے اندر ولولے اور قربانی کے و ہ بیج بوئے کہ انہوں نے بے نفس ہو کر عشق اور ایمان کے کامل نمونے پیش کیے۔

زندگی ورق در ورق آگے بڑھتی گئی اور نہ جانےکتنی خزائیں گزرنے کے بعد یہ بہاریں کھلیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بستی کو جنت نظیر بنائے ہوئے ہیں۔ اس کی فضاؤں نے تین خلفائے احمدیت کی محبتوں، فلک شگاف دعا ؤں اور روح پرور خطابات سے حصہ پایا۔

بعد ازاں 1984ء کا سال ایک ایسی گھڑی لےکر آیا جس نے اس بستی کے شب و روز کو یکسر بدل دیا۔ اس کے معمولات، اس کے حالات تبدیل ہو گئے اور خلافت احمدیہ کو ایک مرتبہ پھر ہجرت کرنا پڑی۔ اور ہجر کی اس طویل رات کو گزرتے ہوئے آج 37برس بیت گئے لیکن ان 37برسوں میں سے میری عمر فقط 19سال ہے۔

بے شک ربوہ آج بھی اپنی فضا میں وہ بھینی بھینی سی خوشبو رکھتا ہے جس میں خدا اور اس کے رسولﷺ کا نام ہے۔ آج ربوہ میں موجود ہر طرح کی سہولت، خوبصورت دفاتر، تعلیمی ادارہ جات، ہسپتال اور دیگر عمارات ہمارے لیے نہایت ایمان افروز ثابت ہوتی ہیں اور ربوہ سے دوری ہم پر گراں ہے لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اہالیان ربوہ اس وقت دو مختلف کیفیات کے امتزاج کا شکار ہیں جس میں غم اور خوشی دونوں شامل ہیں۔ میں یقیناً ان لوگوں کے جذبات و احساسات کی عکاسی نہیں کر سکتی جنہوں نےاس قریۂ جاوداں کے بیتے ہوئے دنوں کو اپنی یادوں اور دلوں میں زندہ رکھا، خلیفہ وقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ایک لمبی، طویل اور صبر آزما جدائی جھیل رہےہیں۔

میرا تعلق اس طبقہ عمر سے ہے جس نے دنیا میں آنکھ کھولی تو ربوہ بلکہ پاکستا ن کی قسمت میں خلافت سے جدائی کے کٹھن ایام کا آغاز ہو چکا تھا۔ میں نے ربوہ میں ہونے والے جلسوں، اجتماعوں اور بےشمار سرگرمیوں کے احوال سنے اورپڑھے اور مجھے بیتے لمحوں کی وہ چاپ سنائی دی جس نے ایک طرف ایمان کو تازہ کیا تو دوسری طرف روح تڑپنے لگی، محبت جوش مارنے لگی، میری آنکھوں نے آنسو بہائے لیکن…

دشمن کو ظلم کی برچھی سےتم سینہ و دل برمانے دو

یہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو

میری یادداشت ماضی کے ان لمحوں تک جاتی ہے، 5-6سال کی عمر میں عید کی نماز مسجد اقصیٰ میں پڑھی اور بعد ازاں حالات کے پیش نظرجمعہ اور عید کی نماز حلقہ کی مساجد تک محدود ہو گئی اور اس کے کچھ عرصے کے بعد مزید سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے عورتوں کےلیے جمعہ اور عید کی نماز کی اجتماعی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ جلسہ سیرت النبیﷺ، یوم مصلح موعود رضی اللہ وغیرہ کا انعقاد مسجدوں میں ہوتا رہا اور بعد ازاں یہ بھی معین تعداد کو جمع کر کے چند مخصوص گھروں میں سیکیورٹی کے ساتھ ہونے لگا۔ کئی مرتبہ اجلاسات پر مکمل پابندی عائد ہو جاتی اور پھر خدا کے فضل سے اپنی روح کے زنگ اتارنے کا موقع ملتا۔ جلسہ سالانہ کا ذکر کیا جائے تو اس کی خوشگوار یادیں اپنے بزرگوں سے سنیں، کتابوں میں پڑھیں اور حسرتوں اور تمناؤں کو دعاؤں کی شکل دیتے رہے۔ کیونکہ میرا شمار ان لوگوں میں ہے جنہوں نے الحمدللہ ثم الحمدللہ ایم ٹی اے کی نعمت کے ذریعے تو خلیفہ وقت کو ہر روز دیکھا ہے اور مختلف پروگراموں سے براہ راست فائدہ اٹھایا ہے لیکن آہ کہ خلیفہ وقت کا دیدار، اس سے ملاقات اور جلسوں اور اجتماعوں کی رونق افروز مجالس سے حظ اٹھانے کی تڑپ ایک کسک بن کر روح میں محبت کی آگ سلگا دیتی ہے کیونکہ خلیفہ وقت کا وجود اور خلافت کی نعمت ہمارے لیے ایک مقصد اور عشق کا درجہ رکھتی ہے جو جنون بن کر ہماری رگوں میں دوڑتی ہے، پانی بن کر روح کو سیراب کر تی ہے لیکن اس مقصود و محبوب سے دوری کا حال بیان کرنا میرے قلم کی بساط سے باہر ہے۔

سر دست ان ظلموں اور زیادتیوں کا بیان مقصد نہیں جو پاکستان میں ہمیشہ سے جاری ہیں اور بڑھتی جارہی ہیں لیکن 1984ء کے قوانین نے روحوں میں ایک ایسا شگاف کیا اور دلوں کو اس طرح چیر ڈالا کہ وہ تڑپ کر کہہ اٹھتے ہیں

چھلک رہا ہے مرے دل کا آج پیمانہ

کسی کی یاد میں میں ہو رہا ہوں دیوانہ

زمانہ گزرا کہ دیکھیں نہیں وہ مست آنکھیں

کہ جن کو دیکھ کے میں ہو گیا تھا مستانہ

کہاں ہے وہ کہ ملو ں آنکھیں اس کے تلووں سے

کہاں ہے وہ کہ گروں اس پہ مثل پروانہ

نہ چھیڑ دشمن ناداں نہ چھیڑ کہتا ہوں

چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ

لیکن جدائی اور ہجر نے ہمیشہ محبتوں اور ایسی بے لوث محبتوں اور وفاؤں کے عہد کو ہمیشہ مضبوط کیا ہے اور ہم

نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ

کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ہر ظلم، ہر جبر اور ہر نا انصافی پر اپنا اور خلافت احمدیہ کا سر اونچا رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ اور وہ پیارا وجود جس کے ساتھ ہماری تمام تر امیدیں ہیں، تمام تر ترقیات وابستہ ہیں، ہاں وہ وجود جو ہم ناچیزوں کا درد رکھنے والا، ہمارے لیے دعائیں کرنے والا، ہماری تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے والا ہے، وہ باوجود دور ہونے کے ہمارے قریب ہے اور بہت قریب ہے۔ ہاں وہ ایک وجود جس کی ایک جھلک انسان کو سحر میں مبتلا کر دیتی ہے اور ہم یہی کہتےہیں کہ

چھڑائے گا بھلا کیا دل سے میرے یاد اس کی

تو اور مجھ کو بناتا ہے اس کا دیوانہ

نہ تیرے ظلم سے ٹوٹے گا رشتۂ الفت

نہ حرص مجھ کو بنائے گی اس سے بیگانہ

ہے تیری سعی دلیل حماقت مطلق

ہے تیری جدوجہد ایک فعل طفلانہ

ترا خیال کدھر ہے یہ سوچ اے ناداں

رہا ہے دور کبھی شمع سے بھی پروانہ

ذکر تھا دیدار اور جلسہ سالانہ کا جو ہمارے لیے ٹی وی سکرین تک محدود ہے لیکن الحمدللہ کہ ہماری بےقرار روحوں کو سیراب کرنے کا کوئی ذریعہ تو ہے …

دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی

چنانچہ 2020ء سے پہلے تک ہر سال جلسہ سالانہ یوکے اور جرمنی کا احوال کچھ ایسا تھا…گو کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اکثریت جلسے کے تمام پروگرام سے باخبر ہوتی تھی لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر ذیلی تنظیموں کے تحت گھروں میں اطلاع دی جاتی اور جلسہ کی کارروائی دیکھنے کی تاکید کی جاتی اور کیوں نہ کی جاتی کہ یہی تو ہمارا سرمایہ ہے۔ ہم جلسے کے شروع ہونے کا انتظار بھی اسی طرح کرتے جس طرح عید کا۔ اور خودبخود جمعہ کے روز ایک پر لطف سماں بندھ جاتا۔ ہر جمعہ کے روز ہی حضور کی آمد کا انتظار ہوتا ہے لیکن جلسہ کےلیے ایک نئے ولولے اور جوش کے ساتھ ہم حضور کی راہ تکتے۔ کیمرے کی آنکھ جب حدیقۃالمہدی میں ہر سو پھیلے سبزہ، پھولوں اور چہل پہل کو دکھاتی تو یوں لگتا ہم بھی اس رونق کا حصہ ہیں۔ اگلے روز پاکستانی وقت کے مطابق 1بجے کے قریب دوسرا اجلاس شروع ہوتا اور ہم بھی نمازیں جمع کر کے جلسے کی پر معارف تقاریر سے فیضیاب ہوتے۔ حضور تشریف لاتے تو ہمارا حال بھی ان لوگوں سے مختلف نہ ہوتا جو بذات خود وہاں موجود ہوتے۔ جذبات کے ہاتھوں مجبور، ہم ایک دوسرےکو توجہ دلانے لگتے کہ ’’حضور آگئے، حضور آگئے۔‘‘

پھر جلسہ کا آخری روز آتا۔ حضور کے مقدس، پُرنور اور شمع رو چہرے کو دیکھ کر دل کے اندر ہمیشہ ہی نئی تمنائیں دوڑنے لگتیں لیکن خطاب کے بعد جب ترانوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو آنسوؤں کا سیلاب سارے بند توڑ کر بہنے لگتا اور دل ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح بے تاب ہو کر پکارتا کہ

آ آ کہ تری راہ میں ہم آنکھیں بچھائیں

آآ کہ تجھے سینے سے ہم اپنے لگائیں

تو آئے تو ہم تجھ کو سر آنکھوں پہ بٹھائیں

جاں نذر میں دیں تجھ کو تجھے دل میں بسائیں

ربوہ ہمارا مسکن ہے …لیکن ربوہ کی نگاہیں ترس رہی ہیں۔ ربوہ کی مٹی اس مبارک وجود کے قدم چومنا چاہتی ہے جو ہر دکھ کا مداوا ہے جو ہم بے کسوں کا سہارا ہے اور ہم میں ایک نئی روح پھونکنے والا ہے۔

ربوہ کی فضائیں اداس اور غمگین ہیں۔ …ربوہ سر راہ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ …ربوہ کی ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر جان بےقرار ہے۔ …ہر دل سوگوار ہے کیونکہ ’دید ‘ کی پیاس کو بجھانے والا کوئی نہیں۔ …ربوہ منتظر ہے…

کب ساقی بزم میں آئے گا، کب جام لنڈھائے جائیں گے

دو قطروں سے کب ہوتے ہیں رندوں کے گزارے ربوہ میں

پھر نغمۂ بلبل گونجے کا پھر پھول چمن میں مہکیں گے

پھر لوٹ بہاریں آئیں گی سو روپ نکھارے ربوہ میں

پھر تارے تابندہ ہونگے پھر چاند اجالا پھیلے گا

ہر سمت نظر آئیں گے وہی پھر نور کے دھارے ربوہ میں

پھر جلوے بزم سجائیں گے، پھر دید کی پیاس بجھائیں گے

پھر دیکھنے والے دیکھیں گے گلرنگ نظارے ربوہ میں

جب اذن الہٰی ہو گا پھر اک شان سے واپس آئیں گے

آغوش امامت کے پالے مہدی کے دلارےربوہ میں

اے قادر مطلق یہ تو بتا پھر لوٹ کے کب تک آئیں گے

وہ دن کہ اذانوں سے گونجا کرتے تھے منارے ربوہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button