سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

خطبہ کو حفظ کرنے کی تحریک

’’خطبہ چونکہ ایک زبردست علمی نشان تھا اس لئے اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے خدام میں تحریک فرمائی کہ اسے حفظ کیا جائے۔ چنانچہ اس کی تعمیل میں صوفی غلام محمد صاحبؓ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ ،مفتی محمد صادق صاحبؓ اورمولوی محمد علی صاحبؓ کے علاوہ بعض اور اصحاب نے اسے زبانی یاد کیا۔ بلکہ مؤخر الذکردواصحاب نے مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی اسے زبانی سنایا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ جو انتہا درجہ ادبی ذوق رکھتے تھے وہ تو اس خطبہ کے اتنے عاشق تھے کہ اکثراسے سناتے رہتے تھے اور اس کی بعض عبارتوں پر تو وہ ہمیشہ وجد میں آجاتے۔ مولوی صاحب ایسے بلند پایہ عالم کو خطبہ الہامیہ کے اعجازی کلام پر وجد آنا ایک طبعی بات قراردی جاسکتی ہے مگر خدا کی طرف سے ایک تعجب انگیز امر یہ پید ا ہوا کہ تقریر سننے والے بچے بھی اس کی جذب و کشش سے خالی نہیں تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ وہ دن جس میں یہ تقریر کی گئی ابھی ڈوبا نہیں تھاکہ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمر بارہ سال سے بھی کم تھی اس کے فقرے قادیان کے گلی کوچوں میں دہراتے پھرتے تھے جو ایک غیر معمولی بات تھی۔

خطبہ الہامیہ کی اشاعت

یہ خطبہ اگست 1901ء میں شائع ہوا۔ حضو رنے نہایت اہتمام سے اسے کاتب سے لکھوایا ۔ فارسی اور اردو میں ترجمہ بھی خود کیااور اعراب بھی خود لگائے ۔ اصل خطبہ کتاب کے اڑتیسویں صفحہ پر ختم ہوجاتا ہے جو کتاب کے باب اول کے تحت درج ہے۔ اگلا حصہ آخرتک عام تصنیف ہے جس کا اضافہ حضور نے بعد میں فرمایا اور پوری کتاب کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا۔ یہ کتاب شائع ہوئی تو بڑے بڑے عربی دان اس کی بے نظیر زبان اور عظیم الشان حقائق و معارف پڑھ کر دنگ رہ گئے حق تویہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعد نہیں ملتی۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ 85تا 86)

خطبہ الہامیہ کی بابت دومبشرخوابیں

’’اسی خطبہ الہامیہ کے متعلق دو خوابیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلمِ مبارک سے لکھی ہوئی ملی ہیں۔ 19؍اپریل 1900ء کی تاریخ دے کرحضورؑ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی مندرجہ ذیل خواب لکھی ہے کہ میاں عبد اللہ سنوری کہتے ہیں کہ منشی غلام قادر مرحوم سنور والے یہاں آئے ہیں۔ ان سے انہوں نے پوچھا ہے کہ اس جلسہ کی بابت اس طرف کی خبر دو کیا کہتے ہیں۔ تو اس نے جواب دیا کہ اوپر بڑی دھوم مچ رہی ہے۔

یہ خواب بعینہٖ سید امیر علی شاہ صاحب کے خواب سے مشابہ ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ جس وقت عربی خطبہ بروز عید پڑھا جاتاتھا۔ اس وقت جناب رسول اللہﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام جلسہ میں موجود ہیں اور اس خطبہ کو سن رہے ہیں۔ یہ خواب عین خطبہ پڑھنے کے وقت ہوئی بطور کشف اس جگہ بیٹھے ہوئے ان کو معلوم ہو گیا تھا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ290حاشیہ ایڈیشن چہارم )

خطبہ الہامیہ کی بابت بعض روایات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان فرماتے ہیں:

’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے عید الاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تو میں قادیان میں ہی تھا ۔حضرت صاحب مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں کے راستہ سے نیچے اُترے آگے میں انتظا ر میں موجود تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ بہت بشاش تھے اور چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا پھر آپ بڑی مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں نماز کے بعد خطبہ شروع فرمایا۔ اور حضرت مولو ی نورالدین صاحبؓ اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو خطبہ لکھنے پر مقرر کر دیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب اس خیال سے کہ لکھنے والے پیچھے نہ رہ جائیں بہت تیز تیز نہیں بولتے تھے بلکہ بعض اوقات لکھنے والوں کی سہولت کے لئے ذرا رُک جاتے تھے اور اپنا فقرہ دہرا دیتے تھے ۔اور میاں عبداللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت آپ نے لکھنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ جلدی لکھو ۔یہ وقت پھر نہیں رہے گا اور بعض اوقات آپ یہ بھی بتاتے تھے کہ مثلاً یہ لفظ ’’ص‘‘ سے لکھو یا’’سین‘‘ سے لکھو ۔اور بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ خطبہ کے وقت حضرت صاحب کرسی کے اوپر بیٹھے تھے اور آپ کے بائیں طرف فرش پر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل و مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے جن کو آپ نے خطبہ لکھنے کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیرتھی۔اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہوجا تا تھا ۔اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبا ن سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیوں کہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے۔ اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طر ف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا۔لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہو گیا ۔اور فرماتے تھے کہ یہ خطبہ بھی ہمارے دوستوں کو یاد کر لینا چاہئے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اُس وقت بچے تھے۔ صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یادہے ۔ حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آوازمیں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں ۔یہ خطبہ ،خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے ۔لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیس صفحے جہاں باب اوّل ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں۔جو اس وقت حضرت نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس عیدالاضحٰی میں دیا گیا تھا جو 1900 میں آئی تھی مگر شائع بعد میں 1902ء میں ہوا ۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 156)

’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات الہام اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی بندہ کی اپنی زبان پر بلند آواز سے ایک دفعہ یا بار بار جاری ہو جاتا ہے اور اس وقت زبان پر بندے کا تصرف نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کا تصرف ہوتا ہے اور کبھی الہام اس طرح ہوتا ہے کہ لکھا ہوا فقرہ یا عبارت دکھائی دیتی ہے اور کبھی کلام لفظی طور پر باہر سے آتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ کلام الٰہی تین موٹی قسموں میں منقسم ہے۔ اوّل وحی ۔یعنی خدا کا براہِ راست کلام خواہ وہ جلی ہو یا خفی۔ دوسرے مِنْ وَّرَاءِ حِجَاب والی تصویری زبان کا الہام مثلاً خواب یا کشف وغیرہ۔ تیسرے فرشتہ کے ذریعہ کلام۔ یعنی خدا فرشتہ سے کہے اور فرشتہ آگے پہنچائے اور پھر یہ تینوں قِسمیں آگے بہت سی ماتحت اقسام میں منقسم ہیں۔ میر صاحب والی روایت میں آخری قسم ،وحی میں داخل ہے اور شاید پہلی قسم بھی ایک رنگ وحی کا رکھتی ہے مگر درمیانی قسم مِنْ وَّرَآءِ حِجَاب سے تعلق رکھتی ہے۔ واللّٰہ اعلم ۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 595)

’’حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ 1900ء میں یا اس کے قریب عیدالاضحی سے ایک دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓکو لکھا کہ جتنے دوست یہاں موجود ہیں ان کے نام لکھ کر بھیج دو۔ تا مَیں ان کے لئے دُعا کروں۔ حضرت مولوی صاحب ؓنے سب کو ایک جگہ جہاں آج کل مدرسہ احمدیہ ہے اور اُس وقت ہائی سکول تھا جمع کیا اور ایک کاغذ پر سب کے نام لکھوائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دئیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سارا دن اپنے کمرہ میں دروازے بند کرکے دُعا فرماتے رہے۔ صبح عید کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا مجھے الہام ہوا ہے۔ کہ اس موقعہ پر عربی میں کچھ کلمات کہو۔ اس لئے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اس وقت قلم دوات لے کر موجود ہوں اور جو کچھ مَیں عربی میں کہوں لکھتے جائیں۔ آپ نے نمازِ عید کے بعد خطبہ خود پہلے اردو میں پڑھا۔ مسجد اقصےٰ کے پُرانے صحن میں دروازے سے کچھ فاصلہ پر ایک کُرسی پر تشریف رکھتے تھے۔

حضور کے اُردو خطبہ کے بعد حضرت مولوی صاحبان حسبِ ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے بائیں طرف کچھ فاصلہ پر کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ گئے۔ اور حضور نے عربی میں خطبہ پڑھنا شروع فرمایا۔ اس عربی خطبہ کے وقت آپ کی حالت اور آواز بہت دھیمی اور باریک ہو جاتی تھی۔ تقریر کے وقت آپ کی آنکھیں بند ہوتی تھیں۔ تقریر کے دوران میں ایک دفعہ حضور نے حضرت مولوی صاحبان کو فرمایا۔ کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو اسی وقت پوچھ لیں ممکن ہے کہ بعد میں مَیں خود بھی نہ بتا سکوں اس وقت ایک عجیب عالم تھا۔ جس کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ خطبہ حضور کی کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتداء میں چھپا ہوا ہے۔ آپ نے نہایت اہتمام سے اس کو کاتب سے لکھوایا۔ اور فارسی اور اُردو میں ترجمہ بھی خود کیا۔ اس خطبہ پر اعراب بھی لگوائے۔ اور آپ نے فرمایا۔ کہ جیسا جیسا کلام اُترتا گیا۔ مَیں بولتا گیا۔ جب یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ تو مَیں نے بھی تقریر کو ختم کر دیا۔ آپ فرماتے تھے۔ کہ تقریر کے دَوران میں بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے نظر آجاتے تھے۔ آپ نے تحریک فرمائی کہ بعض لوگ اس خطبہ کو حفظ کر کے سُنائیں۔ چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس خطبہ کو یاد کیا۔ اور مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں اس کو پڑھ کر سُنایا۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مولوی شیر علی صاحبؓ کی یہ روایت مختصر طور پر حصہ اول طبع دوم کی روایت نمبر 156 میں بھی درج ہو چکی ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر نے بعض اصحاب سے چند عدد روایات لکھ کر ایک کاپی میں محفوظ کی ہوئی ہیں۔ یہ روایت اسی کاپی میں سے لی گئی ہے۔ آگے چل کر بھی اس کاپی کی روایات آئیں گی۔ اس لئے مَیں نے ایسی روایات میں مولوی عبدالرحمٰن صاحب کے واسطے کو ظاہر کر دیا ہے۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب خود صحابی نہیں ہیں۔ مگر انہوں نے یہ شوق ظاہر کیا ہے کہ ان کا نام بھی اس مجموعہ میں آ جائے۔ اس کاپی میں جملہ روایات اصحاب جو بوجہ نابینائی یا ناخواندگی معذور تھے ان کی روایات مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشّر نے اپنے ہاتھ سے خود لکھی ہیں۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر 623)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button