خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍اگست 2021ء

میں تمام کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، مردوں کا بھی، عورتوں کا بھی کہ ان نامساعد حالات میں اور …موسم کی شدت …کے باوجود سب نے بے نفس ہو کر کام کیا ہے اور جلسہ کی ڈیوٹیوں کا حق ادا کر دیا ہے

جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے بارے میں مختلف ممالک سے موصول ہونے والے اپنوں اور غیروں کے غیر معمولی جذبات و تأثرات نیز جلسہ کو سننے کے خوش کُن نتائج کا بیان

غیر بھی ایم ٹی اے سے متاثر ہیں اور جو دینی مائدہ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اگر روحانی لحاظ سے ترقی کرنی ہے تو یہی ایک ترقی کا راز ہے۔ احمدیوں کو بھی چاہیے کہ ایم ٹی اے کی طرف زیادہ توجہ دیں۔

امسال پہلی مرتبہ لائیو سٹریمنگ (Live streaming) کے ذریعے مختلف جماعتیں اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ کر جلسے میں شامل ہوئیں

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے افریقہ کے علاوہ جلسہ سالانہ کی نشریات بعض دیگر مقامی ٹی وی چینلز پر بھی نشر کی گئیں

افریقہ میں پچاس ملین افراد سے زائد کی زبان ہاؤسا میں پہلی دفعہ جلسہ سالانہ کی کارروائی کا براہِ راست ترجمہ کیا گیا

اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے دُوررس نتائج بھی پیدا فرمائے اور سعید روحوں کو احمدیت اور حقیقی اسلام کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ پیدا ہو اور نام نہاد علماء کے شر سے جماعت کو اور تمام سعید روحوں کو محفوظ رکھے

اسلام کو اس وقت ایک لیڈر کی ضرورت ہے اور وہ جماعت احمدیہ کے پاس ہے خلیفہ کی صورت میں اور اسی پر تمام عالم اسلام اکٹھا ہو سکتا ہے

وقفہ کے دوران سب حاضرین کو معلم صاحب نے شرائط بیعت مقامی زبان میں ترجمہ کر کے سنائیں۔ اس غیر از جماعت نے کہا کہ یہ تو اسلام کا خلاصہ ہے اور اس میں معاشرتی زندگی گزارنے کے بارے میں احسن رنگ میں راہ نمائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر عمل کرنا تو ہر ایک کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ چنانچہ جلسہ کے بعد انہوں نے بیعت کر لی

جو لوگ جماعت کو کافر کہتے ہیں اور دہشت گرد تنظیم کہتے ہیں ان کا جواب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم والی آیت ہے جو بڑے الفاظ میں سٹیج کی دیوار پر لکھی تھی۔ اب ان شاء اللہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت کے متعلق کافی غلط فہمیاں دور ہوں گی

اس سال کے منفرد انتظام کے ساتھ ہونے والے جلسہ نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ایسے دروازے کھولے ہیں جس سے پھر انسان اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتے ہوئے اس کے آگے جھکتا چلا جاتا ہے

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍اگست 2021ء بمطابق 13؍ظہور 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

الحمدللہ گذشتہ جمعہ کو جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ ایک سال کے وقفہ کے بعد یا کہنا چاہیے دو سال کے بعد شروع ہو کر تین دن تک اپنے روحانی ماحول کے نظارے دکھاتا ہوا گذشتہ اتوار کو اختتام کو پہنچا۔ 2020ء میں تو کورونا کی وبا کی وجہ سے جلسہ نہیں ہو سکا تھا اور جلسہ کی انتظامیہ بھی یہ سمجھتی تھی کہ کیونکہ حالات کم وبیش وہی ہیں اس لیے اس سال بھی جلسہ نہیں ہو گا اور اس مفروضہ کی وجہ سے تیاری کی طرف بھی توجہ نہیں تھی جس کا میں نے گذشتہ خطبہ میں ذکر بھی کر دیا تھا لیکن بہرحال جب انہیں کہا گیا کہ جلسہ ان شاء اللہ تعالیٰ منعقد ہو گا تو انہوں نے تیاری شروع کر دی لیکن مجھے یہی لگتا تھا کہ پوری دلجمعی سے تیاری نہیں کر رہے۔ مجھے فکر تھی کہ انتظامیہ جب اس طرح relaxed ہے تو کارکنان بھی اس سوچ کے مالک نہ ہوں لیکن اللہ تعالیٰ سے یہ امید بھی تھی کہ وہ ان شاء اللہ جلسہ کے انتظامات بہتر کروا دے گا اور کام کرنے والے بھی مل جائیں گے۔ اس لیے مجھے ایک موقع پر انتظامیہ کو زیادہ زور سے، سختی سے یہ کہنا پڑا کہ اگر آپ لوگ اس طرح بے دلی سے کام کرتے رہے اور اس سوچ میں رہے کہ پتہ نہیں جلسہ ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا اور ناامیدی زیادہ ظاہر ہو رہی ہو تو پھر مَیں نئی انتظامیہ مقرر کر دیتا ہوں۔ بہرحال میری اس بات نے انہیں ایک جھٹکا دیا اور تیزی سے کام شروع ہو گیا، گو لیٹ شروع ہوا۔ اور کارکنان جو تھے، جو ہمارے نچلی سطح پر کام کرنے والے رضا کار ہیں اصل تو وہی forceہے، وہی مَین پاور ہے، وہ تو لگتا تھا پہلے سے بے چین تھے۔ فوری طور پر جلسہ کے انتظام کے لیے بھی ہر طرف سے رضا کار آنے لگ گئے۔ جلسہ کے دوران ڈیوٹی والوں کی بھی لائنیں لگ گئیں۔ اب یہ مشکل تھا ۔کہ کیونکہ یہ جلسہ چھوٹے پیمانے پر ہونا ہے اس لیے کارکنان کی سلیکشن کس طرح کی جائے۔ بہرحال اس کے لیے مردوں نے بھی اور لجنہ نے بھی کارکنان چنے۔ لجنہ نے تو شاید ڈیوٹیاں دینے کے لیے پانچواں حصہ لیا اور مردوں نے شاید اپنے کارکنان کا تیسرا حصہ کم کر دیا۔ جو اس کام کے لیے نہیں لیے گئے وہ مایوس بھی ہوئے کہ انہیں خدمت کا موقع نہیں ملا۔ تو یہاں سب سے پہلے تو میں ان تمام مردوں، عورتوں، لڑکوں، لڑکیوں اور بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں، کیونکہ بچوں کی بھی ڈیوٹیاں لگتی تھیں ،کہ اللہ تعالیٰ نیتوں کا اجر دیتا ہے۔ آپ کی نیت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کرنے کی تھی وہ پوری ہو گئی اور گو بوجوہ آپ کو موقع نہیں مل سکا لیکن اللہ تعالیٰ آپ کی نیت کی وجہ سے آپ کو اجر سے محروم نہیں کرے گا۔ بہرحال یہ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو اس خدمت کے جذبہ کا بہترین اجر عطا فرمائے۔

دوسرے جیسا کہ میرا طریق ہے کہ جلسہ کے بعد کے جمعہ میں کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو مختلف شعبہ جات میں کام کر رہے تھے یا کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگ بھی مجھے لکھ رہے ہیں اور دنیا سے لکھنے والے بھی ان رضا کاروں کا شکریہ ادا کر رہے ہیں جن کی جہاں بھی ڈیوٹی تھی انہوں نے وہاں اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ بارش کی وجہ سے ایک وقت میں پارکنگ سے کاریں نکالنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگیا تھا۔ وہاں رضا کاروں نے غیر معمولی کام کیا ہے اور عملاً کاریں اٹھا کر ہی کیچڑ میں سے باہر رکھی ہیں اور اس میں ان کے ساتھ بعض دفعہ دوسرے شعبوں کے کارکنان بھی جو فارغ ہوتے تھے شامل ہو جاتے تھے۔ بعض نے مجھے لکھا کہ ہم شامل ہوتے رہے۔ بہرحال پھر بعد میں اس پارکنگ کی صورت حال دیکھ کے دوسری جگہ پارکنگ کا انتظام ہو گیا تھا لیکن بہرحال پہلے اور دوسرے دن یا دوسرے دن کچھ وقت کے لیےجو کاریں وہاں آئی تھیں ان کو وہاں سے نکالنا بڑا مشکل تھا اور اس مشکل کو کیمرے کی آنکھ نے دیکھ لیا اور ایم ٹی اے نے دنیا کو دکھا بھی دیا جس سے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے اور غیر جو یہ نظارے دیکھ رہے تھے انہوں نے بڑی حیرت کا اظہار کیا ہے بلکہ غیر از جماعت اور غیر مسلموں نے تو اس نظارے کو دیکھ کر کہا کہ آج کی دنیا میں یہ نظارہ ناقابل یقین ہے۔ کوئی افسر ہے یا مزدور، سب کاروں کو کیچڑ سے نکالنے کے لیے خود کیچڑ میں لت پت ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جنّوں کی طرح کام کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں۔

پھر اسی طرح دوسرے شعبہ جات ہیں، صفائی کا شعبہ ہے، کھانا کھلانے کا ہے، کھانا پکانے، روٹی پکانے کا ہے۔ پھر سب سے اہم شروع میں جلسہ کے انتظامات کا، مارکیاں لگانے کا؛ دوسرے ٹریک وغیرہ بچھانے کا جو کام تھا یا جلسہ کا جو پورا انتظام تھا اس کو کرنے کا جو ابتدائی کام تھا اس کے لیے رضا کار مستقل کئی ہفتے آتے رہے۔ پھر اب وائنڈاپ کے لیے بھی کئی دن دے رہے ہیں۔ تو اس طرح جو مختلف شعبہ جات ہیں ان سب کے کام دیکھ کر دنیا جو ایم ٹی اے اور لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے جلسہ دیکھ رہی تھی وہ بہت متاثر ہوئی ہے۔ آنے والے مہمان بھی شکرانے کے جذبات لیے ہوئے تھے اور ایم ٹی اے نے دنیا کو جو نظارے دکھلائے اور پروگرام دکھانے کے لیے مختلف نظارے دکھانے کے لیے جو مختلف پروگرام بنائے اور بڑی محنت کی ہے، اس کا بھی ایم ٹی اے نے حق ادا کر دیا ہے اور نہ صرف جلسہ دنیا کو دکھایا بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اجتماعی طور پر جلسہ کی کارروائی دیکھنے والوں کو ہمیں جلسہ گاہ میں دکھا دیا اور تمام دنیا کو بھی دکھا دیا۔ تو جلسہ کی یہ کارروائی جو کارکنوں کے ابتدائی کام سےلے کر دورانِ جلسہ کام کرنے والے، پھر جلسہ گاہ کے اندر جو علمی اور تربیتی پروگرام، تقاریر وغیرہ تھیں ان کو دکھانا یہ ایم ٹی اے نے ایسے ذریعہ سے دکھایا کہ تمام دنیا کے لوگ، دیکھنے والے احمدی اور غیر بھی حیرت زدہ بھی ہیں اور شکرگزار بھی ہیں کہ ہمیں یہ نظارے دیکھنے کو ملے۔ یہ ایک عجیب بین الاقوامی گھر کا نقشہ کھینچ دیا تھا۔

پس میں تمام کارکنان کا ،مردوں کا بھی، عورتوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان نامساعد حالات میں اور ایک لحاظ سے ان کے لیے تو ہنگامی فیصلہ ہوا ہے اور پھر موسم کی شدت۔ ان سب کے باوجود سب نے بے نفس ہو کر کام کیا ہے اور جلسہ کی ڈیوٹیوں کا حق ادا کر دیا ہے اور دنیا میں اس جلسہ کو دیکھنے والوں کی طرف سے بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت سارے خطوط شکریہ کے مجھے آ رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ کارکنان کا شکریہ ادا کر کے آج پھر اپنے معمول کے خطبہ کا جو مضمون ہے وہی بیان کروں گا لیکن دنیا کے مختلف ممالک سے جلسہ کے تأثرات اور اس کے سننے کے بعد خوش کن نتائج، اپنوں اور غیروں کے غیر معمولی جذبات کے اظہار کی اتنی بڑی تعداد میں رپورٹس آ رہی ہیں، خطوط آ رہے ہیں تو میں نے سوچا کہ اس سال بھی ہمیشہ کی طرح ان تأثرات اور فضلوں کا ذکر آج کے خطبہ میں کر دوں۔ تمام تو بیان کرنے ممکن نہیں۔ کچھ نمونے میں نے لیے ہیں۔

اس سال کے منفرد انتظام کے ساتھ ہونے والے جلسہ نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ایسے دروازے کھولے ہیں جس سے پھر انسان اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کرتے ہوئے اس کے آگے جھکتا چلا جاتا ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود کیسے کیسے فضل اللہ تعالیٰ جماعت پر فرما رہا ہے۔ ایک کمی کا اظہار عموماً لوگوں نے کیا ہے کہ اس سال عالمی بیعت نہیں ہوئی جس کا انہیں بڑا انتظار تھا۔ ان حالات میں تو بہرحال یہ مشکل بھی تھا کہ بیعت کی جاتی، مجبوری تھی۔

اب میں مختصر ًکچھ رپورٹس اور کچھ تأثرات بیان کر تا ہوں۔ اس سال پہلی مرتبہ جماعتیں لائیوسٹریمنگ کے ذریعہ سے جلسہ میں شامل ہوئیں یعنی اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ کر جلسہ سن رہی تھیں اور یہاں جلسہ گاہ میں بھی سکرین پر لوگ نظر آ رہے تھے۔ یوکے میں پانچ مقامات پر اجتماعی طور پر یہ انتظام تھا اور بعض دوسرے ممالک میں کئی گھنٹوں کے وقت کے فرق کے باوجود بھی وہاں بیٹھے اجتماعی طور پر جلسہ سن رہے تھے جن میں آسٹریلیا ہے، انڈونیشیا ہے، گوئٹے مالا ہے، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں۔ یوکے کے علاوہ بائیس ممالک میں سینتیس مقامات پر لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے احباب جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے تھے اور عورتوں کی طرف سے بھی اس دفعہ لائیو سٹریمنگ کا جو پہلی دفعہ انتظام ہوا تھا اس کی وجہ سے عورتوں نے بھی مختلف ممالک سے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق جو عورتوں کا سیشن تھا، ان کی تقریریں تھیں، عورتوں کے اس پروگرام کو بھی تیس پینتیس ہزار کے قریب عورتوں نے دیکھا اور سنا۔ ان شامل ہونے والے ممالک میں امریکہ ہے، کینیڈا ہے، گوئٹے مالا، کہیں دو جگہ، کہیں تین جگہ، کہیں چار جگہ مختلف سینٹرز بنے ہوئے تھے۔ گیانا ہے، آسٹریلیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ماریشس، کبابیر، انڈیا، برکینا فاسو، گھانا، نائیجیریا، گیمبیا ، تنزانیہ، فرانس، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، سویڈن ، بیلجیم، فن لینڈ، ہالینڈ وغیرہ شامل ہیں۔

نائیجر میں ایک غیر احمدی دوست عیسیٰ صاحب جلسہ کے دوران تینوں دنوں میں میرے جو خطابات تھے ان کو سننے کے لیے مشن ہاؤس میں آتے رہے۔ کہتے ہیں کہ اس سے قبل میں نے سن رکھا تھا کہ جماعت احمدیہ اسلام کے خلاف ہے اور انہوں نے مسجد میں ٹی وی رکھا ہوا ہے جو کہ جائز نہیں لیکن جلسہ کے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اگر سب مسلم دنیا ایسی ہو جائے جیسے احمدیت اتحاد سے رہتی ہے اور اسلام کا پیغام پہنچا رہی ہے تو مسلمان اتنے مضبوط ہو جائیں کہ دنیا کی کوئی طاقت اسلام کے خلاف نہ بول سکے۔ جماعت احمدیہ میں جو اتحاد اور یگانگت ہے وہ میں نے جلسہ میں دیکھی ہے جو میری نظر میں سچائی کی ایک دلیل ہے۔

پھر زیمبیا سے احمدی احباب اور نومبائعین کے علاوہ بعض غیر از جماعت نے بھی جلسہ دیکھا۔ وہاں ایک جگہ پینتیس غیر از جماعت لوگ جمع تھے۔ ایک عیسائی ٹیچر نے جلسہ کی کارروائی سن کر، دیکھ کر یہ تبصرہ کیا کہ آج میں جلسہ کی کارروائی سن کر بہت محظوظ ہوا ہوں۔ مجھے اسلامی تعلیمات کا علم ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ میری عقل و فہم کے مطابق اب مجھے پتہ لگا کہ اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو ضرورت مندوں کی مدد کرے۔ مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

پھر گیبون کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ غیر مسلم پولیس افسر اپنی اہلیہ کے ساتھ جلسہ کی کارروائی سننے کے لیے مشن ہاؤس آئے۔ اس سے پہلے وہ جماعت میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے لیکن جلسہ پرایک لبنانی نومبائع کے قبول احمدیت کا واقعہ سنا تو پوچھنے لگے کہ جلسہ کے بعد میںکس طرح ایم ٹی اے دیکھ سکتا ہوں؟ اس پر ان کو بتایا گیا کہ یوٹیوب کے ذریعہ بھی ایم ٹی اے دیکھ سکتے ہیں تو انہوں نے اسی وقت اپنے موبائل پر یوٹیوب نکال کر ایم ٹی اے فرنچ چینل نکالا اور جلسہ دیکھنے لگ گئے۔ کہنے لگے کہ اب میں اس چینل پر جماعت احمدیہ کے بارے میں مزید سیکھوں گا۔

نائیجیریا سے ایک غیر از جماعت دوست نے جلسہ کی کارروائی سننے کے بعد کہا کہ اس جلسہ کی کارروائی سے مجھے یقین آ گیا ہے کہ اگر دنیا میں کوئی سچا فرقہ ہے تو وہ احمدیہ جماعت ہی ہے۔ میں جلد اس میں شامل ہو جاؤں گا۔ ایک غیر از جماعت دوست نے جلسہ کے حوالے سے تاثرات میں کہا یقیناً یہ جماعت سچوں کی جماعت ہے یہ ایمان والوں کی جماعت ہے۔ میں نے دیکھا کہ شدید بارش میں بھی رضاکار اپنے کاموں میں مگن تھے اور مہمانوں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے تھے۔ اور پھر اسی طرح میرے خواتین کے خطاب سے کہتے ہیں بڑا متاثر ہوا۔

جاپان کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ہیروشیما سے تعلق رکھنے والے ایک غیر از جماعت جاپانی دوست مشیمااوسامو (Macshima Osamu) صاحب۔ جب مَیں جاپان گیا تو ہیروشیما بھی گیا ہوں تو یہ وہاں تھے اور انہوں نے میزبانی کی تھی۔ 2017ء کی پیس کانفرنس میں بھی شامل ہو چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں بھی جلسہ دیکھ رہا ہوں۔ کہتے ہیں آج 6؍ اگست کا خطبہ بھی سنا۔ اس پر مجھے جاپان کے لیےجماعت کی خدمات یاد آ گئیں کہ کس طرح جماعت کے دوسرے خلیفہ، حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے جمعہ کے دن ہی 10؍اگست 1945ء کو ہیروشیما کی ایٹمی تباہی کے بارے میں آواز بلند کی تھی۔ یہ آواز ہیروشیما کے حق میں بلند ہونے والی پہلی آوازوں میں سے تھی۔ اس کے بعد موجودہ خلیفہ کا دورہ ہیروشیما ہوا اور اس موقع پر امن و سلامتی کا پیغام بھی میرے لیے بہت خاص معنی رکھتا ہے۔ آج ہیروشیما کے دن کے موقع پر ایم ٹی اے دیکھتے ہوئے ایک تو میری یہ خواہش ہے کہ ایم ٹی اے افریقہ کی طرح ایم ٹی اے جاپان بھی جلد قائم ہو اور دوسرا جلسہ کا ماحول اور دنیا بھر سے لوگوں کا اجتماع دیکھ کر میرے دل میں روز بروز یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے اور دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے جماعت احمدیہ کاکردار کتنا اہم ہے۔

لوساکا (زیمبیا) سے ایک غیر از جماعت استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں: آج ہم نے آپ کے خلیفہ سے ایک بات سیکھی ہے کہ اسلام میں عورت کو آزادیٔ رائے کا پورا حق حاصل ہے اور اسلام عورت کو شادی کے سلسلہ میں اپنی پسند کا ہم سفر چننے کا حق دیتا ہے مگر بعض معاشروں میں زبردستی کی شادیاں کروا دی جاتی ہیں اور انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ پھر یہ کہا کہ صرف اسلام واحد مذہب ہے جس نے عورت کے حقوق پر زور دیا ہے۔ کہتے ہیں جہاں اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوںکی اجازت دیتا ہے وہاں مرد کو بھی یہ تاکید کی گئی ہے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ اگر انصاف نہیں کر سکتے تو پھر ایک پر ہی اکتفا کرو۔ یہ بہت خوبصورت اسلامی تعلیم ہے اور احمدیت ہی اس کی علمبردار ہے۔

پھر نائیجر کے ریجن تیساوا سے غیر احمدی دوست ممن غالی صاحب کہتے ہیں میرا یہ پہلا موقع تھا اور بڑا متاثر ہوا ہوں۔ یہ مثال اگر باقی مسلمان فرقے بھی پکڑ لیں تو یقیناً دنیا میں مسلمان ترقیات کی منازل طے کر لیں۔ پھر نائیجر سے ایک غیر احمدی انجنیئر اسامہ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں سب سے زیادہ اس بات نے متاثر کیا کہ اتنے سارے ملکوں کی نمائندگی اور مختلف افراد لسانی و ثقافتی تفریق کے باوجود جس اطاعت کا مظاہرہ کر رہے تھے اور کورونا جیسی مہلک بیماری کے باوجود اتنا perfect انتظام قابل دید تھا۔

نائیجر کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک غیر احمدی مہمان مریم صاحبہ کہتی ہیں کہ آج امام جماعت احمدیہ کا خطبہ سن کر مجھے عورتوں کے حقوق اور عورتوں کی ذمہ داریاں دونوں کا حقیقی ادراک ہوا ہے ورنہ یہاں افریقہ میں تو اکثر عورتیں جتنی بری زندگی گزار رہی ہیں اس کا تصور بھی ترقی یافتہ ممالک میں مشکل ہے۔ آپ لوگوں کا فعل آپ کے قول سے مطابقت رکھتا ہے۔ کہتی ہیں کہ اگر احمدیوں کا فعل ان کے قول سے مطابقت رکھتا ہے تو آپ لوگوں سے بہتر میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ پس یہ صرف تقریر کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر احمدی کو اپنے گھروں میں اس تعلیم کے نمونے بھی دکھانے ہوں گے تاکہ اسلام کی اس حقیقی تعلیم کا لوگوں پر جو اثر ہوا ہے وہ قائم بھی ہو۔

نائیجر کے ایک غیر احمدی دوست فرید موسیٰ نے بھی عورتوں کے خطاب کی تعریف کی ہے۔ پھر ایک غیر احمدی خاتون مریم الیاس صاحبہ نے بتایا کہ عورت کے حقوق کے بارے میں جو باتیں امام جماعت احمدیہ نے بتائی ہیں یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات جان کے مجھے اپنے عورت ہونےپر فخر ہوا ہے۔ کاش! اس بات کو سب لوگ سمجھ لیں تو دنیا ہی جنت بن جائے۔

نائیجر سے ایک غیر احمدی خاتون نفیسہ آدمو کہتی ہیں: پہلی بار میں نے امام جماعت احمدیہ کا خطاب سنا اور مجھ پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ جو عزت و احترام سیدنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو دیا ہے آج اگر دنیا میں اسے کوئی پورا کر رہا ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے۔ پس دوبارہ میں یہی کہوں گا کہ ہر احمدی مرد کے لیے بڑے سوچنے کا مقام ہے کہ اپنے رویے اپنے گھروں میں بھی ٹھیک رکھیں۔ دنیاکو دھوکا نہ دیں۔

امیر صاحب نائیجر لکھتے ہیں کہ ایک غیر احمدی دوست الحاج حسین پیشہ کے لحاظ سے بزنس مین ہیں۔ کافی مصروف ہوتے ہیں لیکن جب انہیں جلسہ کی دعوت دی گئی تو انہوں نے دعوت قبول کی۔ جلسہ کے بعد موصوف نے بتایا کہ میں رسمی طور پر آپ کے جلسہ میں آیا تھا کہ کوئی دنیاوی میلہ ہو گا لیکن جب میں نے جلسہ سننا شروع کیا تو مَیں نے ارادہ کر لیا کہ تینوں دن باقاعدگی سے آؤں گا۔ سب سے زیادہ مجھے جس بات نے متاثر کیا وہ جلسہ کا ماحول تھا۔ رضا کاران کو کام کرتے دیکھ کر لگا کہ ان کے دل میں ایک جذبہ ہے جو انہیں ہمت دے رہا ہے ورنہ یہ دنیاوی آدمی کے بس کی بات نہیں۔

گنی کناکری کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ کنڈیا ریجن کے لوکل مشنری کہتے ہیں: علاقے کے میئر کو دعوت دی تھی اس نے کہا میں تو بیمار ہوں لیکن میرا بیٹا آ جائے گا۔ وہ جب آیا اس وقت میرا عورتوں میں لجنہ کا خطاب شروع ہونے والا تھا۔ بجلی کی وہاں بڑی کمی رہتی ہے۔ بارشوں کا آجکل موسم ہے اور اگر بجلی چلی جائے تو پھر گھنٹوں بجلی نہیں آتی۔ کہتے ہیں جب پروگرام شروع ہونے لگا تو بجلی بند ہو گئی اور مہمان بھی آ گئے۔ جنریٹر بھی کوئی نہیں تھا۔ مشنری نے کہا ہم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی سچائی کے لیے آج تُو معجزہ دکھا دے اور بجلی بحال کر دے۔ کہتے ہیں ہم نے دردِ دل سے دعا کی اور ابھی خطاب کے لیے میں ڈائس پر نہیں آیا تھا کہ بجلی آ گئی اور کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم عاجز غلامان ِمسیح الزمان کی دعا کو سنا اور مسیح موعود اور اسلام کی سچائی کے لیے نشان دکھایا جس کا ہمارے مہمان کے دل پر بڑا اثر ہوا اور حیرت والی بات یہ ہے کہ جیسے ہی خطاب ختم ہوا بجلی پھر بند ہو گئی۔ اس نے بھی یہی کہا کہ میں نے اتنے جامع خطاب کبھی نہیں سنے اور جو کچھ بھی جماعت کے بارے میں مسلمانوں نے مشہور کر رکھا ہے سب غلط ہے۔

کیمرون سے وہاںکے معلم کہتے ہیں کہ کیمرون کے شمالی علاقے کے شہر مروا (Maroua) کے قریب ایک گاؤں کے چیف الحاجی عثمان جو غیر احمدی ہیں انہوں نے جلسہ کی کارروائی ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ دیکھی تو کہنے لگے ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ جب امام مہدی آئیں گے تو پوری دنیا اس کو دیکھ لے گی۔ آج جلسہ کی کارروائی دیکھ کر یقین آیا کہ یہ جماعت واقعی امام مہدی کی جماعت ہے جس کو ساری دنیا اس وقت دیکھ رہی ہے۔ کئی ممالک کے لوگ بھی اپنے ملکوں سے ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسہ میں شامل تھے اور امام جماعت احمدیہ کو دیکھ اور سن رہے تھے۔ آج میں نے خدا کے نبی کی بات پوری ہوتے دیکھی۔

امیر صاحب مالی جلسہ کے ذریعہ بیعتوں کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ کیتا شہر کے ایک استاد عمر باری صاحب نے فون کر کے بتایا کہ گو کہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن پھر بھی نہ صرف میں نے بلکہ گھر کے تمام افراد نے بڑی دلجمعی سے جلسہ کی کارروائی سنی اور خاص طور پر جب خلیفہ وقت کی باتوں کے دوران مختلف نعرے بلند ہوتے تو ہم گھر کے تمام افراد پُرجوش ہو جاتے تھے اور ہم بھی نعرے دہراتے تھے۔ عمر باری صاحب نے کہا کہ ان شاء اللہ وہ جلد احمدیہ مشن آ کر اپنی فیملی سمیت جماعت احمدیہ میں شمولیت حاصل کریں گے۔

مبلغ انچارج کیمرون کہتے ہیں کیمرون سے چیف امام ڈوآلا (Douala) فاروق صاحب نے بتایا کہ میں نے ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ سے جلسہ کی تقاریر سنیں۔ جو لوگ جماعت کو کافر کہتے ہیں اور دہشت گرد تنظیم کہتے ہیں ان کا جواب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم والی آیت ہے جو بڑے الفاظ میں سٹیج کی دیوار پر لکھی تھی۔ اب ان شاء اللہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت کے متعلق کافی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔

امیر صاحب تنزانیہ لکھتے ہیں اَرُوشا ریجن سے ایک غیر از جماعت خاتون جابو (Jabu) صاحبہ نے بتایا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے جلسہ سالانہ دیکھا ہے۔ اتنا پرسکون اجتماع میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ عام طور پر جلسوں میں لوگ شور مچاتے اور لوگوں کے بہلانے کے لیے طرح طرح کے مضحکہ خیزپروگرام کرتے ہیں لیکن اس جلسہ میں ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ ہر پروگرام میں اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں بتایا جاتا تھا۔ بلا شبہ احمدیوں کی اپنے خلیفہ سے محبت کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔

پھر کیمرون کے شہر مروا (Maroua) کے ایک لوکل چیف یہ کارروائی دیکھ کر کہتے ہیں یہ جماعت کا کمال ہے کہ اتنی زیادہ زبانوں میں جلسہ سالانہ کی کارروائی کا ترجمہ ہو رہا ہے اور لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ میں نے جلسہ سے استفادہ کیا اور میرا علم بڑھا ہے۔ ایم ٹی اے ایک برکت ہے۔ میں اب کیبل کنکشن لگواؤںگا اور اپنے گھر میں بیٹھ کر ایم ٹی اے سے استفادہ کروں گا اور اپنا علم بڑھاؤں گا۔ اب غیر بھی ایم ٹی اے سے متاثر ہیں اور جو دینی مائدہ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہی ایک ترقی کا راز ہے۔ اگر روحانی لحاظ سے ترقی کرنی ہے تواحمدیوں کو بھی چاہیے کہ ایم ٹی اے کی طرف زیادہ توجہ دیں۔

مبلغ انچارج گیبون (Gabon)لکھتے ہیں۔ ایک نومبائع احمدی نے کہا کہ حقیقت میں یہ ساری دنیا کا جلسہ ہے جس میں ہم بھی شامل ہیں اور دیگر بےشمار ملکوں سے بھی لوگ شامل ہیں۔ یہ چیز بھی ہمارے ایمانوں کو مضبوط کر رہی ہے۔ وقت کے فرق کے باوجود ساری دنیا میں لوگ جلسے میں بیٹھے ہیں۔ یہ نظارہ صرف احمدیت ہی پیش کر سکتی ہے۔ دوسرے مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے۔

زیمبیا کے مشرقی صوبہ کے شہر لوسانگازی (Lusangazi) کے نومبائع علی صاحب ہیں۔ اپنے علاقے کے ہیڈ مین بھی ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم عیسائیت سے احمدیت میں آئے ہیں اور ہمارے گاؤں میں احمدیت کا باقاعدہ قیام فروری 2021ء میں ہوا۔ اس کے بعد متعدد بار غیر احمدی علماء ہمارے علاقے میں آئے اور ہمارے دلوں میں احمدیت کے خلاف مختلف قسم کے شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب تک عیسائی تھے کوئی نہیں پوچھنے آیا۔ جب احمدی ہو گئے تو غیر احمدی علماء ان کا دین ٹھیک کرنے کے لیے پہنچ گئے۔ کہتے ہیں: اب ہمیں جلسہ سالانہ یوکے لائیو دیکھنے کی توفیق ملی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ منظم جلسہ کا نظارہ دیکھا ہے جہاں وبائی حالات کے باوجود بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے اور مختلف ممالک کے حکومتی نمائندگان نے اپنے ویڈیو پیغامات بھجوائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ دیکھنے کے بعد ہمارے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے کہ احمدیت ایک چھوٹے سے گروہ کا نام نہیں بلکہ ایک عالمگیر جماعت ہے۔ جس طرح خلیفہ وقت نے عورتوں اور دوسرے لوگوں کے حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیمات بیان کی ہیں اس نے ہمیں حیران کر دیا ہے کہ عورتوں کے بھی حقوق ہیں ورنہ ہم تو اپنی عورتوں کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ ان شاء اللہ جو کچھ ہم نے یہاں دیکھا اور سنا ہے ہم واپس جا کے دوسرے احباب کو بھی بتائیں گے تا کہ ان کا بھی ایمان مضبوط ہو اور عمل کی کوشش کریں گے۔

ملائیشیا سے ایک نومبائع رُسلی بن مَوپَاسولی (Rusli Bin Mappasulle) صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ یوکے کو دیکھ کر میں خدا تعالیٰ کا بہت شکرگزار ہوں کہ مجھے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے اور امام الزمان کو پہچاننے کی توفیق حاصل ہوئی۔ میں یوکے میں تو نہیں تھا لیکن اس کے باوجود مجھے خلیفہ وقت کو دیکھنے اور ان کے خطاب سننے کا موقع مل رہا تھا۔ اگرمیں جماعت احمدیہ میں شامل نہ ہوتا تو میں ان برکات سے محروم ہو جاتا۔ اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں خلافت کے ساتھ ہمیشہ وفا دار اور فرماںبردار رہوں گا۔

برازیل کی ایک خاتون ہیں پریسیلا مارلِم (Priscila Marleme) صاحبہ۔ چند ماہ پہلے انہوں نے بیعت کی تھی ، کہتی ہیں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے پہلی بار جلسہ سالانہ دیکھنے کا موقع ملا اور باوجود زبان نہ سمجھنے کے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی۔

گنی بساؤ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں:گنی بساؤ جماعت کے ایک دور دراز علاقے کسینی کی چار نومبائع لجنات آٹھ کلو میٹر پیدل سفر کر کے اپنی قریبی جماعت مسرہ میں جلسہ سالانہ یوکے کی کارروائی سننے کے لیے گئیں اور جب انہوں نے میرا خطاب سنا تو کہتی ہیں اللہ کے فضل سے ہم نے احمدیت قبول کر لی تھی مگر آج ہمیں خلیفہ کا خطاب سن کر احساس ہوا کہ ہم کتنی بڑی نعمت سے دور تھے۔ آج ہمارا ایمان احمدیت پر سو فیصد مکمل ہوا ہے اور آج ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم ہمیشہ خلیفہ وقت کا خطبہ سننے کے لیے آیا کریں گی۔ یہ کس طرح تبدیلیاں اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے۔

گیانا سے بھی لوگ لائیو سٹریم کے ذریعہ جلسہ میں شامل ہوئے۔ ایک نومبائع مظفر کیوسی (Kwesi) صاحب کہتے ہیں کہ میرا پہلا جلسہ سالانہ تھا اور میرے لیے تجربہ بہت شاندار تھا۔ خاص طور پر جب میں اپنے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر جلسہ دیکھنے بیٹھا اور خلیفہ وقت کو دیکھا اور ان کی تقریر سنی تو یہ سب میرے لیے بہت ہی زبردست تجربہ تھا۔ میں نے پہلے کبھی کسی مسلمان خاتون کو اتنی اچھی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ تلاوت کی بھی انہوں نے تعریف کی۔ پھر کہتے ہیںکہ ہماری جماعت کے احباب مختلف قصبوں اور گاؤں سے جلسہ سننے کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے یہ سب خلافت اور احمدیت کی برکات ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس جماعت کو عطا فرمائی ہیں۔ اس طرح دنیا کے مختلف ممالک کی جماعت کو جلسہ سالانہ میں ورچوئلی (virtually)بھی شامل دیکھنا بہت زبردست تھا۔ میں نے بہت سے ایسے ممالک دیکھے جن کے بارے میں مجھے علم نہیں تھا کہ وہاں احمدیہ جماعت پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا کہ کس طرح احباب جماعت مل کر جلسہ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یوکے میں ایک صاحب جو بنک میں کام کرتے ہیں وہ کام سے چھٹی لے کر جلسہ کے لیے رضا کارانہ طور پر کام کر رہے ہیں اور اپنی کار میں سو رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں ثابت کرتی ہیں کہ جماعت کے لوگوں میں اخلاص ہے اور وہ قربانی کر رہے ہیں۔ حقوق کا مجھے تقریروں سے پتہ لگا۔ اس طرح انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہوا ہے۔

ماریشس سے ایک نومبائع صفوان نائیک صاحب کہتے ہیں کہ لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے جلسہ میں شمولیت کا پہلا تجربہ تھا۔ یقیناً اس طرح کی شمولیت مجھے خلافت کے زیادہ قریب کر رہی تھی۔ خلیفہ وقت کا ہر لفظ میرے دل پر لگتا تھا۔ جماعت میں شامل ہونے کے فیصلے سے میں بہت خوش ہوں۔ ایم ٹی اے کے پروگراموں سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔

آسٹریا سے اشرف ضیاء صاحب کہتے ہیں کہ ڈوناٹیلا (Donatella) صاحبہ نے اس سال کے شروع میں بیعت کی۔ وہ کہتی ہیں کہ جو بھی خلیفہ وقت نے کہا وہ جذبات کو گرما دینے والا تھا۔ ان کے خطابات کے دوران میرے آنسو گرتے رہے۔ اسلام واقعی زندگی بخش اور سچائی کا راستہ ہے۔ میری زندگی آہستہ آہستہ بالکل بدل رہی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کی بہت شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی۔ یہ آسٹرین ہیں۔

جلسہ میں شمولیت کے بعد قبول احمدیت کے بھی بڑے واقعات ہیں۔ آئیوری کوسٹ سے ایک غیر احمدی دوست حسن صاحب نے بیان کیا کہ جلسہ کے تینوں دنوں کا پروگرام دیکھنے کا موقع ملا۔ انتہائی ایمان افروز تھا۔ کہنے لگے کہ جھوٹ کی عمر لمبی نہیں ہوتی اور وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے جبکہ سچائی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اسی اصول کے تحت جماعت احمدیہ کی روز بروز کی ترقی خود اس کی صداقت کا ثبوت ہے۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ کے اختتام کے بعد ہم چند دوست ایک ریسٹورنٹ میں گفتگو کر رہے تھے کہ ایک اجنبی شخص ہماری باتیں سن کر کہنے لگا اگر آج اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ ہی ہے۔ اتنا کہہ کر وہ اجنبی تو چلا گیا مگر ہماری باتوں کی تصدیق کر گیا کہ احمدیت نہ صرف قولی بلکہ عملی طور پر بھی حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہے۔ اس کے بعد حسن صاحب ہمارے معلم سے ملے اور کہا کہ میں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہونا چاہتا ہوں اور اب میں زیادہ دیر تک اپنے آپ کو اس سچائی سے محروم نہیں رکھ سکتا۔

کانگو برازاویل کے مبلغ انچارج کہتے ہیں ایک جماعت گمبوما (Gamboma) میں تینوں دن ٹی وی اور ریڈیو پر جلسہ کے تمام لائیو پروگرام دکھانے کی توفیق ملی۔ اس علاقے میں صرف ایک ہی ٹی وی سٹیشن ہے اور اس پر ہمارے جلسہ کے پروگرام چلتے رہے۔ ایک اندازے کے مطابق چار ہزار افراد نے جلسہ دیکھا اور سنا ہو گا۔ گمبوما کے ارد گرد تیس دیہات کی جماعت نے بھی ریڈیو کے ذریعہ جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔ ان علاقوں میں بجلی کی سہولت میسر نہیں اس لیے لوگ ریڈیو کے ذریعہ سنتے ہیں۔پھر انہوں نے لکھا کہ جتنے میرے خطابات تھے ان کا لوکل زبان لِنگالا (Lingala) میں یہاں ترجمہ ہو رہا تھا وہ بھی سنا۔ کہتے ہیں الحمد للہ پروگرام بہت کامیاب رہا جس کا اظہار اپنوں اور غیروں ، سب نے کیا۔ تینوں دن ہر طرف جلسہ سالانہ کا ماحول تھا۔ ویسے ہی کھانے کا انتظام کیا گیا تھا جیسے جلسے میں کیا جاتا ہے۔ دوران جلسہ اللہ کے فضل سے بارہ افراد کو بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔

گنی بساؤ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے اکثر نومبائعین احمدیت قبول کرنے کے بعد اب اپنے اپنے علاقے اور اپنے عزیز و اقارب میں کثرت سے تبلیغ کر رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ یوکے کے بابرکت موقع پر جب احباب کو جلسہ کے پروگرام دیکھنے کی تحریک کی گئی تو تمام نومبائعین نے اپنے غیر ازجماعت عزیز و اقارب اور دوستوںکو جلسہ میں میرے تین چار خطابات سننے کے جو وقت تھے اس پہ خاص طور پر بلایا۔ کہتے ہیں لوگ تیس کلو میٹر اور اٹھارہ کلو میٹر کا فاصلہ سائیکلوں پر یا پیدل کر کے وہاں پہنچے۔ اکثر لوگ صرف پہلے دن کا خطاب سننے کے لیے آئے تھے مگر انہوں نے جب میرا پہلے دن کا خطاب سنا تو ان کا ارادہ بدل گیا اور انہوں نے تینوں دن قیام کرنے کا ارادہ کیا اور تیسرے دن اختتامی خطاب سننے کے بعد یہ لوگ کہنے لگے کہ آپ کے خلیفہ نے ہمارے دل جیت لیے ہیں اور جو اسلام انہوں نے پیش کیا ہے وہی حقیقی اسلام ہے۔ اس موقع پر 127 افراد، مرد اور عورتوں، نے احمدیت قبول کی۔ تو اس طرح اجتماعی طور پر بھی بیعتیں ہوئیں۔

کونگو سے معلم سلسلہ ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ ایک عیسائی دوست مُوک نَگَا چِیبی (Mouk Ngantsibi) صاحب کو جلسہ دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ جلسہ میں شریک ہوئے۔ جلسہ دیکھنے کے بعد اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے تو لگتا ہے کہ اس طرح کی تعلیمات اور راہ نمائی ہمیں کہیں نہیں ملے گی۔ ہم نے اپنی زندگی کا ایک لمبا حصہ عیسائیت میں ضائع کر لیا ہے۔ یہاں پر ہم نے جو تین دنوں میںسیکھاہے وہ عیسائیت میں رہ کر پوری زندگی بھی نہیں سیکھ سکتے۔ ہماری بھلائی اب اسی میں ہے کہ ہم ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اس طرح میاں بیوی اور بچوں نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

گنی بساؤ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ گنی بساؤ کے بافٹا ریجن سے تعلق رکھنے والے غیر احمدی دوست کمباجاؤ صاحب نے جلسہ سالانہ یوکے کے تین دنوںکی کارروائی سنی اور میرے خطابات سنے اور پھر کہنے لگے اسلام کو اس وقت ایک لیڈر کی ضرورت ہے اور وہ جماعت احمدیہ کے پاس ہے خلیفہ کی صورت میں اور اسی پر تمام عالم اسلام اکٹھا ہو سکتا ہے۔ اس طرح جلسہ ختم ہوتے ہی انہوں نے اسی وقت بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کر لی۔

کانگو برازاویل سے ایک عیسائی دوست انگوتانی صاحب کہتے ہیں: میں نے کبھی بھی کسی مذہب میں دلچسپی نہیں لی کیونکہ عیسائیت کو دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ مذہبی لوگ مخلص نہیں ہوتے۔ میرا بھائی پہلے ہی جماعت میں داخل ہو چکا تھا اس نے مجھے اس جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ میں اس کے کہنے پر آگیا اور جوں جوں مَیں جلسہ دیکھتا گیا میرے اندر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہو گئی اور مذہب کے ساتھ لگاؤ پیدا ہونے لگا۔ خلیفہ کی تقاریر سن کر پہلی دفعہ میرے دل نے گواہی دی کہ مذہب ایک حقیقت ہے۔ سچے مذہب میں دلوں کو پھیرنے کی طاقت ہے۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ اسلام احمدیت کو بطور مذہب قبول کر رہا ہوں۔

نائیجیریا کے ایک غیر احمدی دوست کو جلسہ سن کے بیعت کی توفیق ملی۔ کہتے ہیں: میں جلسہ کے پروگرام دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور جس حق کا مَیں متلاشی تھا وہ مل گیا۔ اب میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔

سینیگال سے ظفر اقبال صاحب کہتے ہیں کہ اَمْبَور ریجن میں جلسہ کے تینوں ایام میں جو میرے خطابات تھے چار ریڈیو اور ایک ٹی وی پر لائیو نشر ہو رہے تھے۔ ایک ریڈیو میزبان نے ان خطابات کو سن کر احمدیت قبول کی۔ وہ میزبان نہایت پڑھے لکھے اور عوام میں بہت مقبول ہیں۔انہوں نے کہا میں نے جماعت کے متعلق بہت کچھ سنا تھا لیکن آج امام جماعت کی باتیں سن کر مجھے حقیقت پتہ چلی ہے۔ لہٰذا میں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں۔ اسی دن انہوں نے اپنی فیملی سمیت بیعت کر لی۔

کیمرون کے مروا شہر کے ایک لوکل امام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جلسہ کی خاص بات جماعت کے امام کی تقاریر ہیں۔ جماعت کے خلیفہ ہر بات قرآن اور حدیث سے کرتے ہیں اور اس نے میرے دل پر بہت اثر کیا ہے۔ یقیناً یہ جماعت اور خلیفہ خدا کی طرف سے ہیں۔ میرا دل مطمئن ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے دوستوں سمیت بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ انصاف کی نظر سے دیکھنے والے اللہ کے فضل سے علماء میں ایسے بھی ہیں جو حق دیکھتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔

مالی میں غیر از جماعت احباب نے جلسہ دیکھنے کے بعد جماعت میں شمولیت کی۔ جلسہ سے قبل جماعتی ریڈیو پر جلسہ کے بارے میں پروگرام کیے گئے اور جلسہ کے بارے میں روزانہ ریڈیو پر اعلان بھی نشر ہوتا رہا۔ کہتے ہیں ہم نے ہر ایک کو جلسہ دیکھنے کے لیے مشن آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ جلسہ کے ایام میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت افراد بھی جلسہ کی نشریات دیکھنے آئے۔ جلسہ کے آخری روز چار افراد بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔ یہ افراد پڑھے لکھے ہیں اور انہوں نے بیان کیا کہ ہم کافی عرصہ سے کائی شہر میں ریڈیو سن رہے تھے اور ہمیں احمدیت میں دلچسپی تھی۔ جب ہم نے ریڈیو پر جلسہ کے بارے میں سنا تو ہمیں تجسس ہوا کہ ان کے جلسہ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ جلسہ دیکھنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی فلاح اور ترقی صرف احمدیت کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس اسلام کو احمدیت دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے وہی اصل اور حقیقی اسلام ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک خلیفہ کی ضرورت ہے جو ان کی راہ نمائی کر سکے اور موجودہ زمانے میں اسلام میں خلافت احمدیت کے ذریعہ جاری ہوئی ہے۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ اب ہم پکے احمدی ہیں اور جو ماہانہ چندہ ایک احمدی کے لیے دینا ضروری ہے ہمیں بتائیں، ہم ہر ماہ دین کی خدمت کے لیے چندہ بھی دیں گے۔

امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کائی ریجن کے مشن ہاؤس میں جلسہ کی نشریات دیکھنے کے لیے غیراز جماعت افراد آئے۔ جلسہ کے تیسرے روز جب بیعت کے ایمان افروز نظاروں پر مشتمل ایک ڈاکومنٹری پرانی بیعتوں کی دکھائی گئی تو غیر از جماعت نے جو پڑھے لکھے تھے انہوں نے سوال کیا کہ بیعت کی شرائط کیا ہیں؟ وقفہ کے دوران سب حاضرین کو معلم صاحب نے شرائط بیعت مقامی زبان میں ترجمہ کر کے سنائیں۔ اس غیر از جماعت نے کہا کہ یہ تو اسلام کا خلاصہ ہے اور اس میں معاشرتی زندگی گزارنے کے بارے میں احسن رنگ میں راہ نمائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر عمل کرنا تو ہر ایک کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ چنانچہ جلسہ کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔

گھانا سے لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ لوگ جلسہ میں شامل ہوئے۔ بُستانِ احمد اکرا کے سرسبز احاطہ میں جلسہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں ماحول بہت اچھا تھا۔ بڑا وجد آفرین تھا۔ دو مقامات پر دو بڑی بڑی ویڈیو سکرین پر احباب و خواتین براہ راست جلسہ کے نظارے دیکھ رہے تھے۔ تینوں ایام میں پچیس سو سے زائد احباب و لجنہ جلسہ میں شامل ہوئے۔ احمدیہ سینٹرل مسجد کماسی میں بڑے پیمانے پر انتظام کیا گیا تھا۔ وہاں تینوں دن دو ہزار سے زائد لوگ شامل ہوئے۔ اپرویسٹ وا (Wa) شہر میں بارہ مساجد میں جلسہ سالانہ کی کارروائی سننے کا اجتماعی انتظام کیا گیا تھا۔ اور باقی سارے ریجن میں چودہ مقام پر تھا۔اس طرح یہاں بھی دو ہزار سے زائد لوگوں نے اجتماعی طور پر سنا اور پھر اسی طرح باقی سارے ریجنز میں بھی انتظام کیا گیا تھا۔ اور دوسرے چینل کے ذریعہ سے بھی ایم ٹی اے دیکھتے رہے۔ ایم ٹی اے افریقہ اور ایم ٹی اے گھانا کے علاوہ جلسہ کی کارروائی گھانا کے تین دیگر ٹی وی چینلز پر بھی دیکھی جا سکتی تھی۔

یمن سے اکرم علی الکہلانی صاحب کہتے ہیں کہ آج خلیفہ وقت نے اس جلسہ اور خطابات سے ہمارے دلوں اور روح کو نئی زندگی عطا کر دی ہے۔ ہماری آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے تھے جو اب واپس لوٹ آئے ہیں اور دل سخت ہونے کے بعد نرم پڑ گئے ہیں۔ اگر خلیفہ وقت کا لجنہ والا خطاب سارا معاشرہ سنے اور اس پر باقاعدگی سے عمل کرے تو سارا معاشرہ سو فیصد سلجھ جائے۔ اسی طرح آخری خطاب نے جلسہ کے سارے انتظامات کو چار چاند لگا دیے۔ اس سارے نظام کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ تمام چہرے ہنستے مسکراتے نظر آئے۔ یہ اس خدا کا فضل ہے جس نے یہ جماعت بنائی۔

یمن سے عامر علی صاحب کہتے ہیں کہ جلسے کے تینوں دن ہمارے لیے عید تھے جن میں ہم نے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو نازل ہوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اس کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھا۔ جلسہ سے خلافت احمدیہ پر ہمارے ایمان میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا کیونکہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تائید خلافت احمدیہ کے شامل حال ہے۔ خلافت کے علاوہ سوائے ظلمت کے کچھ بھی نہیں۔ ہرچند ہم جلسہ میں جسمانی طور پر شامل نہ تھے لیکن ہمارے دل آپ کے ساتھ تھے اور ہم جلسہ کی پاکیزہ روحانی فضا کو یوں محسوس کر رہے تھے گویا ہم وہاں موجود ہوں۔ کہتے ہیں آپ کو دیکھ کر اور آپ کی نصائح کو سن کر جذبات وہ تھے جو ناقابل بیان ہیں۔ بڑا گہرا دل پر اثر ہو رہا تھا۔ خطابات سے بہت استفادہ کیا کیونکہ مجھے اپنی بہت سی ذمہ داریوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی نیز بہت سی غلطیوں کا مجھے پتہ لگا جن سے میں غافل تھا۔ اب کہتے ہیں کہ مختلف ملکوں میں احمدیوں کے اکٹھے ہو کر جلسہ میں شامل ہونے کے نظارے نے میرے دل میں بہت درد پید اکیا اور میں نے دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ جلد یمن میں بھی ہمیںایسی جگہ عطا فرمائے جہاں ہم اکٹھے ہو کر جلسہ میں شامل ہو سکیں۔

اردن سے حامد صاحب کہتے ہیں کہ ہر سال دنیا کے تمام ممالک سے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت کے گواہ بن کر جلسہ میں شرکت کرتے ہیں۔ اس سال کا جلسہ ایک خصوصیت کا حامل تھا کیونکہ اس سال انٹرنیٹ اور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے تمام دنیا سے احمدیوں نے کثرت کے ساتھ اس میں شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے حالات میں جماعت کی نصرت فرماتا ہے کیونکہ یہ ایک سچی جماعت ہے۔ میں اس سال کے جلسہ میں خلیفہ وقت کی موجودگی کو ایک روحانی کشف یا دنیا میں جنت سے تشبیہ دیتا ہوں جس کے پھل ہم نے ان تین دنوں میں کھائے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سچے اسلام کی تبلیغ کے لیے روحانی فضاؤں میں نصب کیا گیا ایک آسمانی خیمہ ہے۔

شام سے محمد بدر صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ میں احمدی مسلمان رنگ و نسل اور کلچر کے اختلاف کے باوجود خلیفہ وقت کی قیادت میں جماعت کے جھنڈے تلے متحد تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ قول ان پہ صادق آتا ہے کہ اگر تُو زمین بھر کے خزانے بھی خرچ کرتا تو ان کے دلوں کو نہ جوڑ سکتا بلکہ یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے دلوں کو باہم باندھ دیا ہے۔ قرآن شریف کی یہ آیت ہے۔ تو ہم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ شاملین جلسہ کے چہروں سے محبت کے جذبات ٹپکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ میں طمانیت اور سلامتی کا بھی شدید احساس ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم سب احمدی اپنے روحانی قائد کے جلو میں صحرا کے درمیان واقع ایک روحانی نخلستان میں ہیں جس میں سکینت ہی سکینت ہے اور سلامتی ہی سلامتی ہے۔ بشدت احساس ہوا کہ ابھی مجھ میں بہت سی کمزوریاں ہیں اور مجھے اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے بہت کوشش کرنا ہو گی۔ تقویٰ کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہوں گے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہو گا۔ عائلی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خواتین سے محبت اور نرمی سے پیش آنا ہو گا۔

جرمنی سے عبدالرحمٰن صاحب لبنانی ہیں، یہ کہتے ہیں میں نے برلن کی مسجدمیں احباب جماعت کے ساتھ تینوں دنوں کی جلسہ کی کارروائی سنی۔ جلسہ کی روحانی فضاؤں کو محسوس کیا۔ جلسہ سے ہم نے بہت استفادہ کیا۔ وہ روحانیت جس کی کمی محسوس کر رہے تھے واپس لوٹ آئی۔

فلسطین ویسٹ بنک سے عمر صاحب کہتے ہیں میری خواہش ہے کہ یہ جلسہ روز منعقد ہو تاہم انبیاء اور اولیاء کی طرح بنیں۔ ایک منفرد احساس تھا۔ سب بھائیوں نے اکٹھے بیٹھ کر جلسہ سنا۔ ایک محبت اور اخوت کا ماحول تھا۔

رضوان شاہد صاحب آئیوری کوسٹ سے لکھتے ہیں کہ ’’مَاںْ‘‘ شہر کی جماعت کے صدر آندرے صاحب نے بتایا کہ جلسہ میں سب سے متاثر کن نظارہ یہ تھا کہ دنیائے احمدیت خلافت کے جھنڈے تلے متحد ہے اور اطاعت خلافت میں مگن ہے۔ کسی جگہ دن ہے تو کسی جگہ آدھی رات ہے۔ سب خلیفہ وقت کا خطاب سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہیں اور اپنے ایمانوںکی تازگی کے سامان کر رہے ہیں۔

قرغیزستان کے نیشنل پریذیڈنٹ الیاس کُوبَاتَوف (Ilyas Kubatov) کہتے ہیں کہ جلسہ پر ایسی تقاریر پیش کی گئیں جن کو سن کر میں جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور میری آنکھوںسے آنسو بہنے لگے۔ میں نے جلسہ سالانہ یوٹیوب پر دیکھا تھا اور اس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے یوٹیوب پر اپنے بہن بھائیوں کے کمنٹس دیکھے جو ایک دوسرے کو جلسہ کی مبارک کے تحائف پیش کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو سلامتی کے پیغام دے رہے تھے۔ یہ سب میرے بہن بھائی مختلف قوموں سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً رشین، یوکرینی ،آرمینی، تاتاری، قزاقی اور قرغزی وغیرہ۔ یہ نظارہ بہت ہی روح پرور تھا۔

نائیجر کے احمدی دوست سلیمان صاحب کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا براہ راست خطبہ اپنی مادری زبان ہاؤسا میں سننا میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ کہتے ہیں ایم ٹی اے 5پر ہاؤسا زبان کے ایڈیشن نے ہمارے جلسہ کو چار چاند لگا دیے اور ہمارے لیے جلسہ اور عید ایک ساتھ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ وقت کو ہاؤسا زبان میں سننا ایک لگژری ہے جس کی لذت ایک ہاؤسا ہی سمجھ سکتا ہے۔ اس دفعہ پہلی دفعہ ہاؤسا زبان میں براہ راست ترجمہ کیا گیا تھا۔

انڈونیشیا کی ایک جماعت کے ایک دوست سویتونو (Suwitono) صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ دیکھنے اور خلیفہ وقت کے خطابات سننے کے بعد ہمارے خاندان میں خلافت سے محبت کی ایک نئی روح پیدا ہوئی ہے۔ ہم نے انسانی بھائی چارے کا اعلیٰ نمونہ دیکھا جو کہ دنیامیں کسی جگہ نہیں ملتا۔ خلافت واقعی نسل اور رنگ سے بالا ہو کر انسان کے درمیان محبت اور امن کا مجسمہ ثابت ہو رہی ہے۔

آسٹریلیا سے عاطف زاہد صاحب کہتے ہیں کہ افتتاحی خطاب لائیو نشریات میں رات بارہ بج کر پچپن منٹ پر شروع ہوا۔ اس کے باوجود لوگوں نے اجتماعی طور پر وہاں پہنچ کے بڑی سنجیدگی سے جلسہ کی کارروائی سنی اور ایک صاحب اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کے آئے تھے۔ رات کو ساڑھے دس بجے خطبہ ختم ہوا تھا۔انہوں نے خطبہ کے بعد بیٹے سے کہا کہ تم گھر چلے جاؤ۔ اس نے کہا کہ نہیں میں تو یہیں بیٹھ کے خطاب سنوں گا اور وہ بھی رات کو بیٹھا رہا۔ کہتے ہیں کہ جلسہ کا اختتامی خطاب اتوار کی رات دیر سے شروع ہونا تھا اور اگلا دن ورکنگ ڈے تھا اس لیے پریشانی تھی کہ لوگ مسجد میں نہیں آئیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت کثیر تعداد میں اختتامی خطاب کو بھی سننے کے لیے آئے اور بلکہ یہ تعداد ابتدائی سیشن میں شامل ہونے والوں سے زیادہ تھی۔

برازیل سے ابراہیم صاحب کہتے ہیں۔ ان کا تعلق گنی بساؤ سے ہے اور تعلیم کی غرض سے برازیل گئے ہوئے ہیں۔ ایک بات جو خاص طور پر میرے لیے توجہ کا باعث بنی جس کا میں خاص طور پر ذکر کرنا چاہتاہوں وہ نظام خلافت ہے جس کے تحت ایک ہی وقت میں مختلف ممالک کے لوگ کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اکٹھے جلسہ کی تقاریر اور کارروائی سن اور دیکھ رہے تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ ہی اسلام کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے اور اگر امام مہدی نہ آئے ہوتے تو ہم میں یہ اتفاق و اتحاد نہ ہوتا۔ میںاس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس جلسہ کے ذریعہ علم میں بہت اضافہ ہوا اور اس جماعت کا ممبر ہونے پر خدا کا شکرگزار ہوں۔

قرغیزستان سے اَتَاخَانَوْو وَادِلْیَارَا(Atakhanova Dilyara) صاحبہ ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ مقررین کی تقاریر کو اخلاص سے سننا اور دیکھنا کتنا دلچسپ ہے۔ خلیفہ وقت کے خطابات کو سنتے ہوئے بندہ ایسی دنیا میں ڈوب جاتا ہے جس میں اسلام کی نشأة ثانیہ ہو رہی ہو۔ ہم سب ایک فیملی کی صورت میں خلیفہ وقت کے خطابات مل کر سن رہے ہیں۔ خاص طور پر خلیفہ وقت کا لجنہ کا خطاب تھا جس میں اسلام میں عورتوں کے حقوق بیان فرمائے۔ خطاب سن کر ہمیں مزید اللہ کے حضور جھکنا چاہیے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم عورتوں کی حفاظت فرمائی ہے۔ کہتی ہیں خطابات جذبات سے لبریز کر دیتے ہیں۔

گوئٹے مالا سے بائرن صاحب کہتے ہیں کہ میرے لیے جلسہ کا دن ایک خاص دن ہے اور کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ جلسہ سے کچھ عرصہ قبل گوئٹے مالا جماعت کے متعدد احباب کورونا وائرس کی وجہ سے بیمار ہوئے اور کچھ کی حالت تشویشناک حد تک چلی گئی لیکن آج گوئٹے مالا کے سب احباب یہاں بیٹھ کر اکٹھے جلسہ سن رہے ہیں اور کوئی ممبر بھی بیمار نہیں ہے۔ جب میں عیسائی تھا تو معجزات کا عجیب ہی تصور تھا ۔جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر مجھے معجزات کی حقیقت سمجھ آئی کہ اصل معجزہ انسان کے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ ایک سال قبل میں اکیلا مسجد میں آتا تھا۔ میری فیملی کا مسجد آنا اور اسلام قبول کرنا ناممکن لگتا تھا۔ آج میں اپنے ساتھ اپنی اہلیہ، بچوں، والدہ اور ایک بھائی برادر نسبتی اور اس کی فیملی کو بھی ساتھ لایا ہوںاور بیٹھا یہ جلسہ دیکھ رہا ہوں اور اس کو یقیناً ایک معجزہ سمجھتا ہوں۔ یہ صاحب بڑے مخلص سادہ سے احمدی ہیں اور معمولی آمد ہے لیکن تبلیغ کا ایک بڑا جذبہ ان میں پایا جاتا ہے۔ جہاں بھی جاتے ہیں تبلیغ کرتے ہیں اور مختلف احباب کو اپنے خرچ پر مسجد کا وزٹ کرواتے ہیں۔

گوئٹے مالا سے ہی رامیرو مارتینیز (Ramiro Martinez) کہتے ہیں میرے لیے آج کا دن بہت خاص تھا۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ یوکے کا جلسہ اور دوسری جگہ کے ویڈیو مناظر دیکھ کے یقین ہو گیا کہ یہ عالمگیر نظام یقیناً خدائی نظام ہے۔ خلیفہ وقت یقینا ًخدا کی طرف سے مقرر ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو کس طرح کی شکل معاشرے میں پیش کرنی چاہیے۔ میں بہت خوش ہوں۔ آئندہ سے خلیفہ وقت کے خطاب ہمیشہ سنوں گا۔ یہ صاحب پینتیس سال تک بائبل پڑھاتے رہے۔ مختلف عیسائی فرقوں کے ممبر رہے مگر ہمیشہ اختلاف کی وجہ سے ایک سے دوسرا فرقہ تبدیل کرتے رہے۔ خود تحقیق کر کے اسلام احمدیت قبول کی ہے۔ مسجد سے بیس کلو میٹر دور اِن کی رہائش ہے۔ جب سے انہوں نے احمدیت قبول کی ہے اس عرصہ میں صرف ایک جمعہ گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچے باقی باقاعدہ جمعہ پہ آتے ہیں۔ اور اپنے گھر میں پانچ وقتہ نمازوں کا اہتمام کیا ہو اہے۔

گوئٹے مالا سے اوالین گونزالیز (Evalin Gonzalez) کہتی ہیں کہ جلسہ یوکے میں براہ راست شامل ہو کر معلوم ہوا کہ جماعت احمدیہ کا ایک نظام ہے۔ سب ایک لڑی میں پروئے ہوئے نظر آئے اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس نظام کا حصہ بننے کا موقع دیا۔ مجھے افسوس ہے کہ خلیفہ وقت کی باتوں کو سننے سے ایک بڑا حصہ دنیا کا محروم ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں مسائل ہیں۔ جنگ کی کیفیت ہے۔ مجھے احمدیت میں داخل ہو کر یہ بات سمجھ آئی کہ دعا سے سب کچھ ہو سکتا ہے اور ہمارے بہت سے مسائل دعا سے حل ہو گئے۔ میرا اجڑتا ہوا گھر خلیفہ وقت کی دعا سے بچا۔ میرے پاس اس وقت الفاظ نہیں کہ خلیفہ وقت کا شکریہ ادا کر سکوں۔ کہتی ہیں پہلی مرتبہ شامل ہونے کی وجہ سے میں کہہ سکتی ہوں کہ میرے لیے کامیابیوں اور فتح کا سال ہے۔ ہم مکمل تو نہیں ہیں مگر ہمارا روحانیت کا ایک نیا سفر شروع ہو گیا ہے۔ میں آئندہ بھی ہر سال جلسہ میں شامل ہوا کروں گی۔

نائیجر کے احمدی دوست ایسیا بابا کہتے ہیں: میں نے خطبہ میں مہمان نوازی کے بارے میں سنا کہ امام مہدی علیہ السلام کس طرح اپنے آرام پر مہمانوں کے آرام کو فوقیت دیتے تھے اور خلیفہ وقت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مثال پیش کی کہ مہمانوں کے آرام کے لیے اپنی چارپائی بھی دے دی۔ ساری رات مشکل میں گزاری اور پھر اس کی مثال میں نے جلسہ میں دیکھی کہ کس طرح بھائی چارے کی فضا قائم تھی۔ کیچڑ میں پھنسی ہوئی گاڑیوں کو خدام اپنے آپ کی پروا کیے بغیر باہر نکال رہے تھے۔ شاید یہی بھائی چارہ ہے جس کی کمی کی وجہ سے آج مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور یہ حل ہمیں خلیفة المسیح نے بتا دیا۔

صمد غوری صاحب البانیا سے لکھتے ہیں: ایک دوست ڈاکٹر بیار (Bujar) صاحب نے بتایا کہ میں نے خلیفہ وقت کے خطابات کے علاوہ جلسہ سالانہ یوکے کے دیگر پروگرام بھی دیکھے ہیں۔ آجکل کے اس دور میں جلسہ سالانہ لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک اہم ضرورت ہے۔ کہتے ہیں خلیفہ وقت کے خطابات نہایت سادہ الفاظ میں لیکن موجودہ وقت کے بارے میں ایک عظیم پیغام لیے ہوئے تھے۔ ایسے وقت میں جبکہ تمام اخلاقی قوانین کو پامال کیا جا چکا ہے اور دنیا کو کہتے ہیں کہ یہ لوگ انسانیت کو حقوق دلائیں گے اور دنیا کو بچائیں گے جبکہ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ اصول تو دراصل پندرہ سو سال قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائے تھے جن کی علمبردار آج جماعت احمدیہ ہے۔ اس دفعہ جلسہ سالانہ میںجو نظارے دیکھے ان میں جماعت احمدیہ اور ہیومینٹی فرسٹ کے افریقہ کے غریب علاقوں میں خدمات کے نظارے نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ان بچوں کی دمکتی ہوئی آنکھیں حقیقت پر سے اس رنگ میں پردہ اٹھانے والی تھیں کہ ان کے آگے دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں کی لفاظیاں اور پروپیگنڈے ہیچ ہیں، وہ آنکھیں زندگی کی طلبگار ہیں اور پانی زندگی ہے جس کو وہ پہلی بار کتنے مزے سے چکھ رہے تھے۔

جلسہ سالانہ کے موقع پر جو خیر سگالی کے پیغامات موصول ہوئے۔ وہ یوکے، کے علاوہ نو ممالک سے اہم شخصیات کے خیر سگالی کے 109 پیغامات موصول ہوئے۔ ان میں ویڈیو پیغامات، آڈیو پیغامات، تحریری پیغامات شامل ہیں۔ یوکے کے علاوہ جن ممالک سے پیغامات آئے ان میں یوایس اے، سیرالیون، گیمبیا، سینیگال، کینیا، سپین، ہالینڈ، جرمنی شامل ہیں۔ پرائم منسٹر یوکے، پرائم منسٹر کینیڈا، پھریوکے کے لیبرپارٹی کے لیڈر Lib Dems کے یوکے کے لیڈر اس طرح اور بہت سارے politicians ہیں۔ پھر آٹھ منسٹرز، گیارہ شیڈو منسٹرز، چار سابق سیکرٹریان سٹیٹ، لندن پولیس کمشنر، چھ نیشنل مذہبی لیڈرز اور تیرہ میئرز کے پیغامات ملے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات کے پیغام ملے۔

ایم ٹی اے افریقہ کی رپورٹ یہ ہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ بھی افریقہ بھر میں جلسہ سالانہ یوکے کی نشریات دیکھی اور سنی گئیں جس کو ہم نے لوگوں کے تاثرات سے بھی دیکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے افریقہ کے علاوہ جلسہ سالانہ کی نشریات بعض دیگر مقامی ٹی وی چینلز پر بھی نشر کی گئیں۔ اس سال گیمبیا، سیرالیون، لائبیریا، گھانا، یوگنڈا، مالی، روانڈا، برونڈی، سینیگال، برکینا فاسومیں چودہ مختلف ٹی وی سٹیشنز پر میرے جو خطابات تھے براہ راست نشر کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق پچپن ملین سے زائد لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ کورونا کی وجہ سے افریقہ کے جو بیرونی مہمان شرکت نہیں کر سکے تھے ان کے مطالبات آ رہے تھے کہ ہمیں بھی شامل ہونے کا موقع دیا جائے۔

ہاؤسا زبان میں پہلی دفعہ ترجمہ ہوا۔ یہ زبان افریقہ میں پچاس ملین سے زائد لوگ بولتے ہیں۔ افریقہ کے سولہ مختلف ٹی وی چینلز نے جلسہ سالانہ یوکے کے حوالہ سے خبریں نشر کیں۔ ان چینلز کو دیکھنے والوں کی تعداد ساٹھ ملین سے زائد ہے۔ یوگنڈا سے مشنری ذکی صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سے پہلے مخالفین نےمختلف سوشل میڈیا پر جماعت کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا انہوں نے کہا کہ ان کا اپنا قرآن ہے وغیرہ وغیرہ اس لیے جلسہ نہ سنیں۔ جب انہوں نے بھی اشتہار دیا کہ جلسہ سنیں تو انہوں نےپروپیگنڈا شروع کر دیا کہ جلسہ نہ سنیں کیونکہ ان کا قرآن بھی اَور ہے۔ اس پروپیگنڈا کے نتیجہ میں یوگنڈا میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں کی توجہ جلسہ سالانہ کی طرف پیدا ہوئی۔ الٹا اثر ہو گیا اور بہت سے غیر احمدی احباب نے اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت کے خلاف اس پراپیگنڈا کی وجہ سے ہمیں جلسہ کے حوالے سے تجسس ہوا اور جلسہ دیکھنے کے بعد ہمارے دل بدل گئے ہیں اور ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ احمدیوں کا وہی قرآن ہے بلکہ وہ دوسروں کی نسبت قرآن کریم سے زیادہ عشق کرتے ہیں۔

یوگنڈا کے ایک کیتھولک دوست نے لکھا کہ میںنے یوگنڈا کے نیشنل ٹی وی پر جلسہ کا اشتہار دیکھا کہ یوکے میں کوئی اسلامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ دیکھوں کیسی کانفرنس ہے۔ چنانچہ ہفتہ کے روز میں نے ٹی وی لگایا تو سفید پگڑی والے ایک شخص کو دیکھا جو خطاب کر رہے تھے۔ میں نے خطاب سننا شروع کیا تو ٹی وی کے سامنے سے اٹھ نہیں پایا اور شروع سے لے کر آخر تک مکمل خطاب سنا۔ کہنے لگے کہ عورتوں کے متعلق اسلامی تعلیمات کہیں نہیں ملتیں اور میں نے کسی شخص کو عورتوں کے حقوق کے بارے میں اس طرح آواز اٹھاتے کبھی نہیں دیکھا۔ انہوںنے اسی وقت سکرین پر دیے گئے نمبر پہ رابطہ کیا اور کہا کہ جو عورتوں کا خطاب تھا مجھے اس خطاب کا سکرپٹ (script) چاہیے۔ چنانچہ انہیں وہ ان شاء اللہ بھجوا دیا جائے گا۔

غیر از جماعت دوست عبداللہ کوئی (Quye) صاحب لائبیریا سے ہیں۔کہتے ہیں کہ میرا مقصد جلسہ کے پروگرام دیکھنے کا یہ تھا کہ مجھے احمدی مسلمانوں اور دیگر مسلمانوں میںفرق پتہ چلے اور میرے پر واضح ہو کہ جماعت احمدیہ کے بارے میں جو غیراحمدی علماء بتاتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے۔ جلسہ کے دیکھنے کے بعد مجھے پورا یقین ہو گیا کہ جماعت کے خلاف سب منفی پروپیگنڈا ہے۔ سب جھوٹ ہے۔ حقیقت میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا پیغام دنیا میں پہنچ رہا ہے اور میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ باقی لوگوں کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کروں کہ صرف جماعت احمدیہ حقیقی طور پر دین اسلام کی اشاعت کر رہی ہے۔

لائبیریا سے غیر احمدی دوست ہیں۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ مذہبی رواداری کی بنا پر جلسہ کی کارروائی دیکھنے کے لیے شامل ہوا تھا۔ جب میں نے سٹیج کے پردہ پر لکھی قرآنی آیت پڑھی تو یہ بات میرے لیے بےحد حیران کن تھی کہ احمدیوں کے بارے میں غیر احمدی علماء یہ مشہور کرتے ہیں کہ احمدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں تسلیم کرتے اور ان کی عزت نہیں کرتے لیکن اس سب کے برعکس احمدی تو پوری دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا پرچار کر رہے ہیں اور جس طرح جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے قرآن کریم کی تعلیم اور بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اپنے خطاب میں کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ دوسری چیزیں بعدمیں بیچ میں آ گئی تھیں۔ بہرحال اب آگے پھر پریس اینڈ میڈیا کا ذکر ہے۔ پریس اینڈ میڈیا کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوریج ہوئی۔ اور بی بی سی نے اپنے ریجنل ٹی وی میں دیا، بی بی سی ساؤتھ نے دیا، ایک ڈاکومنٹری بھی چلائی اور یہ رپورٹ بی بی سی ورلڈ نے بھی نشرکی جو دوسو ممالک میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بی بی سی نیشنل نیوز چینل پر بھی یہ خبر نشر ہوئی اور repeat بھی ہوتی رہی۔ کہتے ہیں کہ معین طور پر کتنے افراد تک پیغام پہنچا یہ بتانا تو مشکل ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق یہ کوریج باون ملین افراد تک تھی۔ چالیس ویب سائٹس نے جلسہ کی خبر نشر کی۔ ان کی اپنی ریڈر شپ ستائیس ملین افراد ہے۔ بیس اخبارات وغیرہ میں جلسہ کے بارے میں آرٹیکل شائع ہوئے، اس کی ریڈر شپ سات لاکھ پینتیس ہزار ہے۔ جلسہ کے حوالہ سے سولہ ریڈیو پروگرام نشر ہوئے، سولہ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا۔ اسی طرح بارہ ٹیلی ویژن چینلز نے جلسہ کی خبر نشر کی جن کی کوریج بائیس لاکھ افراد تک ہے۔ ان تمام ذرائع کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی اندازاً تریسٹھ لاکھ افراد تک پیغام پہنچا۔

ڈھاکہ سے امیر صاحب بنگلہ دیش کہتے ہیں ڈھاکہ کی مرکزی مسجد نارائن گنج، برہمن باڑیہ، چٹاگانگ میں لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ شمولیت ہوئی۔ کہتے ہیں کہ رپورٹ کے مطابق آٹھ سو سے زائد غیراز جماعت مہمانوں نے جلسہ کی کارروائی سنی اور استفادہ کیا۔ پھرکہتے ہیں بنگلہ دیش کے دس آن لائن پورٹلز اور اخباروں میں جلسہ کی خبریں بمع تصاویر شائع ہوئیں۔ ان میں سے تین بہت مشہور اور معروف ہیں۔ بہت ہی محتاط اندازے کے مطابق آن لائن پورٹلز اور اخباروں کے ذریعہ سے کم از کم چوّن لاکھ احباب نے یہ خبریں پڑھی ہیں۔

ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ جو کوریج ہے وہ یہ ہے کہ یوٹیوب پر پندرہ ملین سے زائد لوگوں نے وزٹ کیا۔ تقریباً پانچ لاکھ گھنٹے یوٹیوب کے ذریعہ ایم ٹی اے دیکھا گیا۔ انسٹا گرام پر پینتیس ہزار لوگوں نے ایم ٹی اے کا پیج دیکھا اور ایک اعشاریہ نو سات (1.97) ملین لوگوں تک اس کی رسائی ہوئی۔ ٹوئٹر پر ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے ایم ٹی اے کا پیج دیکھا۔ پینتیس ہزار سے زائد لوگوں نے اس کو پسند کیا اور آگے دوسروں کو پہنچایا۔ فیس بک کے ذریعہ بھی ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد احباب تک پیغام پہنچا۔ اسی طرح ایم ٹی اے کی اپنی ویب سائٹ کو ایک لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔ ایم ٹی اے آن ڈیمانڈ کے ذریعہ بھی دو لاکھ سے زائد احباب نے جلسہ کو دیکھا۔
تو یہ مختصر سی بعض باتیں تھیں اس پر بھی کافی وقت لگ گیا۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے دُوررس نتائج بھی پیدا فرمائے اور سعید روحوں کو احمدیت اور حقیقی اسلام کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ پیدا ہو اور نام نہاد علماء کے شر سے جماعت کو اور تمام سعید روحوں کو محفوظ رکھے۔

٭…٭…٭

(الفضل انٹرنیشنل 03؍ستمبر 2021ء صفحہ 5تا11)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button