آسٹریلیا (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ آسٹریلیا کی (آن لائن) ملاقات

اگر آپ دنیاوی چیزوں سے لطف بھی اٹھا رہے ہوں تو بھی یہ خیال رہے کہ آپ حقوق اللہ کو ترجیح دینے والے ہوں اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے والے ہوں

21؍مارچ 2021ء کو امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی 40سے زائد ناصرات الاحمدیہ سے ملاقات فرمائی جن کی عمر 13 سے 15سال تک تھی۔

ملاقات کے آغاز میں حضور انور نے آسٹریلیا میں آنے والے سیلاب کے متعلق استفسار فرمایا کہ وہاں (آسٹریلیا)میں تو سیلاب آیا ہوا ہے تو آپ لوگ یہاں کیسے پہنچے؟ اس پر لجنہ اماء اللہ کی ایک ممبر نے بتایا کہ حضور جہاں ہم اکٹھے ہوئے ہیں اس مسجد کے تین اطراف پانی ہے اور ایک طرف بھی سڑک پر سیلابی پانی کھڑا ہے۔ اس پر حضورِ انور نے فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ جو بچیاں آئی ہوئی ہیں وہ واپس جا سکیں گی یا رات یہیں رہیں گی؟ اس پر ممبر لجنہ اماءاللہ نے بتایا کہ حضور اس کا فیصلہ کلاس کے بعد حالات دیکھ کر ہی کر سکیں گے۔ پھر حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ کیا رات کے قیام کا انتظام کیاہوا ہے، بستروں وغیرہ کا؟ اس پر ممبر لجنہ اماء اللہ نے بتایا کہ بستروں کا انتظام موجودہے۔ پھر حضور انور نے دوبارہ استفسار فرمایا کہ اگر بچیاں یہاں رات ٹھہریں گی تو صبح ناشتے کا انتظام ہو جائے گا اور سیلاب کی وجہ سے ناشتے کے انتظامات میں دقّت تو نہیں ہوگی؟ اس پر ممبر لجنہ اماء اللہ نے بتایا کہ جی حضور ناشتہ کا انتظام بھی ہو جائے گا۔ انشاء اللہ۔ (اس پر حضور انور نے اطمینان کا اظہار فرمایا اور تبسم فرمایا)۔

اس تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد حدیث نبویﷺ پیش کی گئی۔ بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات میں سے ایک اقتباس پڑھا گیا اورایک نظم پڑھی گئی۔ ایک گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں ناصرات الاحمدیہ کو حضور انور سے چند سوالات کرنے کا موقع بھی ملا۔

ایک ناصرہ نے سوال پوچھا کہ پیارے حضور! کیا ایسے حالات میں جبکہ کوئی مرد میسر نہ ہو، کوئی عورت قربانی کے جانور کو ذبح کر سکتی ہے؟ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ہاں، تم کر سکتی ہو، اگر تمہارے میں اتنی ہمت ہے کہ تم جانور ذبح کر سکتی ہو تو ذبح کر سکتی ہو۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ بہت تیز چھری استعمال کی جائے اور پوری طاقت سے ذبح کرو تاکہ جانور زیادہ دیر تکلیف میں نہ رہے۔ تیزی سے ایک ہی مرتبہ اس کو ذبح کرو۔ اس لیے اگر ہمت ہے تو ذبح کر سکتی ہو،(حضور ا نور نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ) تمہیں کس نے کہا ہےکہ قربانی کو ذبح کرنا صرف مردوں کا ہی کام ہے۔

ایک سوال کے جواب میں کہ کس طرح سکول کی پڑھائی اور دینی تعلیم کو ساتھ ساتھ لے کر چلا جائے حضور انور نے فرمایا: آپ کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت سکول کی پڑھائی میں صرف کرنا چاہیے اور ایک گھنٹہ یا نصف گھنٹہ بھی ناصرات کے نصاب کے لیے یا اسلامی تعلیمات کی کتب کے مطالعہ کے لیے کافی ہے۔ اس لیے دو گھنٹے یا تین گھنٹے یا جتنا وقت بھی آپ کو سکول کا کام مکمل کرنے کے لیے درکار ہے اس میں صرف کریں اور پھر نصف گھنٹہ یا ایک گھنٹہ دینی معلومات کے حصول میں صرف کریں اور یہ کافی ہے۔ اس طرح آپ سکول کی پڑھائی اور دینی تعلیمات دونوں کا حق ادا کرسکتی ہیں۔

ایک ناصرہ نے حضور انور سے دریافت کیا کہ حضور انور کو رمضان میں سحر و افطار میں کیا کھانا پسند ہے؟

حضور انور نے فرما یا کہ میں بالعموم جو ناشتہ کرتا ہوں وہی سحری میں لیتا ہوں اور جو میں کھانا کھاتا ہوں وہی افطاری میں کھا لیتا ہوں۔ جیساکہ یہ آنحضرتﷺ کی سنت ہے، میں افطاری کھجور سے کرتاہوں۔ پھر میں جیساکہ بالعموم لوگ فضول چیزیں کھاتے ہیں جیسے سموسے، پکوڑے اور چاٹ وغیرہ اور دیگر غیرضروری کھانے ،بالکل نہیں کھاتا۔ میں اتنا زیادہ بھی نہیں کھاتا کہ افطاری کے بعد پریشانی محسوس ہو اور صبح کے وقت روزہ رکھنے کے لیے اٹھنے میں بھی دقت محسوس ہو۔ اس لیے ایک سادہ روٹین ہونی چاہیے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ایک معاشرے کے طور پر ہم نے یہ روایت بنا لی ہے کہ رمضان کے سحر و افطار میں ضرور ہم نے کوئی خاص چیز کھانی ہے۔ یوں ایک طرف تو ہم غیرضروری خرچ بڑھا لیتے ہیں اور پیٹ الگ خراب ہو جاتاہے اور روزہ رکھ کر پورا دن آ پ کو سستی رہتی ہے۔ روزہ کا مزہ تو تب ہے کہ جو آپ اپنی معمول کی خوراک کھاتے ہیں اسی سے روزہ رکھو اور اسی سے روزہ کھولو اور وہ پیسے جو آپ شاہانہ چیزوں کے کھانے میں خرچ کرتے ہیں وہ صدقہ و خیرات میں دے دو۔

ایک اور ناصرہ نے تقویٰ کے حوالہ سے ایک حدیث بیان کی کہ ’یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے‘ اور حضور انور سے سوال پوچھا کہ کیا اگر کوئی اپنے دینی فرائض پورے کرتا ہے اور پھر دنیاوی چیزوں سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے تو کیا وہ متقی نہیں ہے؟

اس سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرما یا کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ متقی انسان دنیاوی چیزوں کو دینی تعلیمات، عبادات اور دینی فرائض پر ترجیح نہیں دیتا۔ اگر آپ دین کو دنیا پر ترجیح دے رہی ہیں، پنجوقتہ نماز پوری توجہ سےادا کر رہی ہیں اوراپنی نمازیں سنوار کر ادا کر رہی ہیں اور استغفار کر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کودن بھر یاد کرتی رہتی ہیں اور برے کام نہیں کر رہیں اور پھر ساتھ میں نوکری بھی کر رہی ہیں اور مناسب منافع بخش آمدن بھی ہے پھر اگرچہ آپ پیسے کما رہی ہیں اور دنیاوی چیزوں سے لطف بھی اٹھا رہی ہیں، آپ گاڑی بھی استعمال کررہی ہیں، اچھا لباس پہن رہی ہیں اور اچھے گھر میں رہ رہی ہیں۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو آج کے دَور میں زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں اور یہ آپ کو آرام اور سہولت دیتی ہیں اور آپ ان سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔ لیکن آپ کو صرف ان چیزوں کے پیچھے ہی نہیں بھاگنا چاہیے اور ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو بھول جائیں۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے ان چیزوں کو بھی حاصل کریں اور اپنی زندگی کو پُرسہولت بنائیں اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے، اپنی فیملی کے لیے تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ وہ لوگ جو صرف اس دنیا کو ہی ہمیشگی کی چیز سمجھ بیٹھتے ہیں اور حقوق اللہ کو بھلا دیتے ہیں تو پھر یہ دنیا آ پ کے لیے ایک جہنم بن جاتی ہے۔ اگرچہ آپ کی نظر میں یہ جنت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ آپ کے لیے اچھی نہیں ہے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ اس کے برعکس، ایک آدمی جو ہمیشہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے جملہ احکامات کو بجا لانے والا ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے لیے ہمیشہ ان حقوق کا کما حقہ ادا کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہ بسا اوقات اس میں تکلیف محسوس کرتا ہے پھر اگرچہ لوگوں کا خیال ہو کہ یہ دنیا اس کے لیے قیدخانہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ آخرت میں اپنے لیے جنت کا سامان کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر آپ دنیاوی چیزوں سے لطف بھی اٹھا رہے ہوں تو بھی یہ خیال رہے کہ آپ حقوق اللہ کو ترجیح دینے والے ہوں اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے والے ہوں۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا اگر کوئی یہ کہے کہ وہ احمدیت پر ایمان لاتا ہے اور ان تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہےلیکن انہوں نے بیعت نہ کی ہو تو کیا ایسی صورت میں ایسا مرد یا عورت احمدی کہلانے کا مستحق ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں اگر وہ کہتا ہے کہ وہ احمدیت پر ایمان لاتا ہے اور بیعت نہیں کرتا تواس کا مطلب ہے کہ وہ جماعت میں شمولیت کی اصل شرط سے انحراف کر رہاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر اس شخص سے جو آپ کو مانتا ہے بیعت کرنے کا ارشاد فرمایا ہے تاکہ وہ جماعت کا حصہ بن سکے اور پور ی طرح جماعت کی آغوش میں آسکے۔ پھر جماعت کے قواعد و ضوابط پر بھی پوری طرح عمل کرے۔ اگر وہ کہتا ہے کہ وہ احمدیت پر ایمان لاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ وہ ایمان لاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچے ہیں اور وہی موعود وجود ہیں جنہوں نے بعد کے ایام میں ظاہر ہونا تھا اور جن کی خوش خبری آنحضرتﷺ نے عطا فرما ئی تھی۔ لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتا یا آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر اور جماعت میں باقاعدہ داخل نہیں ہوتا تو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک اچھا انسان ہے لیکن ہم اسے احمدی نہیں کہہ سکتے۔ بیعت بہت ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم میں لکھاہو اہے کہ آنحضرتﷺ بیعت لیا کرتے تھے پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیعت لی۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کا اجرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا اور جب آپ بیعت کریں گے تو تب ہی ا ٓپ شرائط بیعت پر عمل بھی کریں گے۔ اسی لیے بیعت کی بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں اور جب آپ بیعت کرتے ہیں تو وہ شرائط پوری کرنی ضروری ہوتی ہیں۔ اگر بیعت کرنے کے بعد آپ وہ شرائط پوری نہیں کریں گےتو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے محض زبانی طور پر بیعت کی ہے لیکن آپ اصل تعلیمات پر عمل نہیں کر رہے۔ اس لیے جو شخص بیعت کرتا ہے مگر شرائط بیعت کو پورا نہیں کرتا وہ ایک اچھا آدمی نہیں ہے اور ایک ایسا شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سچا مانتا ہے لیکن بیعت نہیں کرتا وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی شرائط کو پورا نہیں کرتا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی لیے میں نے شرائط بیعت کے حوالہ سے خطبات کا سلسلہ چلایا تھا اور بعض دیگر مواقع پر بھی خطابات کیے تھے شرائط بیعت کے حوالہ سے، تو آپ کو میری وہ (شرائط بیعت ) والی کتاب پڑھنی چاہیے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے اور بیعت کرنے کے بعد آپ کے کیا فرائض ہیں۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ وہ اپنی ہم مکتب کو ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کے کون سے دلائل دے سکتی ہے؟

حضورِ انور نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو جو مذہب کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہیں یا منکر ہیں قبولیت دعا کے ذاتی تجربات بتانے چاہئیں۔

پھر حضورِ انور نے اس ناصرہ سے استفسار فرمایا کہ کیا اس کی کوئی دعا کبھی قبو ل ہوئی ہے ؟تو اس نے جواب دیا کہ جی حضور قبول ہوئی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو اپنی سہیلیوں کو بتانا چاہیے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس نے میری دعا قبول کی۔ اس سے اللہ کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ آپ کو وہ کتاب ’ہمارا خدا‘ بھی پڑھنی چاہیے، وہاں آپ کو ہستی باری تعالیٰ کے کئی دلائل مل جائیں گے۔ پھر آ پ کو حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ’ہستی باری تعالیٰ کے دس دلائل‘ بھی پڑھنی چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی مثال پیش کریں کہ میں خدا پر کامل ایمان رکھتی ہوں اور جب میں نے خد اسے دعا کی تو خدا نے میری دعا قبول کی اور اس (قبولیت) نے میرے ایمان کو مزید تقویت دی۔

ناصرات الاحمدیہ میں سے ایک نے سر پر سکارف لینے کے بارے میں استفسار کیا۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: اگر دوسرے لوگ آپ سے پوچھیں کہ آپ نے کیوں سر پر سکارف لیا ہوا ہے تو آپ انہیں بتائیں کہ ہمارے مذہب کی بنیادی تعلیم شرم و حیا ہے اور ہمیں ہمیشہ ایک شرم و حیا والے لباس میں ہونا چاہیے اور سر کو ڈھانپنا بھی شرم و حیا والے لباس کا حصہ ہے۔ اسی لیے پرانے وقتوںمیں عیسائی Nunsبھی سکارف پہنتی تھیں اور آج کل بھی چرچز میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی سکارف کا پہننا شرم و حیا والے لباس کا حصہ ہے۔ اسی لیے ہم سکارف پہنتے ہیں۔

ایک ناصرہ نے پوچھا کہ ہائی سکول کی پڑھائی کے پریشر کو کس طرح برداشت کیا جائے اور اچھے رنگ میں پڑھائی کیسے کی جائے؟ اس کے جواب میں حضورا نور نے فرمایا کہ جو بھی آپ نے اگلے دن پڑھنا ہو، اس کو گھر سے پڑھ کر جائیں اور پھر جب آپ کلاس میں ٹیچر کا لیکچر سن رہی ہوں گی تو آپ کے لیے سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ پھر جب آپ گھر واپس آئیں تو اس کی دہرائی کریں۔ پھر آپ پر زیادہ دباؤ نہیں پڑے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں۔ اپنی دعاؤں میں یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے یہ کام آسان کرے۔

حضور انور نے فرمایاکہ طلبہ کو اپنی پنجوقتہ نمازوں میں اپنی کامیابی کے لیے دعا کرنی چاہیے اور یہ چیز انہیں پر سکون رکھے گی اور ان کی پڑھائی کا دباؤ اور پریشانی بھی کم ہوگی۔ مزید برآں حضور انور نے دو قرآنی دعاؤں

رَبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا اور رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیْ وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ

کا ذکر فرمایا اور ان کو باقاعدگی سے پڑھنے کی تلقین فرمائی۔

ایک اور ناصرہ نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام سے پہلے شراب کیوں حرام قرار نہیں دی تھی جبکہ یہ انسانوں کے لیے مضر تھی۔ اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اسلام سے پہلے مکہ میں لوگ بغیر کسی پابندی کے شراب پیتے تھے اور اکثر شراب کے نشہ میں رہتے تھے تاہم پھر بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو الکوحل کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اسلام سے پہلے بھی یہی خیال کرتے تھے کہ شراب اچھی چیز نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے کبھی شراب نہیں پی تھی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام سے پہلے بھی ان کا یہی خیال تھا کہ الکوحل کوئی اچھی چیز نہیں ہے اور نقصان دہ ہے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ بعد ازاں اسلامی تعلیمات آنحضرتﷺ پر نازل ہوئیں ،ہر چیز کے بارے میں احکامات نازل ہوئے اور اسلام ایک کامل مذہب کے طور پر ظاہر ہوا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر وہ چیز جو انسانوں پر منفی اثرات ڈالتی ہے تو اس کی قلیل مقدار بھی استعما ل نہیں کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک واضح حکم ہے کہ ہمیں الکوحل نہیں پینی چاہیے کیونکہ اس سے انسان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور یوں وہ اپنی عبادت اور دعاؤں پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتا اور ان کے دوسروں سے روزمرہ کےتعلقا ت بھی بری طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔

ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ کسی بھی غیر مسلم کو قائل کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے کہ میت کی تدفین اس کو جلانے سے بہتر اور معزز طریق ہے۔

حضور انور نے فرمایاکہ اسلام کے مطابق سب سے بہتر طریق یہ ہے کہ کسی میت کو ایک کپڑے میں لپیٹا جائے اور ایک کفن میں اس کی تدفین کر دی جائے۔ اور اس پر کتبہ لگا دیا جائے اور پھر آپ اس کو یاد رکھیں بجائے اس کے کہ آپ اس میت کو جلا کر نیست و نابود کردیں۔ تو بہترین طریق یہی ہے کہ اس میت کو ایسے ہی رکھا جائے اور پھر باقی معاملات خدا پر چھوڑ دیے جائیں۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ میت خود ہی گل سڑ جائے گی اور صرف ہڈیاں رہ جائیں گی۔ یہ اسلامی تعلیم ہے اور زمانہ قدیم سے ہی ایسا ہوتا چلا آرہا ہے۔ پھر حضور انور نے فرمایا کہ یہ بھی خیال رہے کہ سب لوگوں پر ایک دوسرے کی مذہبی اور مقدس روایات کا احترام کرنا واجب ہے بجائے اس کے کہ باہمی اختلافات کو بیان کرکے باہمی تقسیم اور اختلاف کو ہوا دی جائے اور ایک دوسرے کے عقائد اور روایات کی مذمت کی جائے۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ہر مذہب کا میت کو احترام دینے کا اپنا طریق ہے اور میت کی تدفین کرنا اسلام کا طریق ہے۔ اگر ہم دوسروں سے بحث نہ کریں اور ان کی تعلیمات کو برابھلا نہ کہیں تو وہ ہمارے ساتھ بحث کیوں کریں گے اور ہمارے مذہب کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیوں کریں گے یا ہماری مذہبی تعلیمات کے بارے میں اعتراضات کیوں کریں گے! آپ کو بجائے ان معاملات پر بحث کرنے کے یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں قطع نظر ایک دوسرے کی روایات کے، باہمی روا داری سے رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ یہ ایک ساتھ زندگی گزارنے کا بہترین طریق ہے۔

اس ملاقات کے دوران حضور انور کو آسٹریلیا اور خاص طورپر South Walesمیں شدید سیلاب کے حوالہ سے آگاہ کیا گیا۔ حضور انور نے ان کے محفوظ رہنے اور سب متاثرین کی آسودہ حالی کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button