اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (قسط سوم۔ آخری)
جولائی2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ انتظامیہ احمدیوں کے حقوق کو صرف اور صرف ملاں کی خوشنودی کے لیے پامال کردیتی ہے
یونیورسٹی میں پڑھنے والا
احمدی طالب علم نفرت اور تعصب کا شکار
جی سی یونیورسٹی فیصل آباد (جولائی 2020ء):
(۔)جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایک احمدی طالب ہے جس نے اپنے احمدی ہونے کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ کچھ عرصہ قبل، موصوف کے کچھ ہم جماعتوں کو اس کے احمدی ہونے کا علم ہوگیا۔ مورخہ 23؍جون 2020ء کو انہوں نے اسے نہایت نفرت آمیز اور گالیوں سے بھری ہوئی ٹیلیفون کال کی۔
اس کے بعد فیصل آباد سے تعلق رکھنے اس احمدی طالبعلم کے کچھ ہم جماعتوں نے اُس کے خلاف یونیورسٹی کے واٹس ایپ گروپ اور فیس بُک پر اس کے خلاف نفرت آمیز مہم چلائی۔
نتیجۃً اس نے اس شر انگیزی کے خوف سے اپنا فون بند کردیا اور اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کردیے۔ اس ساری صورت حال کے پیش نظر موصوف ایک مسلسل خوف اور ہراسگی کی کیفیت کا شکار ہے۔ اب انہیں محتاط رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں احمدیوں پر مظالم
بستی احمد پور، جھکر امام شاہ،
ضلع ڈیرہ غازی خان (جولائی2020ء):
ضلع ڈیر ہ غازی خان کے احمدیوں کے خلاف مقامی سطح پر نفرت انگیز آن لائن مہم چلائی گئی۔ مخالفین نے مقامی کاروباری لوگوں کو بھڑکایا کہ احمدیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا لین دین ’شریعت‘ کے خلاف ہے۔ احمدیوں کے خلاف تقاریر کی گئیں اور احمدیوں کی دکانوں پر احمدی مخالف سٹیکر آویزاں کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مقامی احمدیوں کی تصاویر بھی وائرل کی گئیں جن پر سرخ سطور کھینچ کر یہ پیغام دیا گیا تھا کہ احمدی کافر ہیں، یہ مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں، یہ مسلمانوں میں قادیانیت پھیلا رہے ہیں، یہ قرضے دینے کے بعد مسلمانوں کو ہراساں کرتے ہیں۔
20؍جولائی 2020ء کو ایک پولیس کانسٹیبل نے احمدیہ مسجد کی کچھ تصاویر اُتاریں اور مزید کہا کہ وہ احمدیہ قبرستان کی تصاویر بھی لینا چاہتا ہے۔ چابی دستیاب نہ ہونے کے باوجود وہ تالا توڑ کر قبرستان میں داخل ہوگیا اور تصاویر کھینچنے لگا۔ اس کے بعد ایک احمدی سیکیورٹی گارڈ نے اطلاع دی کہ بعض اَور شرپسندافراد رات کے وقت دیوار پھلانگ کر قبرستان میں داخل ہوئے اور کتبوں وغیرہ کی تصاویر اُتاریں۔ انہوں نے مسجد کے میناروں وغیرہ کی تصاویر بھی کھینچیں۔ اس کے بعد انہوں نے ان ’’ثبوتوں‘‘ کی بنیاد پر اسسٹنٹ کمشنر کو شکایت بھجوادی۔
یاد رہے کہ ان دنوں مدرسہ ارشاد حقانی نیٹ ورک کے چند غنڈوں کو علاقے میں بلا کر اُن کا میزبان بنا ہوا ہے۔ مخالفین نے احمدیوں کو علاقہ چھوڑنے کا کہا ہے، چنانچہ احمدی پہلے سے زیاہ محتاط ہوچکے ہیں۔
احمدی ملازم پر
عقیدہ کی وجہ سے ادارہ جاتی کارروائی
ریلوے لائن، راولپنڈی (7؍جولائی 2020ء):
ایک احمدی (۔)راولپنڈی ریلوے میں گذشتہ 31 برس سے ملازمت کررہا ہے۔ تھوڑا عرصہ قبل ان کے ایک کولیگ نے احمدیت کی وجہ سے ان کے خلاف ادارہ جاتی سطح پر کارروائی کی درخواست جمع کرائی ہے۔ شکایت کنندہ کا کہنا ہےکہ موصوف دراصل ایک غیر مسلم ہے جو اپنے آپ کو مسلم ظاہر کرتا ہے اور قرآن و حدیث کا غلط استعمال کرتا ہے۔
متعصب شکایت کنندہ کے مطابق چونکہ موصوف ایک احمدی ہے، اسی لیے دوسرے ملازمین نے اس کے زیرِ استعمال برتن وغیرہ توڑ دیے ہیں۔
شکایت کے جواب میں ریلوے نے اس احمدی سے وضاحت طلب کرلی جس پر انہوں نے اپنا تحریری جواب داخل کرادیا ہے۔ اگرچہ ریلوے کے ایک افسر نے مذکورہ احمدیہ کو یقین دہائی کرائی ہے کہ انہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی وہ محتاط رہتے ہوئے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔
آزادیٔ مذہب کا بنیادی حق غصب کرلیا گیا!
کوٹلی نتھو ملہی، ضلع نارووال، پنجاب(جولائی 2020ء):
علاقہ کے SHOنے مقامی احمدی قیادت کو بتایا کہ کسی نے ان کو شکایت کی ہے کہ احمدیوں نے اپنی مسجد کے اندر کلمہ لکھ رکھا ہے، چنانچہ آپ وہ کلمہ مٹا دیں۔ یاد رہے کہ مسجد پر یہ کلمہ آج سے 30 سال قبل لکھا گیا تھا۔
اس شکایت پر احمدی بہت تشویش اور پریشانی کا شکار ہوئے۔ احمدیہ قیادت نے اعلیٰ انتظامیہ اور بااثر افراد سے ملاقاتیں کرکے ان تک اپنا موقِف پہنچایا۔ علاوہ ازیں، احمدیوں نے ڈی پی او نارووال سے بھی ملاقات کی اور اس بات کو وضاحت سے بیان کیا کہ احمدی نہ تو خود یہ مقدس کلمات مٹائیں گے اور نہ ہی کسی سویلین کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ کلمات مٹا سکیں۔ ڈی پی او نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا جائے گا۔
انتظامیہ کی طرف سے اسی طرح کے مزید پیغامات قیام پور سڑک والا، بوباک مرالی اور نارووال شہر میں رہنے والے احمدیوں کو بھی دیے گئے۔ یہاں بھی احمدیوں نے وہی جواب دیا اور کہا کہ نہ تو ہم خود یہ مقدس کلمات مٹائیں گے اور نہ ہی کسی سویلین کو اجازت دیں گے کہ وہ ان کلمات کو مٹائے۔
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ انتظامیہ احمدیوں کے حقوق کو صرف اور صرف ملاں کی خوشنودی کے لیے پامال کردیتی ہے۔
باہمت مقرر خواجہ محمد آصف (MNA)
اسلام آباد (جولائی 2020ء):
ایک دانشور مسٹر راجا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے، پاکستان کے اکثر سیاسی راہنما اظہارِ ہمدردی کی بجائے، اُن (احمدیوں) کے خلاف نفرت اور تعصب دکھانے میں ایک دوسرے پرسبقت لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ جی این این 9؍جولائی 2020ء کے مطابق سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خواجہ محمد آصف نے اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے بارے میں بہت جرأت اور وضاحت کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا۔ ان کا بیان ریکارڈ کے لیے درج کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اقلیتوں کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ دلآزار خاکے نشر کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ ہمارے ملک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اُن کی عبادت گاہوں کا تحفظ اور تقدس یقینی بنائیں۔ 1980ءکی دہائی میں جو ہوا، اُس نے ہماری سوچ اور طرزِ فکر کو بہت بری طرح متاثر کیا۔ اس نے ہمارے قومی شعور کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ اس سے خدانخواستہ ہم تباہی کے رستہ پہ گامزن ہوسکتے ہیں۔ 60اور 70کی دہائیوں میں ہمارا معاشرہ بہت حد تک معتدل اور فراخدل تھا۔
نیویارک میں ایک دفعہ میں نےعید کی نماز چرچ میں پڑھی تھی۔ یہاں ایسا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ زمین تمام بائیس کروڑ شہریوں کی ہے۔ کسی مذہب کے دوسرے پر مقدم ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ (یاد رہے کہ اس بات کو لے کر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے بہت سخت ردِ عمل دیا )۔ اس کے جواب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہا گیا۔ ان کی تو کوئی تربیت ہی نہیں جبکہ مجھے قائدِ اعظم کے فرمودات اور ارشادات پر عمل کرنا سکھایا گیا ہے۔ موازنہ مذہب کے متعلق میرا تبصرہ صرف سیاسی امور کی حد تک تھا۔ بحیثیت منتخب نمائندگان، یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم معاشرے میں رواداری اور اتحاد کو فروغ دیں۔ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت کو فروغ دینا ہوگا۔ آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کے زمانہ میں اقلیتیں بالکل محفوظ تھیں۔ ہمارے ذمہ پیغام کا پہنچا دینا ہے۔
بلاشبہ خواجہ آصف کی یہ تقریر قومی اسمبلی کی اہم ترین تقاریر میں شمار کی جائے گی۔
مقدمات اور قید و بند کی
صعوبتیں برداشت کرنے والے احمدی!
13؍مئی 2014ء کو تعزیراتِ پاکستان 295-A، 337۔ 2اور 427کے تحت تھانہ شرق پور میں چار افرادِ جماعت کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔ ان احمدیوں کے نام خلیل احمد، غلام احمد، احسان احمد، اور مبشر احمد ہیں۔ 16؍مئی 2014ء کو پولیس کی حراست میں مدرسے کے ایک طالب علم نے خلیل احمد صاحب کو شہید کردیا۔ باقی تین احمدیوں کو 18؍جولائی 2014ء کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور ایک سال بعد، سیشن کورٹ کے جج کی سفارش پر اُن کے مقدمہ میں 295-Cکی خوفناک شق شامل کرلی گئی۔ 11؍اکتوبر 2017ء کو سیشن کورٹ کے ایک جج نے ان احمدیوں کو سزائے موت سُنائی۔ اس فیصلہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور ڈھائی سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود، عدالت کو ان احمدیوں کا مقدمہ سننے کا وقت نہیں ملا۔
یہ تین احمدی 6 سال سے زائد عرصہ سے قید ہیں
20؍جنوری 2018ء کو تاندلیاں والا پولیس سٹیشن ضلع فیصل آباد میں ایک احمدی سعید احمد وڑائچ صاحب کے خلاف تعزیرات پاکستان 295-C ایف آئی آر نمبر 645 کے تحت توہین مذہب کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔ سعید احمد صاحب کو اس سے ایک روز قبل گرفتار کرلیا گیا تھا۔ وہ گذشتہ ڈھائی سال سے قید میں ہیں۔
طالبِ علم جامعہ، اساتذہ ودیگر کے خلاف سوشل میڈیا پر قُرانی آیات بھجوانے کے ’’جرم‘‘ میں 12؍نومبر 2019ء کو سائبر کرائم قوانین کے تحت FIRنمبر 2019/152 کے ضمن میں احمدی مخالف تعزیراتِ پاکستان 298-C، توہین مذہب کی شق 295-A,، PECA-11، اور تعزیرات پاکستان نمبر120-B، 109، اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ وقار احمد صاحب کو گرفتار بھی کیا گیا۔
چک 120 چلیکی ضلع ننکانہ میں ایک پچپن سالہ احمدی خاتون رمضان بی بی کے خلاف تعزیراتِ پاکستان 295-Cکے تحت 30؍اپریل 2020ء کو پولیس سٹیشن سانگلہ ہل میں FIRنمبر 20/275 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ رمضان بی بی کو گرفتار کرکے سنٹرل جیل شیخوپورہ منتقل کردیا گیا۔
مؤرخہ 26؍مئی 2020ء کو روحان احمد، ملک عثمان احمد، حافظ طارق شہزاد، چند نامعلوم افراد، پروف ریڈر، کمپوزر، لکھاری، کمپیوٹر آپریٹر اور مالکان فون نمبرز 6708729-0333، 4374750-0322، 6678820-0333، کے خلاف ایک واٹس ایپ گروپ میںمضمون لکھنے، جنرل نالج اور سوال وجواب کے مقابلے کے حوالے سے پیغام شیئر کرنے پر FIRنمبر 20/29 کے تحت سائبر کرائم ونگ پولیس سٹیشن لاہور میں تعزیراتِ پاکستان 298-C,، 295-B، 120-B، 109، 34 R/W، 11-PECA-2016، کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
پاکستان کے سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ جو کہ FIAکے تحت کام کرتا ہے نےواپڈا ٹاؤن میں روحان احمد کے گھرچھاپا مار کر انہیں تشدد کا نشانہ بنا یا اور گرفتار کرلیا۔ فی الحال روحان احمد لاہور کی کیمپ جیل میں ہے۔ اگر خدانخواستہ روحان احمد کو مجرم ٹھہرایا دیا جاتا ہے تو ان شقوں کے تحت انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔