خطاب حضور انور

55ویں جلسہ سالانہ برطانیہ کی تقریب پرچم کشائی اورامیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز افتتاحی خطاب

جلسے کی اصلی شان اس وقت ہےجب اس میں شامل ہونے والے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنی کی طرف توجہ کرنے والے ہوں

ہمیں ہمیشہ ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے جو حضرت مسیح موعودؑ نے ہمارے سامنے رکھیں ۔ان تمام باتوں کا ایک لفظ میں خلاصہ تقویٰ ہے

انگلستان کی کاؤنٹی ہمپشئر کے قصبہ آلٹن میں واقع ‘حدیقۃ المہدی’ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ برطانیہ کا افتتاح فرمایا۔ افتتاحی اجلاس میں شرکت کےلیے ایم ٹی اے کی سکرین پر حضورِ انور کا قافلہ 4بجکر 32 منٹ پر نمودار ہوا ا ور4 بجکر 34 منٹ پر حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی موٹر سے اتر کر ڈیڑھ سو کے قریب ممالک کے جھنڈوں کے جھرمٹ میں بنائے گئے چبوترے پر تشریف لے گئے جہاں پہنچ کرحضورِ انور نے لوائے احمدیت، جبکہ مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے برطانیہ کا جھنڈا لہرایا۔ جیسے ہی حضورِ انور نے لوائے احمدیت لہرایا فضا نعروں سے گونج اٹھی۔

اس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی اور جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس کے لیے جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پرچم کشائی کے بعد 4 بج کر 36منٹ پر مردانہ پنڈال میں رونق افروز ہوئے۔ جونہی حضور انور پنڈال میں داخل ہوئے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے اور عشاقانِ خلافت نے ان نعروں کا بھر پور جواب دیا۔ حضور انور نے سامعین کو ماسک پہننے کی طرف توجہ دلائی۔ بعد ازاں افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تلاوت قرآن کریم کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کو ملی۔ آپ نے سورۃالحشر آیات 19تا 27کی تلاوت کی اور تفسیر صغیر سے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم سید عاشق حسین صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے فارسی قصیدہ

در دلم جوشد ثنائے سرورے

آنکہ در خوبی نہ دارد ہمسرے

کے اشعار اور پھر ان کا اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جو درج ذیل ہے:

میرے دل میں اُس سردار کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔

وہ ایسا نورانی دل ہے جس نے سینکڑوں سیاہ دلوں کو ستاروں کی طرح روشن کردیا ہے۔

اس احمد آخر زمان کے نُور سے لوگوں کے دل ، آفتاب سے زیادہ روشن ہوگئے ہیں۔

وہ مہربانیاں جو مخلوق نے اُس سے دیکھیں، دنیا میں کسی نے اپنی ماں سے بھی نہیں دیکھیں۔

مَیں جو اُس کے حسن سے ہمیشہ باخبر ہوں اُس پر اپنی جان قربان کرتا ہوں جبکہ دوسرا صرف دل دیتا ہے۔

مَیں ہمیشہ اُس کے کوچے میں اُڑتا پھرتا اگر مَیں بال و پر رکھتا۔

فارسی قصیدہ کے بعد مکرم صبور بھٹی صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اردو منظوم کلام

ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے

میں سے منتخب اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ٹھیک پانچ بجے منبر پر تشریف لائے اور احباب جماعت کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ پیش فرمایا۔ تشہد و تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی غرض اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنا اور اپنے نفسوں کی اصلاح کے لیے آنحضرتﷺ کے ارشادات سننا اور ان پر عمل کرنا بتایا۔ گویا اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لیے ہم ان دنوں میں جمع ہوتے ہیں۔ پس اس مقصد کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ میں نے اپنے خطبے میں بھی کہا تھا کہ اس سال کا جلسہ خاص حالات کی وجہ سے محدود ہے۔ اس کا انعقاد بھی ایک سال کے وقفے کے بعد ہو رہا ہے۔اللہ تعالیٰ اس وبا کو بھی جلد ختم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ دوبارہ حالات معمول پر آئیں تا کہ جلسہ دوبارہ اپنی شان سے منعقد ہو۔ حضورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جلسے کی اصلی شان اس وقت ہےجب اس میں شامل ہونے والے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنی کی طرف توجہ کرنے والے ہوں۔

حضور انور نے فرمایا کہ امسال بعض جماعتوں نے جلسہ سننے کا انتظام کیا ہوا ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے اور ایک نئی نیک روا یت جماعت میں قائم ہوئی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے جس سے نا مساعد حالات کے باوجود جماعت پر من حیث الجماعت نیک اثر پڑ رہا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمام جلسہ سننے والوں پر جلسے کا مستقل اثر ہونا چاہیے تبھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے جلسے کا مقصدپورا کیا اور اپنی بیعت کا حق ادا کیا اور اس کے نتیجے میں حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیں پانے والے ہو رہے ہیں۔

اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جن کو مان کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پا کر آنحضرتﷺ کی حقیقی امت کا حصہ بن سکتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمیں ہمیشہ ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے جو حضرت مسیح موعودؑ نے ہمارے سامنے رکھیں۔ ان تمام باتوں کا ایک لفظ میں خلاصہ تقویٰ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں یہ تلقین فرمائی کہ ہم اپنے اندر زہد پیدا کریں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے زہد کی وضاحت فرمائی اور بیان کیا کہ اسی میں زہد پیدا ہو سکتا جس کے اندر تقویٰ ہو۔ اگر ہم یہ باتیں اپنے اندر پیدا کریں تو ایک انقلاب ہم اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔

ا س امر کی حضور انور نے وضاحت فرمائی کہ اس سے مراد یہ نہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے، سب دنیا وی کام کرکے خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے قربانی دی جائے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے عزت، دولت اور شہرت دی ہے تو یہ خدا تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے لیے اور اس کے بندوں کے حقوق کے ادا کرنے کےلیےخرچ ہو۔

حضرت مسیح موعودؑ نے صحابہ کی مثال بیان فرمائی کہ دنیاوی دولت کے با وجود خدا تعالیٰ کا حق ادا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک ولی کے متعلق اسی قسم کی ایک مثال حضرت مسیح موعودؑ نے بیان فرمائی۔ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے کہ

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ۔(النور38)

حضور انور نے فرمایا:زہد اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب ہم بد اخلاقی سے بچنے کی کوشش کرنے والے ہوں اور نہ صرف بد اخلاقی سے بچنے بلکہ اعلیٰ اخلاق دکھانے والے ہوں۔ ہماری دولت ہمارے اور ہمارے بھائی کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والی نہیں ہونی چاہیے بلکہ محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے والے ہوں۔ پس یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا کہ جلسہ میں شامل ہونے کا فائدہ بھی اسی وقت ہے جب خدا ترسی ہو۔ انسان بہت سی بداخلاقیاں ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو اور یقین ہو کہ خدا تعالیٰ میری ہر بات کو سن رہا ہے اور میرے ہر فعل کو دیکھ رہا ہے اور غلط باتوں اور غلط کاموں کی سزا بھی دیتا ہے تو تب ہی خدا ترسی پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی کا حق مارنے والا ہو گا تو خدا تعالیٰ اسے سزا بھی دے گا۔

حضور انور نے فرمایا:حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف عام خدا ترسی کا ذکر نہیں فرما رہے بلکہ تم خدا ترسی میں ایک نمونہ ہو۔ اور لوگ کہیں کہ اگر کسی حقیقی خدا ترس کو دیکھنا چاہتے ہو تو اس شخص، اس احمدی کو دیکھو۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ایسے نمونے قائم کرنے والے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا:ہر گناہ سے بچنے کی طرف توجہ ہو۔ آپؑ بڑے اور چھوٹے گناہوں دونوں سے بچنے کا ذکر فرما رہے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ پرہیزگاری میں بھی ایک نمونہ بنو۔ خود اپنے اندر جھانک کر دیکھو کہ کیا جو برائیاں میرے اندر ہیں کیا میں ان کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کمیوں کو دور کر رہا ہوں۔ جلسہ پر آکر بھی اس کا جائزہ لیں۔ تبھی جلسہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا:آپؑ نے ایک اور اعلیٰ خلق کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے اندر نرمی پیدا کرو۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اوررضا کو حاصل کرنے کے لیے ایک خلق نرم دلی بھی ہے۔ دوسرے پر غصہ نکالنے کی بجائے غصہ کو دباؤ۔ دوسروں کو معاف کرنا ایک بہت بڑی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ اور غصہ دبانے والے اور در گزر کرنے والے، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

جو مومن نہیں وہ یہ معیار قائم ہی نہیں کر سکتا۔مومن وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ہو اور نرم دلی اختیار کرنے والا ہو۔یہ معیار ہم میں سے ہر ایک کو دکھانے چاہئیں۔

حضور انور نے فرمایا: ذرا ذرا سے معاملات پر ہم جھگڑا کھڑا کر دیتے ہیں مومن کی شان یہ ہے کہ در گزر کرے، غصہ نہ کرے اور معاف کرے۔ اس احسان کے بدلے میں خدا تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ اتنا پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی محبت مل جائے اس کو اور کیا چاہیے؟ پس اپنے بھائیوں سے در گزر کرنا، اپنے معاملات کو بلا وجہ لمبا کرنا بجائے فساد اور جھگڑوں کے کچھ نہیں پیدا کرتا۔

حضور انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ غصہ دباؤ۔ غصہ کو دبانا بہت مشکل کام ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ ہم میں یہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ سچے دل سے معاف کرو۔ پس اگر ہم اپنی زندگیوں کو اس معیار پر لے آئیں تب ہی ہم آپؑ کی خواہش پوری کر سکتے ہیں جو آپ شاملین جلسہ کے حوالہ سے دیکھنا چاہتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر غصے کا ایک گھونٹ پی لینے کا ایسا اجر ہے جو کسی اور چیز کا نہیں ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں محبتیں پھیلانے اور نفرتوں کی دیواریں گرانے کی بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔

حضرت مسیح موعود ؑکے ایک اقتباس کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ غصہ اور غضب کے نتیجے میں انسان حکمت اور معرفت سے محروم کیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے منہ سے نیکی کی باتیں نہیں نکلتیں۔ حکمت اور غضب ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ غضب نصف جنون ہے جب زیادہ بڑھتا ہے تو پورا جنون ہو جاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جلسے کے روحانی ماحو ل سے ایسے لوگ حصہ نہیں پا سکتے۔ اس لیے حضورؑ نے پسند نہیں فرمایا کہ آپ کی جماعت میں ایسا کوئی بھی فرد ہو اور پھر جلسے میں شامل ہو کر جلسے کے ماحول کو اور پھر اپنی زندگی میں اپنا عمومی ماحول خراب کرے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے باہمی محبت اور مواخات پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ بھی جلسے کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ اس حوالے سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انصار اور مہاجرین کی مثال بیان فرمائی ہے۔ حضور انور نے سورۃ الحشر کی آیت 9 بیان فرمائی کہ

وَ الَّذِیۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الۡاِیۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ

کہ اور وہ لوگ جنہوں نے ان سے پہلے ہی گھر تیار کر رکھے تھے اور ایمان کو (دلوں میں) جگہ دی تھی وہ ان سے محبت کرتے تھے جو ہجرت کرکے ان کی طرف آئے اور اپنے سینوں میں اس کی کچھ حاجت نہیں پاتے تھے جو اُن (مہاجروں) کو دیا گیا اور خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش تھی۔ پس جو کوئی بھی نفس کی خساست سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےصحابہؓ کی باہمی محبت اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی مثال بیان فرمائی کہ وہ کس قدر ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے تھے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل لوگ ایسے ہیں جو اپنے سگے بہن بھائیوں کی جائیداد بھی غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس وہ حسین اسلامی معاشرہ جو حضرت مسیح موعودؑ پیدا کرنے آئے،جس کا نمونہ ہمیں صحابہؓ میں ملتا ہے اور جس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ نےفرمایا کہ تم بھی یہ نمونہ دکھاؤ۔ ایسے معاشرے کے قیام کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے جلسوں کا انعقاد فرمایا۔ باہمی مواخات کے حوالے سے حضور انور نے حضرت مسیح موعودؑ کی ایک نصیحت بیان فرمائی کہ تم ایسے ہو جاؤ جیسے ایک ماں سے دو بچے ہوں۔

حضورِ انور نے قیامت کے حوالے سے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور عظمت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جب میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں میں ان کو اپنے سایہ میں جگہ دوں گا۔ پس باہمی محبت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کس بلند مقام کی طرف لے جارہا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے باہمی محبت کو اپنے بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا ہے نیز یہ جلسے کے مقاصد میں سے بھی ایک مقصد ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انکسار اور عاجزی اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ یہ بھی جلسے کی مقاصد میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام بھی ہے کہ‘‘ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں۔’’ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ (لقمان19)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ شعر بیان فرمایاکہ

بد تر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں

حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اقتباس کی روشنی میں فرمایا کہ تکبر کے کئی چشمے ہیں۔ مومن کو چاہیے کہ ان تمام چشموں سے بچے۔ بہت سے لوگ اپنے آپ کو خاکسار سمجھتے ہیںلیکن ان میں ایک قسم کا تکبر پایا جاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے ارشادات کی روشنی میں تکبر کی اقسام بیان فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا تکبر کی وجہ سے انسان کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اس تکبر کو ختم کرنے کے لیے ایک جہاد کرنا پڑتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی برکات کو حاصل کرنے کے لیے تکبر کے جنّ کو مارنا ہو گا۔

آپؑ نے جماعت کو فرمایاکہ جلسے کے انعقاد کا ایک بہت بڑا مقصد راستبازی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں جتنا سچائی کا ذکر ہے اتنا ذکر انجیل میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بت پرستی کے مترادف قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! ایمان اور راستی پر قائم ہو جاؤ۔

حضور انور نے فرمایا کہ انسان اگر سچائی پر قائم ہو جائے تو بہت سے معاملات خود بخود حل ہو جائیں۔

حضور انور نے فرمایا:برائیوں سے اس وقت نکلا جا سکتا ہے جب ہم تقویٰ پر قائم ہوں۔ اسی وجہ سے آپؑ نے اس طرف بہت توجہ دلائی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ جس امر میں بدی کا شبہ ہو اس سے بھی بچ کر رہو۔

حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے ایک ارشاد کی روشنی میں بدی سے دور رہنے کی طرف توجہ دلائی۔ بدی سے بچنا بھی تقویٰ ہے اور بدی کی کئی اقسام ہیں۔ بدی کو خوش اخلاقی سے دور کرو۔ انسان کو نیک بختی اور سعادت کی راہیں اختیار کرنی چاہئیں۔ خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا حتیٰ کہ وہ خود بدل جائیں نیز یہ کہ بدیاں ہلاکت کا موجب ہیں۔

اپنے خطاب کےآخر پر حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ کرے کہ ہم حقیقی تقویٰ، زہد، اخوت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہو جائے تاکہ ہم جماعت کے پیغام کو بھی صحیح رنگ میں پہنچانے والے ہوں۔

حضور انور نے فرمایا کہ ہم دعا کریں گے۔حضورِ انور نے دعا میں دنیا کے حالات کی بہتری کے لیے اور جلسوں کا حقیقی رنگ پیدا ہونے کے لیے، پاکستان کے حالت کے لیے بھی دعاکرنے کی طرف توجہ دلائی۔ نیز تہجد، اور دعاؤں کا التزام کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔

بعد ازاں پانچ بج کر 59 منٹ پر حضورِ انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ جلسہ سالانہ برطانیہ کے افتتاحی اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔

ابعد ازاں پانچ بج کر 59 منٹ پر حضورِ انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ جلسہ سالانہ برطانیہ کے افتتاحی اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button