کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

حضرت عیسیٰؑ صلیب پرچڑھائے گئے مگر صلیب کے ذریعہ سے ان کی موت نہیں ہوئی

پھر ما سوائے اس کے اگر یہ بات صحیح ہے کہ آیت

بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ (النساء: 159)

کے یہی معنے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان ِدوم کی طرف اُٹھائے گئے تو پھر پیش کرنا چاہئے کہ اصل متنازعہ فیہ امر کا فیصلہ کس آیت میں بتلایا گیا ہے۔ یہودی جو اب تک زندہ اور موجود ہیں وہ تو حضرت مسیح کے رفع کے انہیں معنوں سے منکر ہیں کہ وہ نعوذ باللہ مومن اور صادق نہ تھے اور اُن کی روح کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا۔ اور شک ہو تو یہودیوں کے علماء سے جاکر پوچھ لو کہ وہ صلیبی موت سے یہ نتیجہ نہیں نکالتے کہ اس موت سے روح مع جسم آسمان پر نہیں جاتی بلکہ وہ با لاتفاق یہ کہتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ ملعون ہے۔ اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ کی صلیبی موت سے انکار کیا اور فرمایا

وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُم (النساء: 158)

اورصَلَبُوْہُ کے ساتھ آیت میں قَتَلُوْہُ کا لفظ بڑھا دیا تا اس بات پردلالت کرے کہ صرف صلیب پر چڑھایا جانا موجب لعنت نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ صلیب پر چڑھایا بھی جائے اور بہ نیت قتل اس کی ٹانگیں بھی توڑی جائیں اور اس کو مارا بھی جائے تب وہ موت ملعون کی موت کہلائے گی۔ مگر خدا نے حضرت عیسیٰ کو اس موت سے بچا لیا۔ وہ صلیب پر چڑھائے گئے مگر صلیب کے ذریعہ سے اُن کی موت نہیں ہوئی۔ ہاں یہو د کے دلوں میں یہ شبہ ڈال دیا کہ گویا وہ صلیب پر مرگئے ہیں۔ اور یہی دھوکا نصاریٰ کو بھی لگ گیا۔ ہاں انہوں نے خیال کیا کہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہوگئے ہیں۔ لیکن اصل بات صرف اتنی تھی کہ اس صلیب کے صدمہ سے بے ہوش ہوگئے تھے اور یہی معنیْ شُبِّہَ لَھُمْ کے ہیں۔ اس واقعہ پر مرہم عیسیٰ کا نسخہ ایک عجیب شہادت ہے جو صدہا سال سے عبرانیوں، رومیوں اور یونانیوں اور اہل اسلام کی قرابادینوں میں مندرج ہوتا چلا آیا ہے جس کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے واسطے یہ نسخہ بنایا گیا تھا۔ غرض یہ خیالات نہایت قابل شرم ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح کو مع جسم آسمان پر اُٹھا لے گیا تھا۔ گویا یہودیوں سے ڈرتا تھا کہ کہیں پکڑ نہ لیں۔ جن لوگوں کو اصل تنازعہ کی خبر نہ تھی انہوں نے ایسے خیالات پھیلائے ہیں۔ اور ایسے خیالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو ہے۔ کیونکہ آپؐ سے کفار قریش نے بہ تمام تر اصرار یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ آپ ہمارے روبرو آسمان پر چڑھ جائیں اور کتاب لے کر آسمان سے اتریں تو ہم سب ایمان لے آویں گے اور ان کو یہ جواب ملا تھا

قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًارَّسُوْلًا(بنی اسرائیل: 94)

یعنی میں ایک بشر ہوں اور خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وعدہ کے برخلاف کسی بشر کو آسمان پر چڑھا وے۔ حالانکہ وہ وعدہ کرچکا ہے کہ تمام بشر زمین پر ہی اپنی زندگی بسر کریں گے۔ لیکن حضرت مسیح کو خدا نے آسمان پر مع جسم چڑھا دیا۔ اور اس وعدہ کا کچھ پاس نہ کیا۔ جیسا کہ فرمایا تھا: ۔

فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرِجُوْنَ(الاعراف: 26)

بعض کا یہ خیال ہے کہ ہمیں کسی مسیح موعود کے ماننے کی ضرورت نہیں اور کہتے ہیں کہ گو ہم نے قبول کیا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں لیکن جبکہ ہم مسلمان ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں اور احکام اسلام کی پیروی کرتے ہیں تو پھر ہمیں کسی دوسرے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ اس خیال کے لوگ سخت غلطی میں ہیں۔ اول تو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کیونکر کرسکتے ہیں جبکہ وہ خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتے۔ حکم تو یہ تھا کہ جب وہ امام موعود ظاہر ہو تو تم بلا توقف اس کی طرف دوڑو اور اگر برف پر گھٹنوں کے بل بھی چلنا پڑے تب بھی اپنے تئیں اُس تک پہنچائو۔ لیکن اُس کے برخلاف اب لاپروا ہی ظاہر کی جاتی ہے۔ کیا یہی اسلام ہے؟ اور یہی مسلمانی ہے؟ اور نہ صرف اس قدر بلکہ سخت سخت گالیاں دی جاتی ہیں اور کافر کہا جاتا ہے اور نام دجّال رکھا جاتا ہے اور جو شخص مجھے دُکھ دیتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ میں نے بڑا ثواب کا کام کیا ہے اور جو مجھے کاذب کاذب کہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں نے خدا کو خوش کردیا۔

اے وے لوگو! جن کو صبر اور تقویٰ کی تعلیم دی گئی تھی تمہیں جلد بازی اور بدظنی کس نے سکھلائی۔ کونسا نشان ہے جو خدا نے ظاہر نہ کیا۔ اور کونسی دلیل ہے جو خدا نے پیش نہ کی مگر تم نے قبول نہ کیا۔ اور خدا کے حکموں کو دلیری سے ٹال دیا۔ مَیں اس زمانہ کے حیلہ گر لوگوں کو کس سے تشبیہ دوں۔ وہ اس مکاّر سے مشابہ ہیں کہ روز روشن میں آنکھیں بند کرکے کہتا ہے کہ سورج کہاں ہے؟ اے اپنے نفس کے دھوکہ دینے والے ! اوّل اپنی آنکھ کھول پھر تجھے سورج دکھائی دے دے گا۔ خدا کے مرسل کو کافر کہنا سہل ہے مگر ایمان کی باریک راہوں میں اس کی پیروی کرنا مشکل ہے۔ خدا کے فرستادہ کو دجّال کہنا بہت آسان ہے مگر اس کی تعلیم کے موافق تنگ دروازہ میں سے داخل ہونا یہ دشوار امر ہے۔ ہریک جو کہتا ہے کہ مجھے مسیح موعود کی پرواہ نہیں ہے اُس کو ایمان کی پرواہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ حقیقی ایمان اور نجات اور سچی پاکیزگی سے لاپروا ہیں۔ اگر وہ ذرا انصاف سے کام لیں اور اپنے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ بغیر اس تازہ یقین کے جو خدا کے مرسلوں اور نبیوں کے ذریعہ سے آسمان سے نازل ہوتا ہے ان کی نمازیں صرف رسم اور عادت سے ہیں اور ان کے روزے صرف فاقہ کشی ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پاسکتا ہے اور نہ سچے طور پر خدا سے محبت کرسکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اسی کے فضل اور کرم سے اس کی معرفت حاصل نہ ہو اوراس سے طاقت نہ ملے اور یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور اُن سے محبت کرتا ہے یا ان سے ڈرتا ہے اور دور بھاگتا ہے۔ یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ معرفت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ ا ور نہ مفید ہوسکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ اور فضل کے ذریعہ سے معرفت آتی ہے۔ تب معرفت کے ذریعہ سے حق بینی اور حق جوئی کا ایک دروازہ کھلتا ہے۔ اور پھر بار بار فضل سے ہی وہ دروازہ کھلا رہتا ہے اور بند نہیں ہوتا۔ غرض معرفت فضل کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے اور پھر فضل کے ذریعہ سے ہی باقی رہتی ہے۔ فضل معرفت کو نہایت مصفّٰی اور روشن کر دیتا ہے اور حجابوں کو درمیان سے اٹھا دیتا ہے اور نفس امارہ کے لئے گرد و غبار کو دور کر دیتا ہے۔ اور روح کو قوت اور زندگی بخشتا ہے اور نفس امّارہ کو امارگی کے زندان سے نکالتا ہے اور بد خواہشوں کی پلیدی سے پاک کرتا ہے اور نفسانی جذبات کے تند سیلاب سے باہر لاتا ہے۔ تب انسان میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور وہ ابھی گندی زندگی سے طبعاً بیزار ہو جاتا ہے کہ بعد اس کے پہلی حرکت جو فضل کے ذریعہ سے روح میں پیدا ہوتی ہے وہ دعا ہے۔

(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ219تا 222)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button