احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
محمداعظم عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ(حصہ ششم)
عبداللہ غزنوی صاحب کے متعلق(حصہ دوم)
’’اب یہ بھی یاد رہے کہ عادت اللہ ہر یک کا مل مُلہم کے ساتھ یہی رہی ہے کہ عجائباتِ مخفیہ فرقان اس پر ظاہر ہوتے رہے ہیں بلکہ بسا اوقات ایک ملہم کے دل پر قرآن شریف کی آیت الہام کے طورپر القا ہو تی ہے اور اصل معنی سے پھیر کر کوئی اور مقصود اس سے ہو تا ہے۔ جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ الہام ہوا
قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِی بَرْدًا وَّ سَلَامًا۔
مگر میں اس کے معنے نہ سمجھا پھر الہا م ہوا
قُلْنَا یَا صَبْرُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا
تب میں سمجھ گیا کہ نار سے مراد اس جگہ صبر ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے الہام ہوا
رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ
اور اس سے مراد اصلی معنی نہیں تھے بلکہ یہ مراد تھی کہ مولوی صاحب کو ہستان ریاست کابل سے پنجاب کے ملک میں بزیر سایہ سلطنت برطانیہ آجائیں گے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے الہامات میں کئی آیات فرقانی لکھی ہیں اور اُن کے اصلی معنے چھوڑ کر کوئی اور معنے مراد لئے ہیں۔ ‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 261-262)
’’ازانجملہ بعض مکاشفات مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم ہیں جو اس عاجز کے زمانہ ظہور سے پہلے گذر چکے ہیں۔ چنانچہ ایک یہ ہے کہ آج کی تاریخ 17 جون 1891ءسے عرصہ چارماہ کاگذرا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب جو ایک مرد صالح بے ریا متقی اور متبع سُنّت اور اوّل درجہ کے رفیق اور مخلص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ہیں وہ قادیان میں اس عاجز کے پاس آئے اور باتوں کے سلسلہ میں بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس کہ میری اولاد اس سے محروم رہ گئی۔ فقط ایک صاحب غلام نبی نارو والے نام اپنے اشتہارمرقومہ دوم ذیقعدہ میں لکھتے ہیں کہ یہ افتراء ہے اگر افتراء نہیں تو اُس راوی کا نام لینا چاہیئے جس کے روبرو مولوی صاحب مرحوم نے بیان کیا۔ سو اب ہم نے بیان کر دیا کہ وہ راوی کون ہے اور کس درجہ کا آدمی ہے۔ چاہیئے کہ حافظ صاحب سے دریافت کریں کہ افتراء ہے یا سچی بات ہے۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی اَوْ کَذَّبَ وَ اَبٰی۔
ایسا ہی فروری 1886ءمیں بمقام ہوشیارپور منشی محمد یعقوب صاحب برادر حافظ محمد یوسف نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی مرحوم سے ایک دن میں نے سُنا کہ وہ آپ کی نسبت یعنی اس عاجز کی نسبت کہتے تھے کہ میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے وہ مامور کئے جائیں گے۔ مگر مجھے یاد نہیں رہا کہ منشی محمد یعقوب صاحب کے منہ سے یہی الفاظ نکلے تھے یا انہیں کے ہم معنے اور الفاظ تھے۔ بہرحال انہوں نے بعض آدمیوں کے روبرو جن میں سے ایک میاں عبداللہ سنوری پٹیالہ کی ریاست کے رہنے والے ہیں اس مطلب کو انہیں الفاظ یا اور لفظوں میں بیان کیا تھا۔ مجھے یا د ہے کہ اس وقت منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور کئی اَور صاحب میرے مکان پرجو شیخ مہر علی صاحب رئیس کامکان تھا موجود تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ اس جلسہ میں کون کون موجود تھا جب یہ ذکر کیاگیا۔ مگر میاں عبد اللہ سنوری نے میرے پاس بیان کیا کہ میں اس تذکرہ کے وقت موجودتھا اورمیں نے اپنے کانوں سے سُنا۔ ‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 479-480)
’’ہزارہا لوگ بول اُٹھے ہیں اور بے شمار روحیں محسوس کر گئی ہیں کہ ہمارے اقبال اور ترقی اور تمہارے ادبار اور تنزّل کا دِن مباہلہ کا دِن ہی تھا۔ ایک ادنیٰ مثال دیکھ لوکہ مباہلہ کے دن بلکہ اسی وقت علی رؤس الاشہاد جبکہ مباہلہ ختم ہی ہوا تھا اور ابھی تم اورہم دونوں اُسی میدان میں موجود تھے اور تمام مجمع موجود تھا خدا تعالیٰ نے میری عزت اُس مجمع پر ظاہر کرنے کے لئے ایک فوری ذلّت اور فوری رُسوائی تمہارے نصیب کی یعنی فی الفور ایک گواہ تمہاری جماعت میں سے کھڑاکردیا وہ کون تھا منشی محمد یعقوب جو حافظ محمد یوسف کا بھائی ہے۔ اُس نے قسم کھائی اوررو رو کرمجھے مخاطب کرکے بیان کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم سچے ہو کیونکہ میں نے مولوی عبد اللہ غزنوی سے سنا ہے کہ ایک خواب کی تعبیر کے موقع پر انہوں نے آپ کی تصدیق کی اور کہا کہ ایک نور آسمان سے اُترا ہے اور وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ اب دیکھو کہ تم ابھی مباہلہ کے مکان سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے کہ خدا نے تمہیں ذلیل کردیا اور جس شخص کی استادی کاتم فخر کرتے ہو اُسی نے گواہی دے دی کہ تم جھوٹے اور غلام احمد قادیانی سچا ہے۔ اب اس سے زیادہ مباہلہ کا فوری اثر کیاہوگا کہ میرے لئے خدا کا اکرام و اعزاز اُسی وقت ظاہر ہو گیا اور اُسی وقت میری سچائی کی گواہی مل گئی اور گواہی بھی تمہارے اُس اُستاد کی یعنی عبد اللہ غزنوی کی کہ اگر اُس کی بات نہ مانو تو عاق کہلاؤکیونکہ تمہارا سارا شرف اُسی کے طفیل ہے اگر اُس کو تم نے جھوٹا سمجھا تو پھر تم ناخلف شاگرد ہو۔ غرض یہ خدا کا ایک نشان تھا کہ مباہلہ ہوتے ہی اُسی میدان میں اُسی گھڑی اُسی ساعت خدا نے تمہیں تمہارے ہی اُستاد کی گواہی سے تمہاری ہی جماعت کے آدمی کے ذریعہ سے ذلیل اور رسوا کردیا اور نامرادی ظاہر کردی۔ ‘‘
(تحفہ غزنویہ، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 546-547)
’’منجملہ نشانات کے ایک نشان یہ ہے کہ تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گذر گیا ہے کہ میں گورداسپورہ میں تھا کہ مجھے یہ خواب آئی کہ میں ایک جگہ چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اُسی چارپائی پر بائیں طرف میرے مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں جن کی اولاد اب امرتسر میں رہتی ہے۔ اتنے میں میرے دِل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیداہوئی کہ مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتار دوں۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی جگہ کی طرف رجوع کیا یعنی جس حصۂ چارپائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اُس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا تب اُنہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اوروہاں سے کھسک کر پائینتی کی طرف چند انگلی کے فاصلے پرہو بیٹھے۔ تب پھر میرے دِل میں ڈالا گیا کہ اِس جگہ سے بھی میں اُن کو اٹھا دوں پھر میں اُن کی طرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر پھر چند انگلی کی مقدار پر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میرے دِل میں ڈالا گیا کہ اِس جگہ سے بھی اُن کو اور زیادہ پائینتی کی طرف کیا جائے۔ تب پھر وہ چند اُنگلی پائینتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے۔ القصّہ میں ایسا ہی اُن کی طرف کھسکتاگیا اور وہ پائینتی کی طرف کھسکتے گئے یہاں تک کہ اُن کو آخر کار چارپائی سے اُترنا پڑا اوروہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اُتر کر بیٹھ گئے۔ اِتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے۔ ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا وہ بھی اُن کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔ تب میں نے اُن فرشتوں اور مولوی عبد اللہ صاحب کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں تم آمین کرو۔ تب میں نے یہ دُعا کی کہ
رَبِّ اَذْھِبْ عَنِّی الرِّجْسَ وَطَھِّرْنِیْ تَطْھِیْرًا۔
اِس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور مولوی عبد اللہ صاحب بھی آسمان کی طرف اُٹھ گئے اورمیری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہوئی کہ جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادہ سے نہیں ہوسکتی۔ اور جیسا کہ میں نے مولوی عبد اللہ صاحب کے خاک پر بیٹھنے اور آسمان پر جانے کی تعبیر کی تھی اُسی طرح وقوع میں آگیا کیونکہ وہ بعد اِس کے جلد تر فوت ہوگئے اور اُن کا جسم خاک میں اور اُن کی رُوح آسمان پر گئی۔
اور اُنہی دنوں میں شاید اُس رات سے اوّل یا اُس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اُس کا نام شیرعلی ہے اُس نے مجھے ایک جگہ لٹاکر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی اور ہرایک بیماری اور کوتہ بینی کا مادّہ نکال دیا ہے اور ایک مصفانور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنا دیا ہے اور یہ عمل کرکے پھر وہ شخص غائب ہوگیا اور میں اُس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہوگیا۔ میں نے اِس خواب کی بہت سے لوگوں کو اِطلاع دِی تھی چنانچہ اُن میں سے صاحبزادہ سراج الحق سرساوی اور میر ناصر نواب صاحب دہلوی ہیں۔
منجملہ نشانوں کے ایک یہ ہے کہ جب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی میرے اس خواب کے مطابق فوت ہوگئے جو میں نے اُن کی وفات کے بارے میں دیکھی تھی تو میں نے اُنہی ایّام میں کہ جب تھوڑے ہی دن اُن کی وفات پر گذرے تھے اُن کو خواب میں دیکھا تو میں نے اُن کے پاس اپنی یہ خواب بیان کی کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں ایک نہایت چمکیلی اور روشن تلوار ہے جس کا قبضہ میرے ہاتھ میں اور نوک کی طرف آسمان میں ہے اور نہایت چمکدار ہے اور اس میں سے ایک چمک نکلتی ہے جیسا کہ آفتاب کی چمک اور میں کبھی اُس کو دائیں طرف چلاتا ہوں اور کبھی بائیں طرف اورہرایک دفعہ جو میں وار کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے کناروں تک وہ تلوار اپنی لمبائی کی وجہ سے کام کرتی ہے اور میں ہروقت محسوس کرتا ہوں کہ آفتاب کی بلندی تک اُس کی نوک پہنچتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے۔ اور گو وہ دائیں بائیں میرے ہاتھ سے پڑتی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہے مگر قوت آسمان سے ہے۔ اور ہرایک دفعہ جو میں دائیں طرف یا بائیں طرف اس کو چلاتا ہوں تو ہزارہا انسان زمین کے کناروں تک اس سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ خواب تھی جو میں نے عبد اللہ صاحب مرحوم کے پاس بیان کی اورمضمون یہی تھا۔ اور شاید اُس وقت اور الفاظ میں بیان کی گئی ہو یا یہی الفاظ ہوں۔ عبد اللہ صاحب مرحوم نے میری خواب کو سن کر بیان کیا کہ اِس کی تعبیر یہ ہے کہ تلوار سے مراد اتمام حجت اور تکمیل تبلیغ اور دلائل قاطعہ کی تلوار ہے۔ اور یہ جو دیکھا کہ وہ تلوار دائیں طرف زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے۔ سو اس سے مراد دلائل رُوحانیہ ہیں جو از قسم خوارق اور آسمانی نشانوں کے ہوں گے۔ اور جویہ دیکھا گیا کہ ایسا ہی وہ بائیں طرف بھی زمین کے کناروں تک مار کرتی ہے تو اِس سے مراد دلائل عقلیہ وغیرہ ہیں جن سے ہرایک فرقہ پر اتمام حجت ہوگا۔ پھر بعد اِس کے اُنہوں نے فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں اُمید وار تھا کہ ایسا اِنسان دُنیا میں بھیجا جائے گا۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی۔
وَھٰذِہٖ رُؤْٔیَاءٌ صَادِقَۃٌ مِنْ رَّبِّیْ وَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ وَیَقُوْلُوْنَ اُلْہِمْنَاوَاُنْبِئْنَا وَاَرَانَا اللّٰہُ وَمَا اُلْھِمُوْا وَمَا اُنْبِئُوْا وَمَا اَرَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ اِلَّالَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
اور اِس خواب میں یہ پیشگوئی تھی کہ بہت سے آسمانی نشان مجھ سے ظاہر ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور جیسا کہ اِسی کتاب میں میں نے بیان کیا ہے اِس کشف کے بعد اس قدر آسمانی نشان مجھ سے ظہور میں آئے کہ جب تک خدا کسی کے ساتھ نہ ہو اور اُس کا اوّل درجہ کا فضل نہ ہو ایسے نشان ظاہر نہیں ہوسکتے۔ اور اس رؤیا کے گواہ صاحبزادہ سراج الحق اور دوسرے احباب ہیں جو ایک جماعت کثیر ہے۔ ‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 351-354)
(باقی آئندہ)