خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍جون 2021ء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ پر اس وقت ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ پھر آپؐ نے سورۂ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! کیا یہ صلح واقعی اسلام کی فتح ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں یقیناً یہ ہماری فتح ہے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس پر حضرت عمرؓ کے بھی دستخط تھے

غزوۂ بنو مصطلق کے روز نمازوں کے قضا ہونے کی بابت روایات پر تبصرہ

پانچ مرحومین : مکرم ملک محمد یوسف سلیم صاحب سابق انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ، مکرم شعیب احمد صاحب واقفِ زندگی قادیان، مکرم مقصود احمد صاحب بھٹی مبلغ سلسلہ قادیان، مکرم جاوید اقبال صاحب فیصل آباداور مکرمہ مدیحہ نواز صاحبہ اہلیہ نواز احمد صاحب مربی سلسلہ گھانا کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍جون 2021ء بمطابق 04؍احسان 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہو رہا تھا اور غزوات اور سرایا کا ذکر تھا۔ غزوۂ حمراء الاسد کے بارے میں آتا ہے کہ غزوۂ احد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے آئے اور کفار نے مکہ کی راہ لی مگر آپؐ کو قریش کی دوبارہ لشکر کشی کی خبر ملی تو آپؐ صحابہؓ کے ساتھ حمراء الاسد مقام تک تشریف لے گئے۔ حمراء الاسد مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔

اس غزوہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحریر فرمایا ہے وہ اس طرح ہے، کچھ حصہ بیان کرتا ہوں کہ بظاہر لشکرِ قریش نے مکہ کی راہ لے لی تھی۔ یہ اندیشہ تھا کہ ان کا یہ فعل مسلمانوں کوغافل کرنے کی نیت سے نہ ہو اورایسا نہ ہو کہ وہ اچانک لوٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں۔ لہٰذا اس رات کومدینہ میں پہرہ کاانتظام کیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا خصوصیت سے تمام رات صحابہ نے پہرہ دیا۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ اندیشہ محض خیالی نہ تھا کیونکہ فجر کی نماز سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی کہ قریش کالشکر مدینہ سے چند میل جاکر ٹھہر گیا ہے اور رؤسائے قریش میں یہ سرگرم بحث جاری ہے کہ اس فتح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کیوں نہ مدینہ پر حملہ کردیا جائے اوربعض قریش ایک دوسرے کوطعنہ دے رہے ہیں کہ نہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کیا اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال ومتاع پر قابض ہوئے بلکہ جب تم ان پر غالب آئے اورتمہیں یہ موقع ملا کہ تم ان کو ملیا میٹ کردو تو تم انہیں یونہی چھوڑ کرواپس چلے آئے تاکہ وہ پھر زور پکڑ جائیں۔ پس اب بھی موقع ہے واپس چلو اور مدینہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کی جڑکاٹ دو۔ ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ جو کچھ ہو گیا ہے اسے غنیمت جانو اور مکہ واپس لَوٹ چلو۔ ایسا نہ ہوکہ یہ شہرت جو تھوڑی سی جنگ کے جیتنے کی حاصل ہوئی ہے یہ بھی کھو بیٹھو اور یہ فتح شکست کی صورت میں بدل جائے لیکن بالآخر جوشیلے لوگوں کی رائے غالب آئی اورقریش مدینہ کی طرف لَوٹنے کے لیے تیار ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ان واقعات کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ مسلمان تیارہوجائیں مگر ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ سوائے ان لوگوں کے جو اُحُد میں شریک ہوئے تھے اَورکوئی ہمارے ساتھ نہ نکلے۔

(معجم البلدان جلد 2 صفحہ346 حمراء الاسد۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ﷺ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ 504-505)

یہ بھی ایک جگہ روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کے اس مشورہ کی اطلاع موصول ہوئی تو آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بلایا اور انہیں معاملے سے آگاہ فرمایا۔ دونوں نے مشورہ دیا کہ دشمن کے تعاقب میں جانا چاہیے۔

(کتاب المغازی للواقدی جلد 1 صفحہ 278۔ غزوۃ احد۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2013ء)

’’چنانچہ احد کے مجاہدین جن میں سے اکثر زخمی تھے اپنے زخموں کوباندھ کر اپنے آقا کے ساتھ ہو لئے اور لکھا ہے کہ اس موقعہ پرمسلمان ایسی خوشی اورجوش کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر فتح کے بعد دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے۔ آٹھ میل کا فاصلہ طے کر کے آپؐ حمراء الاسد میں پہنچے …… اب چونکہ شام ہوچکی تھی آپؐ نے یہیں ڈیرا ڈالنے کاحکم دیا اور فرمایا کہ میدان میں مختلف مقامات پرآگ روشن کر دی جاوے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حمراء الاسد کے میدان میں پانچ سو آگیں شعلہ زن ہو گئیں جو ہر دور سے دیکھنے والے کے دل کو مرعوب کرتی تھیں۔ غالباً اسی موقعہ پر قبیلہ خزاعہ کا ایک مشرک رئیس مَعْبَدنامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے احد کے مقتولین کے متعلق اظہار ہمدردی کی اورپھر اپنے راستہ پرروانہ ہو گیا۔ دوسرے دن جب وہ مقام رَوْحَاء میں پہنچا توکیا دیکھتا ہے کہ قریش کالشکر وہاں ڈیرا ڈالے پڑا ہے اور مدینہ کی طرف واپس چلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مَعْبَدفوراً ابوسفیان کے پاس گیا اور اسے جاکر کہنے لگا کہ تم کیا کرنے لگے ہو؟ واللہ! مَیں تو ابھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لشکر کوحمراء الاسد میں چھوڑ کر آیا ہوں اور ایسا بارعب لشکر میں نے کبھی نہیں دیکھا اوراحد کی ہزیمت کی ندامت میں ان کو اتنا جوش ہے کہ تمہیں دیکھتے ہی بھسم کر جائیں گے۔ ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں پر مَعْبَدکی ان باتوں سے ایسارعب پڑا کہ وہ مدینہ کی طرف لَوٹنے کا ارادہ ترک کرکے فوراً مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کولشکر قریش کے اس طرح بھاگ نکلنے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپؐ نے خدا کاشکر کیا اور فرمایا کہ یہ خدا کارعب ہے جو اس نے کفار کے دلوں پر مسلط کردیا ہے۔اس کے بعد آپؐ نے حمراء الاسد میں دو تین دن اَور قیام فرمایا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ﷺ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ 504-505)

غزوۂ بنو مُصْطَلِقْ ۔ غزوۂ بنو مصطلق شعبان پانچ ہجری میں ہوا۔ اسے غزوۂ مُرَیْسِیْع بھی کہتے ہیں۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ’’قریش کی مخالفت دن بدن زیادہ خطرناک صورت اختیار کرتی جاتی تھی۔ وہ اپنی ریشہ دوانی سے عرب کے بہت سے قبائل کو اسلام اور بانی اسلام کے خلاف کھڑا کرچکے تھے لیکن اب ان کی عداوت نے ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا اور وہ یہ کہ حجاز کے وہ قبائل جو مسلمانوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے اب وہ بھی قریش کی فتنہ انگیزی سے مسلمانوں کے خلاف اٹھنے شروع ہو گئے۔ اس معاملہ میں پہل کرنے والا مشہور قبیلہ بنو خُزَاعَہ تھا جن کی ایک شاخ بنومصطلق نے مدینہ کے خلاف حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی اوران کے رئیس حارث بن اَبِی ضِرَارْنے اس علاقہ کے دوسرے قبائل میں دورہ کرکے بعض اَور قبائل کوبھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مزید احتیاط کے طورپر اپنے ایک صحابی بُرَیْدَہ بن حُصَیْبنامی کو دریافتِ حالات کے لئے‘‘ پتہ کرنے کے لیے ’’بنو مصطلق کی طرف روانہ فرمایا اوران کو تاکید فرمائی کہ بہت جلد واپس آ کر حقیقت الامر سے آپ کواطلاع دیں۔ بُرَیْدَہگئے تو دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا اجتماع ہے اورنہایت زور شور سے مدینہ پرحملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے فوراً واپس آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی اورآپؐ نے حسب عادت مسلمانوں کو پیش قدمی کے طور پر دیار بنو مصطلِق کی طرف روانہ ہونے کی تحریک فرمائی اوربہت سے صحابہ آپؐ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے بلکہ ایک بڑا گروہ منافقین کا بھی جو اس سے پہلے اتنی تعداد میں کبھی شامل نہیں ہوئے تھے‘‘ وہ بھی ’’ساتھ ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے ابوذر غِفَارِیؓ یابعض روایات کی رو سے زید بن حَارِثَہ ؓکو مدینہ کا امیر مقرر کرکے اللہ کا نام لیتے ہوئے شعبان 5؍ھ میں مدینہ سے نکلے۔ فوج میں صرف تیس گھوڑے تھے۔ البتہ اونٹوں کی تعداد کسی قدر زیادہ تھی اور انہی گھوڑوں اور اونٹوں پرمل جل کر مسلمان باری باری سوار ہوتے تھے۔ راستہ میں مسلمانوں کو کفار کاایک جاسوس مل گیا جسے انہوں نے پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا اورآپؐ نے اس تحقیق کے بعد کہ وہ واقعی جاسوس ہے اس سے کفار کے متعلق کچھ حالات وغیرہ دریافت کرنے چاہے مگر اس نے بتانے سے انکار کیا اور چونکہ اس کا رویہ مشتبہ تھا اس لئے مروجہ قانون جنگ کے ماتحت‘‘ قانون جنگ جو تھا اس کے ماتحت ’’حضرت عمرؓ نے اس کو قتل کردیا اوراس کے بعد لشکر اسلام آگے روانہ ہوا۔ بنومصطلق کوجب مسلمانوں کی آمد آمد کی اطلاع ہوئی اوریہ خبر بھی پہنچی کہ ان کا جاسوس مارا گیا ہے تو وہ بہت خائف ہوئے کیونکہ اصل منشاء ان کا یہ تھا کہ کسی طرح مدینہ پر اچانک حملہ کرنے کا موقعہ مل جائے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغزی کی وجہ سے اب ان کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ پس وہ بہت مرعوب ہوگئے اور دوسرے قبائل جوان کی مدد کے لئے ان کے ساتھ جمع ہوگئے تھے وہ تو خدائی تصرف کے ماتحت کچھ ایسے خائف ہوئے کہ فوراً ان کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے مگر خود بنو مصطلق کوقریش نے مسلمانوں کی دشمنی کا کچھ ایسا نشہ پلادیا تھا کہ وہ پھر بھی جنگ کے ارادے سے باز نہ آئے اورپوری تیاری کے ساتھ اسلامی لشکر کے مقابلہ کے لئے آمادہ رہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مریسیع میں پہنچے جس کے قریب بنو مصطلق کاقیام تھا اور جو ساحل سمندر کے قریب مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام کانام ہے تو آپ‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ’’نے ڈیرہ ڈالنے کا حکم دیا اور صف آرائی اور جھنڈوں کی تقسیم وغیرہ کے بعد آپؐ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر بنو مصطلق میں یہ اعلان کریں کہ اگر اب بھی وہ اسلام کی عداوت سے باز آ جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو تسلیم کر لیں توان کو امن دیا جائے گا اور مسلمان واپس لَوٹ جائیں گے۔ مگر انہوں نے سختی کے ساتھ انکار کیا اور جنگ کے واسطے تیار ہو گئے۔ حتی کہ لکھا ہے کہ سب سے پہلا تیر جو اس جنگ میں چلایا گیا وہ انہی کے آدمی نے چلایا تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی توآپؐ نے بھی صحابہ کولڑنے کا حکم دیا۔‘‘ جنگ انہوں نے دوسروں نے مخالفین نے، دشمنوں نے شروع کردی تھی۔ ’’تھوڑی دیر تک فریقین کے درمیان خوب تیز تیراندازی ہوئی۔ جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یکلخت دھاوا کر دینے کا حکم دیا‘‘ ایک دم حملہ کر دو۔ ’’اور اس اچانک دھاوے کے نتیجے میں کفار کے پاؤں اکھڑگئے مگر مسلمانوں نے ایسی ہوشیاری کے ساتھ ان کا گھیرا ڈالا کہ ساری کی ساری قوم محصور ہوکر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی اور صرف دس کفار اورایک مسلمان کے قتل پر اس جنگ کا جوایک خطرناک صورت اختیار کر سکتا تھا خاتمہ ہو گیا۔‘‘

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیین میں لکھتے ہیں کہ ’’اس موقعہ پریہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسی غزوہ کے متعلق صحیح بخاری میں ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق پرایسے وقت میں حملہ کیا تھا کہ وہ غفلت کی حالت میں اپنے جانوروں کوپانی پلا رہے تھے مگر غور سے دیکھاجاوے تویہ روایت مورخین کی روایت کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت دو روایتیں دو مختلف وقتوں سے تعلق رکھتی ہیں یعنی واقعہ یوں ہے کہ جب اسلامی لشکر بنو مصطلق کے قریب پہنچا تواس وقت چونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمان بالکل قریب آگئے ہیں (گوانہیں اسلامی لشکر کی آمد آمد کی اطلاع ضرور ہوچکی تھی) وہ اطمینان کے ساتھ ایک بے ترتیبی کی حالت میں پڑے تھے اوراسی حالت کی طرف بخاری کی روایت میں بھی اشارہ ہے لیکن جب ان کو مسلمانوں کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو وہ اپنی مستقل سابقہ تیاری کے مطابق فوراً صف بند ہوکر مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے اوریہ وہ حالت ہے جس کا ذکر مؤرخین نے کیا ہے اور اس اختلاف کی یہی تشریح علامہ ابن حجر اوربعض دوسرے محققین نے کی ہے اوریہی درست معلوم ہوتی ہے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ557 تا 559)

غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر ایک اَور واقعہ بھی ہوا۔ صحیح مسلم میں اس کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ یعنی غزوہ بنو مصطلق میں تھے کہ مہاجروں میں سے کسی آدمی نے انصار میں سے کسی آدمی کی پیٹھ پر مارا۔ انصاری نے کہا اے انصار! اور مہاجر نے کہا اے مہاجرو! یعنی دونوں نے مدد کے لیے اپنے اپنے لوگوں کو بلایا۔ انصار نے بھی، مہاجروں نے بھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ معاملہ پہنچا اور جب آپؐ نے یہ شور سنا تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاہلیت کی آوازیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! مہاجروں میں سے ایک آدمی نے انصار میں سے ایک آدمی کی پیٹھ پر مارا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا اس بات کو چھوڑ دو۔ یہ گندی بات ہے۔ یہ فضول باتیں نہ کیا کرو کہ ذرا ذرا سی بات پہ لڑائی جھگڑے شروع کر دو۔ جب عبداللہ بن اُبَینے یہ سنا، وہ بھی وہاں ساتھ تھا تو اس نے کہا کہ انہوں نے تو ایسا کر لیا کہ ایک مہاجر نے انصار کی کمر پر مارا ،چاہے ایک تھپڑ ہی مارا ہو، دوہتھڑ ہی مارا ہو لیکن اللہ کی قسم! اگر ہم مدینہ کی طرف لَوٹے تو ضرور معزز ترین شخص (نعوذ باللہ) ذلیل ترین شخص کو وہاں سے باہر نکال دے گا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! مجھے اجازت دیجیے کہ مَیں اس منافق کی گردن مار دوں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانے دو۔ لوگ یہ باتیں نہ کرنے لگیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب نصر الاخ ظالما او مظلوما حدیث6583)

اس واقعہ کی تفصیل سیرت خاتم النبیین میں بیان ہوئی ہے جو مَیں چھوڑتا ہوں۔ یہ پہلے بیان کرچکا ہوں۔ بہرحال عبداللہ بن اُبَیکی آخری زمانے کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے سیرت ابنِ ہشام میں لکھا ہے کہ اس کے بعد عبداللہ بن اُبی جب کوئی ایسی ویسی بات کہتا اسی کی قوم اس کو سخت سست کہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کے حالات کا علم ہوا تو آپؐ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے فرمایا کہ اے عمرؓ ! جس دن تم نے مجھ سے اس کے قتل کرانے کے واسطے کہا تھا، اجازت مانگی تھی کہ مَیں قتل کر دوں اگر مَیں اس کو قتل کرا دیتا تو لوگ ناک منہ چڑھاتے اور یہی لوگ جو ناک منہ چڑھانے والے تھے، اب اگر انہی لوگوں کو مَیں اس کے قتل کا حکم کروں تو وہ خود اس کو قتل کر دیں گے۔ دیکھو صبر کی وجہ سے اور حالات سامنے آنے کی وجہ سے وہی جو اس کے حمایتی تھے آج اس کے خلاف ہو گئے ہیں اور یہ اس کو قتل بھی کر سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !مَیں نے جان لیا کہ بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات برکت کے لحاظ سے میری بات سے بہت عظیم تھی۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 672دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2001ء)

رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبَی کی نماز جنازہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے لگے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منافقین کی نماز جنازہ سے منع کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ مَیں ان کے لیے استغفار کروں یا نہ کروں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کی نماز جنازہ پڑھنے کی کلیةً ممانعت فرما دی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی نماز جنازہ پڑھانی بند کر دی تھی۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ941 عبد اللّٰہ بن عبد اللّٰہ انصاری۔ دار الجیل بیروت)

ابوسلمہ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطابؓ غزوۂ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہؐ! مجھے تو عصر کی نماز بھی نہیں ملی یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخدا! مَیں نے بھی نہیں پڑھی۔ اس پر ہم اٹھ کر بُطْحَانکی طرف گئے۔ بطحان بھی مدینہ کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی۔ پھر آپؐ نے اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔

(صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوٰة باب من صلی بالناس جماعۃ بعد ذھاب الوقت حدیث 596)

(معجم البلدان جلد1 صفحہ529 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اس بارے میں یہ بحث چلتی ہے کہ غزوۂ خندق کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کتنی نمازیں نہیں پڑھ سکے تھے۔ اس بارے میں متفرق روایات ملتی ہیں۔ چنانچہ ایک روایت یہ ہے کہ حضرت جابرؓ نے بیان کیا کہ حضرت عمرؓ خندق کے دن ان کافروں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہا مجھے عصر کی نماز نہیں ملی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ کہتے تھے اس پر ہم بُطْحَانمیں اتر گئے اور انہوں نے سورج غروب ہونے کے بعد نماز پڑھی۔ پھر انہوں نے مغرب کی نماز پڑھی۔ یہ بھی بخاری میں ہی روایت ہے۔ یعنی پہلی میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ تھے۔

(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب قضاء الصلوات الاولیٰ فالاولیٰ۔ حدیث 598)

پھر حضرت علیؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقع پر فرمایا : اللہ ان کافروں کے لیے ان کے گھر اور ان کی قبریں آگ سے بھر دے۔ انہوں نے ہمیں مصروف رکھا اور صلوٰة وسطیٰ یعنی درمیانی نماز کا موقع نہیں دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق و ھی الاحزاب، حدیث 4111) حضرت علی ؓکی یہ روایت بھی بخاری کی ہے۔

پھر ابوعبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے یہ روایت کرتے ہیں کہ خندق کے دن مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چار نمازوں سے روکے رکھا یہاں تک کہ رات کا حصہ جتنا اللہ نے چاہا گزر گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت بلال ؓکو ارشاد فرمایا تو انہوں نے اذان دی۔ پھر آپؐ نے اقامت کا ارشاد فرمایا اور ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر اقامت کا ارشاد فرمایا اور عصر کی نماز پڑھائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت کا ارشاد فرمایا اور مغرب کی نماز پڑھائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت کا ارشاد فرمایا اور عشاء کی نماز پڑھائی۔ یہ مسند احمد بن حنبل کی روایت ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 6-7، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود حدیث 3555، عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان تمام روایات کو ضعیف قرار دیتے ہوئے صرف ایک روایت کو درست قرار دیا ہے جس میں عصر کی نماز معمول سے تنگ وقت میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ جنگ خندق میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا کرنے پر پادری فتح مسیح کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودنے کے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں اول آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اے نادان قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘ چھوڑنے کو نہیں کہتے۔ ’’ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے‘‘ یعنی نماز فوت ہو گئی۔ ’’اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بے وقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی تک قضا کے معنی بھی معلوم نہیں۔ جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ اموردقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے۔ باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰة العصرمعمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرہ بٹھا کر پوچھتے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مخالف کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں ’’کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں۔ چار نمازیں تو خود شرع کی رو سے جمع ہوسکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر۔ اور مغرب اور عشاء۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کرکے پڑھی گئی تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رد کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔‘‘

(نور القرآن نمبر 2: روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 389-390)

صلح حدیبیہ کے تعلق میں حضرت عمرؓ کے کردار کے بارے میں جو لکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب ؓکو بلایا تا کہ وہ انہیں مکہ بھیجیں اور وہ اَشرافِ قریش کو بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس لیے تشریف لائے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! مجھ کو قریش سے اپنی جان کا خوف ہے کیونکہ وہ میرے ان سے عداوت کے حال سے واقف ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ مَیں قریش کا کتنا دشمن ہوں۔ مَیں جس قدر ان پر سختی کرتا ہوں اور میری قوم بنو عدی بن کعب میں سے بھی کوئی مکہ میں نہیں ہے جو مجھے بچائے۔ اس لیے انہوں نے کچھ تھوڑا سا انقباض کا اظہار کیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے اس موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا یارسول اللہؐ! اگر آپؐ پسند فرماتے ہیں تو میں ان کے پاس چلا جاتا ہوں تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے مزید عرض کیا کہ میں آپؐ کو ایسا شخص بتاتا ہوں جو قریش کے نزدیک مجھ سے زیادہ معزز ہے یعنی حضرت عثمان بن عفانؓ۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمانؓ کو طلب کیا اور ابوسفیان اور دیگر اَشرافِ قریش کے پاس بھیجا تا کہ عثمانؓ ان کو خبر دیں کہ حضور جنگ کے واسطے نہیں آئے۔ آپؐ صرف زیارتِ کعبہ اور اس کی حرمت کی تعظیم کی خاطر تشریف لائے ہیں۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ685دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001)

(سبل الہدیٰ و الرشاد جلد5 صفحہ 46 فی غزوۃ الحدیبیۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

اس کی یہ تفصیل حضرت عثمانؓ کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’جب صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا رہی تھیں تو اس دوران قریش مکہ کے سفیر سُہَیل بن عَمْرو کا لڑکا ابوجَنْدَل بیڑیوں اورہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا اس مجلس میں گرتا پڑتا آ پہنچا۔ اس نوجوان کو اہل ِمکہ نے مسلمان ہونے پر قید کرلیا تھا اور سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے اس قدر قریب تشریف لائے ہوئے ہیں تو وہ کسی طرح اہل ِمکہ کی قید سے چھوٹ کر اپنی بیڑیوں میں جکڑا ہوا گرتا پڑتا حدیبیہ میں پہنچ گیا اوراتفاق سے پہنچا بھی اس وقت جب کہ اس کا باپ معاہدہ کی یہ شرط لکھا رہا تھا کہ ہر شخص جو مکہ والوں میں سے مسلمانوں کی طرف آئے وہ خواہ مسلمان ہی ہو اسے واپس لَوٹادیا جائے گا۔ ابوجندل نے گرتے پڑتے اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے لا ڈالا اور دردناک آواز میں پکار کر کہا کہ اے مسلمانو! مجھے محض اسلام کی وجہ سے یہ عذاب دیا جارہا ہے۔ خدا کے لئے مجھے بچاؤ۔ مسلمان اس نظارہ کو دیکھ کر تڑپ اٹھے مگر سہیل بھی اپنی ضد پر اڑ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا۔ یہ پہلا مطالبہ ہے جو میں اس معاہدہ کے مطابق آپ سے کرتا ہوں اوروہ یہ کہ ابوجندل کومیرے حوالہ کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا ابھی تومعاہدہ تکمیل کونہیں پہنچا۔‘‘ ابھی تو بات ہو رہی ہے کوئی فائنل تو نہیں ہوا۔ ’’سُہیل نے کہا کہ اگر آپؐ نے ابوجندل کو نہ لَوٹایا توپھر اس معاہدہ کی کارروائی ختم سمجھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘ معاملہ کو ختم کرنے کے لیے کہ ’’آؤ آؤ۔ جانے دو اور ہمیں احسان ومروت کے طورپر ہی ابوجندل کو دے دو۔ سُہیل نے کہا نہیں نہیں یہ کبھی نہیں ہو گا۔ آپؐ نے فرمایاسُہیل! ضد نہ کرو میری یہ بات مان لو۔ سُہیل نے کہا میں یہ بات ہرگز نہیں مان سکتا۔ اس موقع پرابوجندل نے پھر پکار کر کہا اے مسلمانو! کیا تمہارا ایک مسلمان بھائی اس شدیدعذاب کی حالت میں مشرکوں کی طرف واپس لَوٹا دیا جائے گا؟ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس وقت ابوجندل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپیل نہیں کی بلکہ عامۃ المسلمین سے اپیل کی جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خواہ کتنا ہی درد ہو آپؐ کسی صورت میں معاہدہ کی کارروائی میں رخنہ نہیں پیدا ہونے دیں گے۔ مگر غالباً عامۃ المسلمین سے وہ یہ توقع رکھتا تھاکہ وہ شاید غیرت میں آکر اس وقت جبکہ ابھی معاہدہ کی شرطیں لکھی جارہی تھیں کوئی ایسا رستہ نکال لیں جس میں اس کی رہائی کی صورت پیدا ہو جائے مگر مسلمان خواہ کیسے ہی جوش میں تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے تھے۔ آپؐ نے کچھ وقت خاموش رہ کر ابوجندل سے درد مندانہ الفاظ میں فرمایا۔ اے ابوجندل! صبر سے کام لو اورخدا کی طرف نظر رکھو۔ خدا تمہارے لئے اورتمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لیے ضرور خود کوئی رستہ کھول دے گا لیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل ِمکہ کے ساتھ معاہدہ کی بات ہوچکی ہے اورہم اس معاہدہ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔

مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اورمذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سہم کر خاموش تھے۔ آخر حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اورکانپتی ہوئی آواز میں فرمایا: کیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ہاں ضرور ہوں۔ عمرؓ نے کہا:کیا ہم حق پرنہیں اورہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں ہاں ضرورایسا ہی ہے۔ عمرؓ نے کہا تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلّت کیوں برداشت کریں؟ آپؐ نے حضرت عمرؓ کی حالت کودیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا دیکھو عمرؓ! مَیں خدا کا رسول ہوں اورمَیں خدا کے منشاء کو جانتا ہوں اوراس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ہی میرا مددگار ہے۔ ’’مگر حضرت عمرؓ کی طبیعت کاتلاطم لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جارہا تھا۔ کہنے لگے کیا آپؐ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کاطواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں مَیں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضروراسی سال ہو گا؟ عمرؓ نے کہانہیں ایسا تو نہیں کہا۔ آپؐ نے فرمایاتو پھر انتظار کرو تم انشاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کاطواف کرو گے۔ مگراس جوش کے عالم میں حضرت عمرؓ کی تسلی نہیں ہوئی لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمرؓ وہاں سے ہٹ کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اوران کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اسی قسم کے جواب دیئے مگر ساتھ ہی حضرت ابوبکرؓ نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا۔ دیکھو عمر سنبھل کر رہو اوررسولِ خدا کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قَسم یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہرحال سچا ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ تو گیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اورمیں توبہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کودھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجا لایا۔ یعنی صدقے کئے، روزے رکھے، نفلی نمازیں پڑھیں اور غلام آزاد کئے تاکہ میری اس کمزوری کا داغ دھل جائے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 766-768)

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے جلسہ پر اپنی خلافت سے پہلے ایک تقریر کی تھی۔ جلسہ پہ تقریر کیا کرتے تھے۔ اُس کا اِس تعلق میں ایک حصہ میں بیان کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ درد و کرب کی وہ چیخ جو سوال بن کر حضرت عمرؓ کے دل سے نکلی دوسرے بہت سے سینوں میں بھی گھٹی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن جذبات کو عمرؓ نے زبان دی وہ صرف ایک عمرؓ ہی کے جذبات نہیں بلکہ اَوروں کے بھی تھے اور سینکڑوں سینوں میں اسی قسم کے خیالات ہیجان بپا کئے ہوئے تھے لیکن حضرت عمرؓ نے جو ان کے اظہار کی جرأت کی، یہ ایک ایسی چوک ہو گئی کہ بعد ازاں عمر بھر حضرت عمرؓ اس سے پشیمان رہے۔ بہت روزے رکھے۔ بہت عبادتیں کیں۔ بہت صدقات دیئے اور استغفار کرتے ہوئے سجدہ گاہوں کو تَر کیا لیکن پشیمانی کی پیاس نہ بجھی۔ حدیبیہ کا اضطراب تو عارضی تھا جسے بہت جلد آسمان سے نازل ہونے والی رحمتوں نے طمانیت میں بدل دیا مگر وہ اضطراب جو اس بے صبری کے سوال نے عمرؓ کے دل میں پیدا کیا وہ ایک دائمی اضطراب بن گیا جس نے کبھی آپؓ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ہمیشہ حسرت سے یہی کہتے رہے کہ کاش میں نے آنحضورؐ سے وہ سوال نہ کیا ہوتا۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’بارہا میں یہ سوچتا ہوں کہ بستر مرگ پر آخری سانسوں میں حضرت عمرؓ جب لَا لِیْ وَلَا عَلَیَّ کا ورد کر رہے تھے کہ اے خدا! میں تجھ سے اپنی نیکیوں کا بدلہ نہیں مانگتا تو میری خطائیں معاف کر دے تو سب خطاؤں سے بڑھ کر اس ایک خطا کا تصور آپؓ کو بے چین کئے ہوئے ہو گا جو میدان حدیبیہ میں آپؓ سے سرزد ہوئی۔ صلح نامہ کی تحریر کے دوران صحابہؓ کی بے چینی اور دل شکستگی کا عالم دیکھ کر آنحضورؐ کے دل کی کیفیت کا راز آپؐ کے آسمانی آقا اور بیحد محبت کرنیو الے رفیقِ اعلیٰ کے سوا اَور کوئی نہیں جانتا لیکن ان تین سادہ سے جملوں میں جو عمرؓ کے جواب میں آپؐ کی زبان مبارک سے نکلے آپؐ نے غور کرنے والوں کے لئے بہت کچھ فرما دیا۔‘‘

(خطابات طاہر (تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت) صفحہ428)

صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا اس پر حضرت عمرؓ کے بھی دستخط تھے۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’اس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں اور بطورگواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر اپنے دستخظ ثبت کئے۔ مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ …… عبدالرحمن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اورابوعبیدہؓ تھے۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد سُہَیل بن عمرو معاہدہ کی ایک نقل لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹ گیا اوردوسری نقل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 769)

صلح حدیبیہ سے واپسی کے بارے میں سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے کہ ’’قربانی وغیرہ سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف واپسی کا حکم دیا۔ اس وقت آپؐ کو حدیبیہ میں آئے کچھ کم بیس یوم ہوچکے تھے۔ جب آپؐ واپسی سفر میں عُسْفَان کے قریب کُرَاعُ الْغَمِیْم میں پہنچے۔‘‘ عُسْفَان مکہ سے 103 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور کُرَاعُ الْغَمِیْم، عُسْفَان سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک وادی ہے۔ ’’اور یہ رات کا وقت تھا تو اعلان کرا کے صحابہ کو جمع کروایا‘‘ آپ نے ’’اور فرمایا کہ آج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے اور وہ یہ ہے۔‘‘ سورۂ فتح کے بارے میں۔

’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِيْنًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا وَّيَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِيْزًا۔‘‘ (الفتح: 2-4) ۔

……سورۂ فتح کی یہ دو سے چار آیتیں ہیں۔ پھر اسی طرح چلتا ہے اور اٹھائیسویں آیت یہ ہے کہ

’’لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَآءَاللّٰهُ اٰمِنِيْنَ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ لَا تَخَافُوْنَ ۔‘‘ (الفتح: 28)

’’یعنی اے رسول! ہم نے تجھے ایک عظیم الشان فتح عطا کی ہے تاکہ ہم تیرے لئے ایک ایسے دور کاآغاز کرا دیں جس میں تیری اگلی اورپچھلی سب کمزوریوں پرمغفرت کا پردہ پڑ جائے اور تا خدا اپنی نعمت کو تجھ پر کامل کرے اورتیرے لئے کامیابی کے سیدھے رستے کھول دے اور ضرور خدا تعالیٰ تیری زبردست نصرت فرمائے گا… حق یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول کی اس خواب کو پورا کر دیا جواس نے رسول کودکھائی تھی۔ کیونکہ اب تم انشاء اللہ ضرور ضرور امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہو گے اور قربانیوں کو خدا کی راہ میں پیش کرکے اپنے سر کے بالوں کو منڈواؤ گے یا کترواؤ گے اورتم پر کوئی خوف نہیں ہو گا۔ یعنی اگر تم اس سال مکہ میں داخل ہوجاتے تو یہ داخلہ امن کا نہ ہوتا بلکہ جنگ اور خون ریزی کا داخلہ ہوتا مگرخدا نے خواب میں امن کا داخلہ دکھایا تھا۔ اس لئے خدا نے اس سال معاہدہ کے نتیجہ میں امن کی صورت پیدا کردی ہے اوراب عنقریب تم خدا کی دکھائی ہوئی خواب کے مطابق امن کی حالت میں مسجد حرام میں داخل ہوگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

جب آپؐ نے یہ آیات صحابہ کو سنائیں توچونکہ بعض صحابہ کے دل میں ابھی تک صلح حدیبیہ کی تلخی باقی تھی وہ حیران ہوئے کہ ہم تو بظاہر ناکام ہوکر واپس جارہے ہیں اورخدا ہمیں فتح کی مبارک باد دے رہا ہے حتی کہ بعض جلد باز صحابہ نے اس قسم کے الفاظ بھی کہے کہ کیا یہ فتح ہے کہ ہم طواف بیت اللہ سے محروم ہوکر واپس جارہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا اورایک مختصر سی تقریر میں جوش کے ساتھ فرمایا: یہ بہت بیہودہ اعتراض ہے کیونکہ غور کیا جائے توواقعی حدیبیہ کی صلح ہمارے لئے ایک بڑی بھاری فتح ہے۔ قریش جو ہمارے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے انہوں نے خود جنگ کوترک کرکے امن کا معاہدہ کرلیا ہے اورآئندہ سال ہمارے لئے مکہ کے دروازے کھول دینے کا وعدہ کیا ہے اورہم امن و سلامتی کے ساتھ اہل ِمکہ کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو کر اور آئندہ فتوحات کی خوشبو پاتے ہوئے واپس جارہے ہیں۔ پس یقیناً یہ ایک عظیم الشان فتح ہے۔ کیا تم لوگ ان نظاروں کو بھول گئے کہ یہی قریش احد اور احزاب کی جنگوں میں کس طرح تمہارے خلاف چڑھائیاں کر کر کے آئے تھے اوریہ زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی تھی اور تمہاری آنکھیں پتھراگئی تھیں اورکلیجے منہ کو آتے تھے مگرآج یہی قریش تمہارے ساتھ امن و امان کا معاہدہ کررہے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم سمجھ گئے۔ ہم سمجھ گئے۔ جہاں تک آپؐ کی نظر پہنچی ہے وہاں تک ہماری نظر نہیں پہنچتی مگراب ہم نے سمجھ لیا ہے کہ واقعی یہ معاہدہ ہمارے لئے ایک بھاری فتح ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقریر سے پہلے حضرت عمرؓ بھی بڑے پیچ وتاب میں تھے۔ چنانچہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کی واپسی پر جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت سفر میں تھے تواس وقت مَیں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کچھ عرض کرنا چاہا مگر آپؐ خاموش رہے۔ مَیں نے دوبارہ سہ بارہ عرض کیا مگر آپؐ بدستور خاموش رہے۔ مجھے آنحضرتؐ کی اس خاموشی پر بہت غم ہوا اور میں اپنے نفس میں یہ کہتا ہوا کہ عمر تُو توہلاک ہو گیا کہ تین دفعہ تُونے رسول اللہؐ کومخاطب کیا مگر آپؐ نہیں بولے۔ چنانچہ میَں مسلمانوں کی جمعیت میں سے سب سے آگے نکل آیا اوراس غم میں پیچ وتاب کھانے لگا کہ کیا بات ہے؟ اور مجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہو جائے۔ اتنے میں کسی شخص نے میرا نام لے کر آوازدی کہ عمر بن خطابؓ کو رسول اللہؐ نے یاد فرمایا ہے۔ مَیں نے کہا کہ بس ہونہ ہو میرے متعلق کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ مَیں گھبرایا ہوا جلدی جلدی رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورسلام عرض کر کے آپؐ کے پہلو میں آ گیا۔ آپؐ نے فرمایا: مجھ پر اِس وقت ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ پھر آپؐ نے سورۂ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! کیا یہ صلح واقعی اسلام کی فتح ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں یقیناً یہ ہماری فتح ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ تسلی پاکر خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں واپس تشریف لے آئے۔‘‘

( سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ770تا 772)(فرہنگ سیرت صفحہ 200، 243)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ سے صلح کر لی جس کی وجہ سے صحابہؓ کے اندر اس قدر بے چینی پیدا ہو گئی کہ حضرت عمرؓ جیسا آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہؐ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم طواف کعبہ کریں گے یا کیا اسلام کے لئے غلبہ مقدرنہیں تھا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! حضرت عمرؓ نے کہا پھر ہم نے دب کر صلح کیوں کر لی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بےشک خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم طواف کریں گے مگر یہ نہیں تھا کہ اسی سال کریں گے۔‘‘

(خطبات محمود جلد30صفحہ220)

حضرت عمرؓ کا یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی چلتا جائے گا۔ اس وقت میں کچھ مرحومین کا ذکر کروں گا جن کے جنازے پڑھانے ہیں۔ اس میں سے پہلا ذکر مکرم ملک محمد یوسف سلیم صاحب کا ہے جو شعبہ زود نویسی کے انچارج تھے۔ چھیاسی 86سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ انہوں نے 1952ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ ان کے بڑے بھائی نے ان کو ریل میں ملازمت دلوائی۔ اس وقت وہاں چیف انجنیئر میرحمید اللہ صاحب جو تھے وہ احمدی تھے۔ الفضل وہاں آیا کرتا تھا اور میر حمید اللہ صاحب تبلیغ بھی کرتے تھے۔ الفضل پڑھ کر یہ احمدی ہوئے۔ بہرحال جب ان کے گھر والوں کو پتہ لگا تو انہوں نے بڑا ڈرایا دھمکایا۔ جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں کہ احمدیت چھوڑ دو لیکن انہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور احمدیت کونہیں چھوڑا ۔آخر جب بہت زیادہ خطرہ بڑھ گیا اور گھر بار جوچھوڑا تو وہ اس طرح تھا کہ ان کی والدہ نے انہیں ایک دن رات کو اپنے بیٹوں سے چھپا کر کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ اور یہاں کبھی نہ آنا ورنہ تمہاری جان کو خطرہ ہے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی میں ماسٹرز کیا اور پھر 1958ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1963ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے۔ پھر ملک سیف الرحمٰن صاحب کے ساتھ جو مفتی سلسلہ تھے، افتاء کے دفتر میں ان کی تقرری ہوئی۔ 1967ء میں ان کا تبادلہ زود نویسی کے شعبہ میں ہوا۔ جب مولانا محمد یعقوب طاہر صاحب انچارج زود نویسی کی وفات ہوئی تو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ان کو ان کی جگہ اپنے پاس زود نویسی کے شعبہ میں رکھ لیا۔ 1985ء تک یہ شعبہ زود نویسی کے انچارج رہے۔ زود نویسی کے دفتر میں آپ کے ذمہ خلیفة المسیح کے خطبات، خطابات، پروگراموں کی رپورٹس، دورہ جات کی رپورٹس وغیرہ تیار کرنے کا کام تھا۔ 1978ء میں کسرِ صلیب کانفرنس جو لندن میں ہوئی تھی اور اس میں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرکت کی تھی اس میں بھی آپ حضورؒ کے ساتھ تھے اور رپورٹ تیار کی تھی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سوانح فضل عمر کی تیاری میں بھی انہوں نے کافی معاونت کی ہے اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کا بڑے احسن رنگ میں ذکر کیا ہوا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے 1983ء میں آسٹریلیا، فجی اور سنگا پور کا دورہ کیا تو ملک یوسف سلیم صاحب بھی آپ کے ساتھ تھے اور ہجرت کے بعد خطبات کی آڈیو کیسٹس کی کاپیاں تیار کرنے کا کام انہوں نے بہت احسن رنگ میں کیا اور کیونکہ احتیاط کرنی ہوتی تھی تو خود فیصل آباد جا کے کسی گھر میں یہ آڈیو کیسٹ تیار کرتے تھے اور پھر واپس لے کے آتے تھے۔ کچھ سال فیلڈ میں یہ مربی سلسلہ بھی رہے۔ طاہر فاؤنڈیشن میں خطبات طاہر پر کام کرنے کی ان کو توفیق ملی۔ پرائیویٹ سیکرٹری میں شوریٰ کی کارروائیاں لکھنے کی توفیق ملی۔ بہرحال ریٹائرمنٹ کے بعد ری ایمپلائی ہوتے رہے۔ پھر انہوں نے بیماری کی وجہ سے 2013ء میں رخصت لے لی۔ ان کی دو شادیاں تھیں۔ پہلی شادی سے ان کی ایک بیٹی پیدا ہوئی اس کے بعد ان کی اہلیہ فوت ہو گئیں۔ پھر دوسری شادی ہوئی جس سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔

ان کی بیٹی قدسیہ محمود سردار کہتی ہیں کہ ہمارے ابا نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑا اور ہمیں بھی اس کی بہت زیادہ تلقین کی۔ نمازوں کی سختی سے پابندی کرواتے تھے۔ نماز لیٹ پڑھنے پر ناراض ہوتے۔ تہجد میں بہت گریہ و زاری کرتے تھے۔ قرآن کریم کا ایک پارہ روزانہ پڑھتے تھے اور بیماری میں بھی یہی تھا کہ پوچھتے رہتے تھے کہ نماز کا وقت ہوا کہ نہیں۔ بڑی فکر تھی ان کو نماز کی۔ خلافت سے محبت اور اطاعت انہوں نے ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری۔ خلافت سے بےحد محبت تھی۔ کہتے تھے کہ اطاعتِ خلافت میں ہی ساری برکتیں ہیں۔ احمدیت کے لیے بڑی مشکلات برداشت کیں۔ رشید طیب صاحب اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری ہیں،کہتے ہیں خلافت ثالثہ کے زمانے میں ملک محمد یوسف سلیم صاحب شعبہ زودنویسی میں آ گئے۔ اس شعبہ میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی اور تقاریر وغیرہ کو ضبط تحریر میں لاتے تھے۔ جماعتی اخبار الفضل کے لیے رپورٹیں تیار کرتے تھے۔ نہایت ذمہ داری سے اور منظم اور اعلیٰ طریق پر کام کرنے والے تھے۔ ادبی معیار بھی ان کا نہایت اعلیٰ ہوتا تھا۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا خلیفة المسیح الثالثؒ اور خلیفة المسیح الرابعؒ کے ساتھ ان کو بیرونی قافلوں میں یورپ میں بھی جانے کا موقع ملا۔ بڑی باریک بینی سے اپنا کام کیا کرتے تھے۔ ایک ایک لفظ کو غور و فکر کے ساتھ محتاط ہو کر لکھتے تھے اور دعا کر کے لکھتے تھے کہ کہیں اصل مفہوم سے کوئی فرق نہ رہ جائے اور جب 2013ء میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لی ہے تب بھی شوریٰ کی رپورٹ کی تیاری میں اگر کوئی دقت آ رہی ہو تو پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں جب بھی آپ کو بلایا جاتا فوراً تشریف لے آتے اور ہمیشہ اس بات کا اظہار کرتے کہ میں اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں ۔

میرے دماغ میں بھی ہمیشہ ان کے بارے میں یہی تصور ہے کہ ایک پُرسکون شخصیت جو اپنے کام میں مگن ہے اور انہوں نے وقف کا بھی حق ادا کیا۔ خاموشی سے سارے کام کرنے والے تھے۔ کوئی مطالبہ نہیں۔ بڑی سادگی سے رہنے والے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرا ذکر مکرم شعیب احمد صاحب واقف زندگی کا ہے جو بشیر احمد صاحب کالاافغاناں مرحوم درویش قادیان کے بیٹے تھے۔ 56سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔1987ء میں سلسلہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ صدر انجمن احمدیہ کے مختلف ادارہ جات میں بطور کارکن اور افسر اور ناظر خدمت بجا لاتے رہے۔ انچارج دفتر علیا اور آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ اور ناظر بیت المال خرچ، ناظم وقف جدید مال، افسر جلسہ سالانہ اور صدر خدام الاحمدیہ بھارت کے طور پر انہیں خدمت کی توفیق ملی۔ ان کا عرصہ خدمت تینتیس سال سے زائد ہے۔ عبادت کی طرف ان کی بھی بڑی توجہ تھی۔ نماز تہجد اور نوافل کی ادائیگی میں بڑی باقاعدگی تھی۔ خلافت کی اطاعت کا بھی اعلیٰ معیار تھا۔ ہمیشہ یہ کہتے تھے جو بھی ہدایت آئے فوری تعمیل کرنی ہے۔ قرآن مجید کا گہرا علم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کی کتب کا بھی مطالعہ تھا۔ دینی معلومات بڑی وسیع تھیں۔ ہر موضوع پر تقریر کا ملکہ تھا۔انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھے۔ ہر طبقہ کے لوگوں سے پیار اور محبت کرنے والے وجود تھے۔ ضرورتمندوں اور ماتحتوں کا پورا خیال رکھتے تھے۔ قادیان میں ہر شخص ان کی بڑی تعریف کر رہا ہے۔ بلند حوصلہ اور شکرگزار بھی تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے شامل ہیں۔ یہ جلال الدین صاحب نیر صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان کے داماد تھے۔

رفیق بیگ صاحب ناظر بیت المال آمد قادیان لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ اٹھارہ سال مجلس خدام الاحمدیہ بھارت اور دفتر جلسہ سالانہ قادیان میں خدمت کا موقع ملا۔ آپ اپنے عملی نمونے سے خدمت کرنے والوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے تھے۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں بھی رات تین چار بجے تک دفتر میں رہتے اور قیام گاہوں کا جائزہ لیتے۔ کہیں کمی بیشی نظر آتی تو فوراً جا کے اس کی درستگی کرتے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کا کما حقہ خیال رکھنے کی ہمیشہ ہر کارکن کو تلقین کیا کرتے تھے۔ اگر کسی کارکن سے زیادتی ہو جاتی تو مہمان سے خود معذرت کرتے۔ ان کے بہنوئی نے بھی لکھا ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ میں نے دنیا میں کبھی کسی سے عداوت نہیں کی۔ وکالت مال تحریک جدید کے ایک انسپکٹر لکھتے ہیں کہ انڈیا کے صوبہ جات کیرالہ، تامل ناڈو میں ان کا پچھتر یوم کا لمبا دورہ تھا۔ اس دوران مَیں بیمار ہو گیا تو میری تیمار داری بھی انہوں نے اس طرح کی جس طرح کوئی والدین کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو، اہلیہ کو صبر و سکون عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

اگلا ذکر مکرم مقصود احمد صاحب بھٹی مبلغ سلسلہ قادیان کا ہے جو 18؍ مئی کو باون سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔یہ مرحوم جماعت احمدیہ چار کوٹ ضلع راجوری صوبہ جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا عرصہ خدمت تیس سال پر مشتمل ہے۔ ان کو امیر زون لکھنؤ اور تقریباً ایک سال مبلغ انچارج سرینگر خدمت کی توفیق ملی۔ 2017ء سے وفات تک فُل ٹائم مرکزی قاضی کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ قضا میں بڑی مستعدی کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے رہے تھے۔ درجنوں مقدمات کے فیصلے کیے۔ اپنے ذمہ کاموں کی بڑی فکر رہتی تھی۔ بلکہ جب بیمار تھے اور گذشتہ دنوں ہسپتال میں تھے،ان کو بھی کورونا ہو گیا تھاتو ہسپتال میں بھی کاموں کی فکر رہتی تھی۔ بڑے ملنسار، خوش مزاج، دلیر، معاملہ فہم اور مستعد واقف زندگی تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں والدہ اور تین بھائیوں کے علاوہ اہلیہ اور تین بچیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی بچیوں کی بھی حفاظت فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگلا جنازہ ہے، ذکر ہے جاوید اقبال صاحب فیصل آباد کا، جو چھیاسٹھ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے بیٹے طلحہ جاوید لکھتے ہیں کہ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑدادا بابا چکی را کے ذریعہ سے آئی۔ جن کا نام ان کے پیشہ چکی بنانے اور اس کی مرمت کی وجہ سے مشہور تھا۔ گلیوں میں آوازیں لگا کر اپنا کام کیا کرتے تھے اور اس دوران وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار بآواز بلند گنگناتے رہتے تھے تا کہ تبلیغ کے رستے بھی کھلتے رہیں۔ اللہ کے فضل سے باقاعدہ نمازوں کے علاوہ تہجد گزار تھے، تہجد کا التزام کرنے والے تھے ۔گھر والوں کو بھی باجماعت نماز پڑھنے کی تلقین کرتے بلکہ گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت باقاعدہ کرتے، ساتھ ترجمہ بھی پڑھتے۔ خطبہ سننے کا خصوصی اہتمام تھا۔ تمام گھر والوں کو ساتھ بٹھاتے اور ایم ٹی اے پر خطبہ سنتے۔ خدمت دین کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ 84ء کے حالات کے بعد جب جماعتی آڈیو کیسٹس کے ذریعہ سے خلیفۂ وقت کا خطبہ جماعتوں میں پہنچایا جاتا تھا تو کیسٹ تھیلے میں ڈال کر سائیکل پر گاؤں گاؤں جا کر پہنچایا کرتے تھے اور جب ایم ٹی اے کا آغاز ہوا تو اپنے گھر میں ڈش لگوایا اور لوگوں کو گھر بلا کے خطبہ سنوایا کرتے تھے۔ ان کے پسماندگان میں والدہ اور اہلیہ امۃ الباسط اور دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر مکرمہ مدیحہ نواز اہلیہ نواز احمد صاحب مربی سلسلہ گھانا کا ہے جو 16؍ اپریل کو چھتیس سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ گھانا میں ہی تھیں۔ وہیں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے شوہر مربی صاحب لکھتے ہیں کہ شادی کے سولہ سالوں میں خاکسار نے انہیں بے شمار خوبیوں سے مرصع پایا۔ بےحد حوصلہ مند، صبر کرنے والی، ہمدرد اور جذبۂ ایثار سے سرشار خاتون تھیں۔ بہترین ماں اور باوفا بیوی تھیں۔ گھانا میں جہاں بھی موقع ملتا بچوں کی کلاسیں لیتیں۔ اپنے بچوں کو ساتھ بٹھا کرقرآن پڑھاتیں۔ سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتیں اور کسی کی سخت گوئی کا کبھی جواب نہ دیتیں بلکہ برداشت کرتیں اور خاکسار کو بھی برداشت کرنے کا کہتیں۔ دعا کی تلقین کرتی رہتیں۔ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے والی تھیں۔ خلافت سے وابستگی کے لیے اکثر بچوں کے ساتھ خلافت کی برکات کا تذکرہ کرتی تھیں۔ ایک غریب پرور اور نیک خاتون تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ تین بچے فرات صفی عمر تیرہ سال، فیضیہ عمر آٹھ سال، زہراء عمر ایک سال شامل ہیں۔ سب بچے ماشاء اللہ وقف نو میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں ان کے بچوں کے حق میں قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

٭…٭…٭

(الفضل انٹرنیشنل 25؍جون2021ءصفحہ 5-10)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button