خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍مئی2021ء

اے دل تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار

کآخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ

عوام الناس تو شاید کم علمی کی وجہ سےیہ سمجھتے ہیں کہ واقعہ میں احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعوذ باللہ توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں

ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ ٹپکیں گے

یہ لوگ مخالفت اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں۔ یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے

تم ساری دنیا کو چند دن کے لیے دھوکا دے سکتے ہو یا تم کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے دھوکا دے سکتے ہو۔ لیکن تم ساری دنیا کو ہمیشہ کے لیے دھوکا نہیں دے سکتے۔ سچائی آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آ جاتی ہے

پس ہمارا کام دعا کرنا ہے اور صبر کرنا ہے اور یہی بہترین ذریعہ ہے جو اِنْ شَاءَاللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی بھی عطا فرمائے گا

ہمارا کام یہی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے خیالات اور اپنے احساسات کو صاف رکھیں۔ ان کے لیے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد ان کی آنکھیں کھولے اور یہ زمانے کے امام کو ماننے اور پہچاننے والے بن جائیں

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍مئی2021ء بمطابق 14؍ہجرت1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ دنوں ایک مولوی صاحب سوشل میڈیا پر فرما رہے تھے کہ دنیامیں کہیں بھی فساد اور لڑائی ہو رہی ہے اس کی وجہ قادیانی ہیں بلکہ فلسطین کے فساد کی بھی وہ ذمہ داری قادیانیوں پہ، احمدیوں پہ ڈال رہے تھے۔ اور پھر آگے جس طرح ان لوگوں کا طریقہ کار ہے، جس طرح عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ اس لیے احمدیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو، وہ سلوک کرو اور ان کو قتل کرنا، ان کو مارنا ہر چیز جائز ہے۔ بہرحال یہ ان کا طریقہ ہے یہ ان کی باتیں ہیں اور جب سے احمدیت کی ابتدا ہوئی ہے یہی باتیں یہ لوگ کرتے رہے ہیں جو ائمةالکفر کہلاتے ہیں ۔لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں جس نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ان کی یہ خرافات سن کر، دل آزاری والی باتیں سن کر اور نہ صرف یہ باتیں بلکہ ان کی عملی کوششیں بھی دیکھ کر، ان کا بھی سامنا کر کے صبر اور دعا سے تم نے کام لینا ہے۔ یہ ائمةالکفر ہیں جنہوں نے معصوم مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے بارے میں غلط باتیں پھیلا کر بھڑکایا ہوا ہے۔ عوام الناس تو شاید کم علمی کی وجہ سےیہ سمجھتے ہیں کہ واقعہ میں احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعوذ باللہ توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں اس لیے ان کے ساتھ یہ سلوک ضرور ہونا چاہیے، جو مولوی کہتا ہے وہ سچ کہتا ہے ۔ یہ تو عوام الناس کی، عامة المسلمین کی حالت ہے لیکن جو علم رکھنے والے مولوی ہیں اور حقیقت میں علم رکھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے اور صرف یہ لوگ فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ ان کے منبر سلامت رہیں اور ان کو کوئی ان کی جگہ سے نہ ہلائے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ ہمارا کام تو جیسا کہ میں نے کہا دعا کرنا ہے اور جیسا کہ میں نے عید کے خطبہ میں بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے کہ دشمن کے لیے بھی دعا کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 96)

ہم تو دعا کرنے والے ہیں اور دعا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہ مخالفت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانے سے شروع ہے۔ آپؑ پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ آپؑ کی باتیں سننے کے لیے آنے والوں پر بھی حملے کیے جاتے تھے۔ بعض لوگ جو ویسے ہی جلسوں میں آجاتے ہیں کہ دیکھیں کہتے کیا ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ مان بھی لیں گے لیکن ان مولویوں کو خطرہ ہوتا تھا کہ اگر انہوں نے حضرت مرزا صاحبؑ کی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سن لیں تو یہ لوگ ان کی بیعت کر لیں گے۔ ان کو پتہ تھا کہ سچائی ان کے ساتھ ہے اس لیے روکتے تھے، نہ صرف روکتے تھے بلکہ حملے بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کے لیے دعا ہی کی جو روکنے والے تھے اور اس طرح سختیاں کرنے والے تھے ۔ یہ دعاؤں ہی کا نتیجہ ہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو باوجود مخالفت کے جماعت میں شامل ہوئے اور اب تک ہورہے ہیں۔ پس ہم تو مولوی کے اس بیان کے باوجود بھی کوئی فضول گوئی کرنے یا ان کی زبان کو استعمال کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم تو اس کے باوجود دعا ہی کرتے رہیں گے اور جیسا کہ ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ ٹپکیں گے۔ عوام الناس کے لیے، عامة المسلمین کے لیے ہم ان لوگوں کی سخت باتیں سننے کے بعد بھی دعا کرتے ہیں۔ ان کی تکلیفوں پر ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور اس کی وجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم ہی ہے۔ اور آپ کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ ان کے یہ ظلم بھی غلط فہمی کی وجہ سے ہیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہیں جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں۔عمل کریں یا نہ کریں لیکن دعویٰ ضرور ہے اس لیے ان کے لیے بددعا نہیں کرنی ۔

اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں ابھی بچہ تھا۔ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دعوت سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ آپ جب بازار سے گزر رہے تھے تو لوگ چھتوں پر کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مرزا دوڑ گیا۔ مرزا دوڑ گیا۔ حضرت مصلح موعود ؓکہتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ شاید کسی جلسہ میں تقریر میں فساد ہوا تھا تو وہاں سے واپس آ رہے تھے۔ بہرحال کہتے ہیں اسی اثنا میں مَیں نے ایک بڈھے کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور تازہ تازہ ہلدی لگی ہوئی تھی ۔لگتا تھاکہ ہاتھ کو کٹے بھی ابھی کچھ تھوڑا عرصہ ہی ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ بڈھا بھی اپنا تندرست ہاتھ کٹے ہوئے ہاتھ پہ مارتا جاتا تھا اور پنجابی میں کہہ رہا تھا کہ مرزا نٹھ گیا۔ مرزا نٹھ گیا۔ کہتے ہیں میں اس وقت اپنی عمر کے لحاظ سے حیران ہوتا تھا کہ آخر یہ کیوں کہتا ہے کہ مرزا نٹھ گیا۔ ایسا کیا واقعہ ہو گیا ہے؟ مجھے تو کوئی ایسی بات سمجھ نہیں آئی۔ پھر صرف اس لیے کہ مخالفت تھی اور مولویوں نے لوگوں کو بھڑکایا ہوا تھا اور جو ان کے دل میں آتی تھی وہ کہتے رہتے تھے چاہے بات کا پتہ ہو یا نہ پتہ ہو۔ بس بات کرنی تھی کر دی۔

اسی طرح ایک اَور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ لاہور شہر میں جا رہے تھے تو پیچھے سے کسی نے حملہ کیا اور آپ گر گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ٹھوکر لگی لیکن گرے نہیں تھے۔(سیرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 442) اسی طرح لوگوں کو پتھراؤ کرتے بھی حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ہم نے دیکھا۔ پتھراؤ بھی کرتے تھے۔

غرض ان دنوں میں مخالفت بڑے زوروں پر تھی اور قدرتی طور پر جماعت کے بعض دوستوں کو بھی غصہ آ جاتا تھا کہ آخر یہ لوگ بلا وجہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا گو کہ ابھی تک کی معلومات کے مطابق یہ الہام اَور کسی روایت میں تو نہیں ملا لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے یہی فرمایا ہے کہ یہ الہام تھا ۔بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر تو ہے کہ

اے دل تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار

کآخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ

(ازالۂ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 182)

یعنی اے ہمارے مامور! یہ مسلمان جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں، اگر یہ الہاماً ہے تو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ پھر بھی تُو ان کا لحاظ کر۔ آخر یہ تمہیں کیوں گالیاں دیتے ہیں، تمہیں مارنے کیوں دوڑتے ہیں اور تم پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں؟ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی تمہیں مارتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ اس لیے ان کا لحاظ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ جس عشق کی وجہ سے یہ مار رہے ہیں، وہ جس وجہ سے مار رہے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پیارے ہیں اس لیے اس غلط فہمی کی وجہ سے ہو یا جو بھی وجہ ہے تم ان کا لحاظ کرو۔ بددعا نہ کرو۔

غرض ہماری جو مخالفت ہوتی ہے تو تمہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے پیچھے کیا بات ہے۔ کیا یہ لوگ جو ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری چائے جو ہے وہ شراب سے بھی بدتر ہے اور شراب پینا جائز ہو سکتا ہے لیکن احمدیوں کی چائے پینی جائز نہیں ہو سکتی۔ حضرت مصلح موعودؓ یہ بیان کر کے فرماتے ہیں کہ اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ میرے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کاجو شعلہ جل رہا ہے وہ ان کے لاکھوں لاکھ کے اندر بھی نہیں جل رہا تو آپؓ نے فرمایا وہ فوراً تمہارے، احمدیوں کے قدموں میں گر جائیں گے۔ یہ لوگ مخالفت اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں۔ یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے۔

پھر اپنی تفصیل بیان کرنے کے بعد آپؓ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اگر لوگ مخالفتیںکرتے ہیں اور مجھے یا بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو یا تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تو جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تمہارے بھائی ہیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ پس تم بجائے ناراض ہونے کے دعائیں کرو اور ان مخالفت کرنے والوں کو اصل حقیقت سے واقف کرو۔ جب تم انہیں اصل حقیقت سے واقف کر دو گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نہیں بلکہ آپؐ کے سچے عاشق ہیں اور وہی لوگ جو ہمیں مارنے پر آمادہ ہیں ہماری خاطر مرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔

(ماخوذ از بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر، انوارالعلوم جلد22صفحہ84تا 86)

بہرحال ہمیں اپنے مخالفین کے لیے دعا کرنی چاہیے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی ہمیں سکھایا ہے کہ دعائیں کرو۔ انہی میں سے قطراتِ محبت ٹپکتے ہیں، انہی میں سے لوگ ایمان لائیں گے۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں چوبارے میں رہتا تھا یعنی اوپر کی منزل میں رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مکان کے نچلے حصہ میں رہتے تھے کہ ایک رات نچلے حصہ سے مجھے اس طرح رونے کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردِزہ کی وجہ سے چِلّاتی ہے۔ مجھے تعجب ہوا اور میں نے کان لگا کر آواز کو سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا کر رہے تھے اور آپؑ کہہ رہے تھے کہ اے خدا! طاعون پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ اے خدا! اگر یہ سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا۔ دوسری جگہ واقعہ تو یہی ہے لیکن حوالہ یہ ہے کہ ساتھ کی کوٹھڑی میں تھے اور دروازے سے آواز آ رہی تھی۔ بہرحال واقعہ یہی بیان ہوا ہے جو آپؓ بیان کر رہے ہیں۔ آپؑ دعا کر رہے تھے کہ اگر یہ لوگ مرگئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا؟ اب دیکھو طاعون وہ نشان تھا جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ طاعون کے نشان کاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتہ لگتا ہے لیکن جب یہ طاعون آتی ہے تو وہی شخص جس کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے وہ آتی ہے خدا تعالیٰ کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ! اگر یہ لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا؟ پس مومن کو عام لوگوں کے لیے بددعا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ انہی کے بچانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کو بچانا ہی ایک مومن کا کام ہے۔ اگر وہ ان کے لیے بددعا کرے گا تو بچائے گا کس کو؟ پھر تو مر گئے سارے اگر دعا قبول ہوتی ہے۔

احمدیت قائم ہی اس لیے ہوئی ہے کہ وہ اسلام کو بچائے۔ احمدیت قائم ہی اس لیے ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچائے۔ انسان کی عظمت انہیں واپس دلائے۔ پس جن لوگوں کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے لیے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے ان کے لیے ہم بددعا کیسے کر سکتے ہیں؟ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آخر تم سے زیادہ خدا تعالیٰ کی غیرت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا نے اپنے الہام میں وہی فرمایا کہ

اے دل تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار

کآخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ

اس میں خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ کے منہ سے کہلاتا ہے۔ آپؓ نے بھیرہ میں غالباً یہ تقریر کی تھی اس میں فرمایا تھا۔ اس شعر کو بیان کرتے ہوئے یہ دوبارہ ایک اَور واقعہ ہے۔ پہلے اَور واقعہ تھا۔ لاہور کا تھا، یہ بھیرے کا ہے۔ فرمایا کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دل کو مخاطب کرتے ہوئے آپؑ کے منہ سے کہلاتا ہے کہ اے میرے دل! تُو ان لوگوں کے خیالات اور جذبات اور احساسات کا خیال رکھا کر تا ان کے دل میلے نہ ہوں۔ یہ نہ ہو کہ تُو تنگ آ کر بددعا کرنے لگ جائے۔ آخر ان کو تیرے رسولؐ سے محبت ہے اور وہ اسی محبت کی وجہ سےہے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ تجھے گالیاں دیتے ہیں، یہ جو گالیاں تجھے دیتے ہیں وہ اسی وجہ سے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ان کو محبت ہے۔ یہ اس کی وجہ ہے۔ یہی اصل چیز ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں میں سے ایک حصہ ناواجب مخالفت کر رہا ہے لیکن ایک حصہ محض ان کے جال میں پھنس گیا ہے۔ اس لیے وہ ہماری مخالفت کرتا ہے۔ اور پاکستان میں تو جو اکثریت ہے یا دنیا کے اَور ملکوں میں بھی وہ ان کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ گویا ان کی مخالفت ہمارے آقا ؐکی محبت کی وجہ سے ہے۔ جب ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں تو وہ کہیں گے کہ یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے والے ہیں۔ ان کی مدد کرو۔ یہ دن ضرور آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ آخر غلط فہمیاں کب تک جائیں گی!

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک انگریز مصنف ہے اس نے لکھا ہے کہ تم ساری دنیا کو تو صرف چند دن کے لیے دھوکا دے سکتے ہو،کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے دھوکا دے سکتے ہو۔ بالکل ٹھیک ہے لیکن تم ساری دنیا کو ہمیشہ کے لیے دھوکانہیں دے سکتے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ سو فیصد لوگ چند دن کے لیے گمراہ ہوجائیں یا دس آدمی ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو جائیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ساری دنیا ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو جائے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ سچائی آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آ جاتی ہے اور اب یہی ہم دیکھتے ہیں کہ وہی لوگ جو لوگوں کے دھوکے میں آئے، لوگوں کی باتیں سنیں آخر کار انہی میں سے احمدی ہو رہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تعداد جو بڑھ رہی ہے وہ کہاں سے بڑھ رہی ہے؟ انہی لوگوں میں سے بڑھ رہی ہے جو پہلے مخالفین کے ساتھ تھے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 33صفحہ 221تا 223 خطبہ جمعہ فرمودہ 18جولائی 1952ء)

پس یہ مخالفت ان شاء اللہ ایک روز ختم ہو جائے گی اور انہی میں سے لوگ آ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوں گے۔ کئی لوگ مجھے بھی لکھتے ہیں۔ آج کل بھی لکھتے ہیں کہ مخالفت کے بعد جب ہمیں کہا گیا کہ دعا کرو یا لٹریچر پڑھو۔ جب ہم نے دعا کی اور لٹریچر پڑھا تو حقیقت کھلی اور اب ہم بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ بیعت کر کے سلسلہ میں شامل ہو گئے ہیں اور یہ ہمیشہ سے چلتا چلا آ رہا ہے۔ حضرت مصلح موعوؓد نے بھی اس بارے میں لکھا ہوا ہے باقی خلفاء نے بھی لکھا ہوا ہے کہ بہت سارے لوگ اس طرح خطوط میں لکھتے تھے اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔

پس اگر یہ مولوی ہمارے خلاف بیان دیتے ہیں تو اس ذریعہ سے آج کل جتنا احمدیت کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور خاص طور پر اس طبقہ میں جہاں ہماری طرف سے پیغام پہنچنا مشکل تھا تو یہ ہمارا کام کر رہے ہیں اور یہ ہمارے فائدہ کے لیے ہے۔ دعا تو ہم ان کے لیے بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ! اگر ان میں کوئی بھی شرافت کی رمق ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے اور انہیں سمجھ آ جائے لیکن عوام الناس کے لیے، عامة المسلمین کے لیے، زیادہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے چنگل سے نجات دے۔

بہرحال یہ ہمارے فائدے کے لیے مخالفت کرتے ہیں ایسی ایسی جگہوں پر احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے جہاں پہلے نہیں پہنچتا تھا۔ یا ہمارے ذریعہ سے نہیں پہنچ سکتا تھا اور پھر ان میں سے بعض لوگ خود رابطہ بھی کرتے ہیں۔ پس ہمارا کام دعا کرنا ہے اور صبر کرنا ہے اور یہی بہترین ذریعہ ہے جو اِنْ شَاءاللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی بھی عطا فرمائے گا۔ ہمارا کام یہی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے خیالات اور اپنے احساسات کو صاف رکھیں۔ ان کے لیے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد ان کی آنکھیں کھولے اور یہ زمانے کے امام کو ماننے اور پہچاننے والے بن جائیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 4؍جون2021ءصفحہ5تا7)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button