خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍اپریل2021ء

قبولیت دعا کے لیے بھی بعض شرائط ہیں پس ہم جب ان شرائط کے مطابق اپنی دعاؤں میں حسن پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے قریب اور دعاؤں کو سننے والا پائیں گے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں دعاؤں کی اہمیت، قبولیت کی شرائط، فلسفہ اور گہرائی کا بصیرت افروز بیان

ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سطحی طور پر دعا کر کے پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول نہیں کیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو ہم نے ایک کام کہا جس کو اسے ماننا چاہیے تھا۔ یعنی نعوذباللہ اللہ تعالیٰ ان کے حکموں کا پابند ہے۔ جو چاہیں وہ کہیں، جس طرح چاہیں وہ کہیں، جو چاہیں ان کے عمل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ پابند ہے کہ ہماری باتیں سنے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا یہ نہیں ہوگا۔ پہلے تمہیں میری باتیں ماننی ہوں گی۔ اپنے عملوں کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا

’’یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ اس لیے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی اس دعا کے ہیں۔‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعودؑ)

’’شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں؟ یا اسباب دعا نہیں؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے او ردعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ ہے‘‘

ہمیں اس رمضان میں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کے لیے اس کے حکموں پر چلنے والے ہوں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے چلے جانے والے ہوں۔ دعا کی حکمت اور فلاسفی کو سمجھنے والے ہوں۔ اپنے اعمال کی اصلاح کرنے والے بنیں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوتی ہیں۔

دوسروں کے لیے دعائیں کرنے سے بھی اپنی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ نسخہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کے لیے دعائیں کرنے والے کے لیے فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور فرشتوں کی دعائیں جب ہو رہی ہوں تو یہ کس قدر فائدہ مند سودا ہے

الجزائر، پاکستان اور دنیا میں ہر جگہ تکالیف میں مبتلا احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍اپریل2021ء بمطابق 16؍شہادت1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۴﴾ۙ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۵﴾ شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۱۸۶﴾ وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾
(البقرۃ:184تا187)

ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ گنتی کے چند دن ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لئے بہت اچھا ہے۔ اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال پھر ہمیں ماہ رمضان میں سے گزرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ صرف رمضان کے مہینے کو پانا اور اس میں سے گزرنا ہی کافی نہیں ہے یا صرف صبح سحری کھا کر روزہ رکھنا اور شام کو افطاری کر کے روزہ کھولنا ہی روزوں کے مقصد کو پورا نہیں کرتا بلکہ ان روزوں کے ساتھ اور ان روزوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ روزوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعض حکم دیے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان پر عمل کرنے کی وجہ سے ہمیں اپنا قرب عطا فرمانے اور قبولیت دعا کی نوید سنائی ہے۔ ان میں سے چند آیات میں نے تلاوت کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان آیات میں جو میں نے تلاوت کی ہیں روزوں کی فرضیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اسی طرح یہ بھی بتا دیا کہ اگر بیماری یا کوئی اور جائز وجہ ہے تو روزوں سے رخصتی کی صورت میں پھر ان کو بعد میں پورا کرنا چاہیے۔ یا پھر اس کا فدیہ ہے اگر کوئی بالکل پورا نہ کر سکے، کوئی لمبی بیماری ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگر بعد میں روزے رکھنے کی طاقت ہو جائے تو پھر بھی فدیہ دینا بہتر ہے اگر مالی لحاظ سے کسی کو اس کی طاقت ہے۔

پھر قرآن کریم کی اہمیت اور اس کے نزول کے بارے میں بھی بتا کر ہمیں یہ بتایا کہ اس کا پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے لیے ہدایت اور ایمان میں مضبوطی کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیم کو سمجھنے کا بھی ذریعہ ہے۔ اور پھر ہمیں یہ خوشخبری دی کہ میرے بندوں کو بتا دے کہ اے نبیؐ! مَیں ان کے قریب ہوں۔ دعاؤں کو سنتا ہوں۔ قبول کرتا ہوں ۔اور رمضان کے مہینے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آ جاتا ہےیعنی اپنے بندوں کی دعاؤں کو بہت زیادہ سنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری دعائیں سنوں تو پھر تمہیں بھی میری باتوں کو ماننا ہو گا۔ مَیں نے جو احکامات دیے ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ ان نیکیوں کو مستقل زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پس قبولیت دعا کے لیے بھی بعض شرائط ہیں۔ پس ہم جب ان شرائط کے مطابق اپنی دعاؤں میں حسن پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے قریب اور دعاؤں کو سننے والا پائیں گے۔

اس وقت میں دعاؤں کے حوالے سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض فرمودات پیش کر کے اس کی اہمیت اور ہمیں جو اپنی عملی حالتوں کو درست کرنا چاہیے اس کے متعلق قبولیت دعا کی شرائط کیا ہیں اور اس کا فلسفہ اور اس کی گہرائی کے بارے میں جو آپؑ نے بیان فرمایا اس میں سے کچھ پیش کروں گا۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سطحی طور پر دعا کر کے پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول نہیں کیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو ہم نے ایک کام کہا جس کو اسے ماننا چاہیے تھا۔ یعنی نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ ان کے حکموں کا پابند ہے۔ جو چاہیں وہ کہیں، جس طرح چاہیں وہ کہیں، جو چاہیں ان کے عمل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ پابند ہے کہ ہماری باتیں سنے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا یہ نہیں ہو گا۔ پہلے تمہیں میری باتیں ماننی ہوں گی۔ اپنے عملوں کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ رمضان کے مہینے میں جب نیکیوں کا ماحول بنا ہے۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے تو میری ہدایات اور احکامات کو دیکھو، غور کرو، سنو اور ان پر عمل کرو۔ اپنے ایمانوں کا جائزہ لو کہ کتنے مضبوط ایمان ہیں تمہارے۔ کسی مشکل میں پڑنے پر، ابتلا آنے پر ایمان متزلزل تو نہیں ہو رہے ؟ بہرحال یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں قدم بندے نے ہی پہلے اٹھانا ہے اور جب اس کی انتہا ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت جوش میں آتی ہے، اس کا فضل جوش میں آتا ہے۔ پس اس بات کو سمجھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ

’’د عا اسلام کا خاص فخر ہے اور مسلمانوں کو اس پر بڑا ناز ہے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ دعا زبانی بَک بَک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور دعا کرنے والے کی روح پانی کی طرح بہ کر آستانہ الوہیت پر گرتی ہے اور اپنی کمزوریوں اور لغزشوں کے لیے قَوی اور مقتدر خدا سے طاقت اور قوت اور مغفرت چاہتی ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ دوسرے الفاظ میں اس کو موت کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ حالت میسر آجاوے تو یقیناً سمجھو کہ باب ِ اجابت اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور خاص قوت اور فضل اور استقامت بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر استقلال کے لئے عطا ہوتی ہے۔ یہ ذریعہ سب سے بڑھ کر زبردست ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ263ایڈیشن 1984ء)

پس یہ ہے دعا کا طریق اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا طریق اور دعا کو قبول کرانے کا طریق اور گناہوں سے پاک ہونے کا طریق۔آج کل یہ سوال بڑا عام کیا جاتا ہے کہ ہمیں کس طرح پتہ چلے کہ ہمارے گناہ معاف ہو گئے اور اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے۔ یہاں اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اصولی بات بھی بیان فرما دی کہ اگر اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق قائم ہو جاتا ہے جو مستقل تعلق ہے، جس کے لئے انسان نے حقیقی کوشش کی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوتا ہے جو اسے بدیوں سے بچنے کی استقامت عطا فرماتا ہے اور نہ صرف یہ کہ بدیوں سے انسان بچتا ہے بلکہ نیکیاں کرنے اور مستقل نیکیاں کرنے کی قوت عطا ہوتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا قرب پا لیا ہے۔ پس حقیقی عابد انسان اس وقت بن سکتا ہے جب اس نہج پر سوچنے والا ہو اور اس کے مطابق عمل کرنے والا ہو اور اس کے لیے ہمیں اس رمضان میں کوشش بھی کرنی چاہیے۔

دعا کے حوالے سے جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ قبولیت دعا کے مسئلہ کو بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’استجابت دعا کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں۔‘‘ کسی چیز کو سمجھنے کے لئے اس کی بنیاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ بنیادی چیز نہیں سمجھ آ رہی تو جتنے مرضی اس کے نکات ہوں، تشریحیں ہوں، وضاحتیں ہوں وہ سمجھ نہیں آ سکتے۔ فرمایا کہ ’’…… دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاذبہ ہے۔‘‘ یعنی جذب کرنے کا ایک تعلق ہے۔ ’’یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے۔’’ اگر بندے کی سچائی اور سچے دل سے کوششیں ہوں گی تو پھر خدا تعالیٰ بندے کے نزدیک ہو جاتا ہے۔ ’’اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواصِ عجیبہ پیدا کرتا ہے ۔‘‘ عجیب و غریب قسم کے خواص ظاہر ہوتے ہیں۔ ’’سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے۔ پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہِ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے۔‘‘ صرف اس کو خدا ہی خدا نظر آتا ہے۔ ہر چیز نظر سے غائب ہو جاتی ہے۔ دنیا کی کوئی حیثیت اس کے سامنے نہیں رہتی۔ کسی بھی چیز کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ایسی حالت پیدا ہوتی ہے کہ صرف خدا ہوتا ہے اور جب خدا کو دیکھتا ہے تو اس کے آستانے پر پھر اس کی روح سر رکھ دیتی ہے ’’اور قوتِ جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔‘‘ بندے کے اندر بھی جذب کرنے کی ایک قوت رکھی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جو عنایات ہیں ان کو جذب کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ’’تب اللہ جل شانہٗ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے۔‘‘ جو بھی بنیادی اسباب اس کام کو کرنے کے لیے ضروری ہیں، جو چیزیں بھی ضروری ہیں، جو لوازمات بھی ضروری ہیں ان پر اللہ تعالیٰ اپنا اثر ڈالتا ہے۔ ’’جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً اگر بارش کے لیے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لیے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں اور اگر قحط کے لئے بد دعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے۔‘‘

پھر فرمایا کہ ’’…… جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرتِ قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں۔‘‘

(برکات الدعاء۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ9-10)

قرآن شریف بھی بےشمار پیشگوئیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی بہت پیشگوئیاں پوری ہوئیں، بہت ساری باتیں پوری ہوئیں، بہت نیک لوگوں کو نیک خوابیں آتی ہیں اور پوری ہوتی ہیں، دعاؤں کے اثر ظاہر ہوتے ہیں۔ تو یہ ساری باتیں اسی صورت میں ہوتی ہیں جب خالص ہو کر بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)

جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلا دیں گے۔‘‘ مجاہدہ پہلے بندے کے ذمہ ڈالا۔ تم نے مجاہدہ کرنا ہے۔ ’’یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتحہ:6)‘‘

اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ مجاہدہ کرو میں تمہیں اپنی راہ دکھلاؤں گا۔ دوسری طرف یہ دعا بھی سکھلا دی کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کہ ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے۔ ’’سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مد نظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے۔‘‘ گڑگڑا کر دعائیں کرے ’’اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے۔ چنانچہ فرمایا۔

مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى(بنی اسرائیل:73)

کہ جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1 صفحہ20 مطبوعہ لندن) یعنی روحانی لحاظ سے اندھا ہے۔ جو اس جہان میں دنیا میں ڈوبا ہوا جس نے اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانا، جس نے دعاؤں کی حکمت کو نہیں پہچانا، جس نے دعاؤں کے اثر کو نہیں پہچانا اور دنیا میں ڈوبا ہوا ہے وہ پھر اگلے جہان میں بھی اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں پا سکتا۔ پس آپؑ فرماتے ہیں کہ آخرت کی تیاری اس دنیا سے ہونی چاہیے اس کی تیاری کرو فرمایا کہ ’’…… منشا یہ ہے کہ اُس جہان کے مشاہدہ کے لئے اسی جہان سے ہم کو آنکھیں لے جانی ہیں۔‘‘ اگلے جہان کو اللہ تعالیٰ کے قرب پانے والے جہان کو اگر دیکھنا ہے تو پھر اسی جہان سے ہمیں اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں لے جانی ہوں گی۔ ’’آئندہ جہان کو محسوس کرنے کے لئے حواس کی طیاری اسی جہان میں ہو گی۔ پس کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کرے اور پورا نہ کرے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اندھے سے مراد وہ ہے جو روحانی معارف اور روحانی لذات سے خالی ہے۔ ایک شخص کورانہ تقلید سے کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو گیا۔‘‘ اندھی تقلید ہو رہی ہے۔ اس بات پر صرف اندھا ایمان ہے، اندھی تقلید ہے، پیروی کر رہا ہے، عمل کوئی نہیں صرف اندھی پیروی ہے کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو گیا اس لیے میں مسلمان ہوں۔ ’’مسلمان کہلاتا ہے۔ دوسری طرف اسی طرح ایک عیسائی عیسائیوں کے ہاں پیدا ہو کر عیسائی ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے شخص کو خدا، رسول اور قرآن کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اس کی دین سے محبت بھی قابل اعتراض ہے۔‘‘ جو اندھی تقلید کر رہا ہے اس کی دین سے محبت بھی قابلِ اعتراض ہے۔ ’’خدا اور رسولؐ کی ہتک کرنے والوں میں اس کا گذر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایسے شخص کی روحانی آنکھ نہیں۔ اس میں محبتِ دین نہیں۔ وَاِلَّا محبت والا اپنے محبوب کے برخلاف کیا کچھ پسند کرتا ہے؟‘‘ اگر محبت ہو تو محبت کرنے والا اپنے محبوب کے خلاف کچھ نہیں پسند کرتا۔ ’’غرض اللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے کہ میں تو دینے کو تیار ہوں اگر تُو لینے کو تیار ہے۔ پس یہ دعا کرنا ہی اس ہدایت کو لینے کی تیاری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ20ایڈیشن 1984ء)

پس ان دنوں میں یہ دعا بہت کریں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے۔ دلوں کو بھی پاک کر ے۔ حقیقی عابد بنائے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کا حق ادا کرنے والا بھی بنائے۔ نہ کہ آجکل جس طرح شدت پسند کر رہے ہیں ان کی طرح ہو جائیں۔ خدا اور رسول کے نام پر ظلم کیے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کے شر سے بھی ہر ایک کو بچائے۔

بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اس قدر گناہگار ہو گئے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ ہمیں بخشے گا نہیں۔ سوال بھی بعض پوچھ لیتے ہیں کہ کتنا گناہگار آدمی بخشا جا سکتا ہے اور پھر مزید اس بات پہ کہ ہم بخشے نہیں جائیں گے مزید گناہوں میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اصل میں تو شیطان ان کے دلوں میں ایک وسوسہ ڈال رہا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے دور کرنے کے لیے شیطان اپنے حربے استعمال کر رہا ہو تا ہے اور ایسے لوگ پھر شیطان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں شیطان کے اس حملے اور چنگل سے نکلنے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کرکے دعا سے ہرگز باز نہ رہے۔‘‘ ہرگز نہ رکو کہ بہت گناہ ہو گئے ہیں۔ فرمایا کہ ’’دعا تریاق ہے۔ آخر دعاؤں سے دیکھ لے گا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا۔‘‘ دعا ہی تو گناہوں سے بچنے کا علاج ہے۔ جب مستقل مزاجی سے دعا کرو گے تو دیکھو گے کہ گناہ بھی اسے بُرا لگنے لگے گا۔ شیطان دوڑ جائے گا۔ ’’جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں اور توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتے آخر وہ انبیاء اور ان کی تاثیرات کے منکر ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ4-5 ایڈیشن 1984ء)

پھر وہ دین سے ہٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دین سے دور ہو جاتے ہیں اور پھر انبیاء سے دور ہوتے ہوتے، دین سے ہٹتے ہٹتے دہریت تک پہنچ جاتے ہیں۔ پس اسلام ایسے لوگوں کو بھی امید کی کرن دکھلاتا ہے جو گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس لیے یہی موقع پیدا کرنے کے لیے کہ کس طرح گناہوں سے توبہ کرنی ہے، وہ ماحول پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہر سال ہمیں یہ رمضان کا مہینہ دکھاتا ہے۔ پس اس مہینے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اپنے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے کہ

اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’میرے ساتھ میرے مولیٰ کریم کا صاف وعدہ ہے کہ

اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ۔

مگر میں خوب سمجھتا ہوں کہ کُلَّ سے مراد یہ ہے کہ جن کے نہ سننے سے ضرر پہنچتا ہے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ ہر دعا سے یہ مراد نہیں کہ ہر دعا سنی جائے گی لیکن اگر کُلَّ سے مراد یہ ہے کہ وہ دعائیں جن کے نہ سننے سے ضرر پہنچتا ہے۔ ’’لیکن اگر اللہ تعالیٰ تر بیت اور اصلاح چاہتا ہے تو ردّ کرنا ہی اجابتِ دعا ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان کسی دعا میں ناکام رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دعا ردّ کر دی حالانکہ خدا تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے اوروہ اجابت بصورت رد ہی ہوتی ہے کیونکہ اس کے لئے در پردہ اور حقیقت میں بہتری اور بھلائی اس کے رد ہی میں ہوتی ہے۔ انسان چونکہ کوتاہ بین ہے اور دور اندیش نہیں بلکہ ظاہر پرست ہے اس لئے اس کو مناسب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے اور وہ بظاہر اس کے مفید مطلب نتیجہ خیز نہ ہو تو خدا پر بدظن نہ ہو کہ اس نے میری دعا نہیں سنی۔ وہ تو ہر ایک کی دعا سنتا ہے۔

اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن:61)

فرماتا ہے۔ راز اور بھید یہی ہوتا ہے کہ داعی کے لئے خیر اور بھلائی رَدِّ دعا ہی میں ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ106) یعنی دعا کرنے والے کے لیے خیر اور بھلائی اسی میں ہے کہ دعا نہ سنی جائے۔

پھر اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’دعا کا اصول یہی ہے اللہ تعالیٰ قبول دعا میں ہمارے اندیشہ اورخواہش کے تابع نہیں ہوتا۔دیکھو بچے کس قدر اپنی ماؤں کو پیارے ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے لیکن اگر بچے بے ہودہ طور پر اصرار کریں اور رو کر تیز چاقو یا آگ کا روشن اورچمکتا ہوا انگارہ مانگیں تو کیا ماں باوجود سچی محبت اور حقیقی دل سوزی کے کبھی گوارا کرے گی کہ اس کا بچہ آگ کا انگارہ لے کر ہاتھ جلا لے یا چاقو کی تیز دھار پر ہاتھ مار کر ہاتھ کاٹ لے۔ ہر گز نہیں۔ اسی اصول سے اجابت دعا کا اصول سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’میں خود اس امر میں ایک تجربہ رکھتا ہوں کہ جب دعا میں کوئی جز و مضر ہوتا ہے تو وہ دعا ہر گز قبول نہیں ہوتی ہے۔‘‘ یہ نہیں کہ ساری دعائیں میری قبول ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس کو غیب کا علم ہے۔ جب کوئی بات اس دعا میں مضر ہوتی ہے، نقصان دہ ہوتی ہے تو میری وہ دعا قبول نہیں ہوتی ۔ فرمایا کہ ’’یہ بات خوب سمجھ میں آسکتی ہے کہ ہمارا علم یقینی اور صحیح نہیں ہوتا۔ بہت سے کام ہم نہایت خوشی سے مبارک سمجھ کر کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ان کا نتیجہ بہت ہی مبارک خیال کرتے ہیں مگر انجام کار وہ ایک غم اور مصیبت ہو کر چمٹ جاتا ہے۔‘‘

اس کی بہت ساری مثالیں آج کل بھی ہم دیکھتے ہیں۔ روزانہ کی ڈاک میں مَیں نے دیکھا ہے لوگوں کے خط آتے ہیں کہ دعا کرتے ہیں اور پھر زبردستی ایک کام کو کرنے کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں پھر اس کے نتیجے بہتر نہیں نکلتے تو پھر اللہ تعالیٰ سے شکوہ ہوتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے دعا بھی بہت کی تھی اور بڑا صدقہ خیرات دے کر یہ کام شروع کیا تھا پھر بھی اس کا نتیجہ نیک نہیں نکلا یا ہماری وہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ دعا کو جو انتہا تک پہنچانے والی بات ہے وہ پہنچائی؟ اللہ تعالیٰ سے جو تعلق قائم کرنا چاہیے وہ ہوا؟ اگر نہیں تو پھر تو زبانی جمع خرچ ہی ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اور اگر دعا کو انتہا تک پہنچا دیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کام کو ردّ کر دیا یا اس کے نتائج نہیں نکلے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی۔ اسی میں انسان کا فائدہ تھا اور اگر غلطی کی وجہ سے انسان زور دیتا ہے تو پھر انسان کو بجائے اللہ تعالیٰ پر شکوہ کرنے کے استغفار کرنی چاہیے کہ میرے سے غلطی ہوئی اور میں اس بات پر زیادہ زور دیتا رہا جو میرے حق میں نہیں تھی بات ۔ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ قبول کر لے۔ اگر بہتر نہیں ہے تب بھی قبول کر لے۔ بعض رشتوں میں بھی ایسا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا سن لی، رشتہ ہو گیا جہاں وہ پسند کرتا تھا اور اس کے کچھ عرصہ بعد علیحدگی بھی ہو گئی تو ایسی دعائیں پھر کرنی بھی نہیں چاہئیں۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ سبق دینے کے لیے بھی انسان کو سکھا دیتا ہے۔ اس کی بعض دعائیں قبول کر لیتا ہے جو اس کے حق میں اچھی نہیں ہوتیں لیکن پھر نتیجہ جب سامنے آتا ہے تو پھر وہ توبہ استغفار کرتا ہے۔

بہرحال آپؑ نے فرمایا کہ ’’غرض یہ کہ خواہشات انسانی سب پر صاد نہیں کر سکتے کہ سب صحیح ہیں۔ چونکہ انسان سہو اور نسیان سے مرکب ہے۔‘‘ غلطیاں ہوتی ہیں انسان سے ’’اس لئے ہونا چاہئے اور ہوتا ہے کہ بعض خواہش مضر ہوتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کو منظور کر لے تو یہ امر منصبِ رحمت کے صریح خلاف ہے۔‘‘ بعض خواہش مضر بھی ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا صحیح پیارا بندہ ہے تو اللہ تعالیٰ پھر اس دعا کو اس کے لیے قبول نہیں کرتا کیونکہ یہ بات اس کی رحمت کے منصب کے خلاف ہے۔اپنے پیاروں کو کبھی اس طرح سے نقصان نہیں پہنچواتا۔ فرمایا کہ ’’یہ ایک سچا اور یقینی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو قبولیت کا شرف بخشتا ہے مگر ہر رطب ویابس کو نہیں۔‘‘ ہر شخص کے لیے نہیں ہے ’’کیونکہ جوش نفس کی وجہ سے انسان انجام اور مآل کو نہیں دیکھتا اور دعا کرتا ہے ۔‘‘ فکر ہی نہیں ہوتی اس کو کہ اس کےکیا نتیجے نکلنے ہیں۔ ’’مگر اللہ تعالیٰ جو حقیقی بہی خواہ اور مآل بین ہے اُن مضرتوں اور بد نتائج کو ملحوظ رکھ کر جو اس دعا کے تحت میں بصورت قبول داعی کو پہنچ سکتے ہیں اسے رد کر دیتا ہے اور یہ ردِّ دعا ہی اس کے لئے قبول دعا ہوتاہے۔‘‘ اپنے قریبیوں کے لیے تو خداتعالیٰ کا یہ اصول ہے۔ ’’پس ایسی دعائیں جن میں انسان حوادث اور صدمات سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول کر لیتا ہے مگر مضر دعاؤں کو بصورت ردّ قبول فرما لیتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’مجھے یہ الہام بار ہا ہو چکا ہے۔‘‘ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ’’اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ ہر ایک ایسی دعا جو نفس الامر میں نافع اور مفید ہے قبول کی جائے گی۔‘‘ آپ نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ جو منافع بخش دعا ہے وہ قبول کی جائے گی۔ فرمایا کہ ’’میں جب اس خیال کو اپنے دل میں پاتا ہوں تو میری روح لذت اور سرور سے بھر جاتی ہے۔ جب مجھے یہ اوّل ہی اوّل الہام ہوا قریباً پچیس یا تیس برس کا عرصہ ہوتا ہے تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ میری دعائیں جو میرے یا میرے احباب کے متعلق ہوں گی ضرور قبول کرے گا۔ پھر میں نے خیال کیا کہ اس معاملہ میں بخل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک انعام ِالٰہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفت میں فرمایا ہے

وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ: 4)

پس میں نے اپنے دوستوں کے لئے یہ اصول کر رکھا ہے کہ خواہ وہ یاد دلائیں یا نہ یاد دلائیں کوئی امر خطیر پیش کریں یا نہ کریں۔‘‘ مشکل معاملہ پیش کریں یا نہ کریں۔ ’’ان کی دینی اور دنیوی بھلائی کے لئے دعا کی جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ106تا108، ایڈیشن 1984ء)

قبولیت دعا کی شرائط کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا ’’یہ بات بھی بحضور دل سن لینی چاہئے کہ قبول دعا کے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض تو دعا کرنے والے کے متعلق ہوتی ہیں اوربعض دعا کرانے والے کے متعلق۔ دعا کرانے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو مد نظر رکھے۔‘‘ یہ بڑی اہم بات ہے ۔ جو دعا کے لیے کہنے والا ہے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کو سامنے رکھے ’’اور اس کے غناء ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے۔‘‘ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف ہونا چاہیے اس کے دل میں۔ ’’اورصلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنا لے۔‘‘ یہ ضروری چیزیں ہیں۔ صلح کاری اور خدا پرستی اپنا شعار بنائے۔ ’’تقویٰ اور راستبازی سے خداتعالیٰ کو خوش کرے تو ایسی صورت میں دعا کے لئے بابِ استجابت کھولا جاتا ہے۔‘‘ جب ایسی صورت پیدا ہو جائے گی یہ ساری شرطیں پوری ہوں گی تو اللہ تعالیٰ پھر دعا کی قبولیت کا دروازہ کھولتا ہے ’’اور اگر وہ خدا تعالیٰ کو نارا ض کرتا ہے اور اس سے بگاڑ اور جنگ قائم کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں چلتا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی نہیں کرتا تو فرمایا ’’تو اس کی شرارتیں اور غلط کاریاں دعا کی راہ میں ایک سدّ اور چٹان ہو جاتی ہیں۔‘‘ دیوار بن جائیں گی، روک بن جائیں گی، چٹان کی طرح کھڑی ہو جائیں گی ’’اور استجابت کا دروازہ اس کے لئے بند ہو جاتا ہے۔‘‘ اس کے لیے قبولیت دعا کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ نہ اس کی اپنی دعائیں قبول ہوتی ہیں نہ جس سے وہ دعا کروا رہا ہے اس کی دعائیں اس کے حق میں قبول ہوتی ہیں۔ فرمایا ’’پس ہمارے دوستوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں اور ان کی راہ میں کوئی روک نہ ڈال دیں جو ان کی نا شائستہ حرکات سے پیدا ہو سکتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ108، ایڈیشن 1984ء)

اگر یہ عمل صحیح نہیں ہیں تو پھر میری دعائیں بھی تمہارے حق میں قبول نہیں ہوں گی بلکہ تمہارے عمل ان کی قبولیت کے رستے میں روک بن جائیں گے۔

پھر دعا کی قبولیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اعتقادی لحاظ سے انسان مضبوط ہو۔ یہ بنیادی شرط ہے۔ اور عمل صالح کرنے والا ہو۔ عمل صالح کا پہلے بھی ذکر آ گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری باتوں پر لبّیک کہو۔ میری مانو۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں کا مثبت جواب دینا، ان پر عمل کرنا یہی ایک بنیادی چیز ہے جو پھر دعاؤں کی قبولیت کے لیے ضروری ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ اس لیے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے اور یہی معنی اس دعا کے ہیں۔ پہلے لاز م ہے کہ انسان اپنے اعتقاد۔اعمال میں نظر کرے کیونکہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے۔‘‘ سامان مہیا ہوں گے جو اصلاح کے لیے ضروری ہیں، اپنی حالتیں درست کرو گے، درست کرنے کی کوشش کرو گے تو پھر اصلاح بھی ہو گی۔ فرمایا کہ ’’وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کردیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہوجاتاہے۔‘‘ اگر دعا سچے دل سے کی جا رہی ہے تو اللہ تعالیٰ پھر ایسا سبب پیدا کر دیتا ہے جو اصلاح کا موجب بن جاتا ہے۔ ’’وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے۔ وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے۔‘‘ جو دعا کرنا ہے وہ بھی تو ایک سبب، وجہ ہے ناں ’’جو دوسرے اسباب کو پیداکردیتا ہے اور

اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا تقدم اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتحہ:5)

پر جو کلمۂ دعائیہ ہے اس امر کی خاص تشریح کررہا ہے۔‘‘ کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور پھر تجھ سے مدد چاہتے ہیں کہ ہمارے کام ہو جائیں۔ اس امر کی خاص تشریح کر رہا ہے۔ ’’غرض عادۃ اللہ ہم یونہی دیکھ رہے ہیں کہ وہ خلقِ اسباب کردیتا ہے۔‘‘ اسباب پیدا کر دیتا ہے انسان کے لیے۔ ’’دیکھو پیاس کے بجھانے کے لئے پانی اور بھوک کےمٹانے کے لئے کھانامہیاکرتا ہے مگر اسباب کے ذریعے۔‘‘ یہ نہیں ہے کہ یونہی پیاس بجھ گئی یا پانی ویسے ہی آسمان سے ایک دم جادو کی طرح آ گیا یا کھانا میسر ہو گیا۔ اسباب پیدا ہوتے ہیں، ذریعے پیدا ہوتے ہیں جن کے ذریعہ سے پانی بھی ملتا ہے اور کھانا بھی ملتا ہے۔ ’’پس یہ سلسلۂ اسباب یونہی چلتا ہے اور خلقِ اسباب ضرورہوتا ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کے یہ دو نام ہی ہیں۔

كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا (النساء:159)

عزیز تو یہ ہے کہ ہر ایک کام کردینا اور حکیم یہ کہ ہر ایک کام کسی حکمت سے موقع اور محل کے مناسب اور موزوں کر دینا۔ دیکھو نباتات، جمادات میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں۔ تربد ہی کو دیکھو کہ وہ ایک دو تولہ تک دست لے آتی ہے، ایسا ہی سقمونیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر تو قادر ہے کہ یونہی دست آجائے یا پیاس بدوں پانی ہی کے بجھ جائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پیٹ کھول دے اور پانی کے بغیر پیاس بجھ جائے۔ ’’مگر چونکہ عجائباتِ قدرت کا علم کرانا بھی ضروری تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں یہ عجائبات ہیں قدرت کے ان کو علم کرانا بھی ضروری تھا۔ ’’کیونکہ جس قدر واقفیت اور علم عجائباتِ قدرت کا وسیع ہوتا جاتا ہے اسی قدر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات پراطلاع پا کر قرب حاصل کرنے کے قابل ہوتا جاتا ہے۔ طبابت، ہیئت سے ہزارہا خواص معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ124-125، ایڈیشن 1984ء)

اگر انسان کی روحانی آنکھ دیکھے تو یہ جو چیزیں پیدا کی گئی ہیں ایک موحد سائنسدان جو ہے، اللہ تعالیٰ کو ماننے والا سائنسدان جو ہے وہ ہر ایجاد پر یا ہر چیز کو دیکھ کر اس پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کے وجود کا ایک ثبوت حاصل کرتا ہے اور اس کا ایمان بڑھتا ہے لیکن دہریہ چاہے اس کو اتفاق کہہ دیتا ہے لیکن بہرحال فرمایا کہ یہ عجائبات قدرت اللہ تعالیٰ نے دکھائے ہی اس لیے ہیں تا کہ انسان کو پتہ لگے کہ ہرچیز کا ایک مقصد ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اورمراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اورطلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (المائدہ:28)۔

گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔‘‘

اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ۔

’’یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلف نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ (الرعد:32)‘‘

اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۔ ’’

پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لیے ایک غیر منفک شرط ہے۔‘‘ ایسی شرط ہے جسے الگ نہیں کیا جا سکتا، چھوڑا نہیں جا سکتا، ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ ’’تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیتِ دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیتِ دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ108-109، ایڈیشن 1984ء)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے پہ ایمان بھی لاؤ۔ اسی طرح ایمان بڑھے گا۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رحم کی قسمیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یہ یاد رہے کہ رحم دو قسم کا ہوتا ہے ایک رحمانیت دوسرا رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ رحمانیت تو ایسا فیضان ہے کہ جو ہمارے وجود اور ہستی سے بھی پہلے ہی شروع ہوا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے پہلے پہل اپنے علم قدیم سے دیکھ کراس قسم کا زمین وآسمان اور ارضی اور سماوی اشیاء ایسی پیدا کی ہیں جو سب ہمارے کام آنے والی ہیں اورکام آتی ہیں۔ اور ان سب اشیا سے انسان ہی عام طور پر فائدہ اٹھاتا ہے۔ بھیڑ بکری اور دیگر حیوانات جبکہ بجائے خود انسان کے لئے مفید شے ہیں تو وہ کیا فائدہ اٹھاتے ہیں؟‘‘ یہ سب چیزیں تو انسان کے فائدے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے کیا فائدہ اٹھانا ہے۔ ’’دیکھو جسمانی امور میں انسان کیسی کیسی لطیف اور اعلیٰ درجہ کی غذائیں کھاتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کاگوشت انسان کے لیے ہے۔ ٹکڑے اور ہڈیاں کتوں کے واسطے۔ جسمانی طور پر جو حظوظ اور لذات انسان کو حاصل ہیں گو حیوان بھی اس میں شریک ہیں مگر انسان کو وہ بدرجہ اعلیٰ حاصل ہیں اور روحانی لذات میں جانور شریک بھی نہیں ہیں۔‘‘ روحانی لذات جو ہیں وہ تو صرف انسان کے لیے ہیں۔ جانور تو اس میں شریک ہی نہیں۔ ’’پس یہ دوقسم کی رحمتیں ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے پیش از وقت کے طور پر تقدمہ کی صورت میں‘‘ یعنی پہلے ہی تیار کر کے رکھی گئی ہیں، ’’عناصر وغیرہ اشیاء پیداکیں جو ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں اور یہ ہمارے وجود، خواہش اور دعا سے پہلے ہیں۔‘‘ ہمارے پیدا ہونے سے بھی پہلے کی چیزیں ہیں۔ ہماری خواہش سے بھی پہلے سے ہی یہ موجود ہیں۔ ہماری دعا مانگنے سے بھی پہلے سے ہی موجود ہیں۔’’جو رحمانیت کے تقاضے سے پیدا ہوئے۔‘‘ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔

’’اوردوسری رحمت رحیمیت کی ہے۔ یعنی جب ہم دعاکرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ غورکیا جاوے تومعلوم ہوگا کہ قانونِ قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دعا کا تعلق ہے۔ بعض لوگ آج کل اس کو بدعت سمجھتے ہیں۔ ہماری دعا کا جو تعلق خداتعالیٰ سے ہے مَیں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کروں۔‘‘

فرمایا ’’ایک بچہ‘‘ یعنی ایک انسان کا دعا سے جو تعلق ہے وہ بیان کیا۔ ’’ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہوکر دودھ کے لئے چِلّاتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مارکر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں مگر بچہ کی چلاہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے۔ تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لا سکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے مگرآنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔ بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کوانسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے۔ دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیداہوتا ہے۔ مانگتے جاؤگے ملتا جاوے گا۔

اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن:61)

کوئی لفّاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ128تا130، ایڈیشن 1984ء)

پھر اس بات کی اہمیت کو بیان فرماتے ہوئے کہ مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ فرمایا کہ ’’مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا۔ جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے۔ بچہ کی مثال جو میں نے بیان کی ہے‘‘ جو آپ نے پہلے بیان کی ہے۔ ’’وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کرکے دکھاتی ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں۔ پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا۔ رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت سے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے۔‘‘ رحمانیت اللہ تعالیٰ کی یہ ہے اس نے تو ہمیں رستے دکھا دیے، بتا دیا، چیزیں بھی دے دیں اور جو اس کی چیزیں ہم نے مانگ کے لینی ہیں اس کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ اس کے لیے رحمانیت دعا کرانے اور اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کو حاصل کرنے کے ذرائع پیدا کرتی ہے۔ فرمایا کہ ’’جو ایسا نہیں کرتا وہ کافرِ نعمت ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے یہی معنی ہیں کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں۔ ان ظاہری سامانوں اور اسباب کی رعایت سے جو تُو نے عطا کیے ہیں۔‘‘ ہم عبادت کرتے ہیں ان ظاہری اسباب کے ذریعہ سے۔ ’’دیکھو یہ زبان۔‘‘ زبان کی مثال آپ دے رہے ہیں۔ ’’جوعروق اور اعصاب سے خلق کی ہے۔‘‘ اس کی رگیں ہیں ،نسیں ہیں، لعاب ہے یا اعصاب ہیں یہ سب چیزیں زبان کا حصہ ہیں۔ اسی سے زبان بنی ہے۔ ’’اگر ایسی نہ ہوتی تو ہم بول نہ سکتے۔‘‘ ایسی زبان خشک ہو جاتی۔ زبان اگر خشک ہو جائے۔ اس کی نسیں اور رگیں تر نہ ہوں تو انسان بول نہیں سکتا۔ ان کو ہر وقت تری مل رہی ہے تب بھی انسان زبان ہلا نہیںسکتا۔ فرمایا کہ ’’ایسی زبان دعا کے واسطے عطا کی جو قلب کے خیالات تک کو ظاہر کر سکے۔‘‘ پھر خیالات کو ظاہر کرنے کے لیے زبان عطا کی۔ ہم اس سے بول لیتے ہیں۔ ’’اگر ہم دعا کا کام زبان سے کبھی نہ لیں تو یہ ہماری شوربختی ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ زبان کو لگ جاویں تویکدفعہ ہی زبان اپنا کام چھوڑ بیٹھتی ہے یہاں تک کہ انسان گونگا ہو جاتا ہے۔ پس یہ کیسی رحیمیت ہے کہ ہم کو زبان دے رکھی ہے۔‘‘ میرا خیال ہے شاید یہاں رحمانیت کا لفظ ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے زبان دے رکھی ہے۔ یہ بھی اس کی رحمانیت ہے۔ اور پھر اس کے استعمال کرنے کا طریقہ ہمیں سکھایا۔ اس کا جو استعمال ہے اور اس کو ہم استعمال کرتے ہیں یہ بھی رحیمیت ہے۔’’ایسا ہی کانوں کی بناوٹ میں فرق آ جاوے تو خاک بھی سنائی نہ دے۔ ایسا ہی قلب کا حال ہے وہ جو خشوع وخضوع کی حالت رکھی ہے اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں رکھی ہیں۔ اگر بیماری آجاوے تو وہ سب قریباً بیکار ہو جاتی ہیں۔ مجنونوں کو دیکھو کہ ان کے قویٰ کیسے بیکار ہو جاتے ہیں۔ تو کیا یہ ہم کو لازم نہیں کہ ان خداداد نعمتوں کی قدر کریں؟ اگر ان قویٰ کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فضل سے ہم کو عطا کیے ہیں بیکار چھوڑ دیں تو لَارَیب ہم کافر نعمت ہیں۔ پس یادرکھو کہ اگر اپنی قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کر دعا کرتے ہیں۔تو دعا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی کیونکہ جب ہم نے پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے کو کب اپنے لیے مفید اور کار آمد بنا سکیں گے۔‘‘

یہ مثالیں دے کر آپ نے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرو اور انہیں کام میں لاؤ جو اس کا اعلیٰ کام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا صحیح استعمال مانگو اور جب یہ ہو گا تو پھر ہی ایک بندہ حقیقی بندگی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کر سکتا ہے اور پھر یہ شکرِ انسان، یہ جو شکر ہے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے اور رحمانیت سے عطا کی ہوئی چیزیں رحیمیت سے پھر حصہ بھی لیتی ہیں اور قبولیتِ دعا کے نظارے انسان دیکھتا ہے۔

پھر اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ’’پس اِيَّاكَ نَعْبُدُ یہ بتلارہا ہے کہ اے ربّ العالمین! تیرے پہلے عطیہ کو بھی ہم نے بیکار اور بربادنہیں کیا۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے سچی بصیرت مانگے کیونکہ اگر اس کا فضل اور کرم دستگیری نہ کرے تو عاجز انسان ایسی تاریکی اوراندھکار میں پھنساہوا ہے کہ وہ دعا ہی نہیں کرسکتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، وہی اس کی رہنمائی کرتا ہے، وہی مدد کرتا ہے ورنہ انسان تو عاجز ہے، وہ تو دنیا میں پھنسا ہوا ہے۔ دنیا کی تاریکی میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کو دعا کا موقع ہی نہیں مل سکتا۔ ’’پس جب تک انسان خدا کے اس فضل کو جو رحمانیت کے فیضان سے اسے پہنچا ہے کام میں لا کر دعا نہ مانگے کوئی نتیجہ بہتر نہیں نکال سکتا۔‘‘ انسان کو بہرحال اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی پڑتی ہے اس اندھیرے سے نکلنے کے لیے۔

فرمایا ’’میں نے عرصہ ہوا انگریزی قانون میں یہ دیکھا تھا کہ تقاوی کے لئے پہلے کچھ سامان دکھانا ضروری ہوتا ہے۔‘‘ تقاوی ہوتا ہے ایک زراعتی قرضہ جو زمیندار لیتے ہیں۔ یہاں بھی قرض لیتے ہیں جسے mortgage وغیرہ کہتے ہیں تو بیچ میں کچھ اپنی رقم ڈالنی پڑتی ہے یا کوئی ضمانت دینی پڑتی ہے۔ سامان دکھانا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ عمل پیش کرنا پڑتا ہے۔ عملی طور پر کچھ نہ کچھ پیش کرنا پڑتا ہے۔ ’’اسی طرح قانونِ قدرت کی طرف دیکھو کہ جو کچھ ہم کو پہلے ملا ہے اس سے کیا بنایا؟ اگر عقل و ہوش، آنکھ کان رکھتے ہوئے نہیں بہکے ہو اور حُمق اور دیوانگی کی طرف نہیں گئے تو دعا کرو اَور بھی فیضِ الٰہی ملے گا۔‘‘ اگر سب چیزیں انسان کو ملی ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں اس سے بہکے نہیں ہیں تو پھر دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں دی ہیں تو فضل الٰہی اَور بڑھے گا ’’ورنہ محرومی اور بدقسمتی کے لچھن ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ128تا131، ایڈیشن 1984ء)

اگر نعمتوں کا صحیح استعمال نہیں ہے تو پھر دعائیں کوئی فائدہ نہیں دیتیں بلکہ محرومی اور بدقسمتی پھر انسان کے شامل حال رہتی ہے۔ پس ہمیں اس پر بہت غور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر آپ فرماتے ہیں’’قانون قدرت میں قبولیت دعا کی نظیریں موجود ہیں اور ہرزمانہ میں خداتعالیٰ زندہ نمونے بھیجتا ہے۔ اسی لئے اس نے

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ:6)

کی دعا تعلیم فرمائی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا منشاء اور قانون ہے اور کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا سے پایا جاتا ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر۔‘‘ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر۔ مکمل کر۔ پورا کر۔ ’’ان الفاظ پرغورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر تو اشارة النص کے طور پر اس سے دعا کرنے کا حکم معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ظاہری طور پر دعا کرنے کا حکم ہے۔ ’’صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تعلیم ہے۔‘‘ یہ ضرور ہے۔ یہی ہے اس کی طرف اشارہ ہو رہا ہے۔ ’’لیکن اس کے سر پر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (الفاتحہ:5) بتارہا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ یعنی صراطِ مستقیم کے منازل کے لئے قویٰ سلیم سے کام لے کر استعانتِ الٰہی کو مانگنا چاہئے۔‘‘ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ بتا رہا ہے کہ اگر صراط مستقیم کو حاصل کرنا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جو قویٰ تمہیں دیے ہیں ان سے کام لے کر صراط مستقیم پہ چلنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنی پڑے گی۔ ’’پس ظاہری اسباب کی رعایت ضروری ہے۔ جو اس کو چھوڑتا ہے وہ کافرِ نعمت ہے۔‘‘ نیکیاں کرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی پڑے گی۔ فرمایا ہمیں’’…… ایسی زبان دعا کے لئے عطاکی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ’’جو قلب کے خیالات اور ارادوں کو ظاہر کر سکے۔ ‘‘ پھر فرمایا ’’…… ایسا ہی قلب میں خشوع و خضوع کی حالت رکھی اور سوچنے اور تفکر کی قوتیں ودیعت کی ہیں۔ پس یادرکھو۔ اگر ہم ان قوتوں اور طاقتوں کو معطل چھوڑ کردعا کرتے ہیں تو یہ دعا کچھ بھی مفید اور کارگر نہ ہو گی کیونکہ جب پہلے عطیہ سے کچھ کام نہیں لیا تو دوسرے سے کیا نفع اٹھائیں گے۔ اس لئے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے پہلے اِيَّاكَ نَعْبُدُ بتارہا ہے کہ ہم نے تیرے پہلے عطیوں اور قوتوں کو بیکار اور بربادنہیں کیا۔ یاد رکھو! رحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحیمیت سے فیض اٹھانے کے قابل بنا دے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو

اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن:61)

فرمایا یہ نری لفاظی نہیں ہے بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے۔ مانگنا انسانی خاصہ ہے اور جو استجابت جُو اللہ تعالیٰ کا نہیں وہ ظالم ہے۔‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی تلاش میں نہیں رہتا وہ پھر ظالم انسان ہے۔ ’’دعا ایک ایسی سرور بخش کیفیت ہے کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں کن الفاظ میں اس لذت اور سرور کو دنیا کو سمجھاؤں۔ یہ تو محسوس کرنے ہی سے پتہ لگے گا۔ مختصر یہ کہ دعا کے لوازمات سے اوّل ضرور ی یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ اور اعتقاد پیدا کریں کیونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو درست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا اور دعا کرتا ہے وہ گویا خدا تعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتحہ:6)

کی دعا میں یہ مقصود ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم کر اور پھر یہ کہہ کر کہ

صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ:7)

اور بھی صراحت کردی کہ ہم اس صراط کی ہدایت چاہتے ہیں جو منعم علیہ گروہ کی راہ ہے اور مغضوب گروہ کی راہ سے بچا جن پر بداعمالیوں کی وجہ سے عذابِ الٰہی آگیا اور الضّآلّین کہہ کر یہ دعا تعلیم کی کہ اس سے بھی محفوظ رکھ کہ تیری حمایت کے بدوں بھٹکتے پھریں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ199-200، ایڈیشن 1984ء)

بغیر تیری حمایت کے ہم بھٹکتے پھریں۔ ہمیں بھٹکنے سے بھی بچا۔ پس اس لحاظ سے غور کر کے سورۂ فاتحہ بھی جب پڑھیں تو اس طرح دعا کرنی چاہیے۔

پھر آپؑ دعا میں اسباب کی رعایت کے ضروری ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ ’’سنو! وہ دعا جس کے لئے اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المومن:61)فر مایا ہے اس کے لئے یہی سچی روح مطلوب ہے۔ اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے۔پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں؟ یا اسباب دعا نہیں ؟ تلاشِ اسباب بجائے خود ایک دعا ہے او ردعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ ہے۔ انسان کی ظاہری بناوٹ اس کے دو ہاتھ دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا ایک قدرتی رہنما ہے۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ

تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى (المائدۃ:3)

کے معانی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے۔

ہاں! میں کہتا ہوں کہ تلاشِ اسباب بھی بذریعہ دعا کرو۔ امدادِ باہمی۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہیں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تم اس سے انکار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اسباب کو اوربھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لیے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اورقادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ (الصف:15) کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا وہ ایک ٹکٹر گدا فقیر کی طرح صدا دیتے ہیں؟ نہیں۔

مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِِ

کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں۔ ’’جو سامان دنیاوی ہیں یہ مہیا کرنے بھی ضروری ہیں ‘‘جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اور اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (المومن:52)‘‘

کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دنیا میں ضرور مدد کریں گے۔ فرمایا کہ ’’ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ میں کہتا ہو ں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیو نکر مدد کر سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ168-169، ایڈیشن 1984ء)

پس نبیوں کو بھی اسباب کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ہی ان کے لیے اسباب مہیا کر دیتا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے اور سلطان نصیر مہیا فرما دیتا ہے جو ان کے کام کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔

دعا کے حوالے سے نماز کی غرض اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے۔ الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ352، ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ‘‘بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا ۔ بالکل غلط اور باطل ہے‘‘ یہ چیز۔ ’’ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر اپنا فضل کیا ہے۔ یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے ؎

عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد

اے خواجہ! درد نیست وگرنہ طبیب ہست‘‘

کون ہے جو عاشق ہوا ہو اور یار نے اس کے حال پر نظر نہ کی ہو۔ اے صاحب درد ہی نہیں ورنہ طبیب تو موجود ہے۔

’’خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آ جاؤ صرف شرط اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنا دیتی ہے اپنے اندر کر کے دکھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں عجیب در عجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لاانتہا فضل و برکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو۔ اگر سچی محبت ہو تو خدا تعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے اور تائیدیں کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ352-353، ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ نے فرمایا ’’مومنوں کی تعریف میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے۔

يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا (آل عمران:192)

یعنی مومن وہ لوگ ہیں جو خدائے تعالیٰ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے یاد کرتے ہیں اور جو کچھ زمین و آسمان میں عجائب صنعتیں موجود ہیں ان میں فکر اور غور کرتے رہتے ہیں اور جب لطائفِ صنعت الٰہی ان پر کھلتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدایا تُو نے ان صنعتوں کو بیکار پیدا نہیں کیا۔ یعنے وہ لوگ جو مومن خاص ہیں صنعت شناسی اور ہیئت دانی سے دنیا پرست لوگوں کی طرح صرف اتنی ہی غرض نہیں رکھتے کہ مثلاً اسی پر کفایت کریں کہ زمین کی شکل یہ ہے اور اس کا قطر اس قدر ہے اور اس کی کشش کی کیفیت یہ ہے اور آفتاب اور ماہتاب اور ستاروں سے اس کو اس قسم کے تعلقات ہیں بلکہ وہ صنعت کی کمالیت شناخت کرنے کے بعد اور اس کے خواص کھلنے کے پیچھے صانع کی طرف رجوع کر جاتے ہیں اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ۔ روحانی خزائن جلد2 صفحہ191-192)

یعنی علم حاصل کر کے خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا اور اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں۔اور یہی ایک مومن کی خاص نشانی اور امتیاز ہے۔

یہ چند باتیں میں نے اس عظیم خزانے میں سے پیش کی ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں عطا فرمایا جس سے دعا کی اہمیت، حکمت، دعائیں مانگنے کا طریق، اس کی فلاسفی سب پر کچھ نہ کچھ روشنی پڑتی ہے۔ اگر ہم اس کو سمجھنے والے ہوں تو ہم اپنی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق میں ایک خاص کیفیت پیدا کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں۔ پس ہمیں اس رمضان میں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کے لیے اس کے حکموں پر چلنے والے ہوں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے چلے جانے والے ہوں۔ دعا کی حکمت اور فلاسفی کو سمجھنے والے ہوں۔ اپنے اعمال کی اصلاح کرنے والے بنیں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوتی ہیں۔ یہ رمضان ہمارے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور روحانی تعلق میں، روحانی حالت میں ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہو۔

اپنے بھائیوں کے لیے بھی دعائیں کریں۔ پہلے بھی میں دعاؤں کے لیے تحریک کرتا رہتا ہوں۔ جو پاکستان میں ہیں یا الجزائر میں ہیں یا کسی بھی جگہ میں ہیں اور کسی بھی طرح خاص طور پر جماعتی مشکلات میں گرفتار ہیں۔ پاکستان میں تو روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے جہاں احمدیوں کو کسی نہ کسی رنگ میں تکلیفیں دی جاتی ہیں۔ اس لیے خاص طور پر ان کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اسی طرح الجزائر میں بھی شاید دوبارہ ان کے کیس کھولنے کے ارادے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی محفوظ رکھے۔

دوسروں کے لیے دعائیں کرنے سے بھی اپنی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ نسخہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کے لیے دعائیں کرنے والے کے لیے فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور فرشتوں کی دعائیں جب ہو رہی ہوں تو یہ کس قدر فائدہ مند سودا ہے۔ پس ہمیں خاص طور پہ صرف اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے بھی بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی بھی اس رمضان میں خاص طور پر توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 07؍مئی 2021صفحہ 5تا11)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button