سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے پنڈت دیانند پر اتمام حجت

براہین احمدیہ کی اشاعت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ پھر پنڈت دیانند کو توجہ دلائی اور ایک مکتوب تحریر فرمایا جو حسب ذیل ہے:

’’بجانب پنڈت دیانند سرستی (بانی آریہ سماج)

من آنچہ شرط بلاغ است باتو میگویم

تو خواہ ازسخنم پندگیر و خواہ ملال

واضح ہو کہ ان دنوں میں اس عاجز نے حق کی تائید کے لئے اور دینِ اسلام کی حقّانیت ثابت کرنے کی غرض سے ایک نہایت بڑی کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ ہے۔ چنانچہ اُس میں سے تین حصے چھپ کرمشتہر ہو چکے ہیں اور حصہ چہارم عنقریب چھپنے والا ہے۔ حصہ سوم میں اس بات کا کافی ثبوت موجود ہے کہ سچا دین جس کے قبول کرنے پر نجات موقوف ہے دینِ اسلام ہے کیونکہ سچائی کے معلوم کرنے کے لئے دو ہی طریق ہیں۔

ایک یہ کہ عقلی دلائل سے کسی دین کے عقائد صاف اور پاک ثابت ہوں۔ دوسرے یہ کہ جو دین اختیارکرنے کی علّتِ غائی ہے یعنی نجات۔ اس کے علامات اور انوار اس دین کی متابعت سے ظاہر ہو جائیں۔ کیونکہ جو کتاب دعویٰ کرتی ہے کہ میں اندرونی بیماریوں اور تاریکیوں سے لوگوں کو شفا دیتی ہوں بجز میرے دوسری کتاب نہیں دیتی تو ایسی کتاب کے لئے ضرور ہے کہ اپنا ثبوت دے۔ پس انہی دونوں طریقوں کی نسبت ثابت کر کے دکھلایا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام وہ پاک مذہب ہے کہ جس کی بنیاد ایسے عقائد صحیحہ پر ہے کہ جس میں سراسر جلال الٰہی ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن شریف ہر ایک جزو کمال خدا کیلئے ثابت کرتا ہے اور ہر ایک نقص و زوال سے اس کو پاک ٹھہراتا ہے۔ اس کی نسبت قرآن شریف کی یہ تعلیم ہے کہ وہ بیچون و بیچگون ہے اور ہرایک شبیہ و مانند سےمنزّہ ہے اور ہر ایک شکل اور مثال سےمبّرا ہے۔ وہ مبداء ہے عام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مرجع ہے تمام امور کا اور خالق ہے تمام کائنات کا اور پاک ہے ہرایک کمزوری اور ناقدرتی اور نقصان سے اور واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور الوہیت میں اور معبودیت میں، نہیں مشابہ اُس سے کوئی چیز اور نہیں جائز ہے کسی چیز سے اُس کا اتحاد اور حلول۔

مگر افسوس کہ آپ کا اعتقاد سراسر اس کے برخلاف ہے اور ایسی روشنی چھوڑ کر تاریکی وظلمت میں خوش ہو رہے ہیں۔ اب چونکہ میں نے اس روشنی کو آپ جیسے لوگوں کی سمجھ کے موافق نہایت صاف اور سلیس اُردو میں کھول کر دکھلایا ہے اور اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ لوگ سخت ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ جس کے سہارے پر تمام دنیا جیتی ہے اُس کی نسبت آپ کا یہ خیال ہے کہ وہ تمام فیضوں کا مبدأ نہیں اور تمام اَرواح یعنی جیو اور اُن کی روحانی قوتیں اور استعدادیں اور ایسا ہی تمام اجسام صغار یعنی پر کرتی خود بخود انادی طور پر قدیم سے چلے آتے ہیں اور تمام ہُنر یعنی گُن جو اُن میں ہیں وہ خود بخود ہیں۔ اور اس فیصلہ کو صرف عقلی طور پر نہیں چھوڑا بلکہ اسلام کے پاک گروہ میں وہ آسمانی نشان بھی ثابت کئے ہیں کہ جو خدا کی برگزیدہ قوم میں ہونے چاہئیں اور ان نشانوں کے گواہ صرف مسلمان لوگ ہی نہیں بلکہ کئی آریہ سماج والے بھی گواہ ہیں اور بفضل خداوندکریم دن بدن لوگوں پر کھلتا جاتا ہے کہ برکت اور روشنی اور صداقت صرف قرآن شریف میں ہے اور دوسری کتابیں ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں۔

لہٰذا یہ خط آپ کے پاس رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں۔ اگر آپ کتاب براہین احمدیہ کے مطالعہ کے لئے مستعد ہوں تو میں وہ کتاب مفت بِلا قیمت آپ کو بھیج دوں گا۔ آپ اس کوغور سے پڑھیں۔ اگر اس کے دلائل کو لاجواب پاویں تو حق کے قبول کرنے میں توقف نہ کریں کہ دنیا روزے چند۔ آخر کار باخداوند۔ میں ابھی اس کتاب کو بھیج سکتا تھا مگر میں نے سنا ہے کہ آپ اپنے خیالات میں محو ہو رہے ہیں اور دوسرے شخص کی تحقیقاتوں سے فائدہ اُٹھانا ایک عار سمجھتے ہیں۔ سو میں آپ کو دوستی اور خیر خواہی کی راہ سے لکھتاہوں کہ آپ کے خیالات صحیح نہیں ہیں۔ آپ ضرور ہی میری کتاب کو منگا کر دیکھیں۔ اُمید ہے کہ اگر حق جُوئی کی راہ سے دیکھیں گے تو اس کتاب کے پڑھنے سے بہت سے حجاب اور پردے آپ کے دور ہو جائیں گے اور اگر آپ اُردو عبارت پڑھ نہ سکیں تا ہم کسی لکھے پڑھے آدمی کے ذریعہ سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ اپنے جواب سے مجھ کو اطلاع دیں اور جس طور سے آپ تسلی چاہیں خداوند قادر ہے۔ صرف سچی طلب اور انصاف اور حق جوئی درکار ہے۔ جواب سے جلد تر اطلاع بخشیں کہ میں منتظر ہوں اور اگر آپ خاموش رہیں تو پھر اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ کو صداقت اور روشنی اور راستی سے کچھ غرض نہیں۔

20؍ اپریل 1883ء مطابق 12؍ جمادی الثانی1300ھ ‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول ص49-50 مکتوب نمبر 8 بنام دیانند سرسوتی )

لیکن اسلام کانور ان کی قسمت میں نہ تھا اور اس خط کے پانچ چھ ماہ کے بعد ہی اس چندروزہ دنیاکوچھوڑکر آخرکارباخداوند۔ کے مصداق اس خالق حقیقی کے دربارمیں جا حاضرہوئے جوپرم ایشورہےجس نے تمام دوسری روحوں کی طرح ان کی روح کوبھی تخلیق کیااور مالک کل ہے جیساکہ قرآن کریم میں اس نے خودہی فرمایا خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ………

بہرحال اس دوران باوانرائن سنگھ جوکہ آریہ سماج امرتسر کے سیکرٹری تھے انہوں نے ودّیاپرکاشک ماہواررسالہ بھی جاری کیا تھا۔ انہوں نے اخبارآفتاب پنجاب میں حضور علیہ السلام سے بحث کی طرح ڈالی۔ (اس کی تفصیلات کے لیے حیات احمدجلداول ص187تا205، مجموعہ اشتہارات جلداول ص7تا ص 12، مکتوبات احمدؑ جلداول ص 34تا 48، روحانی خزائن جلد2ص 34تا 46 دیکھی جاسکتی ہے۔)

اور چنیوٹ مڈل سکول کے مدرس منشی گوردیال صاحب نے اخبارآفتاب 16؍مئی 1878ء میں اسی موضوع پربحث اٹھاتے ہوئے ایک مضمون لکھا جس کاجواب حضورؑ نے دیا (جوکہ حیات احمدؑ جلداول صفحہ 206تا211 پردرج ہے۔ اورجس کاایک حصہ اب نئے شائع ہونے والےروحانی خزائن کےایڈیشن کی جلد3ص 46الف تا 46د پربھی موجود ہے)۔

اور تو اور خودلالہ شرمپت صاحب جوکہ حضورؑ کے ساتھ دیرینہ رفاقت کاتعلق بھی رکھتے تھے لیکن اب وہ آریہ سماج قادیان کے سیکرٹری کے عہدہ پرفائزہوچکےتھے اور جب ایک کے بعد ایک علامہ اورپنڈت کومیدان بحث ودلائل سے عاجزہوتے دیکھا یہاں تک کہ اپنے ہادی ورہنماپنڈت جوکہ سرسوتی کہلاتے تھے ان کوبھی منہ چھپاتے دیکھاتو ایک مضمون ارواح اور تناسخ کی بابت لکھ مارا۔ اور اخباربرادرہند لاہور کوشائع کرنے کے لیے بھیج دیا جوان دنوں حضرت اقدسؑ کے مضامین اور آریہ سماجی علماء کے مضامین کوشائع کررہاتھا۔ اس رسالہ کے ایڈیٹر نے اس موضوع پرآریہ سماج پنڈتوں کی لاچاری اور عاجزی اور حضرت اقدسؑ کے مضامین کی برتری کاذکرجس رنگ میں کیااور لالہ صاحب کے اس مضمون پرجوکمنٹس کیے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایڈیٹررسالہ برادرہندنے لکھا:

’’ہمارے ناظرین کو یاد ہو گا۔ کہ ماہ فروری 1879ء کے رسالہ میں مرزا غلام احمد صاحب کا آخیر مضمون جو ابطال تناسخ پر ہم نے درج کیا تھا۔ وہ کُل کا کُل ماہ مذکور کے رسالہ میں مشتہر نہ ہو سکنے کے باعث ما بعد کے دو رسالوں میں مندرج ہو کر اختتام کو پہنچا تھا۔ اس مضمون کے ضمن میں مرزا صاحب نے ایک اعلان بھی دیا تھا۔ اور اس میں انہوں نے بطلب جواب آریہ سماجوں کے بانی سوامی دیانند سرسوتی صاحب اور کئی ایک ان کے لائق اور مشہور مقلدوں کو (جن کے نام نامی رسالہ ماہ فروری 1879ء کے صفحہ 39 میں رقم ہو چکے ہیں۔)مخاطب کیاتھا۔ ہم نے نہایت خوشی کے ساتھ اس مضمون کو درج رسالہ کیا تھا۔ اور یہ امید دل میں قائم کی تھی کہ اگر مرزا صاحب کی دلائل جو نہایت صاف اور اصول منطق پر مبنی ہیں۔ مذکورہ بالا صاحبان کی سمجھ میں آجائیں گے۔ تو وہ بشرط اپنے اس اصول پر صادق رہنے کے کہ ’’راستی کے قبول کرنے اور ناراستی کے چھوڑنے کے لئے ہمیشہ مستعد رہنا چاہیئے۔‘‘ ضرور ہے کہ عام اور علانیہ طور سے وہ خدا کی خالقیت اور ابطال تناسخ کو تسلیم کر کے ’’راستی ‘‘کی تقلید کی واقعی مثال قائم کریں گے۔ اور اگر ان کی رائے میں مرزا صاحب کی دلائل بے بنیاد اور بے اصل ہیں۔ تو اس سچے طریق کے ساتھ جو حق الامر کی تحقیقات کے لئے محققوں نے قائم کیا۔ مرزا صاحب کے دلائل کو اسی طرح نمبر وار جس طرح مرزا صاحب نے انہیں رقم کیا ہے۔ کُل کو یا ان میں سے کسی حصہ کو غلط ثابت کر کے اپنے عقیدہ کو تقویت دیں گے۔

باوجود اس کے کہ ہم نے مرزا صاحب کے مضمون کا پہلا حصہ اپنے اپریل کے رسالہ میں ختم کر دیا تھا۔ اور یہ یقین کیا تھا۔ کہ اثبات دعویٰ کے لئے جس قدر دلائل وہ اس مضمون میں رقم کر چکے ہیں۔ بخوبی کافی ہیں مگر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ اور ایک دوسرا حصہ اور تیار کر کے ہمارے پاس چھپنے کے لئے بھیج دیا ہے۔ اس حصہ کو ہم نے ہنوز رسالہ میں درج نہیں کیا۔ باایں خیال کہ جو دلائل مرزا صاحب پہلے حصہ میں مشتہر کر چکے ہیں۔ اگر انہی کے رد کرنے کے لئے اہل آریہ تیار نہیں ہیں۔ تو پھر مضمون مذکور کو اور زیادہ دلائل کے ساتھ طول دینا بالفعل کچھ ضرور نہیں۔

لیکن ہم دیکھتے ہیں۔ کہ ہماری امید بالکل خالی نہیں گئی۔ لالہ شرمپت صاحب نے جو آریہ سماج قادیان کے سیکرٹری ہیں۔ ایک مضمون اثبات تناسخ پر ہمارے پاس برادر ہند میں مشتہر کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ چنانچہ اسے ہم درج رسالہ کرتے ہیں۔ کس حیثیت کا وہ مضمون ہے۔ اور اس کا نفس مضمون کس سانچہ کا ڈھلا ہوا ہے۔ اور اس کی طرز عبارت سے راقم مضمون کی ذاتی لیاقت اور فضیلت کا کہاں تک اظہار ہوتا ہے۔ اور اصول مناظرہ سے اس کا ڈھنگ بیان کہاں تک موافق یا منافق ہے۔ اس کا فیصلہ ہم خود کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ اپنے ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button