خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍اپریل2021ء

’’میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سا رنگ پیدا نہ ہو۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر سب سے بہتر ہیں، پھر حضرت عمر بن خطاب، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم

بخدا اللہ تعالیٰ نے شیخین کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانامؐ کی فوج کے ہراول دستے بنایا ہے(حضرت مسیح موعودؑ)

پندرہ مرحومین مکرم محمد صادق صاحب دُرگارام پوری بنگلہ دیش، مکرمہ مختاراں بی بی صاحبہ اہلیہ رشید احمد اٹھوال صاحب دارالیمن ربوہ، مکرم منظور احمد شاد صاحب لندن،مکرمہ حمیدہ اختر صاحبہ اہلیہ عبدالرحمٰن سلیم صاحب امریکہ، مکرم ناصر پیٹر لُطسین صاحب جرمنی، مکرمہ رضیہ تنویر صاحبہ اہلیہ خلیل احمد تنویر صاحب وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ،مکرم میاں منظور احمد غالب صاحب آف سرگودھا، مکرمہ بشریٰ حمید انور عدنی صاحبہ اہلیہ حمید انور صاحب آف یمن، مکرمہ نور الصباح ظفر صاحبہ اہلیہ محمد افضل ظفر صاحب مربی سلسلہ کینیا، مکرم سلطان علی ریحا ن صاحب، مکرم مولوی غلام قادر صاحب مبلغ سلسلہ جموں کشمیر، مکرمہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد صادق صاحب عارف درویش قادیان،مکرم خالد سعد اللہ المصری صاحب آف اُردن، مکرم محمد منیر صاحب دارالفضل ربوہ اور مکرم ماسٹرنذیر احمد صاحب دارالبرکات ربوہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

الاسلام‘ ٹیم کے تیار کردہ قرآنِ کریم کے جدید سرچ انجن کے پہلے ورژن کے اجرا کا اعلان

الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍اپریل2021ء بمطابق 09؍شہادت1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ حضرت عثمانؓ کا کیا مقام تھا، صحابہؓ ان کو کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی اور اس کے بعد بھی دیکھتے تھے۔ اس بارے میں روایت ہے۔ نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر سب سے بہتر ہیں۔ پھر حضرت عمر بن خطاب۔ پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم۔ بخاری کی روایت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب فضل ابی بکر بعدالنبیﷺ حدیث نمبر 3655)

اور ایک دوسری روایت بخاری میں اس طرح ہے۔ نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے ۔کسی کو بھی حضرت ابوبکرؓ کے برابر نہیں سمجھا کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر ؓکے برابر۔ پھر حضرت عثمانؓ کے برابر۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو چھوڑ دیتے تھے۔ ان میں سے کسی کو ایک دوسرے سے افضل نہیں سمجھتے تھے۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب عثمان……حدیث 3697)

پھر حضرت عثمانؓ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہترین لوگوں میں شمار ہونے کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں اس میں محمد بن حَنَفِیّہ کی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت علیؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوبکرؓ۔ میں نے پوچھا ان کے بعد کون؟ انہوں نے کہا پھر عمرؓ۔ پھر میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ پھر کون؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عثمانؓ۔ پھر میں نے کہا اے میرے باپ! ان کے بعد کیا آپؓ؟ تو آپؓ نے جواب دیا کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام آدمی ہوں۔

(سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی ا لتفضیل حدیث نمبر4629)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو تعلق تھا اور آپؐ کی نظر میں ان کا جو مقام تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ سے بغض رکھنے والے ایک شخص کا جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا۔ اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص کا جنازہ لایا گیا تا کہ آپؐ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں لیکن آپؐ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی۔ کسی نے عرض کی یا رسول اللہؐ! اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپؐ نے کسی کی نمازجنازہ چھوڑی ہو۔ اس پر آپؐ نے فرمایا یہ شخص عثمانؓ سے بغض رکھتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ بھی اس سے دشمنی رکھتا ہے۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب فی مناقب عثمان…… حدیث نمبر 3709)

پھر حضرت عثمانؓ کے انصاف کے بارے میں روایت آتی ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے بھائی کا بھی قصور ثابت ہونے پر ان کو سزا دینے کا کہا۔ عبیداللہ بن عدی نے بیان کیا حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہؓ اور عبدالرحمٰنؓ بن اسود بن عَبْدِ یَغُوثْ دونوں نے مجھے کہا کہ تمہیں کیا بات روکتی ہے کہ حضرت عثمانؓ سے ان کے بھائی ولید سے متعلق گفتگو کرو کیونکہ لوگوں نے ان کے متعلق بعض غلط باتوں کی وجہ سے بہت چہ میگوئیاں کی ہیں تو میں حضرت عثمانؓ کے پاس گیا۔ وہ نماز کے لیے باہر آئے۔ میں نے کہا آپؓ سے مجھے ایک کام ہے اور وہ آپؓ کی خیر خواہی ہے۔ حضرت عثمانؓ نے کہا بھلے آدمی تم سے…۔ مَعْمَرنے کہا۔ میں سمجھتا ہوں انہوں نے کہا ہے ان کا پیغام لے کے آیا ہے تو۔ پھر کہا میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ یہ سن کر وہ شخص جو حضرت عثمانؓ کے پاس گیا تھا وہاں سے چل دیا اور ان لوگوں کے پاس واپس آیا اتنے میں حضرت عثمانؓ کا پیغامبر آیا اور میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے پوچھا تمہاری خیر خواہی کیا ہے؟ کہتا تھا ناں آپ کی خیر خواہی چاہتا تھا۔ تو میں نے کہا اللہ سبحانہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپؐ پر کتاب نازل کی اور آپؓ بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی اور آپؓ نے دو ہجرتیں کیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپؓ نے حضور کی روش دیکھی اور پھر میں نے کہا کہ ولید جو حضرت عثمانؓ کے بھائی تھے اس کے متعلق لوگ بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے مجھ سے پوچھا اور کہا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا؟ میں نے کہا نہیں لیکن آپؓ کے علم سے وہ باتیں مجھے پہنچی ہیں۔ زمانہ تو نہیں پایا لیکن وہ باتیں مجھ تک پہنچی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تھیں اور جو ایک کنواری عورت کو بھی اس کے پردے میں پہنچتی ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ اما بعد۔ اللہ نے یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچائی کے ساتھ بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت قبول کی اور میں ان تمام باتوں پر ایمان لایا جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کیے گئے اور میں نے دو ہجرتیں بھی کیں جیسا کہ تم نے کہا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا اور آپؐ کی بیعت کی اور اللہ کی قسم! میں نے آپؐ کی نافرمانی نہیں کی اور نہ آپؐ سے کوئی دغا کیا یہاں تک کہ اللہ نے آپؐ کو وفات دی۔ پھر حضرت ابوبکر ؓبھی میرے لیے ویسے ہی مطاع رہے۔ حضرت عمر ؓبھی ویسے ہی مطاع رہے، ان کی بھی میں نے اطاعت کی۔ پھر مجھے خلیفہ بنایا گیا تو کیا میرا بھی وہی حق نہیں جو ان کا ہے، جو پہلے دو خلفاء کا ہے۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا پھر کیا باتیں ہیں جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں اور یہ جو ولید کے معاملے سے متعلق تم نے ذکر کیا ہے تو ہم ان شاء اللہ اس کو واجبی سزا دیں گے یعنی جو سزا اس جرم کے لیے ہے جو جرم اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے کیا تو اس کی سزا دیں گے۔ پھر اس کے بعد انہوں نے حضرت علی ؓکو بلایا اور ان سے فرمایا کہ اس کو درّے لگائیں تو انہوں نے اس کو اسّی درّے لگائے۔

(صحیح بخاری کتاب اصحاب النبیﷺ باب مناقب عثمان…حدیث 3696)

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اس کی شرح میں بیان کرتے ہیں۔ یہ بخاری کی روایت ہے کہ’’ولید بن عقبہ کے خلاف تعزیر عائد کرنے کا جو ذکر ہے اس کا تعلق شراب پینے کے الزام سے ہے۔ شہادت سے ثابت ہونے پر کہ وہ زمانہ جاہلیت والی شراب ہی تھی نہ کہ منقہ یا کھجور کا شربت ۔حضرت عثمانؓ نے قرابت کا لحاظ نہیں فرمایا بلکہ قرابت کی وجہ سے اسے دو گنا سزا دی۔ بجائے چالیس کے اسّی کوڑے لگوائے اور یہ تعداد حضرت عمرؓ کے تعامل سے ثابت تھی۔‘‘

(اردو ترجمہ صحیح بخاری جلد7صفحہ192شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

پھر ایک روایت میں آتا ہے عطاء بن یزید نے انہیں خبر دی کہ حُمران نے جو کہ حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام تھے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک برتن منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار پانی ڈال کر دھوئے۔ پھر اپنا دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور کلی کی اور ناک صاف کیا۔ پھر اپنا منہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک تین بار دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک تین تین بار دھوئے۔ پھر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جس نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا اور پھر اس طرح دو رکعتیں پڑھیں کہ ان میں اپنے نفس سے باتیں نہ کیں تو جو گناہ بھی اس سے پہلے ہو چکے ہیں ان سب سے اس کی مغفرت کی جائے گی۔

(صحیح بخاری کتاب الوضوء باب الوضوء ثلاثا ثلاثا حدیث 159)

جمعہ کے دن دوسری اذان کا جو اضافہ ہوا ہے یہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ہوا یعنی پہلی اذان جو ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ زہری نے سائب بن یزید سے روایت کی کہ جمعہ کے دن پہلی اذان نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اس وقت ہوا کرتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا تھا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہوا اور لوگ بہت ہو گئے تو انہوں نے زَوْرَاء میں تیسری اذان بڑھا دی۔ ابوعبداللہ نے کہا کہ زَوْرَاءمدینہ کے بازار میں ایک مقام ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الاذان یوم الجمعۃ حدیث 912)

فقہ احمدیہ میں بھی اس کے متعلق حدیث کے حوالے سے لکھا ہوا ہے کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جمعہ کے دن منبر کے پاس (جو یقیناً مسجد کے اندر رکھا ہوا تھا) ایک ہی اذان دی جاتی تھی۔ بعد میں حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں دوسری اذان کا رواج پڑا جو مسجد کے دروازہ پر پڑے ہوئے ایک بڑے پتھر پر کھڑے ہو کر دی جاتی تھی جس کا نام زَوْرَاء تھا۔‘‘

(فقہ احمدیہ (عبادات) صفحہ122)

صحیح بخاری کی شرح ’نعمة الباری‘ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے۔ ’’ابن شہاب زہری نے سائب سے روایت کی ہے کہ اس باب کی حدیث میں اس کو تیسری اذان جو کہا ہے وہ اقامت کے اعتبار سے ہے۔‘‘

(نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری جلد2صفحہ837حدیث نمبر912رومی پبلیکیشنزلاہور2013ء)

پہلے دو اذانیں تھیں۔ تیسری اذان دلوائی جاتی تھی۔ پہلی روایت جو میں نے پڑھی تھی اس میں لکھا تھا ناں کہ لوگ بہت ہو گئے تو انہوں نے زَوْرَاء میں تیسری اذان بڑھا دی۔ تیسری اذان سے مراد یہ ہے کہ پہلی اذان، دوسری اذان یہ اور تکبیر جو ہے اس کو بھی اذان کے نام سے کہا گیا ہے اس طرح تین دفعہ نماز کے لیے بلایا جاتا ہے۔

عید کے روز جمعہ کی نماز سے رخصت کے بارے میں بھی روایت ملتی ہے۔ ابن اَزْھَرکا آزاد کردہ غلام ابو عُبیدبیان کرتا ہے کہ اس نے حضرت عمرؓ کی اقتدا میں ایک عید الاضحی کے دن نماز عید ادا کی۔ آپؓ نے خطبہ سے قبل نماز پڑھائی۔ پھر آپؓ نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور کہا اے لوگو! یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ان دو عیدوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک تو روزوں کے افطار ہونے کی خوشی میں عید کا دن ہے اور دوسرا وہ دن ہے جب تم اپنی قربانیوں میں سے کھاتے ہو۔ ابوعبید کہتا ہے کہ پھر اس نے حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانے میں آپؓ کے پیچھے ایک عید پڑھی۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپؓ نے خطبہ سے قبل نماز پڑھائی۔ پھرآپؓ نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور کہا اے لوگو! یہ وہ دن ہے جس میں تمہارے لیے دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ پس مدینہ کے اطراف میں رہنے والوں میں سے جو جمعہ کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو وہ انتظار کر سکتا ہے اور جو واپس جانا پسند کرتا ہے تواس کو میری طرف سے واپس جانے کی اجازت ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاضاحی باب ما یوکل من لحوم الاضاحی وما یتزود منہا حدیث 5571-5572)

فقہ احمدیہ میں ایک چیز جو لکھی گئی ہے اس پہ مجھے تو ابھی تک کوئی واضح ثبوت نہیں ملے۔ وہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر جمعہ اور عید ایک روز جمع ہو جائیں تو عید کی نماز کے بعد نہ جمعہ پڑھا جائے اور نہ ظہر بلکہ عصر کے وقت میں عصر کی نماز پڑھی جائے۔

’’چنانچہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ ایک بار جمعہ اور عید الفطر دونوں ایک دن میں اکٹھے ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے فرمایا ایک دن میں دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں ان کو اکٹھا کر کے پڑھا جائے گا۔ چنانچہ آپ نے دونوں کے لئے دو رکعتیں دوپہر سے پہلے پڑھیں۔ اس کے بعد عصر تک کوئی نماز نہ پڑھی۔ یعنی اس دن صرف نماز عصر ادا کی۔‘‘

(فقہ احمدیہ(عبادات) صفحہ177)

اس بارے میں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے بھی یہی فرمایا تھا۔ اور تحقیق کی تھی۔

(خطباتِ طاہر جلد 6 صفحہ 374 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29 مئی 1987ء)

پہلے میرا خیال تھا کہ ضرورت نہیں پھر کیونکہ کوئی اور ایسی روایات نہیں ملیں جو براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل سے یا عمل سے ثابت ہوتی ہوں جبکہ ظہر کی نماز بھی چھوڑی گئی ہو۔ یہی ایک روایت ہے جو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓنے کیا۔ تو اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ فقہ دوبارہ ریوائز (revise)ہو رہا ہے۔ میرا خیال ہے اس بات کو مزید غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہاں تک یہ صحیح ہے کہ ظہر کی نماز بھی نہ پڑھی جائے۔ جمعہ تو ٹھیک ہے نہیں پڑھا جائے گا لیکن یہ کہنا کہ ظہر کی نماز بھی نہ پڑھی جائے اس میں سوائے اس روایت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست یا خلفائے راشدین سے براہ راست کوئی ایسی روایت نہیں ملتی یا ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ جہاں تک میں نے تحقیق کروائی ہے۔

جمعہ کے دن غسل کے بارے میں روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ داخل ہوئے تو حضرت عمر ؓنے ان کے متعلق اشارةً فرمایا۔ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اذان کے بعد بھی دیر سے آتے ہیں؟ اس پر حضرت عثمانؓ نے کہا اے امیرالمومنین! میں تو اذان سنتے ہی وضو کر کے چلا آیا ہوں۔ حضرت عمر ؓنے کہا صرف وضو۔ کیا آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ وہ غسل کرے۔

(صحیح مسلم کتاب الجمعۃ حدیث 1956)

اگر پانی میسر ہے، سہولتیں میسر ہیں تو غسل کرنا ضروری ہے۔ ’’سلسلہ احادیث میں دوسرے صحابہ کی نسبت حضرت عثمانؓ سے مرفوع احادیث بہت کم مروی ہیں۔ آپ کی کل روایتوں کی تعداد 146 ہے جن میں تین متفق علیہ ہیں یعنی بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں اور آٹھ صرف بخاری میں اور پانچ صرف مسلم میں ہیں۔ اس طرح صحیحین میں آپؓ کی کل سولہ حدیثیں ہیں۔ ان کی روایات کی قلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایات حدیث میں‘‘ یعنی حضرت عثمانؓ روایات حدیث میں ’’حد درجہ محتاط تھے۔ فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرنےمیں یہ چیز مانع ہوتی ہے کہ شاید دیگر صحابہ کے مقابلہ میں میرا حافظہ زیادہ قوی نہ ہو۔‘‘ کہتے ہیں کوئی بات میں بیان کروں تو یہ روک ہوتی ہے کہ یہ نہ ہو کہ دوسرے صحابہ کے مقابلے میں میرا حافظہ اتنا مضبوط نہ ہو اور ان کی بات صحیح ہو۔ اس لیے میں روایات بیان کرنے میں بڑا محتاط ہوں ۔فرمایا کہ ’’ لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو شخص میری طرف وہ منسوب کرے گا جو میں نے نہیں کہا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔ اسی لیے وہ (حضرت عثمانؓ) حدیث کی روایت میں سخت احتیاط کرتے تھے۔‘‘۔ ’’عبدالرحمٰن بن حاطب کا بیان ہے کہ میں نے کسی صحابی کو حضرت عثمانؓ سے زیادہ پوری بات کرنے والا نہیں دیکھا لیکن وہ حدیث بیان کرتے ڈرتے تھے۔‘‘

(سیرالصحابہؓ خلفائے راشدین ؓاز شاہ معین الدین احمد ندوی جلد1 صفحہ 204)

حُمران بن اَبَان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفانؓ نے وضو کے لیے پانی منگوایا۔ کُلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ چہرہ دھویا اور بازوؤں کو تین تین مرتبہ دھویا اور سر پر اور دونوں پاؤں کے اوپر والے حصہ پر مسح فرمایا۔ پھر آپؓ ہنس پڑے۔ پھر اپنے ساتھیوں سے کہا ۔کیا تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ نہیں پوچھو گے؟ انہوں نے کہا اے امیر المومنین! آپؓ کیوں ہنسے تھے؟ فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ نے اسی جگہ کے قریب پانی منگوایا۔ پھر آپؐ نے اسی طرح وضو کیاجیسا کہ میں نے وضو کیا ہے۔ پھر آپؐ ہنس دیے۔ پھر آپؐ نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کیا تم مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! آپؐ کس وجہ سے ہنسے ہیں! آپؐ نے فرمایا انسان جب وضو کا پانی منگوائے اور اپنا چہرہ دھوئے تو اللہ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے جو چہرے سے ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ اپنے بازو دھوتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور جب وہ اپنے پاؤں پاک کرتا ہے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

(مسند احمدبن حنبل جلد اول صفحہ 201مسند عثمان بن عفان، حدیث نمبر 415، عالم الکتب بیروت 1998ء)

یہ روایت اصل میں تو پہلی وضو والی روایت کے ساتھ ہی بیان ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال اب بیان ہو گئی۔

حضرت عثمانؓ کی شادیاں اور اولاد کے متعلق جو روایات ہیں اس کے مطابق حضرت عثمانؓ نے آٹھ شادیاں کیں۔ یہ سب شادیاں اسلام قبول کرنے کے بعد کیں۔ آپؓ کی ازواج اور اولاد کے نام درج ذیل ہیں۔ حضرت رقیہ بنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؓ کے بطن سے آپؓ کے فرزند عبداللہ بن عثمان پیدا ہوئے۔ حضرت امّ کلثومؓ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضرت رقیہ ؓکی وفات کے بعد حضرت عثمانؓ نے آپؓ سے شادی کی۔ حضرت فاختہ بنت غزوانؓ۔ آپ حضرت عُتبہ بن غزوانؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ ان کے بطن سے آپؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بھی عبداللہ تھا اور اس کو عبداللہ الاصغر کہا جاتا تھا۔ حضرت ام عمرو بنت جُنْدُب اَزَدِیہ۔ ان کے بطن سے عمرو، خالد، اَبان، عمر اور مریم کی ولادت ہوئی۔ حضرت فاطمہ بنت ولید مخزومیہؓ۔ ان کے بطن سے ولید، سعید اور ام سعید کی ولادت ہوئی۔ حضرت ام البنین بنت عُیَیْنَہ بن حِصْن فزاریہؓ۔ ان کے بطن سے آپؓ کے فرزند عبدالملک کی ولادت ہوئی۔ حضرت رَمْلَہ بنت شَیْبہ بن رَبِیعہؓ۔ ان کے بطن سے عائشہ، ام اَبان اور ام عمرو کی ولادت ہوئی۔ حضرت نائلہ بنتِ فَرَافِصَہْ بِنْ اَحْوَصیہ پہلے نصرانی تھیں لیکن رخصتی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اچھی مسلمان ثابت ہوئیں۔ ان سے آپؓ کی بیٹی مریم پیدا ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بیٹا عنبسہ بھی پیدا ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ کی جب شہادت ہوئی تو اس وقت ایک روایت کے مطابق آپ کی یہ چار ازواج آپ کے پاس تھیں۔ حضرت رملہؓ اور حضرت نائلہؓ اور حضرت ام البنین اور حضرت فاختہؓ جبکہ ایک اَور روایت کے مطابق محاصرہ کے ایام میں حضرت عثمانؓ نے حضرت ام البنین کو طلاق دے دی تھی۔

(تاریخ الطبری جلد 5 صفحہ 200 ثم دخلت سنۃ خمس وثلاثین/ ذکر اولادہ وازواجہ، دارالفکر بیروت 1998ء)

(سیرۃامیر المؤمنین عثمان بن عفان، از صلابی صفحہ 17الفصل الاول، المبحث الاول اسمہ ونسبہ و کنیتہ……،دارالمعرفۃ بیروت 2006ء)

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ سورۂ نور کی تفسیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک نور معرفت کا ہوتا ہے جس سے بھلے برے کی تمیز ہوتی ہے۔ وہ نور ان گھروں میں ہوتا ہے جن گھروں میں صبح شام اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے۔ وہاں جو لوگ رہتے ہیں وہ تاجر ہیں۔ ان کے گھر چھوٹے ہیں مگر کسی دن اللہ ان کے گھروں کو بڑا بنا دے گا۔ چنانچہ اس قرآن شریف کا جمع کرنے والا حضرت ابوبکر صدیقؓ ہے۔ پھر حضرت عمرؓ۔ پھر حضرت عثمانؓ اس کے شائع کرنے والے ہیں۔ پھر حضرت علیؓ جن سے سچے روحانی علوم دنیا میں پہنچے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کہتے ہیں کہ میں نے بھی خود بلاواسطہ حضرت علیؓ سے قرآن کے بعض معارف سیکھے ہیں۔ پھر حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان رکوعوں میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ انصار میں خلافت نہ ہو گی بلکہ مہاجرین میں۔ پھر یہ بتایا کہ ان کا مقابلہ مسلمان بھی کریں گے اور کفار بھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓکی مخالفت اسی طرح ہوئی۔ بعض لوگ خلافت کے قائل نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی مثال دی کہ ایک وہ جو کلر کے بخارات کو پانی سمجھے۔ دوسرے وہ جو شریعت کے سمندر میں بھی ہو کر مقابلہ کریں گے۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ انجام یہ کہ چرند پرند ان کا گوشت کھائیں گے۔ خلفائے راشدین میں سے حضرت ابوبکرؓ کے لیے بہت مشکلات تھے۔ لشکر حضرت اسامہؓ کے ساتھ روانہ کر دیا گیا تھا۔ ادھر عرب میں جا بجا بغاوت پھیل گئی۔ مکہ میں لوگ آمادہ بغاوت تھے کہ وہاں ایک عقل مند انسان پہنچ گیا، اس نےمکہ والوں کو کہا کہ تم ایمان لانے میں سب سے پیچھے تھے اب مرتد ہونے میں سب سے پہلے ہو۔ اس پر وہ باز آ گئے۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں

اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مُّعْرِضُوْنَ (النور:49)

میں جس گروہ کا ذکر ہے وہ نہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں، نہ حضرت عمر ؓکے زمانے میں، نہ حضرت عثمانؓ و علیؓ کے زمانے میں غرض کبھی بھی مظفر و منصور نہیں ہوا۔ یہ گروہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ مگر دوسرا فریق

سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا(البقرہ:286)

کہنے والا ہے۔ مظفر و منصور رہا۔ ہمیشہ کامیاب رہا۔ چنانچہ قرآن مجید نے فرمایا ہے

وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرہ:6)

(ماخوذ از حقائق الفرقان جلد 3 صفحہ 223)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ’’میں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سا رنگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔‘‘

(لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد20صفحہ294)

پھر آپؑ فرماتے ہیں’’یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ یعنی حضرت عثمانؓ اور ’’حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب واقعی طور پر دین میں امین تھے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لیے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے۔‘‘

(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 151 مکتوب نمبر 2مکتوب بنام حضرت خان صاحب محمد علی خان صاحب مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’بخدا اللہ تعالیٰ نے شیخین (ابوبکرؓ و عمرؓ )کو اور تیسرے جو ذوالنورین ہیں ہر ایک کو اسلام کے دروازے اور خیر الانام (محمد رسول اللہؐ) کی فوج کے ہراول دستے بنایا ہے۔ پس جو شخص ان کی عظمت سے انکار کرتا ہے اور ان کی قطعی دلیل کو حقیر جانتا ہے اور ان کے ساتھ ادب سے پیش نہیں آتا بلکہ ان کی تذلیل کرتا اور ان کو برا بھلا کہنے کے درپے رہتا ہے اور زبان درازی کرتا ہے مجھے اس کے بد انجام اور سلب ایمان کا ڈر ہے اور جنہوں نے ان کو دکھ دیا، ان پر لعن کیا اور بہتان لگائے تو دل کی سختی اور خدائے رحمٰن کا غضب ان کا انجام ٹھہرا۔ میرا بارہا کا تجربہ ہے اور میں اس کا کھلے طور پر اظہار بھی کر چکا ہوں کہ ان سادات سے بغض و کینہ رکھنا برکات ظاہر کرنے والے اللہ سے سب سے زیادہ قطع تعلقی کا باعث ہے اور جس نے بھی ان سے دشمنی کی تو ایسے شخص پر رحمت اور شفقت کی سب راہیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کے لئے علم و عرفان کے دروازے وا نہیں کئے جاتے اور اللہ تعالیٰ انہیں دنیا کی لذات و شہوات میں چھوڑ دیتا ہے اور نفسانی خواہشات کے گڑھوں میں گرا دیتا ہے اور اسے (اپنے آستانے سے) دور رہنے والا اور محروم کر دیتا ہے۔‘‘

(سرالخلافۃ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ صفحہ28-29)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو کچھ اسلام کا بنا ہے وہ اصحابِ ثلاثہ سے ہی بنا ہے۔‘‘( ملفوظات جلد 6 صفحہ414)یعنی حضرت ابوبکر ؓ،عمر ؓ اور عثمانؓ۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل تشیع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہم تمہاری گالیوں کا شکوہ کیا کریں کیونکہ تم تمام صحابہ کو گالیاں دیتے ہو مگر قدرے قلیل اور نیز تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں امہات المومنین کو لعنت سے یاد کرتے ہو اور گمان کرتے ہو کہ خدا کی کتاب میں کچھ زیادہ اور کم کیا گیا ہے اور کہتے ہو کہ وہ بیاضِ عثمان ہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے …… تم نے اسلام کو ایسا سمجھ لیا جیسا کہ ایک بیابان جس کی زمین خشک اور زراعت سے خالی ہے یعنی خدا کے مقربوں سے خالی ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’پس کون سی عزت تمہارے ہاتھوں سے باقی رہی اے حد سے نکلنے والو!؟‘‘

(حجۃ اللہ۔روحانی خزائن جلد12 صفحہ 184-185)

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’مجھے میرے رب کی طرف سے خلافت کے بارے میں ازروئے تحقیق تعلیم دی گئی ہے اور محققین کی طرح مَیں اس حقیقت کی تہ تک پہنچ گیا اور میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم) نیکوکار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا اور جو خدائے رحمٰن کی عنایات سے خاص کئے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی۔ انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے۔ ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسم گرما کی دوپہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پروا نہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محوِ خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ رب العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کے اعمال میں خوشبو اور ان کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کے گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی باد ِنسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اَسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں۔ پس تم ان کے مقام کی چمک دمک کا ان کی خوشبو کی مہک سے پتہ لگاؤ اور جلد بازی کرتے ہوئے بدگمانیوں کی پیروی مت کرو اور بعض روایات پر تکیہ نہ کرو! کیونکہ ان میں بہت زہر اور بڑا غلو ہے اور وہ قابل اعتبار نہیں ہوتیں۔ ان میں سے بہت ساری روایات تہ و بالا کرنے والی آندھی اور بارش کا دھوکا دینے والی بجلی کے مشابہ ہیں۔ پس اللہ سے ڈر اور ان (روایات) کی پیروی کرنے والوں میں سے نہ بن۔‘‘

(سر الخلافۃ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت صفحہ25-26)

اس کے ساتھ ہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ختم ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓکا ذکر ان شاء اللہ آئندہ شروع ہو گا۔

آج بھی ایک تو یہ ہے کہ ’الاسلام‘ نے قرآن سرچ کی نئی ویب سائٹ کا پہلا ورشن (version) تیار کیا ہے۔ HolyQuran.io۔ یہ ویب سائٹ الاسلام سے علیحدہ دیکھی جا سکتی ہے۔ کسی بھی سورت،آیت،لفظ یا مضمون کو عربی انگریزی یا اردو میں ایک جدید سرچ انجن کے ذریعہ تلاش کیا جا سکتا ہے اور سرچ نتائج کو احمدی اور غیر احمدی تراجم کے ساتھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر آیت کے ساتھ اس کی تفسیر، مضامین اور متعلقہ آیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ مزید مواد پر بھی کام جاری ہے اور ان شاء اللہ اس کا اگلا حصہ جلسہ سالانہ یو کے 2021ء تک تیار کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ الاسلام ویب سائٹ پر قرآن پڑھنے سننے اور سرچ کی ویب سائٹ ReadQuran.app کا بھی نیا دیدہ زیب ورشن تیار کر لیا گیا ہے جس میں انگریزی تفاسیر کے ساتھ تفسیر صغیر کے نوٹس انگریزی لفظ بلفظ ترجمہ، مضامین کا انڈیکس اور بہت سے مفید اضافے جو روزمرہ کی تلاوت سے قرآن میں مفید ہوں گے شامل کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ پراجیکٹ قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا باعث بنے اور احباب جماعت بھی ان سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے والے ہوں۔

اس کے ساتھ ہی میں پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی حالات بدلے۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ اسی طرح الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ثبات قدم عطا کرے اور ان کے حالات میں تبدیلی پیدا کرے۔

اب میں بعض وفات یافتگان کا ذکر کروں گا جن کے جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ اب جو بہت ساری درخواستیں آتی ہیں تو مشکل ہے کہ ہر ایک کا یہاں ذکر کیا جائے اور جنازہ پڑھایا جائے بہرحال کچھ کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ باقی میں نے ان میں شامل کر لیے ہیں۔ ان کا نام لیے بغیر ہی وہ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ بہرحال جن کا ذکر کرنا ہے وہ میں اب پڑھ دیتا ہوں۔ ان میں مکرم محمد صادق صاحب دُرگا رام پوری ہیں۔ یہ محمد صادق صاحب دُرگا رام پوری ڈھاکہ بنگلہ دیش کے ہیں۔ 14؍ نومبر 2020ء کو 75سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم نے دیگر عہدوں کے علاوہ لمبا عرصہ تک نیشنل سیکرٹری وقف نو کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ واقفین نو اور والدین کے ساتھ کلاسز کے اہتمام کے لیے دور دراز کی جماعتوں کا باقاعدہ دورہ کیا کرتے تھے اور باقاعدگی سے یہ مسجد جایا کرتے تھے جب تک انہیں بیماری نے مجبور نہیں کیا۔ مرحوم موصی تھے اور ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

اگلی ایک خاتون ہیں مختاراں بی بی صاحبہ اہلیہ رشید احمد اٹھوال صاحب دارالیمن ربوہ۔ یہ نعیم باجوہ صاحب پرنسپل جامعہ مبشرین برکینا فاسو کی ساس ہیں۔ 16؍جنوری کو ان کی وفات ہوئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

لجنہ دارالیمن غربی کی مجلس عاملہ میں مجموعی طور پر سترہ سال ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ مختلف ممالک میں ان کو مالی قربانیوں کی توفیق ملی اور لاکھوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کو مالی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ وفات سے چند گھنٹے پہلے بھی ان کی آنکھ کھلی تو انہوں نے کہا کہ میری چوڑیاں کہاں ہیں؟ اور فوراً اپنے بیٹے کو کہا کہ یہ چوڑیاں بیچ کے تو صدر صاحب کو دے کے آؤ جو تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے کی تھیں۔ وہ ایم ٹی اے کے لیے قربان کر دیں کہ ڈش لگوا دیں۔

پھر ان کے دو بیٹے 1995ء میں جرمنی میں کار کے حادثے میں وفات پا گئے تھے۔ بڑے حوصلے سے صدمہ برداشت کیا اور کبھی اس حادثے کا ذکر نہیں کیا نہ شکوہ کیا۔ اس صدمے کو اللہ تعالیٰ کی رضا، راضی برضا رہ کر برداشت کیا۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا اور جوش تھا۔ ربوہ کے ارد گرد کے دیہات میں تبلیغ کے لیے دور دور تک نکل جاتی تھیں۔ قرآن مجید سے عشق تھا۔ خود قرآن کریم کی تلاوت باقاعدگی سے کرنے کے علاوہ محلے کے بچوں کو قرآن مجید اور یسرنا القرآن پڑھایا۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ میاں کے علاوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ تین بیٹیاں لندن میں ہیں ایک برکینا فاسو میں ہیں۔ یہاں بھی جو بیٹیاں ہیں وہ جماعت کا کام کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ منظور احمد شاد صاحب کا ہے جو 17؍ جنوری کو 82سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

خاندان میں احمدیت آپ کے والد حضرت میاں عبدالکریم صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے 1903ء میں آئی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے تھے۔ شاد صاحب 1956ء میں کراچی منتقل ہوئے۔ پھر وہاں بطور قائد ضلع کراچی خدمت کی توفیق ملی اور انہوں نے وہاں خدام الاحمدیہ میں بڑا اچھا کام کیا۔ پھر صدر جماعت ڈرگ روڈکالونی اور نائب امیر کراچی کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ 1984ء میں جس وفد نے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا سکھر میں استقبال کیا تھا آپ اس وفد میں شامل تھے اور ان کی روانگی تک ایئر پورٹ پہ ہی رہے۔ 2010ء میں لندن منتقل ہوئے۔ یہاں بیت الفتوح ہومیوپیتھک ڈسپنسری میں بھی باقاعدہ وقت دیا کرتے تھے۔ وفات کے وقت آپ سیکرٹری تربیت اور سیکرٹری تربیت نومبائعین جماعت نَوربری (Norbury)خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے دو پوتے اور ایک نواسہ مربی ہیں اور یہیں یو کے میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ حمیدہ اختر صاحبہ اہلیہ عبدالرحمٰن سلیم صاحب یوایس اے کا ہے جو 19؍ جنوری کو92سال کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اللہ تعالیٰ نے مرحومہ کو لمبا عرصہ تقریباً پچاس سال لجنہ اماء اللہ کراچی اور راولپنڈی میں جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی، لجنہ صدر کے طور پر بھی، نگران قیادت کے طور پر بھی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔ خلافت کی عاشق تھیں۔ بچوں کو بھی خلافت سے اخلاص کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ تمام عمر نمازوں کی پابند اور تہجد گزار رہیں۔ قرآن کو پڑھنے اور پڑھانے کا خاص اہتمام کرتی تھیں اور اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھایا۔ ان کو عمرہ کی سعادت بھی ملی۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ آپ کی اولاد میں سے بھی کئی خادم دین ہیں اور جماعت کی مختلف حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ہیں، ڈاکٹر خلیل ملک صاحب ہیں۔ اچھی خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم ناصر پیٹر لُطسین (Nasir Peter Lutzin)صاحب کا ہے۔ جرمن احمدی ہیں۔ جو 20؍ جنوری کو وفات پا گئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ 1983ء کے ایک روز میرے والدین ہنوور (Hanover)شہر کے مرکزی بازار سے گزر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک سٹال پر پڑی جو محض ایک میز پر مشتمل تھا اور جس پر چند تعارفی کتب پڑی تھیں اور اس کے پیچھے ایک دو غیرملکی نوجوان کھڑے تھے۔ ان سے آپ کا تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ یہ اسلام کی نمائندہ جماعت احمدیہ کا تبلیغی سٹال ہے۔ چنانچہ ان نوجوانوں سے سوالات بھی کیے اور لٹریچر بھی ساتھ لے لیا۔ لٹریچر پڑھنے کے بعد انہوں نے دوبارہ ان لوگوں سے رابطہ کر کے ملاقات کی۔ ان تینوں احمدیوں نے انہیں اپنے ہاں کھانے پہ بلایا۔ رمضان کا مہینہ تھا تو کہتی ہیں کہ افطاری پر میرے والدین ان کے گھر گئے۔ ان لوگوں نے فرش پر پرانے اخبار بچھا کر کھانا لگایا ہوا تھا۔ کوئی جگہ نہیں تھی بیٹھنے کی۔ نیچے زمین پر قالین پہ بیٹھ کر ساتھ اخبار بچھائے اور اس پر کھانا لگایا ہوا تھا۔ کھانا میرے والدین کو بڑا پسند آیا لیکن اس سے زیادہ ان لوگوں کی سادگی اور مہمان نوازی ان کو محسوس ہوئی۔ اس کا مزہ زیادہ آیا۔ پھر کہتی ہیں کھانے کے بعد بھی گفتگو ہوئی۔ پھر گھر آنا جانا شروع ہوا اور چند مہینوں تک مطالعہ اور تحقیق کرنے کے بعد 1984ء میں کہتی ہیں میرے والدین بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہو گئے۔ یہ موقع عید کا تھا اور کہتی ہیں مقامی دوستوں کے ہمراہ محترم ناصر صاحب ہیمبرگ گئے اور بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ ایک جلسہ سالانہ پر ان کو تقریر کرنے کا بھی موقع ملا۔ کہتی ہیں کہ میری والدہ کی مذہب سے خاص دلچسپی تھی اور سچے مذہب کی تلاش کے شوق نے ان کو احمدیت کی طرف مائل کیا اور پھر ان کا زندہ خدا سے زندہ تعلق بھی قائم ہوا اور دعاؤں کی قبولیت کا نشان کئی مرتبہ دیکھا۔ اور اللہ تعالیٰ بھی کیسے نشان ان کو دکھاتا ہے۔ کہتی ہیں کہ میری والدہ ایک آنکھ سے معذور تھیں۔ 1986ء میں جلسہ سالانہ یو کے میں شامل ہوئیں تو اچانک ان کی بینائی کسی حد تک لَوٹ آئی۔ پہلے تو آنکھ بالکل بند تھی مگر پھر اسی آنکھ سے تھوڑا تھوڑا نظر آنا شروع ہو گیا۔ اب کہتی ہیں کہ جس کی ایک آنکھ بالکل ختم ہو جائے اس کے لیے یہ بات معجزے سے کم نہیں اور یہ معجزہ گیارہ سال بینائی سے محروم رہنے کے بعد ہوا جس کا وہ کہتی ہیں کہ خالص دعا کی وجہ سے اور جلسہ میں آ کے دعائیں کرنے کی وجہ سے یہ برکت مجھے ملی۔ پھر لندن میں ایک جرمن احمدی خدیجہ صاحبہ کے گھر ٹھہرا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ ایک روز میرے والدین ان کے گھر سے سیر کی غرض سے باہر نکلے تو کچھ دور چلے گئے۔ واپس آنے کے لیے رستہ بھول گئے۔ اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کو پریشانی بڑھ رہی تھی۔ ایک ایسی سڑک پر کھڑے تھے جہاں ٹریفک بہت زیادہ تھی اور کچھ پتہ نہ تھا کہ کہاں کھڑے ہیں۔ جب اندھیرا مزید گہرا ہو گیا اور راستہ بھی گم گیا تو کہتی ہیں میری والدہ نے کہا آؤ دعا کرتے ہیں۔ ابھی دعا سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ دیکھا کہ محترمہ خدیجہ صاحبہ کے داماد اپنی گاڑی کے ساتھ ان کے سامنے کھڑے کہہ رہے تھے کہ آئیں گاڑی میں بیٹھیں۔ میں آپ کو گھر لے جاؤں۔ قبولیت دعا کے اس نظارے نے ان کے ایمان کو مزید تازگی اور تقویت بخشی۔

لئیق منیر صاحب مربی جرمنی لکھتے ہیں کہ لُطسین صاحب کا سارا خاندان احمدی تھا۔ اس وقت ہم کہا کرتے تھے کہ یہ واحد جرمن احمدی فیملی ہے۔ آپ بہت اخلاص رکھنے والے کم گو اور شریف النفس تھے۔ مالی قربانی میں بھی لُطسین صاحب پیش پیش رہتے تھے۔ تبلیغی پروگراموں میں لیکچر دیتے تھے۔ ان کے سامنے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لیا جاتا تو ان کی آنکھوں میں نمی آ جاتی۔ ایک تبلیغی میٹنگ میں مرحوم نے اسلام کی تعلیمات اس قدر خوبصورت انداز میں پیش کیں کہ ایک ستر سالہ جرمن میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے اسلام کے بارے میں جیسی معلومات آج ملی ہیں آج سے پہلے کبھی نہیں ملیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولادوں کو بھی احمدیت پر قائم رکھے۔

اگلا جنازہ مکرمہ رضیہ تنویر صاحبہ کینیڈا کا ہے جو خلیل احمد تنویر صاحب مربی سلسلہ، وائس پرنسپل جامعہ ربوہ کی اہلیہ تھیں۔ 27؍ جنوری کو 58 سال کی عمر میںکینیڈا میں وفات پا گئیں ۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

انہیں کینسر کی بیماری تھی۔ مرحومہ کو بچپن سے ہی دینی کاموں میں بہت شوق تھا جو کہ وفات تک قائم رہا۔ 22 سال دفتر لجنہ اماء اللہ پاکستان اور دفتر ماہنامہ ’مصباح‘ میں مختلف شعبوں میں بطور محررہ، اکاؤنٹنٹ ان کو خدمت کا موقع ملا اور بیماری تک خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کے ساتھ ان کو کافی کام کی توفیق ملی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور ان کی دعائیں لینے کی ان کو توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ میاں منظور احمد غالب صاحب ابن میاں شیر محمد صاحب آف دودہ ضلع سرگودھا کا ہے۔ 7؍ فروری کو وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے بڑے بھائی کو 1955ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تھی۔ پھر بڑے بھائی کے ساتھ یہ ربوہ جاتے رہے اور وہاں انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ ان کے بیٹے بشیر احمد صاحب بیلجیم کہتے ہیں کہ آپ خلافت کے فدائی عاشق تھے اور خلافت کی اطاعت میں کوئی توجیہ نہیں کرتے تھے بلکہ من و عن عمل کرنا سعادت سمجھتے تھے۔ اور میں ذاتی طور پر بھی ان کا واقف تھا۔ یہ یقیناً بہت اخلاص و وفا سے جماعت کی خدمت کرنے والے اور خلافت کی اطاعت کرنے والے بھی تھے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے، خادم دین، مہمان نواز، انتہائی درویش طبع، غریب پرور، ملنسار، نہایت شفیق اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ کے فضل سے ان کو خدام الاحمدیہ ضلع میں بھی، پھر انصار اللہ ضلع، پھر سرگودھا میں جماعت میں ضلع کی سطح پر سیکرٹری مال اور سیکرٹری وقف جدید، سیکرٹری تحریک جدید خدمت کی توفیق ملی اور بڑے احسن رنگ میں انہوں نے اپنی خدمات سرانجام دیں۔ ان کے ایک پوتے سفیر احمد مربی سلسلہ ہیں آج کل یہاں دفتر پی ایس میں کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ محترمہ بشریٰ حمید انور عدنی صاحبہ اہلیہ حمید انور صاحب عدن یمن کا ہے جو ایم ٹی اے میں ہمارے والنٹیئر کارکن مکرم محمد احمد انور صاحب ہیں ان کی والدہ تھیں اور منیر احمد عودہ صاحب ڈائریکٹر پروڈکشن ایم ٹی اے کی ساس تھیں۔ 14؍ فروری کو ان کی 69 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت حاجی محمد دین صاحب تہالوی اور حضرت حسین بی بی صاحبہ کی پوتی تھیں۔ ایم ٹی اے میں بھی ان کو کام کرنے کی توفیق ملی۔ لقاء مع العرب پروگرام کے تمام ڈیٹا کو ٹرانسفر کرنے کے سلسلہ میں باقاعدگی سے لمبا عرصہ کام کرتی رہیں اور ساتھ العربیہ میں بھی خدمات انجام دیتی رہیں۔ ہر قسم کی جماعتی خدمات بجا لانے میں خوشی محسوس کرتی تھیں۔ بڑی صابرہ شاکرہ خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ محترمہ نورالصباح ظفرصاحبہ اہلیہ محمد افضل ظفر صاحب مربی سلسلہ ایلڈوریٹ کینیا کا ہے۔ 25؍ مارچ کو ان کی 62 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ مولانا محمد سعید انصاری صاحب مرحوم مربی سلسلہ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ نسیم باجوہ صاحب مربی سلسلہ برطانیہ کی چھوٹی خواہر نسبتی تھیں۔ ان کے میاں محمد افضل صاحب لکھتے ہیں: اللہ کے فضل سے پنجگانہ نمازوں کی پابند، تہجد گزار اور باقاعدگی سے ہر روز قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی تھیں۔ دعاؤں پر حد درجہ یقین تھا۔ خود بھی ہر وقت دعاؤں میں لگی رہتیں اور بچوں کو بھی ہمیشہ دعاؤں کی تلقین کرتیں اور باقاعدگی سے پھر خلیفۂ وقت کے خطبات بھی سنتیں اور بعد میں بچوں کی تربیت کے لیے خود بھی دوبارہ چیدہ چیدہ پوائنٹس انہیں بتاتیں۔ حدیث، تاریخ اور کتب سلسلہ سے ایمان افروز واقعات کثرت سے بچوں کو سناتیں اور ہمیشہ خدمت دین اور خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتیں۔ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ چندے کی ادائیگی میں حد درجہ باقاعدہ تھیں۔ ہر مالی تحریک میں حصہ لیتی تھیں۔ مہمان نوازی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت زیادہ وسعت قلبی عطا فرمائی ہوئی تھی۔ یہ کہتے ہیں مرحومہ سے میری اکیس سالہ رفاقت تھی اور اس میں نہایت ہمدردانہ اور قابل تعریف رہیں۔ یہ رفاقت قابل تعریف رہی ہے۔ ظفر صاحب کی پہلی اہلیہ فجی میں جب یہ مبلغ تھے تو وہاں ایک حادثہ میں تین بیٹیوں اور ایک بیٹے چار بچوں سمیت شہید ہو گئی تھیں۔ ظفر صاحب کی ان سے یہ دوسری شادی تھی اور جو پہلی بیوی سے دو بیٹیاں تھیں ان کو بھی انہوں نے ماں بن کے پیار دیا جس کا خود بچیوں نے اظہار کیا کہ ہمیں کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ ہماری ماں نہیں ہے۔ ان کی ہمیشہ اچھی تربیت بھی کی اور پڑھایا لکھایا بھی اور نہ صرف یہ کہ بچیوں سے اچھا سلوک کیا بلکہ ظفر صاحب کہتے ہیں میرے سابقہ سسرال سے بھی اتنا سلوک کیا کہ وہ بھی آپ کے حسن اخلاق کے گرویدہ ہو گئے۔ ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ ہماری زندگی میں جب یہ آئی ہیں تو ایک روشنی، ایک سہارا اور ایک شفیق ماں بن کر آئیں اور ہمیں وہ محبت اور پیار دیا کہ ہمیں کبھی اپنی حقیقی والدہ کی کمی محسوس نہ ہوئی اور ان کی اپنی بھی ایک بیٹی تھیں لیکن تینوں بچیوں میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔ بے نفس اور ایثار پیشہ خاتون تھیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر توکّل، خلافت احمدیہ سے وابستگی اور مذہبی تعلیمات کی پابندی کی ہمیںتلقین کرتیں۔ ہمیشہ رشتوں کی عظمت اور صلہ رحمی کا درس دیا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ سلطان علی ریحان صاحب کا ہے جو محمد احمد نعیم صاحب مربی سلسلہ مرکزی عربی ڈیسک یو کے کے والد ہیں اور جو 26؍ مارچ کو 83 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

محمد احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے تایا جان نے خود تحقیق کر کے 1958ء میں بیعت کی۔ اس کے بعد میرے ابا جان کو تبلیغ کی اور جلسہ پر ربوہ بھجوایا اور ایک دو کتابیں پڑھنے کے بعد ان کے والد نے بھی اللہ کے فضل سے بیعت کر لی۔ پھر کہتے ہیں کہ بیعت کے بعد دونوں بھائیوں کی بڑی مخالفت ہوئی۔ قتل کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ مولوی لوگ گاؤں آ کر کہا کرتے تھے کہ تمہارے سے دو لڑکے قتل نہیں ہوتے لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت فرماتا رہا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے غیر احمدی رشتہ داروں سے اور گاؤں والوں سے آخر تک تعلق نبھایا۔ ان کی دشمنی کے باوجود ان سے حسن سلوک کرتے رہے۔ ان کے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ محمد احمد نعیم صاحب اپنے والدصاحب کے جنازے پر نہیں جا سکے۔

پھر اگلا جنازہ مولوی غلام قادر صاحب مبلغ سلسلہ واقفِ زندگی آف کالا بن ضلع راجوری صوبہ جموں کشمیر کا ہے جو 26؍ مارچ کو چھپن سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مولوی غلام قادر صاحب مرحوم کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا مکرم بہادر علی صاحب کے ذریعہ آئی تھی۔ اس خاندان کے تیرہ افراد بفضلہ تعالیٰ اس وقت جماعت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ بطور مبلغ چونتیس سال چھ ماہ ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم کا جہاں بھی تقرر ہوا بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اور پوری محنت اور لگن سے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آخر وقت تک نبھاتے رہے۔ تبلیغ کا اچھا ملکہ رکھتے تھے۔ میدان تبلیغ میں درپیش پریشانیوں اور مخالفتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے تھے۔ نہایت صابر شاکر، قناعت شعار اور نڈر مبلغ تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک بیٹا بشیر الدین قادر جامعہ احمدیہ قادیان کی آخری کلاس میں زیر تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد صادق صاحب عارف درویش قادیان کا ہے جو یکم اپریل کو 85 سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گئی تھیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحومہ حضرت قاضی اشرف علی صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام موضع علی پور کھیڑ ضلع مین پوری صوبہ یوپی کی پوتی اور قاضی شاد بخت عباسی صاحب مرحوم کی بیٹی تھیں۔ ان کی شادی محمد صادق صاحب عارف درویش مرحوم سے ہوئی تھی۔ مرحومہ نے دور درویشی اپنے خاوند کے ساتھ نہایت صبر اور شکر سے گزارا۔ اگر فاقوں کی نوبت بھی آئی تو ہمیشہ صبر کا نمونہ دکھایا اور کبھی کسی کے سامنے تنگدستی کا اظہار نہیں کیا۔ نمازوں کی پابند بلکہ مرض الموت میں بھی نمازوں کے لیے بڑی بے چین ہوتی تھیں۔ تلاوت قرآن کریم کا بھی بڑا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ چندوں میں بڑی باقاعدہ تھیں۔ خلافت سے انتہائی تعلق رکھنے والی تھیں۔ بچوں کو بھی اس حوالے سے تلقین کیا کرتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ خالد سعد اللہ المصری صاحب اردن کا ہے جو گذشتہ دنوں 60 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے۔ بہت مخلص، نمازوں کے پابند، چندوں میں باقاعدہ اور نظام جماعت کی پابندی کرنے والے تھے۔ نہایت خوش خلق، مہمان نواز اور ملنسار تھے۔ بہت ٹھنڈی طبیعت والے اور بہت کم گو تھے۔ ان کے لیے خلیفۂ وقت کی بات قول ِفصل کا حکم رکھتی تھی۔ایم ٹی اے خصوصاً خطبہ جمعہ باقاعدگی سے دیکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم محمد منیر صاحب دارالفضل ربوہ کا ہے جو یکم اپریل کو 73سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

1972ء میں انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ کا باقی خاندان احمدی نہیں تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے بارہا آپ پر ٹارچر (torture) بھی کیا کہ آپ احمدیت چھوڑ دیں بلکہ 2003ء میں آپ کو یہ بھی آفر کی گئی کہ اگر آپ احمدیت چھوڑ دیں تو ہم آپ کو اتنا دیں گے کہ آپ کے بچوں کو بھی کمانا نہیں پڑے گا لیکن یہ احمدیت پر قائم رہے۔ ان کی بیٹی قمر منیر صاحبہ یہاں اسلام آباد کے ہمارے واقف زندگی کارکن ہیں ان کی اہلیہ ہیں اور ایک بیٹا طاہر وقاص ہے وہ بھی وقف زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ بڑے نیک اور مخلص وجود تھے۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ کبھی کسی بات پر غصہ نہیں کرتے تھے۔ پنج وقت نماز کا التزام اور بروقت تمام چندوں کی ادائیگی کیا کرتے تھے۔ حافظ سعید الرحمٰن صاحب ان کے رشتہ دار ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے والدنے انہیں کام سکھایا کیونکہ ان کے غیر احمدی رشتہ دار ان سے سلوک نہیں کرتے تھے تو ان کے والد کے پاس آ گئے تھے۔ وہیں قریب ہی ان کی دکان تھی۔ اپنی دکان پر ان کو کام سکھایا اور پھر ان کے گھر میں رہنے لگ گئے اور کہتے ہیں بڑی باقاعدگی کے ساتھ نماز کے لیے مسجد جاتے اور اگلی صفوںمیں جا کے بیٹھا کرتے تھے۔ پھر تبلیغ کا بھی اتنا شوق پیدا ہو گیا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اکثر ربوہ کے ساتھ والے گاؤں میں تبلیغ کرنے کے لیے گئے ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ ماسٹر نذیر احمد صاحب دارالبرکات ربوہ کا ہے جو 4؍ اپریل کو 80 سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد میاں عمر دین صاحب مرحوم ابن میاں کرم دین صاحب آف داتہ زیدکا ضلع سیالکوٹ کے ذریعہ سے آئی تھی۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں رہنمائی پائی، خواب کے ذریعہ سے ان کو رہنمائی ہوئی تھی۔ اور 1914ء یا 15ء کے جلسہ میں خلیفہ ثانیؓ کے ہاتھ پر جا کے بیعت کی۔ پھر ماسٹر نذیر صاحب جب سرگودھا میں 99 شمالی میں قیام پذیر تھے تو وہاں ان کا سکول کے اساتذہ کی طرف سے بائیکاٹ کیا گیا۔ ان کے اسی سکول میں ان کے اپنے 9 سالہ بیٹے نصیر احمد کو ایک طالبعلم کی طرف سے چاقو کے وار سے زخمی بھی کیا گیا اس پر ماسٹر صاحب نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال کچھ عرصہ بعد یہ بیٹا اس وقت تو بچ گیا تھا لیکن بخار کی وجہ سے وفات پا گیا۔ اس بیٹے کی میت کو قبر میں اتارتے ہوئے بڑے صبر اور حوصلے سے انہوں نے فرمایا کہ بیٹا مجھے فخر ہے کہ تم اپنے جسم پر جماعت کی سچائی کا نشان لے کر جا رہے ہو۔ جب تک یہ اس گاؤں میں ٹیچر رہے ہیں وہاں کسی معلم یا مربی کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ خود ہی یہ فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔ پھر ان کی پوسٹنگ ربوہ کے نزدیک ہو گئی تو ربوہ منتقل ہو گئے۔ اور پھر آپ وہاں بھی خدمت کرتے رہے۔ لاتعداد بچوں اور بچیوں کو قرآن مجید پڑھایا۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد قاری عاشق صاحب سے ترتیل قرآن کریم سیکھی۔ پھر محلے میں ترتیل القرآن کی کلاس بھی جاری کی اور پھر کوشش یہ ہوتی تھی کوئی بچہ یا بچی ایسی نہ ہو جو میٹرک پاس کر چکا ہو اور قرآن نہ پڑھنا آتا ہو۔ اگر کوئی ایسا ہوتا تو اس کے گھر پہنچ کر اسے قرآن پڑھاتے۔ بڑی چھوٹی عمر سے ہی تہجد گزار تھے اور جب کورونا کی وجہ سے وہاں ربوہ میں پابندی لگائی گئی کہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگ مسجد نہ آئیں تو گھر میں بڑے اہتمام سے نمازیں اور جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ ایک خواب کی بنا پر ان کو یقین تھا کہ اسّی سال کی عمر میں میری وفات ہوگی اور وہی ہوا۔ ان کے چار بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہیں۔ بہرحال ان کے جو دو بیٹے ہیں بلکہ تین بیٹے واقفِ زندگی ہیں۔ ایک تو عزیز صاحب ہیں۔ ہمارے یہاں اسلام آباد میں ہی خدمت کر رہے ہیں۔ دوسرے نسیم احمد صاحب ربوہ میں مربی سلسلہ ہیں اور تیسرے سعید احمد عدیل صاحب یہ بھی نائیجر میں مربی سلسلہ ہیں۔ یہ بھی تدفین پہ نہیں پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان سب لوگوں کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button