سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

پنڈت دیانند صاحب سے حضورؑ کے قلمی مباحثات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1878ء میں ایک مضمون ابطال تناسخ پر بوعدہ انعام پانچ سَو روپیہ لکھ کر رسالہ ہندو باندھو، لاہور میں چھپوایا جس پر سوامی دیانند صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مباحثہ کی دعوت دی اور تین آریوں کی معرفت پیغام بھی بھیجا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے پسند نہ کیا کہ یہ کارروائی مخفی رہے۔ اس لیے سوامی جی کی دعوت مباحثہ کا جواب بذریعہ ایک چھپے ہوئے اعلان کے جو بمنزلہ کھلی چٹھی تھا، دے دیا۔ اس اعلان کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو اعلائے کلمۂ اسلام کے لیے ایک خاص جوش بخشا گیا تھا اور آپؑ کسی بھی ایسے موقع کو ہاتھ سے نہیں دیتے تھے۔

پنڈت صاحب کے نام اس خط میں حضرت اقدسؑ تحریرفرماتے ہیں :’’سوامی دیانند صاحب نے بجواب ہماری اس بحث کے، جو ہم نے روحوں کا بے اَنت ہونا باطل کر کے غلط ہونا مسئلہ تناسخ اور قدامت سلسلہ دنیا کا ثابت کیا ہے، معرفت تین کس آریہ سماج والوں کے یہ پیغام بھیجا ہے کہ اگر ارواح حقیقت میں بے انت نہیں لیکن تناسخ اس طرح پر ہمیشہ رہتا ہے کہ جب سب ارواح مکتی پا جاتے ہیں تو پھر بوقت ضرورت مکتی خانہ سے باہر نکالے جاتے ہیں۔ اب سوامی صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے اس جواب میں کچھ شک ہو تو بالمواجہ بحث کرنی چاہئے۔ چنانچہ اس بارے میں سوامی صاحب کا خط بھی آیا۔ اس خط میں بحث کا شوق ظاہرکرتے ہیں اس واسطے بذریعہ اس اعلان کے ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بحث بالمواجہ ہم کو بسرو چشم منظور ہے۔

کاش سوامی صاحب کسی طرح ہمارے سوالوں کا جواب دیں۔ مناسب ہے کہ سوامی صاحب کوئی مقام اور ثالث بالخیر اور انعقاد جلسہ کی تجویز کر کے بذریعہ کسی مشہور اخبار کے مشتہر کر دیں لیکن اس جلسہ میں شرط یہ ہے کہ یہ جلسہ بحاضری چند منصفان صاحب لیاقت اعلیٰ کہ تین صاحب ان میں سے ممبران برہم سماج اور تین صاحب مسیحی مذہب ہونگے قرار پاوے گا۔ اوّل تقریر کرنے کا ہمارا حق ہوگا کیونکہ ہم معترض ہیں۔ پھر پنڈت صاحب برعایت شرائط جو چاہیں گے جواب دیں گے۔ پھر ان کاجواب الجواب ہماری طرف سے گزارش ہوگا اور بحث ختم ہو جائے گی۔ ہم سوامی صاحب کی اس درخواست سے بہت خوش ہوئے۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کیوں سوامی صاحب اور اور دھندوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایسی بحث اور اعتراضوں کا جواب نہیں دیتے جس نے سب آریہ سماج والوں کا دم بند کر رکھا ہے۔ اب اگر سوامی صاحب نے اس اعلان کا کوئی جواب مشتہر نہ کیا تو پس یہ سمجھو کہ سوامی صاحب صرف باتیں کر کے اپنے موافقین کے آنسو پونچھتے ہیں اور مکت پایوں کی واپسی میں جو مفاسد ہیں مضمون مشتملہ متعلقہ اِس اعلان میں درج ہیں۔ ناظرین پڑھیں اور انصاف فرمائیں۔

(10؍ جون 1878ء)مرزا غلام احمد رئیس قادیان‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول ص20 مکتوب نمبر 2بنام سوامی دیانند)

لیکن پنڈت صاحب نے دَم سادھ لیا اور مقابل پرآنے سے پس وپیش کرتے رہے۔

لاہورمیں آریہ سماج کاقیام ہوئے ابھی تھوڑاہی عرصہ گزرا تھا کہ 7؍ دسمبر 1877ء کے اخباروکیل ہندوستان وغیرہ میں اس سماج کی طرف سے ان کے عقیدہ کی بابت ایک اعلان شائع ہواکہ

’’ارواح موجودہ بے انت ہیں۔ اوراس کثرت سے ہیں کہ پرمیشرکوبھی ان کی تعداد معلوم نہیں۔ اس واسطے ہمیشہ مکتی پاتے رہتے اور پاتے رہیں گے مگرکبھی ختم نہیں ہوویں گے۔‘‘

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 157)

اس اعلان کاشائع ہونا تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام جوکہ عیسائیت کے خلاف نبردآزماتھے شیرببرکی طرح ان کی طرف لپکے۔ کیونکہ آپ کی غیرت ایسے مکروہ اور ہتک آمیز عقیدہ کوبرداشت ہی نہیں کرسکتی تھی۔ آپؑ نے اس عقیدہ اورنظریہ کی تردیدمیں مضامین لکھے جوکہ 9؍فروری 1878ء سے 9؍مارچ 1878ء تک کے سفیرہندامرتسر میں شائع ہوئے۔ آپؑ نے ان مضامین میں ایسے مسکت اور ناقابل تردیددلائل سے اس عقیدہ کاباطل ہونا ثابت کیااور اس کے ساتھ ایک اشتہاربھی شائع کیاکہ جوآریہ سماجی اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرےگا تو اس کومیں پانچ سوروپیہ انعام دوں گا۔

حضرت اقدسؑ کے مضامین کاشائع ہونا تھا کہ آریہ سماج میں کھلبلی مچ گئی۔ اور حضوراقدسؑ کے پیش کردہ دلائل کے سامنے ایسے ہتھیارڈالنے پڑے کہ سیکرٹری آریہ سماج لاہور لالہ جیون داس صاحب کویہ اعلان کرناپڑاکہ جناب ہماراپنڈت دیانندصاحب کے ہرعقیدے اور اصول سے متفق ہوناضروری نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’آج میں نے اتفاقاً آپ کے اخبار مطبوعہ 9؍فروری کے ابتدائی صفحہ میں ایک اشتہار منجانب مرزا غلام احمد رئیس قادیان دیکھا۔ لہٰذا اس کی نسبت چند سطور ارسال خدمت ہیں۔ امید کہ درج اخبار فرما کر مشکور فرمائیے گا۔

راقم اشتہار نے لکھا ہے کہ جو صاحب منجملہ توابع سوامی دیانند سرسوتی صاحب سوال ہٰذا کا جواب دے کر ثابت کرے کہ روح بے انت ہیں۔ اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں۔ تو میں اس کو مبلغ پانچ سو روپیہ بطور انعام کے دوں گا۔ اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا۔ کہ لفظ توابع سے صاحب راقم کا کیا مطلب ہے۔ اگر آریہ سماج والوں سے مراد ہے تو معلوم رہے۔ کہ وَے لوگ سوامی دیانند صاحب کے توابعین سے نہیں ہیں۔ یعنی وَے عام طور پر پابند خیالات سوامی دیانند کے نہیں۔ ہاں ان کے خیالات میں سے جو بات جس کو معقول معلوم ہوتی ہے۔ وہ اس کو مانتا ہے۔ اور یہ امر کچھ آریہ سماج والوں سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ ہر کوئی امر معقول کو پسند کرتا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ روح بے انت ہیں۔ اور پرمیشور کو ان کی تعداد معلوم نہیں۔ آریہ سماج اس کو مانتی ہے یا نہیں۔ تو معلوم ہو کہ یہ مسئلہ آریہ سماج کے اصولوں میں داخل نہیں ہے۔ اگر کوئی ممبر سماج کا اس کا دعویدار ہوتو اس سے سوال کرنا چاہیئے۔ اور اسی کو اس کا جواب دینا لازم ہے۔ چونکہ اس اشتہار سے لوگوں کو یہ مغالطہ پیدا ہوتا تھا۔ کہ آریہ سماج والے سوامی دیانند صاحب کے پیرو اور تابع ہیں۔ حالانکہ یہ بات نہیں۔ اس لئے بغرض اشتباہ اور مغالطہ مذکور کے یہ تحریر عمل میں آئی۔ راقم جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور‘‘

(بحوالہ حیات احمدؑ جلداول ص 179-180)

یکم دسمبر1877ء کے اخبارمنشورمحمدی میں جوکہ بنگلورسے شائع ہوتاتھا آپؑ نے پنڈت دیانندصاحب کے ارواح کی بابت ایک اظہار کی تردیدپرمضمون لکھا۔ جس میں آپ نے تحریرفرمایا:

’’پنڈت صاحب کی تقریر سے تناسخ باطل ٹھہرتا ہے اور دنیا کا بار بار پیدا ہونا غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ بموجب پہلے اقرار پنڈت صاحب کے پرمیشر کوئی (روح۔ ناقل)بنا نہیں سکتا۔ اور بموجب دوسرے اور تیسرے اقرار پنڈت صاحب کے ہمیشہ روح بکٹ (مکت )ہوتے رہتے ہیں۔ اور بموجب چوتھے اقرار پنڈت صاحب کے جو روح مکت ہوجاتی ہے پھر واپس نہیں آتی۔ اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ جیسے جیسے روحیں بکٹ (مکت)ہوجائیں گی اس طرف سے کمی ہوتی جائے گی یہاں تک کہ ایک دن خزانہ خالی ہوجائے گا۔ پھر اواگون کہاں رہے گا اور سرشتی کا بار بار رچنا کس پرکار سے ٹھیک بیٹھے گا۔ اگر کوئی کہے کہ روح بے انت ہیں تو اول تو یہ وہم بموجب پانچویں اقرار پنڈت صاحب کے باطل ہے کیونکہ اگر روح بے انت ہوتے تو ایک مدت معدود میں جو چار ارب ہے کس طرح ان سب کا دورہ پورا ہوجاتا۔ اور علاوہ اس کے ہم کہتے ہیں کہ جو چیز فی الحقیقت کسی قدر خارج میں موجود ہے اور دنیا میں آسکتی ہے اور جاسکتی ہے وہ کبھی بے انت نہیں ہوسکتی۔ جب ایک کو ان میں سے نکالیں گے تو ضرور ایک کی کمی ہوجائے گی اور جب دونکالیں گے تو دو کی کمی ہوجائے گی۔ غرض جیسے نکلتے جائیں گے ویسے کم ہوتے جائیں گے اور ایک دن محکمہ بندوبست کی طرح سرشتہ خدائی کا تخفیف میں آجائے گا۔ کیونکہ بموجب اصول پنڈت صاحب کے زمانہ غیر متناہی ہے اور یہاں ثابت ہوگیا جوروحیں کسی قدر اندازے میں محدود اورمتناہی ہیں۔ اور متناہی غیر متناہی سے کبھی نباہ نہیں کرسکتا۔ اس واسطے ضرور کسی دن ٹوٹ(کمی۔ ناقل) آجائے گی۔ بعض لوگ یہ جواب دیتے ہیں کہ روح انادی ہے اور جو چیز انادی ہو وہ گنتی سے باہر ہوتی ہے۔ اس کا یہ جواب ہے کہ خدا بھی انادی ہے مگر گنتی سے باہر نہیں ایک ہے۔ جو چیز محدود ہوگی وہ کسی نہ کسی گنتی میں ضرور داخل ہوگی۔ اور کسی قدر کم کرنے سے ضرور کم ہوجائے گی۔ دیکھو ہمارے جیوجو ہمارے شریر (جسم۔ ناقل)میں داخل ہیں یہ بھی تو بقول تمہارے انادی ہیں۔ اگر ہم کسی جگہ چار جیوبیٹھے ہوں اور بعد اس کے ہم میں سے ایک جیو اٹھ کر باہر چلاجاوے توضرور ہم باقی تین جیو رہ جائیں گے۔ اور اگر ہم میں سے کوئی نہ اُٹھے گا اور ایک اور جیو آبیٹھے گا تو ہم پانچ جیو ہوجائیں گے۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں جو خدا کا حدّ انتہا کچھ نہیں ہے اس سے ثابت ہوا کہ روح بے انت ہیں۔ اُن حضرات کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ بحث تو اس امر میں ہے جو کوئی چیز موجود ہو کر شمار سے باہر نہیں رہ سکتی خدا کے طول عرض سے اس بحث کو کیا علاقہ ہے اور خدا بھی تو شمار سے باہر نہیں۔ اور نہ خدا شمار سے مستثنیٰ ہے۔ انہیں حضرات کا یہ بھی وسواس (خیال۔ ناقل) ہے کہ خدا بوڑھا نہیں ہوتا، اس کو موت نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رُوح بے انت ہیں۔ ہماری طرف سے یہ گزارش ہے (کہ) جو ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرنی عقلمندوں کاکام نہیں۔ بھلا کوئی عاقل خیال کرے کہ موجودات کے شمار میں خدا کے بوڑھا جوان ہونے کا کیا دخل ہے۔ ہماری کلام تو صرف شمار میں ہے۔ سو ہم بار بار عرض کرتے ہیں جو خدا بھی شمارسے باہر نہیں۔ ایک ہے اور نہ کوئی اور موجود تعداد سے باہر ہوسکتا ہے جیسا ہم نے ثابت کر دیا۔

مجیب صاحبوں کے ایسے ایسے عجیب جواب ہیں جو حقیقت میں اس لائق ہیں جو ایک ایک نقل ان کی برٹش انڈیا کے کل عجائب گھروں میں رکھی جائے۔

المعترض۔ مرزاغلام احمد رئیس قادیان

(اخبار منشور محمدی بنگلور۔ (ریاست میسور)جلد 6نمبر25-33ذیقعدہ 1294ھ صفحہ6-7) (روزنامہ الفضل قادیان 12 اپریل 1941ء صفحہ 3)‘‘

(بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلداول ص5-6)

حضرت اقدسؑ توچاہتے تھے کہ پنڈت دیانندصاحب خودمیدان میں اتریں اور براہ راست اپنے عقائدکودلائل کے ساتھ ثابت کریں۔ لیکن وہ ابھی تک پہلوتہی کررہے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ حضورؑ کی طرف سے اخبارسفیرہنداور منشورمحمدی وغیرہ میں شائع ہونے والے مضامین کاپنڈت صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ بعض آریہ سماجیوں کی طرف سے حضورعلیہ السلام کومباحثہ کاچیلنج دے دیا۔ لیکن یہ چیلنج ایک کھوکھلااعلان ہی ثابت ہوا پنڈت صاحب کومقابل پرنہ آنا تھااور نہ آئے۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :

پنڈت دیانند صاحب سرسوتی ان مضامین اور مطالبات کا کوئی جواب تو نہیں دے سکا مگر اس سلسلہ میں انہوں نے بعض آریہ سماجیوں کی معرفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مباحثہ کا چیلنج دیا جس کو حضرت مسیح موعودؑ نے تو قبو ل کر لیا اور ایک اعلان بصورت کھلی چٹھی سوامی دیانند صاحب کے نام شائع کیا کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ یہ نہیں چاہتے تھے۔ کہ یہ معاملہ مخفی رہے۔ اگرچہ سوامی جی نے تحریر اً اس معاملہ میں آنے سے پرہیز کیا۔ گو اس کے اسباب بیان کرنے سے ہم قاصر ہیں مگر یہ امر واقعہ ہےکہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے مطالبہ کا جواب تحریراً دینے سے خاموشی اختیار کی۔ کوئی اس کا نام کچھ رکھے۔ مگر حقیقتاً آپؑ کی ایک فتح تھی۔ بہر حال ان کے اس پیام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل اعلان یا کھلا خط شائع کیا۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button