خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍اپریل2021ء

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! یقیناً فرشتے عثمانؓ سے اسی طرح حیا کرتے ہیں جیسے وہ فرشتے اللہ اور اس کے رسولؐ سے حیا کرتے ہیں(الحدیث)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے یہاں تک کہ آپ کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور آپؐ نے حضرت عثمانؓ کے لیے دعا کی۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی اَور کے حق میں ایسی دعا کرتے ہوئے نہ پہلے کبھی سنا اور نہ بعد میں اور وہ دعا یہ تھی۔

اَللّٰهُمَّ أَعْطِ عُثْمَانَ، اَللّٰهُمَّ افْعَلْ بِعُثْمَانَ۔

اے اللہ !عثمان کو بہت عطا فرما۔ اے اللہ! عثمان پر اپنا فضل و کرم نازل فرما۔

حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے گھر کے محاصرہ کے دوران بیس غلام آزاد کیے

پانچ مرحومین محترم محمد یونس خالد صاحب مربی سلسلہ، مکرم ڈاکٹر نظام الدین بُدھن صاحب آف آئیوری کوسٹ، محترمہ سلمیٰ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر صاحب، مکرمہ کشور تنویر ارشد صاحبہ اہلیہ عبدالباقی ارشد صاحب چیئرمین الشرکة الاسلامیہ اور مکرم عبدالرحمٰن حسین محمد خیر صاحب آف سوڈان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک

چینی ڈیسک کی جدید ویب سائٹ کے اجراکا اعلان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍اپریل2021ء بمطابق 02؍شہادت1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبہ سے پہلے حضرت عثمان ؓکا ذکر چل رہا تھا۔ آج بھی وہی ذکر ہو گا۔ حضرت عثمانؓ میں عفت اور حیا بہت زیادہ تھی۔ اس بارے میں ایک روایت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر ؓہیں۔ اللہ کے دین میں ان سب سے زیادہ مضبوط عمرؓ ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ حقیقی حیا والے عثمانؓ ہیں۔ ان میں سے سب سے عمدہ فیصلہ کرنے والے علی بن ابی طالبؓ ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کو جاننے والے اُبَی بن کعبؓ ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ حلال و حرام کو جاننے والے مُعاذ بن جبلؓ ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ فرائض کو جاننے والے زید بن ثابتؓ ہیں۔ سنو ہر اُمّت کے لیے ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعُبیدہ بن جَرَّاحؓ ہیں۔

(سنن ابن ماجہ، افتتاح الکتاب باب فضائل زید بن ثابت، حدیث 154)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکرؓ ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں ان میں سب سے زیادہ مضبوط عمرؓ ہیں اور ان میں سب سے زیادہ حیا کرنے والے عثمانؓ ہیں۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب معاذ بن جبل حدیث 3790)

حضرت عثمان بن عفانؓ فرماتے ہیں کہ نہ میں نے کبھی لاپروائی کی اور نہ میں نے کبھی تمنا کی۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الطہارۃ وسننہا باب کراہۃ مس الذکر بالیمین والاستنجاء بالیمین حدیث نمبر 311) یعنی خلافت کی یا کسی بھی عہدے کی یا جھوٹی تمنا نہیں کی۔

حضرت عائشہؓ آپؓ کی حیا کے بارے میں روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں اپنی رانوں یا پنڈلیوں سے کپڑا ہٹائے ہوئے لیٹے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ نے اجازت مانگی تو آپؐ نے اسی حالت میں انہیں اجازت دی۔ پھر آپؐ باتیں کرنے لگے۔ پھر حضرت عمرؓ نے اجازت مانگی تو آپؐ نے اسی حالت میں انہیں بھی اجازت دے دی۔ پھر بھی آپؐ باتیں کرتے رہے۔ پھر جب حضرت عثمانؓ نے اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو ٹھیک کیا۔ محمد جو راوی ہیں کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب ایک دن میں ہوا۔ مختلف وقتوں کی باتیں ہو سکتی ہیں۔ وہ آئے باتیں کیں اور جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ ابوبکر ؓآئے لیکن ان کے لیے آپؐ نے کوئی خاص خیال نہ کیا ۔پھر عمرؓ آئے تو ان کے لیے بھی آپؐ نے کوئی خاص خیال نہ کیا۔ لیکن جب عثمانؓ اندر آئے تو آپؐ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے ٹھیک کرنے لگے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کیا مَیں اس شخص کا لحاظ نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں! ایک دوسری جگہ اس روایت کو بیان کرتے ہوئے یہ بات لکھی ہے کہ جب حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ صرف حضرت عثمانؓ کے لیے آپؐ نے یہ ایسا خاص اہتمام کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں! اس ذات کی قَسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! یقیناً فرشتے عثمانؓ سے اسی طرح حیا کرتے ہیں جیسے وہ فرشتے اللہ اور اس کے رسولؐ سے حیا کرتے ہیں۔ اگر عثمانؓ اندر آتے اور تُو میرے قریب ہی ہوتی تو ان میں اتنی حیا ہے کہ وہ واپس جانے تک نہ ہی اپنا سراوپر اٹھاتے یعنی نظر اوپر بھی نہ اٹھاتے اور نہ ہی کوئی بات کرتے۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم باب من فضائل عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ، روایت 6209)

(مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ59-60، کتاب المناقب باب فی حیائہ حدیث نمبر14504،دارالکتب العلمیۃ بیروت، 2001ء)

حضرت عثمانؓ کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ یہ واقعہ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی صفت کریم کے بیان میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کریم سے شرم کی جاتی ہے۔ کریم جو صفت ہے جس میں ہو اُس سے شرم کی جاتی ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپؐ کی ٹانگوں کا کچھ حصہ ننگا تھا کہ حضرت ابوبکر ؓآئے اور بیٹھ گئے۔ پھر حضرت عمرؓ آئے اور بیٹھ گئے مگر آپؐ نے کوئی پروا نہ کی۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضرت عثمانؓ نے دستک دے دی۔ آپؐ فوراً اٹھ بیٹھے اور اپنی ٹانگوں کو کپڑے سے ڈھانک لیا اور فرمایا عثمانؓ بہت شرمیلا ہے۔ اس کے سامنے ٹانگ کا کچھ حصہ ننگا رکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں (پہلے بیان بھی ہوئے ہیں) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹایا ہوا تھا۔ اسی حالت میں ابوبکرؓ نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپؐ اسی طرح لیٹے رہے اور آپؐ نے اجازت دے دی، ان سے گفتگو فرماتے رہے۔ پھر عمرؓ آئے۔ انہوں نے اجازت طلب کی۔ آپؐ نے اجازت دے دی اور اسی طرح لیٹے رہے۔ (لیٹے ہوئے تھے یا بیٹھے ہوئے تھے۔) پھر تھوڑی دیر بعد عثمانؓ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور کپڑے کو درست کر لیا اور ان کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ جب سب چلے گئے تو حضرت عائشہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہؐ ! ابوبکرؓ آئے اور عمرؓ آئے تو آپؐ نے ان کی آمد پر خاص پروا نہ کی اور اسی طرح لیٹے رہے جیسے لیٹے تھے لیکن عثمانؓ کی آمد پر آپؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور کپڑے ٹھیک کر لیے۔ آپؐ نے جواب دیا اے عائشہؓ !کیا میں اس سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں۔

تو دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمانؓ کی شرم کا لحاظ کیا کہ وہ لوگوں سے شرماتے تھے۔ آپؐ ان سے شرمائے یعنی حضرت عثمانؓ لوگوں سے شرماتے تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شرمائے۔ اس واقعہ کو بیان کر کے آپؓ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کریم ہونے سے لوگوں کو گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حیا کرنی چاہیے اس کی بات ماننی چاہیے۔ نہ یہ کہ گناہوں پر جرأت پیدا ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ بڑا کریم ہے کرم کر دے گا۔ ہمارے گناہوں کے باوجود ہم پر کرم کر دے گا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی صفت کریم ہے تو پھر بندے کو بھی حیا کرنی چاہیے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیرجلد8صفحہ259)

تواضع اور سادگی کے بارے میں آتا ہے۔ عبداللہ رومی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ رات کے وضو کا خود انتظام کرتے تھے۔ آپؓ سے عرض کی گئی کہ اگر آپؓ کسی خادم کو حکم دیں تو وہ آپؓ کے لیے انتظام کر دیا کرے۔ اس پر آپؓ نے فرمایا :نہیں، رات تو ان لوگوں کی ہے جس میں یہ آرام کرتے ہیں۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ33،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء)

یعنی کہ کام کرنے والے خدمت گزاروں کو رات کو آرام کرنے کے لیے وقت دینا چاہیے۔

علقمہ بن وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت عثمانؓ سے عرض کیا جبکہ آپؓ منبر پر تھے کہ اے عثمانؓ !آپؓ نے اس امّت کو ایک بہت ہی مشکل معاملے میں ڈال دیا۔ آپؓ نے خطاب فرمایا۔ کچھ باتیں کیں، کچھ تنبیہ کی امّت کو۔ پس آپؓ توبہ کریں اور وہ بھی آپؓ کے ساتھ توبہ کریں۔ اللہ کا بڑا خوف دلایا تھا تو اس پر ایک صحابی نے یہ عرض کر دی۔ راوی کہتے ہیں اس پر آپؓ نے اسی وقت اپنا چہرہ قبلہ رخ کیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا۔

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ

کہ اے اللہ! یقیناً میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف جھکتا ہوں۔ اور اس موقع پر موجود لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزءالثالث صفحہ39،عثمان بن عفان،داراحیاء التراث العربی بیروت،1996ء) یہ اللہ تعالیٰ سے خوف اور خشیت اور آپؓ کی عاجزی کا مقام ہے کہ فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ کسی بحث میں نہیں پڑے۔ اپنے لیے دعا کی، امّت کے لیے دعا کی۔

سخاوت اور فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں روایات ملتی ہیں۔ حضرت عثمانؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس چیزیں اپنے رب کے حضور چھپا کے رکھی ہوئی ہیں۔ میں سب سے پہلے اسلام لانے والوںمیں سے چوتھا شخص ہوں۔ نہ میں نے کبھی لہو و لعب والے گانے سنے اور نہ کبھی جھوٹی بات کی ہے اور جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے تب سے میں نے اپنی شرمگاہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے نہیں چھوا اور اسلام قبول کرنے کے بعد مجھ پر کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا جس میں مَیں نے کوئی گردن آزاد نہ کی ہو ماسوائے اس جمعہ کے کہ جس میں میرے پاس آزاد کرنے کے لیے کوئی غلام نہ ہو۔ اس صورت میں مَیں جمعہ کے علاوہ کسی اَور دن میں غلام آزاد کر دیتا تھا اور میں نے نہ زمانہ جاہلیت میں زنا کیا اور نہ ہی اسلام میں۔

(مجمع الزوائد جلد 9صفحہ65، کتاب المناقب باب فیما کان فیہ من الخیرحدیث نمبر14525 دارالکتب العلمیۃ بیروت،2001ء)

حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے اپنے گھر کے محاصرہ کے دوران بیس غلام آزاد کیے۔

(اسد الغابہ فی معرفۃالصحابہ لابن اثیر جلد 3،صفحہ 489،عثمان بن عفان، دار الفکر بیروت،2003ء)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگ میں تھے کہ لوگوں کو بھوک کی تکلیف آ پہنچی یہاں تک کہ میں نے مسلمانوں کے چہروں پر پریشانی اور منافقین کے چہروں پر خوشی کے آثار دیکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھی تو آپؐ نے فرمایا اللہ کی قسم! سورج غروب نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے رزق کے سامان فرما دے گا۔ حضرت عثمانؓ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپؓ نے فرمایا: اللہ اور اس کا رسول بالکل سچ فرماتے ہیں۔ چنانچہ آپؓ نے چودہ اونٹ غلّہ سمیت خریدے اور ان میں سے نو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوا دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ بتایا گیا کہ حضرت عثمانؓ نے یہ آپؐ کی طرف ہدیةً ارسال کیے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خوشی اور مسرت پھیل گئی اور منافقوں کے چہروں پر بے چینی اور پریشانی چھا گئی۔ تب میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے یہاں تک کہ آپ کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور آپؐ نے حضرت عثمانؓ کے لیے دعا کی۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی اَور کے حق میں ایسی دعا کرتے ہوئے نہ پہلے کبھی سنا اور نہ بعد میں، اور وہ دعا یہ تھی

اَللّٰهُمَّ أَعْطِ عُثْمَانَ، اَللّٰهُمَّ افْعَلْ بِعُثْمَانَ۔

اے اللہ !عثمان کو بہت عطا فرما۔ اے اللہ! عثمان پر اپنا فضل و کرم نازل فرما۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو آپؐ نے گوشت دیکھ کر فرمایا یہ کس نے بھیجا ہے؟ مَیں نے عرض کیا حضرت عثمانؓ نے۔ آپؓ کہتی ہیں کہ اس پر مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر عثمان کے لیے دعا کرتے دیکھا۔

(مجمع الزوائد جلد 9صفحہ64، کتاب المناقب باب اعانتہ فی جیش العسرۃوغیرہ حدیث 14520، 14523 دارالکتب العلمیۃ بیروت،2001ء)

محمد بن ہلال اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی دادی حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھیں جبکہ آپؓ گھر میں محصور کر دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی دادی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ہلال رکھا گیا۔ جب ایک روز حضرت عثمانؓ نے انہیں موجود نہ پایا تو پوچھنے پر آپؓ کو معلوم ہوا کہ آج رات ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ میری دادی کہتی ہیں کہ اس پر حضرت عثمانؓ نے میری طرف پچاس درہم اور ایک بڑی چادر میں سے ٹکڑا بھجوایا اور فرمایا تیرے بیٹے کا وظیفہ ہے اور یہ اس کے پہننے کے لیے کپڑا ہے۔ جب اس کی عمر ایک سال ہو جائے گی تو ہم اس کا وظیفہ بڑھا کر سو درہم کر دیں گے۔

(البدایۃ والنہایۃ لابن اثیر جلد 4 جزء 7 صفحہ 206 سنۃ35 ہجری، فصل فی ذکر شیء من سیرتہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

ابن سعید بن یَرْبُوعبیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار دوپہر کے وقت گھر سے نکلا جبکہ میں بچہ تھا۔ میرے پاس ایک پرندہ تھا جسے میں مسجد میں اڑا رہا تھا۔ کیا دیکھتاہوں کہ وہاں ایک خوبصورت چہرے والے بزرگ لیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے سر کے نیچے اینٹ یا اینٹ کا کوئی ٹکڑا تھا۔ تکیہ کی جگہ اینٹ رکھی ہوئی تھی۔ میں کھڑا ہو کر ان کی خوبصورتی کو تعجب سے دیکھنے لگا۔ انہوں نے اپنی آنکھیں کھول کر مجھ سے پوچھا۔ اے بچے تم کون ہو؟ میں نے اپنے متعلق بتایا تو انہوں نے قریب ہی سوئے ہوئے ایک لڑکے کو آواز دی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر انہوں نے مجھے کہا کہ اسے بلا کر لاؤ۔ چنانچہ میں اسے بلا لایا۔ اس بزرگ نے اسے کچھ لانے کا حکم دیا اور مجھے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ پھر وہ لڑکا چلا گیا اور ایک پوشاک اور ایک ہزار درہم لے کر آیا۔ انہوں نے میرا لباس اتروایا اور اس کی جگہ مجھے وہ پوشاک پہنا دی اور وہ ایک ہزار درہم اس پوشاک میں ڈال دیے۔ جب میں اپنے والد کے پاس پہنچا تو انہیں یہ سب کچھ بتایا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے !کیا تجھے علم ہے کہ کس نے تیرے ساتھ ایسا سلوک کیا؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم سوائے اس کے کہ وہ کوئی ایسا شخص تھا جو مسجد میں سو رہا تھا اور اس سے بڑھ کر حسین میں نے کبھی زندگی میں کسی کو نہیں دیکھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ ہیں۔

(البدایۃ النہایۃ لابن اثیر جلد 4 جزء 7 صفحہ 206-207 سنۃ35 ہجری دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ حضرت عثمانؓ سے اس وقت ملے جبکہ آپ مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ حضرت طلحہ نے کہا آپؓ کے پچاس ہزار درہم جو میرے ذمہ تھے وہ اب میسر آ گئے ہیں۔ آپ انہیں وصول کرنے کے لیے کسی شخص کو میری طرف بھیج دیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے ان سے فرمایا کہ آپ کی مروت کی وجہ سے وہ ہم نے آپ کو ھبہ کر دیے ہیں۔ وہ نہیں لینے۔

اَصْمَعِی کہتے ہیں کہ ابن عامر نے قَطَنْ بن عَوف ھِلَالِی کو کِرمان کے علاقے پر گورنر بنایا۔ وہ چار ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر نکلا۔ راستے میں ایک وادی بارش کے پانی کی وجہ سے بہ پڑی جس کی وجہ سے ان کا راستہ بند ہو گیا اور قَطَنْ کو بروقت نہ پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوا تو اس نے اعلان کیا کہ جو شخص اس وادی کو عبور کرے گا اس کے لیے ایک ہزار درہم بطور انعام ہو گا۔ اس پر لوگ تیر کر پار کرنے لگے۔ جب بھی کوئی شخص وادی کو پار کر لیتا تو قَطَن کہتے اسے اس کا جائزہ یعنی انعام دو۔ یہاں تک کہ سارے لشکر نے وادی پار کر لی اور یوں ان سب کو چالیس لاکھ درہم دیے گئے مگر گورنر ابن عامر نے قَطَن کو یہ رقم دینے سے انکار کر دیا اور یہ بات حضرت عثمانؓ کی خدمت میں تحریر کی۔ اس پر آپؓ نے، حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ یہ رقم قَطَن کو دے دو کیونکہ اس نے تو اللہ کے راستے میں مسلمانوں کی مدد کی ہے۔ پس اس وادی کو عبور کرنے کی وجہ سے اس دن سے انعام میں دی جانے والی رقم کا نام جوائز پڑ گیا۔ جو جائزہ کی جمع ہے۔

(البدایۃ النہایۃ لابن اثیر جلد 4 جزء 7 صفحہ 208 سنۃ35 ہجری دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

حضرت عثمانؓ سے، ایک دفعہ جب بیمار ہوئے تھے تو خلیفہ مقرر کرنے کی درخواست بھی کی گئی۔ اس واقعہ کو ہشام نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ مَرْوَان بن حَکَمنے مجھے بتایا کہ جس سال نکسیر کی بیماری پھیلی حضرت عثمان بن عفانؓ کو بھی سخت نکسیر ہوئی۔ ناک میں سے خون آنے لگا یہاں تک کہ اس بیماری نے ان کو حج سے روک دیا اور انہوں نے وصیت کر دی تو اس وقت قریش میں سے ایک شخص ان کے پاس آیااور کہنے لگا کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں۔ آپؓ کی ایسی حالت ہو رہی ہے کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا کیا لوگوں نے یہ بات کہی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ حضرت عثمانؓ نے پھر پوچھا کہ کس کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں؟ وہ خاموش رہا۔ اتنے میں ایک اَور شخص ان کے پاس آیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ حارث تھا ۔کہنے لگا کہ خلیفہ مقرر کر دیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کیالوگوں نے یہ کہا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ حضرت عثمانؓ نے پوچھا وہ کون ہے جو خلیفہ ہوگا؟ وہ خاموش رہا۔ حضرت عثمانؓ نے کہا شاید وہ کہتے ہیں زبیر کو۔ اس نے کہا ہاں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا کہ اس ذات کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جہاں تک مجھے علم ہے وہ ان میں سے یقیناً بہتر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان سب سے زیادہ پیارا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب مناقب الزبیر بن العوام حدیث 3717)

آپ کو کتابتِ وحی کا بھی موقع ملا۔ ایک روایت میں ہے کہ سورۂ مزمل کے نزول کے موقع پر حضرت عثمانؓ کو کتابتِ وحی کی سعادت ملی۔ ام کلثوم بن ثُمَامہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ ہم آپؓ سے حضرت عثمانؓ کے بارے میں پوچھتے ہیں کیونکہ لوگ ان کے بارے میں ہم سے بکثرت پوچھ رہے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عثمانؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس گھر میں ایک شدید گرم رات میں دیکھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت جبرئیل وحی نازل کر رہے تھے۔ جب آپؐ پر نزولِ وحی ہوتا تو آپؐ پر بہت شدید بوجھ نازل ہو جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا (المزمل:6)

کہ یقیناً ہم تجھ پر ایک بھاری فرمان اتاریں گے۔ حضرت عثمانؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھے لکھتے جا رہے تھے اور آپؐ فرما رہے تھے کہ اے عثمانؓ! لکھ۔ حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا قرب کسی نہایت معزز و مکرم شخص کو ہی عطا فرماتا ہے۔

(کنزالعمال جلد 7 جزء 13 صفحہ 23 کتاب الفضائل فضائل الصحابہ، حدیث 36217 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن کریم کے تحریری صحیفے جمع ہوئے جو انہوں نے اپنے پاس رکھے۔ پھر حضرت عمرؓ کے پاس وہ صحیفے رہے۔ اس کے بعد حضرت حفصہ بنت عمرؓ کے پاس رہے۔ جب حضرت عثمانؓ کی خلافت کا دور آیا تو آپؓ کے پاس یہ نسخے پہنچنے کی روایت اس طرح ملتی ہے۔ حضرت حُذَیفہ بن یَمَان بیان کرتے ہیں کہ وہ اہلِ عراق کے ساتھ مل کر فتح آرمینیا اور آذربائیجان کے لیے اہل شام سے جنگ کر رہے تھے اور وہاں سے لَوٹ کر حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت حُذَیفہ ؓ کو ان علاقوں کے لوگوں کی قرآن کریم کی قراءت میں اختلاف کی وجہ سے خوف لاحق ہوا۔ آپؓ نے حضرت عثمانؓ سے عرض کیا کہ اے امیر المومنین! اس امّت کو سنبھالیں قبل اس کے کہ وہ کتاب اللہ کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی مانند اختلاف کرنے لگ جائیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہ ؓکی خدمت میں پیغام بھیجا کہ قرآن کریم کے تحریری صحیفے ہمیں بھیج دیں تا کہ ہم ان کے نسخے تیار کریں۔ اس کے بعد وہ صحیفے آپ کو واپس لوٹا دیں گے۔ چنانچہ حضرت حفصہؓ نے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں بھجوا دیے۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت سعید بن عاصؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام ؓکو حکم دیا کہ وہ ان کی نقول تیار کریں۔ حضرت عثمانؓ نے مؤخر الذکر تینوں صحابہ کو جو قریش سے تھے کہا کہ جب تمہارا اور زیدؓ کا قرآن کے کسی ٹکڑے کے متعلق اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں تحریر کرو کیونکہ قرآن کریم قریش کی زبان میں اترا ہے۔ چنانچہ ان اصحاب نے یہ کام کیا۔ جب نقول تیار ہو گئیں تو اصلی صحیفے حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہ ؓکو واپس بھجوا دیے اور نئے تیار شدہ نسخے مختلف ممالک میں بھجوا کر حکم دیا کہ اس کے علاوہ جو بھی دیگر نسخے ہوں وہ جلا کر تلف کر دیے جائیں۔

(صحیح البخاری فضائل القرآن باب جمع القرآن حدیث 4986، 4987)

علامہ اِبنُ التِّیْن کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے جمع قرآن کے واقعہ کا فرق یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کو اس خوف سے جمع کیا کہ کہیں حفاظ قرآن کے وفات پا جانے کی وجہ سے قرآن کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے کیونکہ قرآن یکجا جمع نہیں کیا گیا تھا۔ لہٰذا آپ نے قرآن کریم کو اس کی آیات کی اس ترتیب کے مطابق جمع کیا جس ترتیب کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن کریم حفظ کروایا تھا جبکہ حضرت عثمانؓ کے جمع قرآن کا واقعہ یہ ہے کہ جب قراءت میں بہت زیادہ اختلاف ہونے لگا یہاں کے لوگوں نے اپنے لہجہ اور لغات کے مطابق قرآن پڑھنا شروع کر دیا حتی کہ ایک دوسرے کی قراءت کو غلط قرار دینے لگے تو آپؓ ڈرے کہ کہیں یہ معاملہ سنگین صورت نہ اختیار کر جائے۔ چنانچہ آپؓ نے ان صحائف کو جو حضرت ابوبکرؓ نے تیار کروائے تھے ایک مُصْحَف میں سورتوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا اور صرف قریش کی لغت کو ملحوظ رکھا اور یہ دلیل دی کہ قرآن کا نزول قریش کی لغت میں ہوا ہے۔ اگرچہ ابتدا میں آسانی کی خاطر دوسری لغات کے مطابق قرآن کی تلاوت کی اجازت دی گئی تھی مگر جب آپؓ نے دیکھا کہ اب ایسا کرنے کی حاجت نہیں رہی تو آپؓ نے ایک ہی لغت کی قراءت پر اکتفا کا ارشاد فرمایا۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں اگر یہ سوال کیا جائے کہ حضرت عثمانؓ نے لوگوں کو اپنے والے مصحف پر جمع کرنے کی زحمت کیوں اٹھائی جبکہ آپؓ سے قبل حضرت ابوبکرؓ اس کام کو کر چکے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جو کیا اس کا مقصد مصحف کی تدوین پر لوگوں کو جمع کرنا نہ تھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کو کہلا بھیجا کہ آپؓ قرآنی صحیفے ہمیں بھیج دیں ہم ان کی کاپیاں بنا کر اصل صحیفے آپؓ کو واپس کر دیں گے۔ حضرت عثمانؓ نے یہ قدم صرف اس لیے اٹھایا کہ قراءت قرآن کے بارے میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے ۔کیونکہ صحابہ مختلف شہروں میں منتشر ہو چکے تھے اور اختلافِ قراءت کی صورتحال سنگین ہو چکی تھی اور اہل شام و عراق کے درمیان اختلاف نے وہ شکل اختیار کر لی تھی جس کو حضرت حذیفہؓ نے بیان کیا ہے۔

(سیرة امیر المؤمنین عثمان بن عفان از علی محمد الصلابی صفحہ 231-232،دارالمعرفہ بیروت لبنان2006)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورة الاعلیٰ کی آیت

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰى

کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم تمہیں وہ کلام سکھائیں گے جسے قیامت تک تم نہیں بھولو گے بلکہ یہ کلام اسی طرح محفوظ رہے گا جس طرح اس وقت ہے۔ چنانچہ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام کے اشد ترین معاند بھی آج کھلے بندوں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم اسی شکل و صورت میں محفوظ ہے جس شکل و صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیش فرمایاتھا۔ نولڈکے(Theodor Noldeke)، سپرنگر (Springer)اور ولیم میور (William Muir)سب نے اپنی کتابوں میں تسلیم کیا ہے کہ قطعی اور یقینی طور پر ہم سوائے قرآن کریم کے اَور کسی کتاب کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس شکل میں بانیٔ سلسلہ نے وہ کتاب پیش کی تھی اسی شکل میں وہ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کے متعلق حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جس شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو یہ کتاب دی تھی اسی شکل میں اب بھی محفوظ ہے۔ وہ لوگ چونکہ اس بات کے قائل نہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ نے نازل کیا ہے بلکہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب خود بنائی ہے اس لیے وہ یہ تو نہیں کہتے کہ جس شکل میں یہ کتاب نازل ہوئی تھی اسی شکل میں محفوظ ہے مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ جس شکل میں محمد رسول اللہﷺ نے یہ کتاب پیش کی تھی اسی شکل میں یہ کتاب اب تک دنیا میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب ’دی کران‘ (القرآن) میں لکھتے ہیں۔ ’’یہ تمام ثبوت دل کو پوری تسلی دلا دیتے ہیں کہ وہ قرآن جسے ہم آج پڑھتے ہیں لفظاً لفظاً وہی ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لوگوں کو پڑھ کر سنایا تھا۔‘‘

پھر سرولیم میور اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اب جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے گو یہ بالکل ممکن ہے کہ محمد (رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم) نے اپنے زمانہ میں اسے خود بنایا ہو اور بعض دفعہ اس میں خود ہی بعض تبدیلیاں بھی کر دی ہوں مگر اس میں شبہ نہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیں دیا تھا۔‘‘ اسی طرح سے لکھتے ہیں کہ ’’ہم نہایت مضبوط قیاسات کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک آیت جو قرآن میں ہے وہ اصلی ہے۔ اور محمدؐ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی غیر محرف تصنیف ہے۔‘‘

پھر نولڈکے جرمن مستشرق لکھتا ہے کہ ’’ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں (یعنی طرزِ تحریر کی) ہوں تو ہوں لیکن جو قرآن عثمانؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس کا مضمون وہی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیش کیا تھا۔ گو اس کی ترتیب عجیب ہے۔یورپین علما ءکی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

الغرض یورپین مصنفین نے بھی یہ تسلیم کیا ہےکہ جہاں تک قرآن کی ظاہری حفاظت کا سوال ہے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ لفظاً لفظاً اور حرفاً حرفاً یہ وہی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پڑھ کر سنائی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد8صفحہ 421-422)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جامع القرآن بتلاتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے۔ صرف عثمانؓ کے لفظ کے ساتھ قافیہ ملایا ہے۔ ہاں شائع کنندہ قرآن اگر کہیں تو کسی حد تک بجا ہے۔ آپ کی خلافت کے زمانہ میں اسلام دور دور تک پھیل گیا تھا اس لئے آپ نے چند نسخہ نقل کرا کر مکہ، مدینہ، شام، بصرہ، کوفہ اور بلاد میں بھجوا دئیے تھے اور جمع تو اللہ تعالیٰ کی پسند کی ہوئی ترتیب کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمایا تھا اور اسی پسندیدہ ترتیب کے ساتھ ہم تک پہنچایا گیا ہے۔ ہاں اس کا پڑھنا اور جمع کرنا ہم سب کے ذمہ ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 272)

حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’حضرت عثمانؓ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کہ جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے، مدینہ والے مدینہ میں رہتے، نجد والے نجد میں رہتے، طائف والے طائف میں رہتے، یمن والے یمن میں رہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے ناواقف ہوتے۔ مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قومیں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میں حجازی عربی سیکھ چکے تھے۔ پس چونکہ قانون کا نفاذ ان کی طرف سے ہوتا تھا۔ مال ان کے قبضہ میں تھا‘‘ یعنی حکومت جن کے پاس تھی۔ ’’اور دنیا کی نگاہیں انہی کی طرف اٹھتی ہیں۔ اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجرو انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہو تی جاتی تھی۔ پھر کچھ ان لوگوں میں سے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے۔ ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی۔ یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استادہوتے تھے یقیناًً ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا۔ علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھا رہنے کا موقعہ ملتا تھا اور افسر چونکہ اکابر صحابہؓ ہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میں یک رنگی پید ا کرتی تھی۔ پس گو ابتدا میں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا۔ کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے۔ چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ آئندہ صرف حجازی قراءت پڑھی جائے۔ اور کوئی قراءت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ آپؓ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

حضرت عثمانؓ کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاضِ عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے۔ اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیں تھی کہ قراءتوں میں بھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضرورت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا، قومیں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معانی بھی تبدیل ہو جاتے تھے۔ اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ا س کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے۔ جب بیس سال کا عرصہ اس اجازت پر گزر گیا۔ زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا۔ قومیں ایک نیا رنگ اختیار کر گئیں۔ وہ عرب جو متفر ق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبردست قوم بلکہ ایک زبردست حکومت بن گیا۔ آئین ملک کا نفاذ اور نظام تعلیم کا اجرا ان کے ہاتھ میں آگیا۔ مناصب کی تقسیم ان کے اختیار میں آ گئی۔ حدوداور قصاص کے احکام کا اجرا انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دِقّت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشا تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قراءتوں کو مٹا کر ایک قراءت جاری کر دی۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قراتوں میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دَور میں دی ہے، ابتدائی دور میں نہیں دی۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے مگر قراءتوں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا۔ چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتاتھا یا ان الفاظ کا معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا۔ اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے منشا کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا۔ چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سورت عبداللہ بن مسعود کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمرؓ کو اَور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمرؓ خالص شہری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا۔ پس دونو ں زبانوں میں بہت بڑا فرق تھا۔ ایک دن عبداللہ بن مسعودؓ قرآن کریم کی وہی سورت پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پاس سے گزرے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعودؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورہ کی تلاوت کرتے سنا۔ انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اَور ہیں اور یہ کچھ اَور طرح پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گلے میں پٹکا ڈالا اور کہا چلو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میں ابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں۔ تم سورت کے بعض الفاظ اَور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورت اَور طرح ہے۔ غرض وہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ نے یہ سورت مجھے اَور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعودؓ اور طرح پڑھ رہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا تم یہ سورت کس طرح پڑھ رہے تھے؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ڈرو نہیں، پڑھو۔ انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ! آپؐ نے تو مجھے اَور طرح پڑھائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: وہ بھی ٹھیک ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: قرآن کریم سات قراءتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو۔ اس فرق کی وجہ دراصل یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا عبداللہ بن مسعودؓ گڈریا ہیں اور ان کا اَور لہجہ ہے اس لئے ان کے لہجہ کے مطابق جو قراءت تھی وہ انہیں پڑھائی۔ حضرت عمرؓ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکی زبان کی نازل شدہ قراءت بتائی۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ان کی اپنی زبان میں سورت پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خالص شہری زبان میں وہ سورت پڑھا دی۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قراءتوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفس مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتاتھا۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔‘‘

پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’…… تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمانؓ نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قراءتوں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا۔ ا س لئے ان قراءتوں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہئے، باقی کتب قراءت میں تو وہ محفوظ رہیں گی۔ پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی اور اصل قراءت کے سوا باقی قراءتوں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قراءت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دی جو حجازی اور ابتدائی قراءت کے مطابق تھے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ49تا51)

کچھ تھوڑا سا ذکر باقی رہ گیا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ۔ آج بھی دعا کے لیے کہنا چاہتا ہوں پاکستان کے لیے بھی الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں احمدی مشکلات میں گرفتار ہیں دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور فرمائے اور خاص طور پر پاکستان میں قانون کی وجہ سے مختلف وقتوں میں احمدیوں کے لیے مشکلات کھڑی کی جاتی ہیں اور کسی صورت میں بھی اب ان کی وہ آزادی نہیں رہی۔ اسی طرح الجزائر میں بھی بعض حکومتی اہلکار مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ان سب مشکلات سے آزادی عطا فرمائے۔

نماز جمعہ کے بعد میں ویب سائٹ کا بھی لانچ کروں گا جو چینی ڈیسک کی ویب سائٹ ہے اور مرکزی آئی ٹی ٹیم کے تعاون سے یہ ویب سائٹ بنائی گئی ہے جس سے لوگوں کو چینی زبان میں اسلام اور احمدیت کے متعلق تفصیلی معلومات مل سکیں گی۔ اس ویب سائٹ کو جماعت کی مین ویب سائٹ الاسلام کے ذریعہ بھی اور علیحدہ طور پر بھی وزٹ کیا جا سکے گا۔ اس میں مختلف عناوین کے تحت مواد ڈالا گیا ہے۔ قرآن کریم کے چینی ترجمہ کا نیا ایڈیشن ڈالا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تئیس دیگر کتب اور پمفلٹس دیے گئے ہیں۔ سوال و جواب کے تحت مختلف سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عنوان کے تحت حضور اقدس علیہ السلام اور خلفاء کا تعارف دیا گیا ہے۔ پہلے صفحہ پر جماعت کی دیگر چھ ویب سائٹس کے لنک دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ رابطے کے لیے فون، فیکس اور ای میل وغیرہ کی تفصیل دی گئی ہے۔ خدا کرے کہ یہ ویب سائٹ چینی عوام کے لیے ہدایت کا موجب ہو اور اسلام اور احمدیت کے لیے ان کے دل کھلیں۔

اس کے علاوہ میں بعض (مرحومین کی) نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ جن کا جنازہ پڑھانا ہے ان میں سے پہلا جو ذکر ہے محترم محمد یونس خالد صاحب مربی سلسلہ کا ہے جو 15؍ مارچ کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے 67 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

محمد یونس خالد صاحب کے دادا حضرت میاں مراد بخش صاحب اور ان کے بھائی حضرت حاجی احمد صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ میں سے تھے۔ چھ افراد کا قافلہ موضع پریم کوٹ ضلع حافظ آباد سے پیدل قادیان گیا تھا۔ اس قافلہ میں حضرت حاجی احمد صاحبؓ موجود تھے۔ انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تبرکا ًپانی طلب کیا اور حضورؑ نے عطا فرمایا۔ مکرم یونس خالد صاحب نے میٹرک ربوہ سے کیا۔ اس کے بعد جامعہ میں داخل ہو گئے اور دوران جامعہ عربی فاضل بھی کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ 1980ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد پاس کیا پھر چالیس سال تک ان کو مختلف جگہوں پر، پاکستان میں بھی اور بیرونی ممالک میں افریقہ میں بھی سلسلہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ ان کے لواحقین میں ان کی اہلیہ مریم صدیقہ صاحبہ ہیں اور ایک بیٹا ہے عتیق احمد مبشر جو مربی سلسلہ ہیں۔

یہ عتیق احمد مبشر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ایک عالم باعمل انسان تھے۔ اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ والا سلوک رکھا ہے۔ جب بھی مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ پوری کر دیتا ہے اور اس کا مشاہدہ میں نے بھی کئی بار کیا۔ پھر یہی بیٹے رانا مبارک احمد صاحب کے حوالے سے جو لاہور میں صدر حلقہ تھے، لکھتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھےکہ جب بھی کوئی جماعتی کام آتا مکرم مربی صاحب فوراً اسے انجام دیتے اور یہ بھی خیال نہ کرتے تھے کہ جوتا بھی پہناہوا ہے یا نہیں۔ فوری طور پر تیزی سے کام کے لیے نکل جایا کرتے تھے۔ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ہری پور ہزارہ کے امیر صاحب کہا کرتے تھے کہ مربی صاحب پوری تربیلا جماعت کے لیے ایک مثالی چندہ دینے والے ہیں۔ وفات یافتگان بزرگان کا چندہ بھی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ ان کے ہم زلف بیان کرتے ہیں کہ چندوں کے معاملے میں بڑے حساس تھے خصوصاً اپنی وصیت کے چندوں کی ادائیگی میں مستعد رہتے تھے۔ مرحوم نہایت دعا گو اور درویش انسان تھے۔ مرحوم غریب غرباء کو تلاش کر کے ان کی خفیہ مالی امداد کیا کرتے تھے۔ رشتہ داروں میں غرباء کی بچیوں کی شادیوں کے موقع پر جہیز کا سامان خرید کر دیا کرتے تھے۔ رشتہ دار کہہ رہے ہیں کہ ہم ایک مخلص اور مالی امداد کرنے والے پیارے مہربان وجود سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

دوسرا جنازہ مکرم ڈاکٹر نظام الدین بُدھن صاحب آئیوری کوسٹ کا ہے۔ یہ 15؍مارچ کو تہتر سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم ماریشس سے حاصل کی۔ 1968ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سکالرشپ دیا اور آپ نے پاکستان آ کے پہلے ایف ایس سی تعلیم الاسلام کالج سے کیا پھر میڈیکل کالج میں داخلہ لیااور ڈاؤ میڈیکل کالج (Dow Medical College) سے انہوں نے ایم بی بی ایس کیا۔ 1978ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ان کا تقرر نائیجیریا کے احمدیہ کلینک میں بطور انچارج کلینک فرمایا اور 84ء تک وہاں خدمت کی توفیق پائی اور جب 1980ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ گھانا کے دورے پر تشریف لے گئے تھے تو اس موقع پر جماعت احمدیہ آئیوری کوسٹ کے وفد نے گھانا پہنچ کر حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور اس وفد نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ جس طرح جماعت احمدیہ گھانا میں ہسپتال ہیں ہمارے آئیوری کوسٹ میں بھی کھولا جائے۔ بہرحال حضورؒ نے اس کو منظور فرمایا اور اس کے لیے کارروائی شروع ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب 18؍ مارچ 1983ء کو لیگوس (Lagos)سے آئیوری کوسٹ پہنچے اور وزارت صحت کے افسران سے ملاقات کی۔ کیونکہ فرنچ زبان جانتے تھے اس لیے فرنچ ڈاکٹر کی ضرورت تھی تو ان کو نائیجیریا سے وہاں بھجوا دیا گیا اور ان کو احمدیہ ڈسپنسری کھولنے کی وہاں اجازت مل گئی۔ 1984ء سے لے کے تاوفات آپ آئیوری کوسٹ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کی اہلیہ بھی وفات پا چکی ہیں۔ ایک بیٹا ہے بشیر الدین محمود بدھن اور بیٹی ہیں ناشمیہ عائشہ مبارکہ۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی خلافت اور جماعت سے جوڑے رکھے۔

عبدالقیوم پاشا صاحب آئیوری کوسٹ کے امیر و مشنری انچارج کہتے ہیں کہ آئیوری کوسٹ میں تقریباً چھتیس سال احمدیہ کلینک آبی جان میں بطور میڈیکل افسر کے اپنی خدمات پیش کیں۔ آپ ایک بہت اچھے ڈاکٹر، ایک اچھے انسان اور جماعت احمدیہ آئیوری کوسٹ کے نمایاں بزرگ ممبر تھے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تقریباً اٹھارہ سال کا ساتھ تھا۔ ان کو ہر رنگ میں اچھا انسان پایا۔ ہر ایک کی مدد کرنے والے، جماعتی کاموں میں رہنمائی کرنے والے اور مہمان نواز،خوش اخلاق، خوش گفتار اور خوش پوش انسان تھے۔ جماعت کے مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے۔ بہت سخی دل تھے۔ بچوں کے ساتھ بہت پیارو محبت کا سلوک کرتے۔ اکثر بچوں کو تحائف کے طور پر دینے کے لیے کلینک میں ہی کچھ رکھا ہوتا تھا۔ جو مریض بچے آتے تھے ان کو تحفہ بھی دیتے تھے۔ کھلونے ٹافیاں وغیرہ۔ مشن میں رہنے والے طلبہ اور غریب احمدی گھرانوں کی بہت مدد کرتے تھے۔

وہاں کے ایک مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ آپ کے پاس اگر کوئی مریض نہیں ہوتا تھا تو انہیں کسی خادم یا ناصر کی تعلیم و تربیت میں مصروف پایا۔ یہ نہیں کہ اگر مریض نہیں ہے تو بیٹھے رہے۔ کسی نہ کسی جماعتی کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں کبھی ملفوظات یا خطبہ جمعہ کا فرنچ ترجمہ کر رہے ہوتے تھے اور احباب جماعت کو پھر اس کی فوٹو کاپیاں کرکے بھیجتے تھے۔ ہر وقت آپ انسانیت کی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ بیماروں کو خود ذاتی طور پر ادویات خرید کر دیتے اور کبھی غریب لوگوں کو اور کبھی کسی کو گھریلو ضروریات کی اشیاء جیسے چاول، تیل وغیرہ وہ بھی مہیا فرما دیتے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ ہے سلمیٰ بیگم اہلیہ ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر صاحب کا جو 24؍ جنوری کو 85 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ کے والد راجہ فضل داد خان صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے خاندان کے پہلے احمدی تھے۔ ان کے لکھنے والوں نے، ان کے بچوں نے ہی ان کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کی نمازوں کی طوالت تو ضرب المثل کے طور پر پورے خاندان میں مشہور تھی۔ نہایت خوش اخلاق،خوش مزاج،خدمت گزار،تقویٰ شعار، باوفا،باہمت، نہایت اعلیٰ ظرف،صاحب حکمت، وسیع حوصلے کی مالک، باکردار اور پُر وقار، بہت دعا گو، نہایت صابرہ و شاکرہ،قانع اور متوکل علی اللہ خاتون تھیں۔ مرحومہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرمہ کشور تنویر ارشد صاحبہ اہلیہ عبدالباقی ارشد صاحب چیئرمین الشرکة الاسلامیہ یوکے کا ہے جو 27؍ فروری کو 87 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحومہ نے بہت صبر اور حوصلے کے ساتھ اپنی بیماری اور پیرانہ سالی میں مختلف عوارض کا مقابلہ کیا اور خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اپنے پیارے رب کے حضور حاضر ہو گئیں۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور اسی طرح پوتے اور پوتیاں اور نواسے نواسیاں یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کے ایک داماد نصیر دین صاحب اس وقت نائب امیر یوکے کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ایک بیٹا نبیل ارشد ہے اس کو بھی حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے وقت میں بھی خدمت کی توفیق ملی اور میں نے بھی جب بھی کسی خدمت کے لیے ان کو بلایا فوراً حاضر ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے۔ آپ بےشمار خوبیوں کی مالک تھیں۔ بےحد نفاست پسند تھیں۔ سلیقہ شعار تھیں۔ ایک فدائی مخلص اور نیک خاتون تھیں۔ نماز روزہ کی پابند اور چندہ ادا کرنے میں بہت جلدی کرتیں۔ ہمیشہ صدقہ و خیرات دل کھول کر کرتیں۔ارشد باقی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کا ایک طویل عرصہ لندن میں قیام رہا اس دوران 1984ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی لندن ہجرت کے بعد میرے ساتھ جماعتی کاموں میں بہت تعاون کرتی رہیں اور ہمیشہ جماعت کی خدمت کو ترجیح دی۔ ہر لحاظ سے اپنے گھر کو ایک پُرسکون اور جنت نظیر بنائے رکھا۔ خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ سکون کے لحاظ سے یہ گھر میرا پسندیدہ ہے۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ہر حالت میں خدا کا شکر ادا کرتی تھیں۔ دکھ اور سکھ دونوں حالتوں میں قضاء و قدر کو خوشی سے قبول کیا اور زبان پر کبھی کوئی شکوہ نہ آنے دیتی تھیں۔ سعودی عرب میں بھی ان کا قیام رہا۔ وہاں بھی جو احمدی احباب حج یا عمرے کے لیے جاتے تھے ان کی بہت خدمت کی توفیق انہوں نے پائی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا جنازہ عبدالرحمٰن حسین محمد خیر صاحب آف سوڈان کا ہے۔ 24؍ دسمبر کو ان کی 56 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

جماعت احمدیہ سے تعارف سے قبل یہ کسی بھی اسلامی فرقے میں شامل نہ تھے بلکہ انہیں بعض عقائد مثلاً ناسخ و منسوخ اور جنّ وغیرہ کے بارے میں شک تھا۔ ان کے بڑے بھائی عثمان حسین صاحب سعودی عرب میں کام کرتے تھے۔ وہاں ان کا تعارف جماعت سے ہوا تو انہوں نے مرحوم عبدالرحمٰن صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ یہ 2007ء کی بات ہے۔ اپنے بھائی سے احمدیت کے بارے میں سنا تو عبدالرحمٰن صاحب ایم ٹی اے دیکھنے کے لیے بے قرار ہو گئے۔ اس وقت ان کے علاقے میں ایم ٹی اے کی نشریات کا حصول قدرے مشکل تھا جس کے لیے انہوں نے متعدد ڈش انٹینے بدلے، کافی پیسہ خرچ کیا، آخر انہیں ایم ٹی اے مل گیا۔ پھر تو ان کا یہ معمول تھا کہ کام سے واپس آنے کے بعد اکثر وقت ایم ٹی اے دیکھنے میں گزارتے۔ بالآخر اطمینان قلب ہونے پر 2010ء میں ان کو بیعت کی توفیق ملی۔ بیعت کے بعد انہوں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کی۔ مرحوم کی نیک صفات میں عاجزی،انکساری،مہمان نوازی، غرباء پروری اور حسن معاملہ نمایاں تھیں۔2013ء میں سوڈان میں جماعت کے قیام میں انہیں نمایاں کردار ادا کرنے کی توفیق ملی اور اس سلسلہ میں بے دریغ مالی قربانی بھی انہوں نے کی۔ مرحوم بہت سے غریب احباب جماعت کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ سوڈان کے ایک علاقے میں آباد ایک بہت ہی غریب قبیلے کے احمدی جب اہل علاقہ کی طرف سے ظلم کا نشانہ بنے تو مرحوم نے دل کھول کر ان کی مالی امداد کی اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا۔ اَور لوگوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ہر جمعہ کو اپنی گاڑی پر مختلف مقامات سے احمدیوں کو نماز سینٹر لے کر آتے اور جمعہ کی نماز کے بعد انہیں واپس گھر پہنچاتے تھے۔ غیر از جماعت احباب بھی ان کے اخلاق کی تعریف کرتے ہیں۔ چندہ جات میں بہت باقاعدہ اور دل کھول کر خرچ کرنے والے تھے۔ سوڈان کی پہلی مجلس عاملہ میں بھی ان کو کام کرنے کی توفیق ملی اور اس ذمہ داری کو آخر وقت تک نبھاتے رہے۔ مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں یاد گار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا بھی جماعت اور خلافت سے تعلق مضبوط کرے اور مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد میں نماز جنازہ ادا کروں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button