سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قلمی مجاہدات

انگریزحکومت کی خصوصی توجہ کا مرکز پنجاب

(حصہ سوم)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

’’ابتدائے اسلام میں دفاعی لڑائیوں اور جسمانی جنگوں کی اس لئے بھی ضرورت پڑتی تھی کہ دعوت اسلام کرنے والے کا جواب ان دنوں دلائل وبراہین سے نہیں بلکہ تلوار سے دیا جاتا تھا،اس لئے لاچار جواب الجواب میں تلوار سے کام لینا پڑا،لیکن اب تلوار سے جواب نہیں دیا جاتا، بلکہ قلم اور دلائل سے اسلام پر نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ سیف(تلوار)کا کام قلم سے لیا جائے اور تحریر سے مقابلہ کر کے مخالفوں کو پست کیا جائے، اس لئے اب کسی کو شایاں نہیں کہ قلم کا جواب تلوار سے دینے کی کوشش کرے۔

ع گرحفظ مراتب نکنی زندیقی

اس وقت جو ضرورت ہے۔وہ یقیناً سمجھ لو۔ سیف کی نہیں بلکہ قلم کی ہے۔ ہمارے مخالفین نے اسلام پر جو شبہات وارد کیے ہیں اور مختلف سائنسوں اور مکائد کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سچے مذہب پر حملہ کرنا چاہا ہے۔ اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلاوٴں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 59 60-)

پھرفرمایا:’’سواس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑگیاہے۔اوراس زمانہ کاجہادیہی ہے۔کہ اعلاء کلمۂ اسلام میں کوشش کریں۔مخالفوں کے الزامات کاجواب دیں۔دین متین اسلام کی خوبیاں دنیامیں پھیلادیں۔آنحضرتؐ کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں۔یہی جہادہے جب تک خداتعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیامیں ظاہرکرے۔‘‘(مکتوب بنام حضرت میرناصرنواب صاحب بحوالہ رسالہ درودشریف ص113)

’’ہمارے زمانہ میں ہمارے برخلاف قلم اٹھائی گئی ہے،قلم سے ہم کو اذیت دی گئی اور سخت ستایا گیا، اس لیے اس کے مقابل پر قلم ہی ہمارا حربہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول ص44)

چنانچہ آپؑ نے ایک طرف تو مسلمان علماء اور عوام وخواص کوجہادکی حکمت اور شرائط کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان کے غلط تصورات کی اصلاح فرمائی اور دوسری طرف قلم کاہتھیاراور دعاکاحربہ ہاتھ میں لیتے ہوئے مخالفین اسلام کے تمام سورماؤں کوللکارا کہ اُدھرکہاں جاتے ہوہمت ہے تومیرامقابلہ کرو۔اور دلائل میں،مناظرہ ومباحثہ میں، قبولیت دعاکے نشانات میں،خداکی فعلی اور عملی تائیدونصرت کے مقابلہ میں،غرض علم و عمل کے کسی بھی میدان میں،عقل ونقل کے کسی بھی پہلوسے آؤمیرامقابلہ کرومیں ثابت کرتاہوں کہ خداہے،وہ کلام کرتاہے،اسلام ایک زندہ اور سچامذہب ہے،حضرت محمدﷺ اس کے سچے اور سب سے افضل رسول ہیں۔ اور قرآن ایک سچی اور لازوال ابدی صداقتوں پرمشتمل ایسی کتاب شریعت ہے کہ اب قیامت تک نہ کوئی اورشریعت ہوگی اورنہ کوئی رسول۔ اب جوکچھ بھی ملے گا وہ اسلام اور بانئ اسلامﷺ کی محبت واطاعت کے فیض سے ہی ملے گا۔اٹھواگرہمت ہے تو اپنے مذہب کی زندگی اور روحانیت اور ایمان وعرفان کاکوئی ثبوت ہے تو پیش کرو۔

یوں آپؑ نے ہرمخالف کومقابل پربلایا،اور تمام دجالی طاقتوں کامردمیدان بن کرمقابلہ کیا اور ایک فتح نصیب جرنیل کی صورت میں کامیاب وکامران لوٹے۔ آپؑ کی اس کامیابی وکامرانی کااقرارغیروں نے بھی کیا۔ چنانچہ آپؑ کی وفات پر آپؑ کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کامیاب قلمی جہادکابطورخاص ذکرکیاگیا۔

اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک پُرزورکالم لکھاجس میں وہ لکھتے ہیں :

’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحرتھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا……مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اسے امتداد زمانہ کے حوالہ کرکے صبر کر لیا جائے۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں…میرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیمیافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرادیاہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہوگیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا۔ ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جنرل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا۔ آئندہ بھی جاری رہے……مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدرو عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لوح قلب سے نسیاً منسیا نہیں ہو سکتا جب کہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب ووسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے۔ ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبردست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا․․․ کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا۔ اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہوکر اڑنے لگا……غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑ ا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے۔ قائم رہے گا۔ ا س کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے۔ مرزا صاحب اور مولوی محمد قاسم صاحب نے اس وقت سے کہ سوامی دیانند نے اسلام کے متعلق اپنی دماغی مفلسی کی نوحہ خوانی جابجا آغاز کی تھی، ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ ان حضرات نے عمر بھر سوامی جی کا قافیہ تنگ رکھا۔ جب وہ اجمیر میں آگ کے حوالے کر دیئے گئے اس وقت سے اخیر عمر تک برابر مرزا صاحب آریہ سماج کے چہرہ سے انیسویں صدی کے ہندوریفارمر کا چڑھایا ہوا ملمع اتارنے میں مصروف رہے۔ ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جا سکیں۔ فطری ذہانت مشق و مہارت اور مسلسل بحث مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک شان خاص پیدا کر دی تھی۔ اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیر پر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور اپنی ان معلومات کا نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے۔ تبلیغ و تلقین کا یہ ملکہ ان میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب و ملت کا ہوان کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتا تھا۔ ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں اس کی نظیر غالباً دنیا میں کسی جگہ سے نہیں مل سکتی۔ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کے لئے حکم و عدل ہوں۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں بہت مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا۔ آئندہ امید نہیں ہے کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں محض اس طرح مذاہب کے مطالعہ میں صرف کر دے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 2ص560.- 562)

’’صادق الاخبار‘‘ ریواڑی نے لکھا کہ

’’مرزا صاحب نے اپنی پرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کیلئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کماحقہ اداکرکے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا۔ انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامی اسلام اور معین المسلمین فاضل اجل عالم بےبدل کی ناگہانی اور بیوقت موت پر افسوس کیا جائے۔ ‘‘

’’کرزن گزٹ‘‘ دہلی کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے لکھا کہ

’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا․․․․․ اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں ․․․․․․ اس کا پرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے․․․․ اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں، مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہوکر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ565 566-)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button