سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قلمی مجاہدات

انگریزحکومت کی خصوصی توجہ کا مرکز پنجاب

(حصہ دوم)

نواب نور الحسن خان صاحب اپنی کتاب اقتراب الساعة میں موجودہ زمانہ میں اسلام کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جس دن سے اس امت میں یہ فتنے واقع ہوئے پھر یہ امت،یہ ملت نہ سنبھلی اس کی غربت اسلام کی کمیابی روز افزوں ہوتی گئی یہانتک کہ اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے، مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں، علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے آسمان کے ہیں۔ انہیں سے فتنے نکلتے ہیں انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں۔‘‘

(اقتراب الساعةاز نواب نور الحسن صاحب صفحہ 12۔مطبع:مفید عام آگرہ 1301ھ)

نواب صدیق حسن خان صاحب جنہیں مشہوراہل حدیث رہنمامولوی محمدحسین بٹالوی صاحب مجددبھی کہاکرتے تھے۔ یہ نواب صدیق صاحب اپنی خودنوشت سوانح(Auto biography) ’’اِبقاء المِنَن بِالقاء المِحَن‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ میرے زمانہ آفت نشانہ میں علمائے آخرت روئے زمین سے بالکل مفقود ہوگئے ہیں…اب جولوگ اپنے آپ کواہل علم کے زمرہ میں شمارکرتے ہیں،یہ سب عشاقِ دنیا ہیں۔ان کاشغل تحصیل ِکتاب کے بجائے، استحصال ِ مال وخطاب ہے…رات دن فنونِ جہالت میں مشغول رہتے ہیں، خواص نے عوام کاشیوہ اختیارکرلیاہے اورعوام توپہلے ہی کالانعام ہیں۔منجیات ومعروفات نقش ونگارِ طاقِ نسیاں ہوگئے ہیں۔مہلکات ومنکرات،حسنات قرارپاگئے ہیں۔قیامت کی چھوٹی علامتوں کاایک مدت دراز سے ظہور ہو چکا ہے۔اب چودھویں صدی کے آغازمیں ہرطرف سے قیامت کی بڑی علامتوں کا ظہور ہورہاہے‘‘ حدیث میں ہے ’’نیک لوگ ایک ایک کرکے چلے جائیں گے اور جَوکی بھوسی یاکھجورکے چھلکے کی طرح کے لوگ (نکمے اورناکارہ )رہ جائیں گے۔جن کی اللہ کوکوئی پروا نہ ہوگی…اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ …لئیم بن لئیم دنیوی طور پر سب سے زیادہ سعادتمند نہ ہوجائے۔‘‘(لئیم ابن لئیم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ)’’جس کی اصل معلوم نہ ہواوراس کاخلق اچھانہ ہو،سواس زمانہ میں اس قسم کے لوگ رہ گئے ہیں۔یہ زمانہ اہل اسلام کے صبرکرنے کاہے اگرچہ یہ صبرسخت تلخ ہے ‘‘

(ابقاء المنن بالقاء المحن،خودنوشت سوانح حیات نواب محمدصدیق حسن خان، ص286-287ناشردارالدعوۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہورایڈیشن اول دسمبر1986ء)

ایک اورعالم مولاناابوالاعلیٰ مودودی صاحب جو مفکر کی حیثیت سے مانے جاتے ہیںلکھتے ہیں :

’’اس ملک کی اسلامی آبادی کاسوادِاعظم ان تمام مشرکانہ اورجاہلانہ رسوم و عقائدمیں گرفتاررہا جو اسلام قبول کرنے سے پہلے ان میں رائج تھے۔جومسلمان باہر سے آئے تھے ان کی حالت بھی ہندوستانی نومسلموں سے کچھ زیادہ بہترنہ تھی۔ان پر عجمیت پہلے ہی غالب ہوچکی تھی۔نفس پرستی اورعیش پسندی کاگہرارنگ ان پرچڑھ چکا تھا۔اسلامی تعلیم وتربیت سے وہ خودپوری طرح بہرہ ورنہ تھے زیادہ تردنیاان کومطلوب تھی۔خالص دینی جذبہ ان میں سے بہت کم، بہت ہی کم لوگوں میں تھا…‘‘

’’گیارھویں صدی ہجری میں انحطاط اپنی آخری حدوں پرپہنچ چکاتھا…… بارھویں صدی کے ابتداء میں……وہ تمام کمزوریاں یکایک نمودارہوگئیں جواندرہی اندرصدیوں سے پرورش پارہی تھیں۔تعلیم وتربیت کی خرابی اورقومی اخلاق کے اضمحلال اورنظام ِ اجتماعی کے اختلال کاپہلانتیجہ سیاسی زوال کی صورت میں ظاہرہوامسلمانوں کی سیاسی جمعیت کاشیرازہ دفعۃً درہم برہم ہوگیا۔قومی اوراجتماعی مفادکاتصوران کے دماغوں سے نکل گیاانفرادیت اور خودغرضی پوری طرح ان پرمسلط ہوگئی ان میں ہزار در ہزار خائن اورغدارپیداہوئے ……ان میں لاکھوں بندگان شکم پیداہوئے جن سے ہردشمنِ اسلام تھوڑی سی رشوت یاحقیرسی تنخواہ دے کراسلام اورمسلمانوں کے خلاف بدسے بدترخدمت لے سکتاتھا۔ان کے سواد اعظم (اس وقت کے علماء کہتے ہیں کہ سواداعظم نے مرزا صاحب کوکافرقراردیاتھا،اس سواداعظم کی حقیقت سنیئے ذرا:ان کے سواداعظم ) سے قومی غیرت اور خودداری اس طرح مٹ گئی کہ دلوں میں اسکانام ونشان تک باقی نہ رہا۔وہ دشمنوں کی غلامی پر فخرکرنے لگے۔غیروں کے بخشے ہوئے خطابات اورمناصب میں ان کوعزت محسوس ہونے لگی۔دین اورملت کے نام پر جب کبھی ان سے اپیل کی گئی وہ پتھروں سے ٹکراکرواپس آئی۔ اورجب کبھی کوئی غیرت مندشخص اقتدارقومی کے گرتے ہوئے قصرکوسنبھالنے کے لئے اٹھا،اس کاسرخوداس کی اپنی قوم کے بہادروں نے کاٹ کر دشمنوں کے سامنے پیش کردیا۔اس طرح ڈیڑھ صدی کے اندراسلام کا اقتدار ہندوستان کی سرزمین میں بیخ وبُن سے اکھاڑکرپھینک دیا گیا۔اور سیاسی اقتدارکے مٹتے ہی یہ قوم افلاس،غلامی،جہالت اور بداخلاقی میں مبتلاہوگئی۔اس کی انسانیت روزبروزپست ہوتی چلی گئی اورحیوانیت کا اثربڑھتااورچڑھتاچلاگیا۔ یہاں تک کہ ابھی ایک صدی بھی پوری نہیں گزری ہے اورحال یہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی ہرنسل پہلی نسل سے زیادہ نفس پرست،بندہ شکم اورآسائش بدن کی غلا م بن کراٹھ رہی ہے۔‘‘

(تحریک آزادئ ہنداورمسلمان۔جلداول،ص 41 تا 44۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی،ناشر اسلامک پبلی کیشنز لوئرمال لاہور،ایڈیشن 20 جون 2005ء)

مولانا الطاف حسین حالی اسلام، عام مسلمانوں اور علماء و مشائخ کی بری حالت کا تذکرہ اپنے اشعار میں یوں کرتے ہیں:

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر

جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر

یہ آواز پیہم وہاں آ رہی ہے

کہ اسلام کا باغ ویراں یہی ہے

رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں

وہ بدلا گیا آ کے ہندوستاں میں

(مسدس حالی صفحہ30، 36 و 59)

یہ وہ نازک ترین اور رونگٹے کھڑے کردینے والادورتھا لیکن ایسے میں بھی کہ جب مخالفین اسلام،اسلام کوختم کرنے کے لئے حملہ آورتھے تو امت مسلمہ کے افراد، شیعہ سنی،وہابی،کی تقسیم وتکفیرمیں الجھے ہوئے تھے۔ شرعی اورعلمی مسائل بس یہیں تک رہ گئے تھے کہ کوّاحلال ہے کہ حرام،ولاالضالین،ضادکے ساتھ پڑھاجائے گا کہ دال کے ساتھ،اگرکوئی وہابی کسی دوسرے فرقہ کی مسجدمیں نمازپڑھنے آجائے تو کیامسجدکاصحن ہی دھویاجائے گا یااتنی جگہ کافرش دوبارہ بنایاجائے گا بس اسی طرح کے معاملات میں سرپھٹول اورگتھم گتھاہوتے رہتے تھے۔

جہادکاتصورظلم وجہالت کی راہ سے ایسابھیانک رخ اختیار کرچکاتھاکہ مخالفین اسلام کامقابلہ بجائے علم وعمل کے، بندوق و پستول سے کیاجارہاتھا۔جس کی وجہ سے اسلام مزیداعتراضات کانشانہ بنتے ہوئے وحشت وبربریت کو ہوا دینے والامذہب کہلانے لگا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے ان لوگوں کوتوجہ دلاتے ہوئے جہادکی فلاسفی اور حکمت کو تفصیل سے باورکرایا کہ تمہارایہ عمل جہادنہیں کہلاسکتا۔ کیونکہ اسلامی جہاد تومعصومیت اور مظلومیت کاایک دفاعی اندازتھا۔جوتب اختیارکیاگیا جب نہتے اور مظلوم مسلمان ظالم کفارکے ہاتھوں بھیڑبکریوں کی طرح ذبح کئےگئے۔ تب تلوارکے مقابلہ میں اپنے دفاع کی خاطر تلواراٹھائی گئی۔اور اب اس زمانہ میں تو مخالفین کی طرف سے کوئی تیرتلواریابندوق نہیں اٹھائی جارہی۔ اب جس طریق سے اورجن ہتھیاروں سے اسلام پر وارکیاجارہاہے انہیں ہتھیاروں اور انہیں طریق سے اسلام کادفاع کرناہی اصل جہاد ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کوجہادکی فلاسفی اور اس کی شرائط کی طرف توجہ دلائی کہ اب اس وقت تم جس کوجہادکہہ رہے ہویہ جہادنہیں یہ ظلم اور وحشت وبربریت ہے اور اسلام کواس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہے۔ آپؑ نے فرمایا:

’’حاصل کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شراور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بدبختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کالانعام کو بڑے دھوکے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے۔ کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے۔ کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں… افسوس کہ مسلمانوں اورخاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا اُن کا شکار ہے۔ اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اُس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پاکر بندوق کا فیر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں۔ انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا۔ بلکہ اُن کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے۔ ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں۔ کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیرثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اُسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پاکر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں۔ کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ۔ اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے۔ افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے۔ اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پرپستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا۔ یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے! نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں۔ ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اٹھائی وہ اس وقت اٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے۔ آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں۔ خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے۔ اور بڑا برداشت کرنے والا ہے۔ لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا۔تو وہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ کیوں اُن کے مولوی ان بے جاحرکتوں سے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے۔‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اورجہادروحانی خزائن جلد17ص11.- 13)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button