سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی بے مثال مذہبی رواداری

(‘اے آر سدھو’)

آج کل دنیا کو جن مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے، ان میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ مذہبی شدت پسندی ہے اور اس شدت پسندی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ مذہبی رواداری کا فقدان ہے۔ مذہبی رواداری ایک ایسا وصف ہے جس پر عمل پیرا ہونے والانہ صرف دوسرے مذاہب کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے بلکہ ان کی اچھی باتوں کو قبول کرتا اور مانتا ہے۔ بد قسمتی سے آج مذہبی رواداری کے فقدان اورشدت پسندی کے حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسلمان ہیں جن کی مذہبی کتاب دنیا کی وہ واحدمذہبی کتاب ہے جس نے سب سے زیادہ مذہبی رواداری کا درس دیا اور مذہبی رواداری کے سنہری اصول دنیا کوسکھائے۔ قرآنِ کریم کے مذہبی رواداری کے ان اصولوں میں سے چند ایک یہ ہیں :

قرآن کریم نے انسانوں کو یہ درس دے کر کہ دنیا کی ہر قوم میں خدا نے اپنے رسول بھیجے، دنیا کے تمام مذاہب کا حترام مسلمانوں کے دلوں میں قائم کروا دیا۔ جیسا کہ فرماتا ہے:

وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْر (فاطر: 25)

ترجمہ:اور کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا(یعنی نبی) گزرا ہے۔

قرآنِ کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ سارے انبیاء کا ذکر قرآنِ مجید میں نہیں۔ جیسا کہ بتایا:

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًامِّنْ قَبْلِکَ مِنْھُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ۔ (المومن:79)

ترجمہ:اور یقیناً ہم نے تجھ سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے۔ بعض ان میں سے ایسے تھے جن کا ذکر ہم نے تجھ سے کر دیا ہے اور بعض ان میں ایسے تھے جن کا ہم نے تجھ سے ذکر نہیں کیا۔

پھر قرآن مجید تمام انبیاء کو ان کی رسالت (پر ایمان لانے)کے اعتبار سے مساوی قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہِ (البقرۃ:286)

ترجمہ:ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔

مذہبی رواداری کا ایک اصول قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ کسی کے جھوٹے معبودوں کو بھی برا بھلا نہ کہا جائے جیسا کہ فرمایا:

وَ لَا تَسُبُّو االَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔ (الانعام:109)

ترجمہ:اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں۔

اور پھر اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (الانعام:109)

ترجمہ:ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔

پھر قرآن کریم دین اختیار کرنے کے معاملے میں کسی بھی قسم کے جبر کی اجازت نہیں دیتا فرمایا:

لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (ابقرۃ:257)

ترجمہ:دین میں کوئی جبر نہیں۔

مذہبی رواداری کے ان سب اصولوں کو مد نظررکھتے ہوئے قرآن کریم حکمت اور احسن انداز سے دعوت الیٰ اللہ کرنے کی بھی ترغیب دیتاہے جیسا کہ فرمایا:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔ (النحل:126)

ترجمہ:اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔

یہ مذہبی رواداری سے متعلق قرآن کریم کے بیان فرمودہ سنہری اصولوں میں سے بعض ہیں۔ ہادیٔ کامل حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے رواداری کے ان اصولوں پر سب سے زیادہ عمل کر کے دکھایا اور مذہبی رواداری کی عظیم الشان مثالیں قائم فرمائیں۔ اسلام میں سب سے پہلا معاہدہ جو ہجرت مدینہ کے بعد عمل میں آیا وہ مدینہ کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ کیا گیا اور اس معاہدہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔ ہجرۃ الرسولﷺ )

پھر جب خیبر کے یہودی اور نجران کے عیسائی اسلامی حکومت میں داخل ہوئے تو آپؐ نے ان کوبھی ان کے عقیدہ اور عمل دونوں میں کامل آزادی عطا فرمائی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب نجران کے عیسائی مدینہ میں آئے تو آنحضرتﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی عطا فرمائی اور جب بعض صحابہ نے انہیں روکنا چاہا تو آپﷺ نے ان صحابہ کو منع فرما دیا۔ چنانچہ ان عیسائیوں نے مشرق رو ہو کر مسجد نبوی میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کی رسوم ادا کیں۔

(السیرۃ الحلبیۃ۔ جزو الثالث۔ باب یذکر فیہ ما یتعلق بالوفود التی وفدت علیہﷺ )

ایک دفعہ مدینہ میں ایک یہودی نے ایک مسلمان کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمام انسانوں پر فضیلت بیان کی تو مسلمان نے غصہ میں آکر اس یہودی کو تھپڑ مارا اور کہا کہ تم ہمارے نبیﷺ پر موسیٰؑ کو فضیلت دیتے ہو۔ وہ یہودی رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور عرض کی کہ اس مسلمان نے مجھے تھپڑ مار کر زیادتی کی ہے۔ نبی کریمﷺ مسلمان پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ مجھے نبیوں کے مابین فضیلت نہ دیا کرو باوجود یکہ آپﷺ افضل الانبیاء تھے مگر قیامِ امن کی خاطر مخالف مذہب کے ماننے والے کے جذبات کا احترام فرمایا۔

(بخاری کتاب التفسیر۔ باب لما جاء موسیٰ لمیقاتنا)

آخری زمانہ میں آنحضرتﷺ کی کامل پیروی میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے مذہبی رواداری کے ان اصولوں کو دوبارہ زندہ کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس خطہ میں مبعوث ہوئے وہ اُس وقت مختلف مذاہب کا گڑھ تھااور قریباًتمام مذاہب آپس میں دست و گریبان تھے۔ اور ہر فرقہ دوسرے کو جھوٹا تصور کرتا تھا اور اس کے مذہبی پیشوا کو جھوٹا کہنا اور برا بھلا کہنا عین جائز سمجھتا تھا۔ ان حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذہبی رواداری کے جذبہ کے تحت قرآنی تعلیمات کے مطابق جو پہلا بڑاکام کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر تمام مذاہب کے پیشوایان کی عزت و تکریم کو دنیا میں قائم فرمایا۔ اس میں بالخصوص وہ انبیاء بھی شامل ہیں جو اسرائیلی سلسلے سے باہر ہیں۔ جن کو بالعموم مسلمان بھی کافر قرار دیتے تھے۔ چنانچہ اس حوالہ سے آپؑ فرماتے ہیں :

‘‘منجملہ ان اصولوں کے جن پر مجھے قائم کیا گیا ہے ایک یہ ہے کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصۂ دنیا پر محیط ہوگئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ ان پر گذر گیا ہے ان میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رو سے جھوٹا نہیں اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے۔ کیونکہ خدا کی سنت ابتدا سے اسی طرح پر واقع ہے کہ وہ ایسے نبی کے مذہب کو جو خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں آیابلکہ دلیری سے اپنی طرف سے باتیں بناتا ہے کبھی سرسبز ہونے نہیں دیتا۔ اور ایسا شخص جو کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہے۔ خدا اس بے باک کو ہلاک کرتا ہے اور اس کا تمام کاروبار درہم برہم کیا جاتا ہے۔ اور اس کی تمام جماعت متفرق کی جاتی ہے۔ اور اس کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے خدا پر جھوٹ بولا۔ اور دلیری سے خدا پر افترا کیا۔ پس خدااُس کووہ عظمت نہیں دیتا جو راستبازوں کو دی جاتی ہے۔ اور نہ وہ قبولیت اور استحکام بخشتا ہے جو صادق نبیوں کیلئے مقرر ہے۔ اور اگر یہ سوال ہو کہ اگر یہی بات سچ ہے تو پھر دنیا میں ایسے مذہب کیوں پھیل گئے جن کی کتابوں میں انسانوں یا پتھروں یا فرشتوں یا سورج اور چاند اور ستاروں اور یا آگ اور پانی اور ہوا وغیرہ مخلوق کو خدا کر کے مانا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے مذہب یا توان لوگوں کی طرف سے ہیں جنہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ الہام اور وحی کے مدعی ہوئے بلکہ اپنی فکر اور عقل کی غلطی سے مخلوق پرستی کی طرف جھک گئے۔ اور یا بعض مذہب ایسے تھے کہ درحقیقت خدا کے کسی سچے نبی کی طرف سے ان کی بنیاد تھی لیکن مرور زمانہ سے ان کی تعلیم لوگوں پر مشتبہ ہوگئی۔ اور بعض استعارات یا مجازات کو حقیقت پر حمل کر کے وہ لوگ مخلوق پرستی میں پڑ گئے۔ لیکن دراصل وہ نبی ایسا مذہب نہیں سکھاتے تھے۔ سو ایسی صورت میں ان نبیوں کا قصور نہیں کیونکہ وہ صحیح اور پاک تعلیم لائے تھے۔ ’’

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 256تا257)

چنانچہ آپؑ نے حضرت رام چندر، حضرت کرشن، حضرت بدھ، حضرت زرتشت اورحضرت کنفیوشس سب کو خدا تعالیٰ کے انبیاء قرار دے کر اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان رواداری اور ہم آہنگی کی راہ ہموار کی۔ آپ اپنے رسالہ ‘‘تحفہ قیصریہ ’’میں ہی اس اصول پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

‘‘پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ ھ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ ’’

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259)

اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مذہبی رواداری کے قیام کے لیے دوسرا بڑا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا وہ جہاد کے غلط تصوّر کی اصلاح اور خونی مہدی اور مسیح کے غلط تصور کا قلع قمع کر کے مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے درمیان صلح کی راہ ہموار کرنا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں :

‘‘اور دوسرا اصول جس پر مجھے قائم کیا گیا ہے وہ جہاد کے اس غلط مسئلہ کی اصلاح ہے جو بعض نادان مسلمانوں میں مشہور ہے۔ سو مجھے خداتعالیٰ نے سمجھا دیا ہے کہ جن طریقوں کو آج کل جہاد سمجھا جاتا ہے وہ قرآنی تعلیم سے بالکل مخالف ہیں۔ ’’

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 262)

آپؑ مزید فرماتے ہیں :

‘‘قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اُٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصد نہ تھا۔ افسوس کہ یہ عیب غلط کار مسلمانوں میں اب تک موجود ہے جس کی اصلاح کے لئے میں نے پچاس ہزار سے کچھ زیادہ اپنے رسالے اور مبسوط کتابیں اور اشتہارات اِس ملک اور غیر ملکوں میں شائع کئے ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ جلد تر ایک زمانہ آنے والا ہے کہ اس عیب سے مسلمانوں کا دامن پاک ہو جائے گا۔ دوسرا عیب ہماری قوم مسلمانوں میں یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسے خونی مسیح اور خونی مہدی کے منتظر ہیں جو اُن کے زعم میں دنیا کو خون سے بھردے گا۔ حالانکہ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ ہماری معتبرکتابوں میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کو ئی لڑائی نہیں کرے گا او ر نہ تلوار اُٹھائے گا بلکہ وہ تمام باتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خُو اور خُلق پر ہوگا اور ان کے رنگ سے ایسارنگین ہوگا کہ گویا ہُوبہو وہی ہوگا۔ یہ دو غلطیاں حال کے مسلمانوں میں ہیں جن کی وجہ سے اکثر اُن کے دُوسری قوموں سے بغض رکھتے ہیں مگر مجھے خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان غلطیوں کو دُور کردوں۔ ’’

(ستارہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 120تا121)

حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ہندوستان مذاہب کی تبلیغ کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا اور بالخصوص عیسائی، ہندو اور آریہ اسلام پر قرآن پر اور بانیٔ اسلام پر اس کثرت کے ساتھ حملہ آور ہوئے کہ انہوں نے بیہودہ اور لغواعتراضات کی حد کر دی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو بار بار اس یاوہ گوئی سے منع فرمایا لیکن جب وہ باز نہ آئے تو مجبوراً حضور کو بھی ان مذاہب کے ماننے والوں کو ان کی اپنی کتابوں کے حوالے سے الزامی رنگ میں ان کا اصل چہرہ دکھانا پڑا لیکن طبعاً حضور کو یہ طریق پسند نہیں تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں :

‘‘سو ہم نے ان لوگوں کے جواب میں جس قدر تلخی اور مرارت بعض مقامات میں استعمال کی ہے وہ کسی نفسانی جوش کی وجہ سے نہیں بلکہ ہم نے اُن کی شورہ پشتی کا تدارک اسی میں دیکھا کہ جواب تُرکی بتُرکی دیاجائے ہمیں اس طریق سے سخت نفرت ہے کہ کوئی تلخ اور ناگوار لفظ استعمال کیا جائے۔ مگر افسوس ! کہ ہمارے مخالف انکار کے جوش میں آکر انجام کار گالیوں پر اُتر آتے ہیں۔ ’’

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ370)

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول۔ ’’

(اربعین، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 343تا344)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ مذہبی معاملات میں غیر مذاہب والوں سے آپؑ کے سلوک کا ایک واقعہ لکھتے ہیں :

‘‘1892ء میں حضرت مسیح موعودؑ اپنے دعویٰ مسیحیت کے بعد لاہور تشریف لے گئے…محبوب رائیوں کے مکان کا واقعہ ہے کہ ایک جلسے میں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک برہمو لیڈر (غالباً انباش موزمدار بابو تھے)حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے اور حضرت جواب دیتے تھے اسی اثناء میں ایک بدزبان مخالف آیا اور اس نے حضرت کے بالمقابل نہایت دلآزار حملے آپ پر کئے۔ وہ نظارہ اس وقت بھی میرے سامنے ہے آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا۔ پگڑی کے شملے کا ایک حصہ منہ پر رکھ کر یا بعض اوقات ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ خاموش بیٹھے رہے۔ اور وہ شور پشت بکتا رہا۔ آپ اسی طرح پرمست اور مگن بیٹھے تھے گویا کچھ ہو نہیں رہا۔ یا کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے۔ برہمو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ حضرت نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں کہنے دیجئے۔ آخر وہ خود ہی بکواس کر کے تھک گیا ا وراٹھ کر چلا گیا۔ برہمو لیڈر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے اس وقت حضور اسے چپ کرا سکتے تھے۔ اپنے مکان سے نکال سکتے تھے مگر آپ نے کامل حلم اور ضبط نفس کا عملی ثبوت دیا۔ ’’

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ جلد سوم صفحہ442تا444۔ ناشر:انوار احمدیہ بک ڈپو قادیان۔ 1927ء۔ مطبع :انقلاب سٹیم پریس۔ لاہور)

حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ مذہبی معاملات میں آپؑ کے وسعتِ حوصلہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

‘‘آپ دینی سائل کو خواہ کیسا ہی بے باکی سے بات چیت کرے اور گفتگو بھی آپ کے دعویٰ کے متعلق ہو بڑی نرمی سے جواب دیتے اور تحمل سے کوشش کرتے ہیں کہ آپ کا مطلب سمجھ جائے۔ ایک روزایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تئیں جہاں گرد اور سرد گرم زمانہ دیدہ وچشیدہ ظاہر کرتا تھا ہماری مسجد میں آیا اور حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے بابِ کلام واکیا اور تھوڑی ہی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا آپ اپنے دعوے میں کاذب ہیں اور مَیں نے ایسے مکّاربہت سے دیکھے ہیں اور مَیں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں غرض ایسے ہی بے باکانہ الفاظ کہے مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا بڑے سکون سے سنا کئے اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا۔ ’’

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ۔ پبلشرابوالفضل محمود۔ قادیان۔ صفحہ44)

حضرت مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں :

‘‘ہمارے اصول میں داخل نہیں کہ اختلافِ مذہبی کے سبب کسی کے ساتھ بدخلقی کریں اور بدخلقی مناسب بھی نہیں کیونکہ نہایت کار ہمارے نزدیک غیر مذہب والا ایک بیمار کی مانند ہے جس کو صحتِ روحانی حاصل نہیں۔ پس بیمار تو اور بھی قابلِ رحم ہے جس کے ساتھ بہت خلق اور حلم اور نرمی کیساتھ پیش آنا چاہئے۔ اگر بیمار کے ساتھ بدخلقی کی جاوے تو اس کی بیماری اور بھی بڑھ جائے گی۔ اگر کسی میں کجی اور غلطی ہے تو محبت کے ساتھ سمجھانا چاہئے۔ ہمارے بڑے اصول دو ہیں۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلا ق سے پیش آنا۔ ’’

(بدر جلد 2۔ نمبر 29۔ صفحہ 3۔ مورخہ19؍جولائی 1906ء۔ زیرِ عنوان‘‘غیر مذاہب والوں سے سلوک’’)

جب اسلام مخالفین بالخصوص آریوں اور عیسائی پادریوں نے بعض ضعیف روایات اور غیر مستند کتب کا سہارا لے کر اسلام اور بانی اسلام حضرت محمدﷺ پربے ہودہ اعتراضات کی انتہا کردی تو مذہبی رواداری کے جذبے کے تحت حضورؑ نے اس طریق کوختم کرنے کے لیےتیسرا بڑا کام یہ کیا کہ گورنمنٹ انگریزی کو مسلمانوں کی طرف سے ایک درخواست بھجوائی جس میں مذہبی مباحثات کے لیے دو اصول قانون کی شکل میں پاس کرنے کی اپیل کی تاکہ اسلام اور آنحضرتﷺ کی ذات پر بے ہودہ اعتراضات کا سلسلہ بند ہو سکے۔ وہ اصول یہ تھے:

(1)…ایسا اعتراض دوسرے پر نہ کیا جائے جو خود اپنی الہامی کتاب پر ہوتا ہو۔

(2)…ہر مذہب یا فرقہ اپنی الہامی اور مستند کتب کی فہرست شائع کر دے اور فریق ثانی جو بھی اعتراض کرے ان شائع شدہ کتب سے باہر نہ ہو۔ اور جو فریق اس قانون کی خلاف ورزی کرے تو اسے دفعہ 298تعزیرات ہند کے تحت سزا دی جائے۔

(ماخوذ ازآریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10صفحہ84تا86)

اس قانون کے متعلق آپؑ نے فرمایا:

‘‘اس قانون کے پاس کرنے میں کسی خاص قوم کی رعایت نہیں بلکہ ہریک قوم پر اس کا اثر مساوی ہے اور اس قانون کے پاس کرنے میں بے شمار برکتیں ہیں جن سے عامہ خلائق کے لئے امن اور عافیت کی راہیں کھلتی ہیں اور صدہا بیہودہ نزاعوں اور جھگڑوں کی صف لپیٹی جاتی ہے اور اخیر نتیجہ صلح کاری اور ان شراتوں کا دور ہو جانا ہے جو فتنوں اور بغاوتوں کی جڑھ ہوتے ہیں۔ ’’

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 85تا86)

مذہبی مباحثات میں یہ اصول کتنا پیارا ہے جس سے تحقیق حق کا دروازہ بھی کھلا رہتا ہے اور بے جا اعتراضات سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ مگر افسوس کہ یہ قانون پاس نہ ہو سکا۔

جب 1897ءمیں عیسائی پادریوں کی طرف سے ایک نہایت غلیظ کتاب ‘‘امہات المومنین یعنی دربارِ مصطفائی کے اسرار’’کے نام سے سامنے آئی جس میں آنحضرتﷺ پر نہایت گندے الزامات لگائے گئے تھے تو اس پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ‘‘کتاب البریہ’’میں دوبارہ گورنمنٹ کویہ تجویز بھجوائی کہ مذہبی مباحثات کے بارے میں ایسے قوانین وضع کیے جائیں جن سے مذہبی حوالہ سے کسی کی دلآزاری نہ ہو اور اس قسم کی فتنہ انگیز تحریرات سے نجات مل جائے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :

‘‘میرے نزدیک ایسی فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لیے بہتر طریق یہ ہے کہ گورنمنٹ عالیہ یا تو یہ تدبیر کرے کہ ہر ایک فریقِ مخالف کو یہ ہدایت فرماوے کہ وہ اپنے حملہ کے وقت تہذیب اور نرمی سے باہر نہ جاوے اور صرف ان کتابوں کی بنا پر اعتراض کرے جو فریق مقابل کی مسلم اور مقبول ہوں اور اعتراض بھی وہ کرے جو اپنی مسلم کتابوں پر وارد نہ ہو سکے۔ ’’

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ346)

نیز حضور علیہ السلام نے گورنمنٹ کو یہ بھی تجویز دی کہ اگر وہ ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی تو پھر یہ قانون بنا دے کہ ہر مذہب اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور کوئی مذہب کسی دوسرے مذہب کی برائیاں بیان نہ کرے۔ چنانچہ آپؑ کتاب البریہ میں ہی فرماتے ہیں :

‘‘اگر گورنمنٹ عالیہ یہ نہیں کر سکتی (یعنی مذکورہ بالا قانون نہیں بنا سکتی۔ ناقل)تو یہ تدبیر عمل میں لاوے کہ یہ قانون صادر فرماوے کہ ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اور دوسرے فریق پر ہر گز حملہ نہ کرے۔ میں دل سے چاہتا ہوںکہ ایسا ہو۔ اور میں یقیناًجانتا ہوں کہ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں کہ کچھ عرصہ کے لیے مخالفانہ حملے روک دئیے جائیں۔ ہر ایک شخص صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے کا ذکر زبان پر نہ لاوے۔ اگر گورنمنٹ عالیہ میری اس درخواست کو منظور کرے تو میں یقیناً کہتا ہوں کہ چند سال میں تمام قوموں کے کینےدور ہو جائیں گے اور بجائے بغض محبت پیدا ہو جائے گی۔ ورنہ کسی دوسرے قانون سے اگرچہ مجرموں سے تمام جیل خانے بھر جائیں مگر اس قانون کا ان کی اخلاقی حالت پر نہایت ہی کم اثر پڑے گا۔ ’’

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ346)

1897ء میں ہی ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر حضورؑ نےملکہ کے لیے ایک رسالہ ‘‘تحفہ قیصریہ’’ کے نام سے لکھا جس میں ملکہ کو جوبلی کی تقریب پر مبارکباد کے علاوہ نہایت لطیف اور حکیمانہ پیرایہ میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اظہار اور اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کر نے کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کا ذکربھی فرمایا جو امنِ عالم اور اخوتِ عالمگیر کی بنیاد بن سکتے ہیں اور اس حوالہ سے ملکہ کو لندن میں ایک ایسا جلسہ مذاہبِ عالم منعقد کرانے کی تجویز بھی دی جس میں ہر مذہب اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے تاکہ انگلستان کے باشندوں تک اسلام کی صحیح معلومات پہنچ سکیں۔

(ماخوذ از تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12صفحہ278تا280)

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے اس اصول کو کہ ہر مذہب اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے، کو اتنا پسند فرماتے تھے کہ مینارۃ المسیح کی تعمیر کے اغراض میں سے ایک یہ غرض بھی بیان فرمائی کہ اس کے نیچے ایسا کوئی کمرہ بنا دیا جائے جس میں کچھ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہواور اس میں ہر سال اس قسم کے جلسے منعقد ہوا کریں جن میں ہر مذہب والا اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور کسی دوسرے مذہب پر اعتراض نہ کرے۔

(نوٹ: اس قسم کا ایک جلسہ 1896ءمیں لاہور میں ایک ہندو نے منعقد کروایا جس میں تمام مذاہب کو اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے اور پانچ سوالات کے جوابات ہر مذہب کو اپنی تعلیم کی روشنی میں دینے کی دعوت دی گئی تاکہ لوگ خود ان جوابات اور خوبیوں کو سن کر فیصلہ کر لیں کہ کون سا مذہب سچا ہے۔ اس جلسہ کے لیے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنا مضمون ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ پڑھنے کے لیے بھجوایااور قبل از وقت خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ اطلاع بھی دے دی کہ میرا مضمون سب پر بالا رہے گا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10)

چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :

‘‘بالآخر میں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس منارہ سے ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینارکے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم سو آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گا۔ کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اس جلسے میں ہر ایک شخص مسلمانوں میں اور ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے گامگریہ شرط ہو گی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم پر حملہ نہ کرے۔ فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے کہے۔ ’’

(ضمیمہ خطبہ الہامیہ زیرعنوان اشتہار چندہ منارۃ المسیح، روحانی خزائن جلد16صفحہ30)

پھر آپ علیہ السلام نے اپنی تصنیف ‘‘گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ’’ میں جہاں یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کا جہاد کے نام پر کسی غیر مسلم کو قتل کرنا صریحاً خلافِ قرآن اور اسلام ہے وہیں آپؑ نے اس کا ذمہ دار انگریز پادریوں کو بھی ٹھہرایا کہ مسلمانوں میں جہاد کے اس غلط تصور کو ترویج دینے والے خود یہ پادری ہیں جو مخالفِ اسلام اور قرآن تحریرات کے ذریعہ مسلمانوں کو بار بار جہاد کے غلط تصور کا طعنہ دیتے ہیں اور ان کی کتب پڑھ کر بعض ناسمجھ مسلمان اس تصور کو درست سمجھ لیتے ہیں اور پھر ملک میں فتنہ پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

(ماخوذ از گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ19تا22)

چنانچہ آپؑ نے مذہبی رواداری کے جذبے کے تحت اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے تیسری مرتبہ پھر گورنمنٹ کو یہ تجویز بھجوائی کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو پابند کردینا چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں کسی دوسرے مذہب کی خامیاں بیان نہ کریں اگر زیادہ نہیں تو کم از کم پانچ سال کے لیے ایسا قانون بنا دیا جائے۔ چنانچہ آپؑ وائسرائے ہند کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :

‘‘میں نے جناب نواب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں دو دفعہ درخواست کی تھی کہ کچھ مدت تک اس طریق بحث کو بند کر دیا جائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب کی نکتہ چینیاں کرے۔ لیکن اب تک اُن درخواستوں کی طرف کچھ توجہ نہ ہوئی۔ لہٰذا اب بار سوم حضور ممدوح میں پھر درخواست کرتا ہوں کہ کم سے کم پانچ برس تک یہ طریق دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کا بند کر دیا جائےاور قطعاً ممانعت کر دی جائے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے عقائد پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کرےکہ اس سے دن بدن ملک میں نفاق بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مختلف قوموں کی دوستانہ ملاقاتیں ترک ہو گئی ہیں۔ کیونکہ بسا اوقات ایک فریق دوسرے فریق پر اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا اعتراض کر دیتا ہے کہ وہ دراصل صحیح بھی نہیں ہوتا اور دلوں کو سخت رنج پہنچا دیتاہے۔ اور بسا اوقات کوئی فتنہ پیدا کر تا ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر جہاد کا اعتراض۔ بلکہ ایسا اعتراض دوسرے فریق کے لیے بطور یاددہانی ہو کر بھولے ہوئے جوش اسے یاد دلا دیتا ہے اور آخر مفاسد کا موجب ٹھیرتا ہے۔ سو اگر ہماری دانشمند گورنمنٹ پانچ برس تک یہ قانون جاری کر دے کہ برٹش انڈیا کے تمام فرقوں کو جس میں پادری بھی داخل ہیں قطعاً روک دیا جائے کہ وہ دوسرے مذاہب پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کریں اور محبت اور خلق سے ملاقاتیں کریں۔ اور ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں ظاہر کرے تو مجھے یقین ہے کہ یہ زہر ناک پودہ پھوٹ اور کینوں کا جو اندر ہی اندر نشوو نما پا رہا ہے جلد تر مفقود ہو جائے گا۔ ’’

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ32تا33۔ ضمیمہ رسالہ جہاد)

انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو دنیا میں مذہبی رواداری کے قیام کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اچھا قانون نہیں ہو سکتا۔ افسوس کہ حکومت نے تو اس وقت ایسا کوئی قانون نہ بنایالیکن حضرت مسیحِ موعودؑ کی تعلیمات کی روشنی میں آج جماعتِ احمدیہ کو جن ممالک میں موقع ملتا ہے وہاں اس قسم کے جلسے منعقد کروائے جاتے ہیں جن میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کو اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

حضورؑ کو مذہبی رواداری اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا کس قدر خیال تھا اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپؑ نے اپنی زندگی کی آخری کتاب پیغام صلح۔ اسی صلح، امن اور روداری کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے لکھی۔ اس کتاب میں بھی آپ نے تمام مذاہب کو امن اور صلح کی دعوت دی۔ اس کتاب میں آپ نے ہندوؤں کو صلح کے لیے اس قدر بھی پیشکش کر دی کہ اگر وہ آنحضرتﷺ کو سچامان لیں (یعنی جس طرح ہم ہندوؤں کے اوتاروں حضرت رام چندر اور سری کرشن جی کو سچا اور خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں گوہم ان کی شریعت پر عمل نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر ہندو بھی آپﷺ کو سچا مان لیں اور آپﷺ کی ہتک چھوڑ دیں ) تو ہم بھی گائے کا گوشت ان کے لئے چھوڑ دیں گے۔

(ماخوذ از پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 458)

اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حضرت مسیحِ موعودؑ دوسرے مذاہب کے ساتھ امن اور صلح سے رہنے کو کس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اس کےلیے اپنے جائز حقوق بھی چھوڑنے کے لیے تیار تھے۔

آپؑ پیغام صلح میں فرماتے ہیں :

‘‘اِسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہرایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ اور تمام دُنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے۔ جس نے دُنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۔ وَ نَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ(آل عمران :85) یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دُنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رد کردیں۔ اگرایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو قرآن شریف نے خدا کی عامہ رحمت کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ اسرائیلی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوب اور کیا اسحٰق اور کیا موسیٰ اور کیا داؤد اور کیا عیسیٰ سب کی نبوت کو مان لیا اورہر ایک قوم کے نبی خواہ ہند میں گذرے ہیں اور خواہ فارس میں کسی کو مکار اور کذّاب نہیں کہا بلکہ صاف طور پر کہہ دیا کہ ہر ایک قوم اور بستی میں نبی گذرے ہیں اور تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی۔ ’’

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 459تا460)

جس طرح اسلام کسی مذہبی پیشوا پر نہ حملہ کرتا ہے اور نہ اس کی تعلیم دیتا ہے اسی طرح تمام دنیا کو چاہیے کہ وہ بھی مسلمانوں کے پیغمبر کا احترام کریں کیونکہ اس کے بغیر مسلم دنیا کے ساتھ پائیدار تعلقات استوار نہیں ہو سکتے۔ آج کل بھی دنیا میں بعض حلقوں کی طرف سے اسلام اور بانی اسلامﷺ کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ آزادی اظہار کے نام پر کہیں کارٹون بنائے جاتے ہیں تو کہیں گندی فلمیں بنا کر مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ آزادی اظہار کے ان نام نہاد علمبرداروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طریق دنیا میں پائیدار امن اور مذہبی ہم آہنگی کے رستے میں بہت بڑی روک ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام دنیا کو اس حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘اے عزیزو !! قدیم تجربہ اور بار بار کی آزمائش نے اس امر کو ثابت کردیا ہے کہ مختلف قوموں کے نبیوں اور رسولوں کو توہین سے یاد کرنا اور اُن کو گالیاں دینا ایک ایسی زہر ہے کہ نہ صرف انجام کار جسم کو ہلاک کرتی ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کرکے دین اور دُنیا دونوں کو تباہ کرتی ہے۔ وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کرسکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبرِ دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں۔ اور ان قوموں میں ہرگز سچا اتفاق نہیں ہوسکتا جن میں سے ایک قوم یا دونوں ایک دوسرے کے نبی یا رشی اور اوتار کو بدی یا بد زبانی کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نبی یا پیشوا کی ہتک سن کر کس کو جوش نہیں آتا۔ خاص کر مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ وہ اگرچہ اپنے نبی کو خدایا خدا کا بیٹا تو نہیں بناتی مگر آنجنابؐ کو ان تمام برگزیدہ انسانوں سے بزرگ تر جانتے ہیں کہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے پس ایک سچے مسلمان سے صلح کرنا کسی حالت میں بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ اُن کے پاک نبی کی نسبت جب گفتگو ہو تو بجز تعظیم اور پاک الفاظ کے یاد نہ کیا جائے۔ ’’

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 452)

آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام جو اس زمانے میں مذہبی رواداری کے علمبردار ہیں، کی جماعت کو موجودہ زمانہ میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ آج دنیا کے پردہ پر صرف یہی اسلامی جماعت ہے جو مذہبی رواداری پر نہ صرف مکمل عمل پیرا ہے بلکہ اس کے فروغ میں بھی دن رات کوشاں ہے۔ یہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام ہی کا فیض ہے کہ آج دنیا میں اس حوالے سے کوئی مذاکرہ ہو یا کسی کانفرنس کا انعقاد ہو اکثر و بیشتر اس میں جماعتِ احمدیہ کو اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے بطورِ خاص بلایا جاتا ہے۔ اور آج حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے خلیفہ کو ہی یہ شرف حاصل ہے کہ وہ دنیاوی ایوانوں میں کھڑے ہو کر دنیا کے لیڈروں کو اس خوبصورت اور دلنشین تعلیم سے آگاہ کرتے ہیں۔ پس اب اگر دنیا کی قومیں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینا چاہتی ہیں تو مذہبی رواداری کے حوالے سےقرآن ِکریم اور سنتِ رسولﷺ کی روشنی میں زمانے کے حکم عدل کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنا ہو گا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے ۔ ؎

‘‘صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار ’’

(براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ145)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button