سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

یوم مسیح موعود کی اہمیت اوراس کومنانے کا مقصد

(‘ابو فاضل بشارت’)

انیسویں صدی کے وسط میں اسلام کی دگرگوں حالت اس لیے تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے پوراہونے کا وقت تھا۔ ہندوستان میں تمام مذاہب کی طرف سے اسلام اوربانیٔ اسلام پر توہین آمیزحملے جاری تھےاور کوئی مرد مجاہد ایسا نہ تھا جو ان حملوں کے آگے سینہ سپر ہوکر اسلام کا دفاع کرتا۔ مسلمان زندہ مذہب کو چھوڑ کرجوق در جوق دیگر مذاہب خصوصاً عیسائیت کی آغوش میں گرتے چلے جارہے تھے اور کوئی ان کو بچانے والا نہ تھا۔ یہ وہ پُرآشوب زمانہ تھا جوقرآنی آیت

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّوَالْبَحْرِ (الروم:42)

اوررسول اللہﷺکی پیشگوئی 

لَايَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ (شعب الإيمان جزء3صفحہ318)

کےعین مصداق تھا۔ جس کا اس زمانہ کے صاحب عقل لوگوں کو بھی ادراک تھا۔

چنانچہ الطاف حسین حالی مرحوم نے 1879ء میں اپنی مشہور مسدّس میں لکھا:

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

(مسدّس حالی بند نمبر 108)

پھر اسلام کو ایک باغ سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں :

پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر

جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر

نہیں زندگی کا کہیں نام جس پر

ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر

نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل

ہوئے راکھ جس کے جلانے کے قابل

(مسدّس حالی بند نمبر 111)

مسلمان کی اخلاقی و روحانی حالت بیان کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں :

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں

امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں

بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں

تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

(بانگِ درا۔ زیرِ عنوان جوابِ شکوہ)

پھرمسلمانوں کی عملی حالت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں کہ

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

پس وہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں تھااورعلماء سمیت تمام مسلمان کسی مسیحا کے متلاشی تھے۔ ایسے وقت میں صحیح بخاری کتاب التفسیرمیں درج رسول اللہﷺ کی پیشگوئی، جو سورةالجمعة کی آیت4

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ

کی تلاوت کے وقت آپؐ نے فرمائی تھی، کے عین مطابق قوم سلمانؓ سے ایک رجل فارس میدان میں آیا جس نے ایمان کو ثریا سے لاکر دنیا میں قائم کیا، زندہ مذہب اسلام کی حقانیت اور صداقت کو تمام ادیان باطلہ پر ثابت کردکھایااور دشمنان اسلام کو چاروں شانے چِت کردیا۔ وہ جری اللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی موعودؑ ہیں۔ جنہوں نے1882ء کے اوائل میں مسجد اقصیٰ میں ایک کشف دیکھا کہ ایک باغ لگایا جارہا ہے اور آپؑ اس کے مالی مقرر ہوئے ہیں۔

(حیات احمد جلد اول حصہ دوم صفحہ305)

یہ کشف ماموریت کی پہلی بشارت تھی۔ پھر آپؑ نے براہین احمدیہ جیسی معرکہ آراء تصنیف میں اسلام کی صداقت کے سینکڑوں ثبوت پیش کیے اور زندہ خدا کے زندہ نشانات دکھانے کی تمام اہل دنیا کو دعوت دی۔ جس پر جہاں اہل اسلام میں خوشیوں کی لہر دوڑی، وہاں مخالفین کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی۔ آپؑ نے کیا ہندو، کیا آریہ، کیا مسیحی، سب مخالفین کو چیلنج دیا کہ وہ اسلام پر اپنے مذہب کی برتری ثابت کردکھائیں۔ لیکن کسی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ آپؑ کے اس چیلنج کو قبول کرتا۔ مسلمانوں کو تو ایک ناخدا مل گیا جو اسلام کی ڈوبتی ناؤ کو کنارہ پر لے آیا۔

براہین احمدیہ حصہ سوم کا حاشیہ تحریر فرمانے کے دوران آپؑ نےحالت کشف میں رسول اللہﷺ سے زیارت و معانقہ کا شرف پایا اور دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک سے نور کی کرنیں نکل نکل کر آپؑ کے اندر داخل ہورہی ہیں۔ اس کے بعدآپؑ پرالہام الٰہی کا سلسلہ بکثرت شروع ہوگیا۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا پہلا الہام نازل ہوا جو کم و بیش ستر فقرات پر مشتمل تھا، جس کا آغاز

یَااَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ

سے ہوا۔

آپ کی اسلام کے لیے ان خدمات جلیلہ کی وجہ سے آپ کے معتقدین ومخلصین یہ بات جانتے تھے کہ اس زمانہ میں اگر کوئی اسلام کی احیائے نو کرسکتا ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہی ہیں۔ لدھیانہ کے ایک بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ جوحضرت مسیح موعودؑ پر حسن اعتقاد رکھتے تھے، نے فرمایا:

ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ

تم مسیحا بنو خدا کے لیے

اسی طرح مولوی عبد القادر صاحب نے حضرت اقدسؑ سے بیعت لینے کا کہامگر آپ کا یہی جواب ہوتا:

لَسْتُ بِمَاْمُوْرِِ۔

(یعنی میں مامور نہیں ہوں )

آپ نے بیعت نہ لینے کاسبب بیان کرتے ہوئےفرمایا:

’’چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں۔

لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔ ‘‘

(حیاتِ احمد جلد دوم صفحہ150)

لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کوبیعت لینے کا واضح حکم ملا تو یکم دسمبر 1888ء کو آپ نے ’’تبلیغ‘‘ کے نام سے اشتہار میں بیعت کا اعلان عام کرتےہوئے فرمایا:

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدّارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ188)

اس اشتہار میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ استخارہ کے بعد بیعت کے لیے حاضر ہوں۔

اس اعلان میں حضرت مسیح موعودؑ نے بیعت کے لیے معین رنگ میں کوئی خاص شرائط تحریر نہیں فرمائی تھیں۔ مگر حضرت مصلح موعودؓ کی ولادت کے بابرکت روز12؍جنوری 1889ء کو آپؑ نے اسلامی تعلیم کے خلاصے پر مبنی اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘ شائع فرمایا اور اس میں دس شرائط بیعت تجویز فرمائیں ۔

23؍مارچ کا دن نہایت اہم دن ہے کیونکہ آج سے132سال قبل23؍مارچ 1889ء کوقادیان جیسی گمنام بستی سے تعلق رکھنے والے خدا کےایک بندے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے حکمِ الٰہی کے تحت لدھیانہ میں ایک عظیم پاک جماعت کی بنیاد رکھی جس نے ایمان کو ثریا سے لا کر دوبارہ احیائے اسلام کا موجب بننا تھا۔ پس خدائی منشا کے مطابق مہینہ بھی ایسا چناگیا جس میں زمین کی ظاہری حالت

كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ کی مانند تھی چنانچہ روحانی تخم ریزی اورایمان کی کونپلیں بھی مارچ کی 23؍تاریخ کوپھوٹنی شروع ہوئیں جنہوں نے آئندہ

فَآزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلَى سُوقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ (الفتح :30)

کا مصداق بننا تھا۔ چنانچہ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان کی کچی کوٹھڑی جو اَب ’’دار البیعت‘‘ کہلاتی ہے، میں اس موعودہ روحانی جماعت کی بنیاد رکھی گئی جس کے شکرانے اور خوشی کے طور پر ہرسال اسی بابرکت دن جماعت احمدیہ یوم مسیح موعودؑ مناتی ہے۔

ایّام اللہ کی یاددہانی کروانا

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّٰهِ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۔ (ابراهيم:6)

اور انہىں اللہ کے دن ىاد کرا ىقىناً اس مىں ہر بہت صبر کرنے والے (اور)بہت شکر کرنے والے کے لئے بہت سے نشانات ہىں۔

مفسرقرآن حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کے نزدیک ’’ایام اللہ‘‘ سے مراد وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوا ہو۔

(تفسیر الدرالمنثور للسیوطی جزء5صفحہ6)

اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت کا نزول باعث خوشی و بطور عید ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ سورة المائدہ میں ہے:

قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنۡزِلۡ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوۡنُ لَنَا عِیۡدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَۃً مِّنۡکَ ۚ وَ ارۡزُقۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ (المائدة:115)

عىسىٰ ابنِ مرىم نے کہا اے اللہ ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے (نعمتوں کا) دسترخوان اُتار جو ہمارے اوّلىن اور ہمارے آخرىن کے لئے عىد بن جائے اور تىرى طرف سے اىک عظىم نشان کے طور پر ہو اور ہمىں رزق عطا کر اور تُو رزق دىنے والوں مىں سب سے بہتر ہے۔

مثیل مسیحؑ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مستقل روحانی مائدہ بطور نعمت نازل فرمایا اور 23؍مارچ1889ء کے دن آپؑ نے اس روحانی مائدہ کو خلق اللہ میں تقسیم کرنے کا آغاز فرمایااور40؍افراد نے اس دن بیعت توبہ کرکے اسلام کی نشأة ثانیہ کا عزم کیا۔ اس لیے یہ دن جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالاحکم کی تعمیل میں شکر نعمت وتحدیث نعمت کے طور پر منایا جاتاہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ (الضحىٰ:12)

اور جہاں تک تىرے ربّ کى نعمت کا تعلق ہے تو (اسے) بکثرت بىان کىا کر۔

اللہ کے فضل و رحمت پر اظہار مسرت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ (يونس:59)

تُو کہہ دے کہ (ىہ) محض اللہ کے فضل اور اس کى رحمت سے ہے پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں وہ اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہىں۔

حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابوسعیدؓ نے فضل سے مراد اسلام اور رحمت سے مراد قرآن کریم لیا ہے۔ ایک اور روایت میں فضل سے قرآن اور رحمت سے اسلام مرادلیا ہے۔

(تفسير طبری جزء15صفحہ107)

پس یہ بھی حکم خداوندی ہے کہ ا س نے جو قرآن کریم اور دین اسلام کی رحمت و فضل عطا فرمایا ہے اس پرخوشی و مسرت کا اظہار کیاجائے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کو کسی یہودی نے کہا کہ

اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ

کہ آج کے دن میں نےتمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے، کی خوشخبری والی آیت اگرہم یہودیوں پر اترتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا:ہمیں اس دن کی شان معلوم ہے جس دن یہ اتری وہ جمعہ کا دن تھا(جو ویسے ہی مسلمانوں کی ہفتہ وار عید کا دن ہے)بلکہ وہ عرفہ یعنی حج کا دن بھی تھا۔ گویا دوہری عید ہوگئی۔

(صحيح البخاري کتاب الایمان باب زیاد الایمان و نقصانہ)

اس لحاظ سےاسلام کے احیائے نو والا دن بھی موجب خوشی و مسرت ہے۔

یوم بدر

اللہ تعالیٰ بدر کی فتح کے دن کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

…وَ یَوۡمَئِذٍ یَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔ بِنَصۡرِ اللّٰہِ ؕ یَنۡصُرُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ۙ۔

(الروم:5تا6)

…اور اس دن مومن(بھى اپنى فتوحات سے) بہت خوش ہوں گے۔ (جو) اللہ کى نصرت سے (ہوں گى) وہ نصرت کرتا ہے جس کى چاہتا ہے اور وہ کامل غلبہ والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

چنانچہ یوم بدر میں الٰہی نصرت سے مومنین کی فتح کی بشارت ان کےلیے باعث خوشی و مسرت اورموجب فرحت قرار دی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خدائی وعدہ کے مطابق رسول اللہﷺ اور مومنین کو غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور یوم بدر ان سب کےلیے خوشی و مسرت کا باعث ہوا۔

اس خاص دن اس غزوہ میں شامل ہونےوالے صحابہ کو خاص فضیلت حاصل ہوئی۔ چنانچہ حدیث میں بھی بدر کے دن کی فضیلت بیان ہوئی ہے:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ أَبُوهُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ، قَالَ: مِنْ أَفْضَلِ المُسْلِمِينَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ: وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ المَلاَئِكَةِ

(بخاری کتاب المغازی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا)

حضرت معاذ بن رفاعہؓ بن رافع زرقی اپنے والد رافعؓ سے جو بدر میں شریک تھے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریلؑ نے نبیﷺ کی خدمت میں آکر دریافت کیا کہ آپ بدر والوں کو کیسا سمجھتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:تمام مسلمانوں سے افضل یا ایسا ہی کوئی دوسرا کلمہ فرمایا۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا اسی طرح وہ فرشتے جو بدر میں حاضر ہوئے تھے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔

یوم بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ

اسی طرح دیگر ایام کو بھی صحابہؓ اہمیت دیتے تھے۔ مثلاً بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ جس میں مدینہ کے 70؍انصار صحابہ نے بیعت کی تھی۔ صحابہ میں اس کی بہت اہمیت تھی اور ان صحابہؓ کے ذکر کے ساتھ ہمیشہ اس اعزاز کو بھی بیان کیا جاتا تھا کہ اسے عقبہ اولیٰ و ثانیہ کی بیعت کی شرکت کی سعادت ملی جب انہوں نے رسول اللہﷺ سے یہ عہد وفا باندھاکہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں گے، ہم چوری اور زنا کاری نہیں کریں گے، ہم اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے، ہم کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گےاورہم نبی کی اطاعت کریں گے۔ (بخاری کتاب الایمان بَابٌ: عَلاَمَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ) اور ہر قربانی پیش کریں گے اور اس کے عوض ان سے جنت کا وعدہ کیا گیا۔

چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:

عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، وَكَانَ رِفَاعَةُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ، وَكَانَ رَافِعٌ مِنْ أَهْلِ العَقَبَةِ، فَكَانَ يَقُولُ لِابْنِهِ: مَا يَسُرُّنِي أَنِّي شَهِدْتُ بَدْرًا، بِالعَقَبَةِ

(بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا)

حضرت معاذ بن رفاعہ بن رافع روایت کرتے ہیں کہ میرے والد رفاعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدری تھے اور دادا رافع بیعت عقبہ والوں میں سے تھے چنانچہ رافع اپنے بیٹے رفاعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عقبہ کے برابر بدر میں بھی شریک ہونے کی خوشی نہیں ہے۔

یعنی حضرت رافعؓ بیعت عقبہ میں شریک ہونا بدر میں شریک ہونے سے افضل جانتے تھے کیونکہ بیعت عقبہ ہی رسول اللہﷺ کی کامیابی اور ہجرت کا باعث بنی تو اسلام کی بنیاد ٹھہری۔

یوم مسیح موعود

جماعت احمدیہ 23؍مارچ کویوم مسیح موعود نہ صرف لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے دن یا د دلانے، اس کی نعمت عظمیٰ کا چرچا کرنے اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی میں مناتی ہے بلکہ وہ یہ دن اسلام کی نشاةٔ ثانیہ کے دن کے طور پربھی مناتی ہے۔ تا دس شرائط بیعت کے اس عہد کو پھر سے تازہ کریں اور اپنی زندگی میں اس روز کی بیعت توبہ کے مطابق ایک تبدیلی پیدا کریں تااسلام کا انقلاب جلد رونما ہو۔ اگر اس حقیقی اور سچی توبہ کا دن کسی انسان کو نصیب ہوجائے تو اس کی زندگی کی سب سے بڑی عید بن جائے۔

دعائے بیعتِ توبہ

حضرت مسیح موعودؑ نے 20؍رجب 1306ھ بمطابق 23؍مارچ 1889ء کوجن الفاظ میں حضرت نور الدین اعظم خلیفة المسیح الاولؓ سے بیعت لی، وہ حضرت خلیفہ اولؓ کی درخواست پر حضور نے اپنے قلم سے لکھ کر انہیں عنایت فرمائے۔ بیعت کے الفاظ یہ تھے :

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی

آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مَیں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کے لذات پر مقدم رکھونگا اور 12جنوری کے دس شرطوں پر حتی الوسع کا ربند ہونگا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں۔

استغفراللّٰہ ربی استغفراللّٰہ ربی استغفراللّٰہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ اشھدان لا اِلٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدًا عبدہ و رسولہ۔ رب انی ظلمت نفسی و اعترفت بذنبی فا غفرلی ذنوبی فانہ لایغفر الذنوب الا انت۔‘‘

حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب بیان کرتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مصافحہ کے طریق پر بیعت کنندگان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے تھے لیکن بعض لوگوں سے آپ نے پنجہ کے اوپر کلائی پر سے بھی ہاتھ پکڑ کر بیعت لی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میری بیعت آپ نے اسی طرح لی تھی۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 98صفحہ71,70)

میر محمد شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی روایت ہے کہ

’’میں نے متعدد مرتبہ دیکھا کہ حضرت اقدسؑ جب بیعت لیتے تو حضور جب یہ الفاظ فرماتے کہ ’’اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیے اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ تو میرے گناہوں کو بخش دے۔ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں‘‘، تو تمام آدمی رونے لگ جاتے تھےاور آنسو جاری ہوجاتے تھے کیونکہ حضرت صاحب کی آواز میں اس قدر گداز ہوتا تھا کہ انسان ضرور رونے لگ جاتا تھا۔‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ166 روایت نمبر747)

امر واقعہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی دعا(جسے حضرت مسیح موعودؑ نے بیعت توبہ میں شامل فرمایا) ایسی گہری تاثیر رکھتی ہے کہ اب بھی دہرائے جانے کے وقت یہی کیفیت سوزو گداز اکثر دیکھی گئی ہے۔ دعاکے الفاظ یہ ہیں :

رَبِّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔

کہ اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں۔

اس روایت کی مزید تائید حضرت مسیح موعودؑ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے آپ نے فرمایا کہ

’’یاد رکھو، بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔ اگر ساتھ اس کے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی شرط لگالے تو ترقی ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ174)

23مارچ، غلبۂ احمدیت کا سنگ میل

جماعت احمدیہ اس لحاظ سے بھی تاریخی حیثیت کی حامل جماعت ہے کیونکہ اسی نے آخرین کو اوّلین سے ملادیا۔ اپنے آغاز سے لے کر آج تک یہ جماعت خلافتِ احمدیہ کے زیرِسایہ پھل پُھول رہی ہے اور دن بدن خدا تعالیٰ اپنا فضل اس جماعت پر اس کثرت سے نازل کرتا نظر آرہا ہے کہ عقلمند انسان ان کو محسوس کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ خداتعالیٰ نے اس جماعت کو غلبہ دینا ہی دینا ہے جیسا کہ اس جماعت کے قیام سے قبل ہی الٰہی بشارات کے حصول کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرما دی تھی :

’’خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تاکہ دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی رُوح سے قوت دے گا۔ اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشین گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے، اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جواونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے۔ اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے۔ وہ ا س سلسلہ کے کامل متبعین کو ہریک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی۔ اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے۔ وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔

فَالْحَمْدُ لَہُ اَوَّلًا وَاٰخِرًا وَظَاھِرًا وَبَاطِنًا۔ اَسْلَمْنَا لَہُ۔ ھُوَ مَوْلٰنَا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْم النَّصِیْرُ۔ ‘‘

(اشتہار ’’گذارش ضروری بخدمت ان صاحبوں کے جو بیعت کرنے کے لئے مستعد ہیں‘‘ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ198)

یوم مسیح موعودؑ اور ہماری ذمہ داریاں

ہمارے پیارے امام سیدناحضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یوم مسیح موعود کے حوالے سے ہماری ذمہ داریوں کے بارہ میں بیان فرماتے ہیں :

’’پس آج ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہیں …اس دن کی اہمیت ہے، جماعت میں اس دن کی اہمیت کے مدّنظر یوم مسیح موعود کے جلسے بھی ہوتے ہیں …جن میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقاصد اور آپ کی جماعت کے قیام اور اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی وہاں افرادِ جماعت نے شکر بھی ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مانتے ہوئے آنے والے مسیح موعود کو اور مہدی معہود کو ماننے اور اسے سلام پہنچانے کی توفیق بخشی۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا جہاں خوشی اور شکر کا مقام ہے وہاں ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھاتا ہے۔ پس ہمیں ان ذمہ داریوں کی پہچان اور ان کی ادائیگیوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہماری ذمہ داریاں ان کاموں کو آگے چلانا ہے جن کی ادائیگی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ تبھی ہم ان لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر نئی زمین اور نیا آسمان بنانے والوں میں شامل ہونا تھا۔ پس ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ہی دیکھنا ہو گا کہ آپ کی بعثت کے مقاصد کیا تھے اور ہم نے ان کو کس حد تک سمجھا ہے اور اپنے پر لاگو کیا ہے۔ اور ان کو آگے پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقعہ ہوگئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں‘‘ اور دوسری بات کہ ’’سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں‘‘ اور پھر یہ کہ ’’دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں ان کو ظاہر کردوں۔‘‘ چوتھی بات یہ ’’اور روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں‘‘ اور پھر یہ کہ ’’خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ، نہ محض قال سے ان کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک شرک کی آمیزش سے خالی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوّت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے‘‘۔

پس اس اقتباس میں سات بنیادی اور اہم باتیں بیان کی گئی ہیں جو اس زمانے کی ضرورت ہے جس کا خلاصۃً اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا ہے۔ اور جب آپؑ نے یہ فرمایا کہ اس کام کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے ماننے والے ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کر کے اسلام کی خوبصورتی اور زندہ مذہب ہونے کو دنیا کو دکھائیں۔ پس ہمارا پہلا فرض اور سب سے بڑا فرض جو ہمارا بنتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں بڑھیں اور اسے مضبوط کریں۔ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ اور اس کے دین سے تعلق اور محبت اور اخلاص میں بڑھیں۔ دنیا کو بتائیں کہ مسیح موعودؑ کی آمد کے ساتھ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک مقصد ہے۔ اور اب دنیا کو امّت واحدہ بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ غلامِ صادق ہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کے لباس میں بھیجا۔ آپ کے مشن کے مطابق اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اس کی سچائی ہم نے دنیا پر واضح کرنی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے عملوں کو بھی نمونہ بنانا ہو گا۔ روحانیت میں بڑھنے کے نمونے بھی ہمیں قائم کرنے ہوں گے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دور کرنا ہو گا۔ دنیا کو دکھانا ہو گا کہ وہ خدا آج بھی اُسی طرح دعاؤں کو سنتا ہے اور اپنے خالص بندوں کو، اپنے فرستادوں کو جواب بھی دیتا ہے جس طرح پہلے دیتا تھا۔ اپنے خالص بندوں کے دلوں کی تسلی کے سامان بھی کرتا ہے۔ دنیا کو ہم نے بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و یگانہ ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے، ختم ہونے والی ہے۔ صرف اُسی کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پس ہماری بقا اس واحد و یگانہ اور ہمیشہ رہنے والے خدا سے جڑنے میں ہی ہے۔

جب 23؍مارچ کو ہم یوم مسیح موعود مناتے ہیں تو ہمیں ان باتوں کے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعودؑ دنیا میں پیدا کرنے آئے تھے اور ہم جو آپ کے ماننے والے ہیں کیا ہم میں یہ باتیں پیدا ہو گئی ہیں یا کیا ہم اس انقلاب کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍مارچ 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍اپریل2016ءصفحہ5تا6)

نیز فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یوم مسیح موعود منانے والے نہ ہوں بلکہ مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔ آمین‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍مارچ 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل2018ءصفحہ9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button