سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے اہل خانہ اور بیٹیوں سے حسن معاشرت و حسن سلوک

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(القرآن)

خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ (الحدیث)

’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی بچوں کے لئے دعا نہیں کرتا‘‘

’’یوم مسیح موعود‘‘ کے مبارک موقع پر خاکسار نے مناسب سمجھا کہ آپ علیہ السلام کی سیرت کے اس پہلو کو بیان کیا جائے کہ آپ نے قرآن کریم کے ارشاد

وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

اور پیارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے فرمان

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہٖ

پر کس طرح عمل کر کے دکھایا۔

اصل میں توآنحضرتﷺ اسوۂ حسنہ ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپؐ ہی کے نمونہ کو دوبارہ دنیا میں قائم اور زندہ کیا۔ اس کے ساتھ آپؑ نے افراد جماعت کو تلقین فرمائی کہ وہ آپؐ کے نمونہ کو اپنائیں۔

پہلی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خداتعالیٰ کی مشیت کے تحت دومرتبہ شادی کرنے کا اتفاق ہوا۔ پہلی شادی آپ کی بعثت کے زمانہ سے پہلے ہوئی جبکہ آپ ابھی کسی حیثیت سے بھی پبلک میں نہ آئے تھے۔

حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ اپنی کتاب ’’سیرت مسیح موعودؑ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’حضرت مسیح موعودؑ کے خسر اول آپ کے ماموں تھے اور وہ قادیان ہی میں رہتے تھے۔ اس خاندان کے ساتھ آپ کے خاندان کے تعلقات دیرینہ چلے آتے تھے۔ کیونکہ وہ خاندان اپنے صحیح النسب ہونے کے لحاظ سے ممتاز اور مشارالیہ تھا۔ اگرچہ دولت و اقبال کے لحاظ سے وہ اس خاندان کے ساتھ کوئی لگاؤنہیں کھاتا تھا۔ تاہم وہ چیز جو خاندانی شرافت اور نجابت کے لئے ضروری سمجھی گئی ہے اس میں موجود تھی۔ مرزاجمعیت بیگ صاحب آپ کے ماموں اور خُسر یہاں ہی رہتے تھے اورجب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی تجویز ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نکاح ہو گیا۔ کوئی دھوم دھام اور کوئی رسم آپ کے نکاح میں عمل میں نہ آئی۔ یہ تصرف الٰہی تھا چونکہ آپ مامور ہونے والے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی عمر جہاں تک واقعات سے پتہ چلتا ہے اس وقت 15سال سے زیادہ نہ تھی۔‘‘

حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ مزید تحریر فرماتے ہیں کہ

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت پہلے سے خلوت نشینی کی تھی اور عام طور پر آپ کے اوقات عبادت و توجہ الی اللہ اور مطالعہ دینی میں گزرتے تھے اور آپ دنیا اور اس کی دلفریبیوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت ہی نہ پا سکتے تھے……۔‘‘

آپ لکھتے ہیں کہ

’’اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اختیار میں ہوتا اور آپ سے شادی کے متعلق مشورہ لیا جاتا تو شاید آپ ابھی اس کے لئے آمادگی ظاہر نہ کرتے اور انکار کر دیتے مگر آپ ماں باپ کے نہایت ہی سعادت مند اور سعادت گزار فرزند تھے۔ اس لئے جب حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم نے تجویز کی اس پر راضی ہو گئے اور کوئی عذر نہیں کیا…آپ اپنے مشاغل دینیہ کو جاری رکھتے ہوئے معاشرہ کے فرائض کو بھی ادا کر رہے تھے۔ اس زمانے میں کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ آپ نے اپنے گھر میں کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا ہو۔ جہاں تک آپ کے امکان میں تھا اور جن امور کا تعلق آپ کی ذات سے تھا حسن معاشرت کے پہلو اور خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہٖ کی تعلیم کو ہمیشہ مدنظر رکھا اور خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے دو صاحبزادے خان بہادر مرزا سلطان احمد اور مرحوم مرزا فضل احمد صاحب عطا فرمائے۔ اس کے بعد آپ کا دینی شغل دن بدن بڑھتا گیا اور آپ کی توجہ روحانی علوم اور منازل سلوک طے کرنے کی طرف ترقی کرتی گئی اور آپ اس شغل میں اس قدر منہمک ہو گئے کہ دنیا سے آپ کی توجہ بالکل جدا ہو گئی۔ اس عرصہ میں آپ حسن سلوک اور شفقت کے کسی پہلو کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔

لیکن جب آپ کی دوسری شادی ہو گئی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلقات پہلی بیوی کے ساتھ جہاں تک ضروریات زندگی کا تعلق ہے بہت اچھے تھے، آپ ان کی ضروریات کا تکفل فرماتے اور باقاعدہ اخراجات دیتے رہتے تھے، دوسری شادی کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے رعایت، انصاف اورعدل کا احساس کامل فرمایا۔‘‘

ملکہ کی حکومت

حضرت صاحبزادہ مرز ابشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :

’’حضرت مسیح موعودؑ یقیناً ایک خیرالناس وجود تھے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت درجہ پاکیزہ اور حسن و احسان کی خوبیوں سے معمور تھا…حضرت مسیح موعودؑ ایک بہترین خاوند اور بہترین باپ تھے اور گھر کے اس بہشتی ماحول اور اس بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی مستورات، اپنے خانگی تنازعات میں حضرت مسیح موعودؑ کو اپنا ایک زبردست سہارا اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک نہایت مضبوط ستون خیال کرتی تھیں کیونکہ انہیں یہ یقین تھا کہ ہماری ہر شکایت نہ صرف انصاف بلکہ رحمت و احسان کے جذبات کے ساتھ ہی سنی جائے گی۔ مجھے وہ لطیفہ نہیں بھولتا جبکہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کے عہد حکومت میں ایک دفعہ ایک معزز احمدی نے کسی خانگی بات میں ناراض ہو کر اپنی بیوی کو سخت سست کہا، بیوی بھی حساس تھیں وہ خفا ہو کر حضرت مسیح موعودؑ کے گھر آگئیں اور ہماری والدہ صاحبہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ تک اپنی شکایت پہنچائی۔ دوسری طرف وہ صاحب بھی غصہ میں جماعت احمدیہ کے ایک نہایت معزز فرد حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم کے پاس آئے کہ ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ تک اپنے حالات پہنچائے جائیں۔ حضرت مولوی صاحبؓ مرحوم کی طبیعت نہایت ذہین اور بامذاق تھی۔ ان دوست کی بات سن کر کہنے لگے میاں تم جانتے نہیں کہ آجکل ملکہ کا راج ہے۔ پس میرا مشورہ یہی ہے کہ چپکے سے اپنی بیوی کو منا کر گھر لے جاؤ اور جھگڑے کو لمبا نہ کرو۔ چنانچہ ان صاحب نے ایسا ہی کیا اور گھر کی ایک وقتی ناراضگی پھر امن اور خوشی کی صورت میں بدل گئی۔ لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے جو یہ کہا کہ آجکل ملکہ کا راج ہے اس سے ان کی مراد تھی کہ جہاں آجکل انگریزی حکومت کی باگ ڈور ایک ملکہ کے ہاتھ میں ہے وہاں جماعت احمدیہ کی روحانی بادشاہت میں بھی جہاں تک اس قسم کے خانگی امور کا تعلق ہے حضرت مسیح موعودؑ اپنے گھر والوں کی بات کو زیادہ وزن دیتے ہیں اور عورتوں کی ہمدردی اور ان کے حقوق کا آپ کو خاص خیال رہتا ہے۔‘‘

چنانچہ حضور علیہ السلام کے اس حسن سلوک کو دیکھ کر گھر کی سیدھی سادھی خدمت گار خواتین بھی آپس میں کہتیں ’’مِرجا بیوی دی گل بڑی مندا اے‘‘۔

(سیرت و سوانح حضرت اماں جانؓ صفحہ 108)

حضرت مسیح موعودؑ کی خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز ’’دعا‘‘ تھی جو آپ ہر وقت اپنے بیوی بچوں کے لئے کرتے تھے۔ فرماتے ہیں :

’’میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی بچوں کے لئے دعا نہیں کرتا‘‘

(ملفوظات جلداول صفح562-563جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

حضرت اماں جانؓ کی صحت کا خیال

حضرت مسیح موعودؑ حضرت اماں جان کی صحت کا بھی بہت خیال فرماتے تھے۔ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ کی ایک بار آنکھیں دکھنے آئیں اور بہت تکلیف تھی مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ تین تین بار حضرت اماں جانؓ کو سورۃ یٰسین سناتے تھے۔ ’’حضرت اماں جانؓ فرمایا کرتی تھیں لوگوں نے اس سورۃ مبارکہ کو یوں ہی صرف موت کے وقت کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔‘‘

حضرت اماں جانؓ جب بھی بیمار ہوتیں حضرت مسیح موعودؑ آپ کی تیمارداری میں لگ جاتے اور بار بار دوائیں بدل کر دیتے۔ دیکھتے اور پھر دردِ دل سے دعاؤں میں بھی لگ جاتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو الہامات کے ذریعہ صحت کی خوشخبری بھی دیتا۔ ایک الہام آپ کا اس سلسلہ میں یہ ہے۔

رَبِّ اَصِحّ زَوْجَتِیْ ھٰذِہِ

یعنی اے میرے خدا میری اس بیوی کو بیمار ہونے سے بچا اور بیماری سے تندرست کر۔

ایک دفعہ آپؑ دعا کر رہے تھے تو آپ کو الہام ہوا:

’’رَبّ اشفِ زَوْجَتِیْ ھَذِہٖ وَاجْعَلْ لَھَا بَرَکَاتٍ فِی السَّمَاءِ وَ بَرَکَاتٍ فِی الْاَرْضِ‘‘

اے میرے رب میری بیوی کو شفا بخش اور اس کے لئے آسمانی برکتیں اور زمینی برکتیں عطا فرما۔‘‘

حضرت مسیح موعودؑ حضرت اماں جانؓ کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور ضرورتوں کا بھی خیال فرماتے۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت اماں جانؓ اور حضرت اماں جی (حضرت مولوی نور الدین کی بیگم صاحبہ) اپنے بچوں کو ہمراہ لے کر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ساتھ چند روز کے لئے تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے لاہور تشریف لے گئیں۔ 4؍جولائی 1907ء کو یہ قافلہ لاہور روانہ ہوا اور 14؍جولائی 1907ء کو واپس بٹالہ پہنچا۔ حضرت اقدسؑ جو حسنِ معاشرت کا ایک کامل نمونہ تھے اپنی حرم محترم کے استقبال کے لئے چند خدام سمیت، عازم بٹالہ ہوئے۔ حضور پالکی میں سوار تھے اور قرآن کھول کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر رہے تھے۔ جب بٹالہ پہنچے تو بٹالہ سے تحصیلدار رائے بسمل خان صاحبؓ نے اپنے مکان کے متصل اسٹیشن کے قریب ہی آپ کے لئے ایک آرام دہ جگہ کا انتظام کر دیا اور …دوپہر کا کھانا تناول فرما کر حضورؑ اپنی حرم محترم کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر تشریف لے گئے۔ آپ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے گاڑی آچکی تھی اور حضرت اماں جانؓ آپ کو تلاش کر رہی تھیں چونکہ ہجوم بہت زیادہ تھا اس لئے تھوڑی دیر تک آپ انہیں نظر نہیں آسکے۔ پھر جب آپ پر نظر پڑی تو ’’محمود کے ابا‘‘ کہہ کر آپ کو اپنی طرف متوجہ کیا اس پر حضرت اقدس آگے بڑھے اور اپنے زوجہ محترمہ سے مصافحہ کیا اس کے بعد حضور واپس اپنے فرودگاہ پر سب کو لے کر تشریف لائے اور دوپہر کا وقت گزار کر پچھلے پہر عازم قادیان ہوئے اور شام کے قریب بخیریت پہنچ گئے۔

(حیات طیبہ از شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل صفحہ 341)

حضرت مسیح موعودؑ کی نگاہ میں ایک بیوی کا مقام

حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ کی پہلی بیگم صاحبہ 1897ء میں فوت ہوگئی تھیں حضرت اقدسؑ نے ان کو ایک تعزیت کا خط لکھاجس میں میاں بیوی کے تعلقات پر روشنی ڈالی۔ یہ خط آئینہ ہے ان خیالات کا جو آپ کے اندر موجود تھے اور اس آئینہ میں ہم کوآپ کی عائلی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا: درحقیقت اگرچہ بیٹے بھی پیارے ہوتے ہیں بھائی اور بہنیں بھی عزیز ہوتی ہیں۔ لیکن میاں بیوی کا علاقہ ایک الگ علاقہ ہے۔ جس کے درمیان اسرار ہوتے ہیں۔ میاں بیوی ایک ہی بدن اور ایک ہی وجود ہوجاتے ہیں ان کو صدہا مرتبہ اتفاق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی جگہ سوتے ہیں وہ ایک دوسرے کا عضو ہوجاتے ہیں۔ بسا اوقات ان میں ایک عشق کی سی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس محبت اور باہم اُنس پکڑنے کے زمانہ کو یاد کر کے کون دل ہے جو پُر آب نہیں ہوسکتا یہی وہ تعلق ہے چند ہفتہ باہر رہ کر آخر فی الفور یاد آتا ہے۔ اس تعلق کا خدا نے بار بار ذکر کیا ہے کہ باہم محبت اور اُنس پکڑنے کا یہی طریقہ ہے بسااوقات اس تعلق کی برکت سے دُنیوی تلخیاں فراموش ہوجاتی ہیں یہاں تک کہ انبیاء بھی اس تعلق کے محتاج تھے۔ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی غمگین ہوتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے ارحنا یا عائشۃ ہمیں خوش کر کہ ہم اس وقت غمگین ہیں۔ اس سے ثابت ہے کہ اپنی پیاری بیوی، پیارا رفیق انہیں عزیز ہے جو اولاد کی ہمدردی میں شریک غالب اور غم دور کرنے والی خانہ داری کے معاملات کی متولی ہوتی ہے۔

اگرچہ یہ خط حضرت نواب صاحب کے نام ہے مگر اس میں بیوی کی حقیقت اور اس کے تعلق کی مٹھاس اور شیرینی پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے اور بتلایا ہے کہ انبیاء اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس تعلق کے محتاج تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انبیاء پر بعض اوقات غم اور فکر کے ایسے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ اگر ان کو فوق القوۃ طاقت نہ ملی ہو تو شاید وہ ان مصائب کو اٹھانہ سکیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا اگر کوئی انسانی ہستی ان پاک وجودوں کی راحت کا باعث بن سکتی ہے اور ان کے غم کے بوجھ کو ہلکا کر سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف پاک بیوی ہی ہوسکتی ہے۔

(سیرت حضرت اماں جان صفحہ 118، 119، 124)

اہل خانہ سے معاشرت اور حسن سلوک کے بعد خاکسار مضمون کے دوسرے حصہ کی طرف آتا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بتایا جا چکا ہے کہ موجودہ معاشرے میں بھی خواتین کی عزت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ اور لوگ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے بے خبر ہیں۔ اس زمانے میں اب بھی بعض ممالک کی خواتین کو زنداں کی صورت میں گھروں میں قید رکھا جاتا ہے یہی حال بچیوں کی پیدائش پر بھی ہوتا ہے۔ لوگ بالکل اسی طرح جس طرح قرآن شریف میں عرب کی حالت کے سلسلہ میں بیان فرماتا ہے کہ جس کے گھر میں بچی پیدا ہوتی ہے اس کا منہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ اسے اپنی ذلت تصور کرتا ہے۔ یہی حالت اس وقت بھی پائی جاتی ہے۔ جس گھر میں بچیاں ہوجائیں اسے منحوس اور اس عورت پر بھی گھر والے خصوصاً سسرال والے ظلم ڈھاتے ہیں۔ میں حضرت مسیح موعودؑ کی اپنی بچیوں کے ساتھ حسن سلوک اور شفقت کے واقعات لکھنے سے پہلے ایک دو چیزیں اور بیان کرنا چاہتا ہوں۔

حدیث نبویﷺ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ

’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں کہ اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کمزورجان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی‘‘۔

(اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 462 طبرانی)

بیٹیوں والے کو تسلّی

اوسؓ نامی ایک انصاری ایک دفعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپؐ نے ان کے چہرے پر کچھ غم کے آثار دیکھے اور پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میری کئی بیٹیاں ہیں ان کی وجہ سے میرا دل غمگین رہتا ہے۔ اور میں تو ان کی موت کی دعا مانگتا رہتا ہوں۔ یہ سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’دیکھو لڑکیوں میں بھی برکت ہوتی ہے۔ یہ لڑکیاں نعمت کے وقت شکر کرنے والی ہیں۔ مصیبت کے وقت تمہاری ہمدردی میں رونے والی ہوتی ہیں۔ اور تمہاری بیماری کے وقت تیمار داری اور خدمت کرنے والی ہوتی ہیں۔ ان کا بوجھ زمین پر ہے۔ ان کی روزی اللہ کے ذمہ ہے۔ پھر کیوں تم ناحق رنج کرتے ہو۔‘‘

(تشحیذالاذہان مئی 1988ء، ماخوذازرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے صفحہ 66)

بچیوں کے ساتھ حسن سلوک

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور چھوٹی صاحبزادی حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ تھیں۔ خاکسار ہر دو کے کچھ واقعات لکھنا چاہتا ہے جس سے روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ حضرت مسیح موعودؑ کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ کیسا سلوک تھا۔ اور آپ ان کی کس طرح تربیت اور دلداری فرماتے تھے۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ خود فرماتی ہیں کہ

’’میں پیسے مانگتی تو جو پہلی بار ہاتھ میں آجاتا پکڑا دیتے جو اکثر میری طلب سے زیادہ ہوتا تھا۔ آپ علیہ السلام فرماتے کہ ’’تمہاری قسمت ہے، تھوڑا مانگتی ہو بہت ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اب یہی لو۔ میں واپس کیوں رکھوں۔‘‘

آپ بچوں کو نصیحت آموز کہانیاں بھی سناتے

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ

’’ایک بار آپ باغ میں چارپائی پر لیٹےہوئے تھے میں اور مبارک ایک کچھوا آپ کو دکھانے کو لائے پھرآپ نے فرمایا آؤ آج تم کو محرّم کی کہانی سنائیں۔ ہم دونوں پاس بیٹھ گئے۔ آپ نے شہادت حضرت امام حسینؓ کے واقعات سنانا شروع کئے۔ فرمایا وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے۔ ان کو منافقوں نے، ظالموں نے بھوکا، پیاسا کربلا کے میدان میں شہید کردیا۔ فرمایا اس دن آسمان سرخ ہوگیا تھا۔ چالیس روز کے اندر قاتلوں، ظالموں کو خدا تعالیٰ کے غضب نے پکڑ لیا کوئی کوڑھی ہو کر مرا، کسی پر کوئی عذاب آیا اور کسی پر کوئی، یزید کے ذکر پر یزید پلید فرماتے تھے۔ کافی لمبے واقعات آپ علیہ السلام نے سنائے۔ حالت یہ تھی کہ آپؑ پر رقت طاری تھی آنسو بہنے لگتے تھے۔ جس کو اپنی انگشت شہادت سے پونچھتے جاتے تھے۔ وہ کیفیت مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے۔‘‘

(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ 25)

آپؓ بیان کرتی ہیں کہ

’’ایک شام آسمان پر ہلکے ہلکے ابر میں خوبصورت رنگ برنگ کی دھنک دیکھ کر ہم سب بچے خوش ہو رہے تھے آپ اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھے…میں نے کہا ’’یہ جو کمان ہے اس کو سب لوگ پنجابی میں مائی بڈھی کی پینگ کہتے ہیں اس کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔ فرمایا اس کو عربی میں ’’قوس قزح‘‘ کہتے ہیں مگر تم اس کو ’’قوس اللہ‘‘ کہو۔ نیز فرمایا کہ قوس قزح کے معنی شیطان کی کمان کے ہیں‘‘۔ یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہی۔

حضرت مسیح موعودؑ کی زبان میں معجزانہ اثر تھا۔آپ نہ بات بات پر ٹوکتے نہ شوخیوں پر جھڑکنے لگتے بلکہ انتہائی نرمی سے فرماتے کہ یوں نہ کرو۔ جس بات سے آپ نے منع کیا مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھول کر بھی وہ بات پھر کی ہو۔ وہ پیار بھری زبان معجز بیان کہ ایک بار کہا پھر عمر بھر کو اس بات سے طبیعت بے زار ہوگئی۔

مجھے اور مبارک احمد کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر تنبیہ فرمائی کیونکہ قینچی کی نوک اس وقت میں نے مبارک احمد کی طرف کر رکھی تھی فرمایا: ’’کبھی کوئی تیز چیز قینچی، چھری، چاقو اس کے تیز رخ سے کسی کی طرف نہ پکڑاؤ اچانک لگ سکتی ہے۔ کسی کی آنکھ میں لگ جائے کوئی نقصان پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتاوا رہے گا اور دوسرے کو تکلیف‘‘ یہ عمر بھر کو سبق ملا اور آج تک یاد ہے‘‘

(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ3تا4)

آپ کی ایک روایت یہاں درج کرتا ہوں۔

’’ایک دفعہ ہمارے گھر میں کچھ احمدی مہمان عورتیں آئی ہوئی تھیں۔ انہی میں مل کرایک عورت چادر میں لپٹی لپٹائی بیٹھی تھی۔ جب رات ہوئی تو اس نے کچھ فضول باتیں کرنی شروع کر دیں۔ ایک دو لڑکیوں اور عورتوں نے مجھے بتلایا کہ یہ عورت کہہ رہی ہے کہ ’’نبی کیا ایسے ہوتے ہیں کہ پلاؤ بھی کھالیں اور انڈے بھی، مرغی بھی؟‘‘ میں نے اُسی وقت جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا ’’ابّا ! ایک عورت نیچے بیٹھی ہے وہ کہتی ہے کہ کیا نبی ایسے ہوتے ہیں کہ پلاؤ بھی انڈے مرغی بھی کھالیں!‘‘

آپ علیہ السلام اس وقت کسی خاص غور و فکر کی حالت میں بالکل سیدھے لیٹے ہوئے تھے۔ آپ بڑے جوش کی حالت میں اُسی طرح سیدھے ہی اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’کیا بدبخت سمجھتے ہیں کہ تمام پاکیزہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے ہی پیدا کی ہیں اپنے پیاروں کے لئے نہیں؟‘‘

اس وقت آپ کے چہرہ مبارک پر ایک خاص کیفیت کا عالم طاری تھا۔ اور یہی اثر میرے دل پر پڑا اور رہا کہ یہ جوش اور غصہ آپ علیہ السلام کو محض اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ لفظ نبی کے تحت آیا تھا۔ اور یہ غیرت اسی مقام کے لئے تھی جو آپ کو عطا ہوا اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے۔ آپ کو یہ خیال بھی آیا ہوگا کہ یہ چیزیں اس زمانہ میں نہ تھیں اگر اس وقت ہم ہوتے اور یہ بعض خاص کھانے وغیرہ بھی ہوتے تو ہم اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ بھی پیش کرتے۔‘‘

(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ 28تا29)

خاکسار اور خاکسار کے ساتھی مربیان کو یہ سعادت نصیب ہے کہ حضرت مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق مبلغ رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ، سابق امیر و مشنری انچارج امریکہ جب سیکرٹری حدیقۃ المبشرین تھے تو انہوں نے ہماری سب مربیان کی ملاقات حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ سے کروائی تھی۔ ہم سب باہر کھڑے تھے تو دروازے کے پیچھے سے آپ نے چند روایات سنائیں اور اُن میں سے ایک یہی روایت ہے جو اوپر درج ہوچکی ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

حضرت سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ

آپؓ بہت پاک صورت تھیں حضرت مسیح موعودؑ سے آپ کی بہت مشابہت تھی۔ آپؓ غیر معمولی طور پر ذہین تھیں۔ تین ساڑھے تین سال کی عمر میں خوب باتیں کرتی تھیں۔ چنانچہ صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ابن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تحریر کرتے ہیں :

’’گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کی عمر صرف چار سال کی تھی مگر آپ اس کم سنی میں بھی فطری طور پر ودیعت شدہ قابلیتوں کی بنا پر بہت ذہین اور ہوش مند بچی تھیں۔ آپ کی اس فطری ذہانت اور ہوشمندی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے ایک مقام کی تفسیر کے بیان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید کر دیا ہے:

’’حضرت عیسیٰؑ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینے کے بولنے لگے اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ چار برس کے ہوئے کیونکہ یہ وقت تو بچوں کے پنگھوڑوں میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کے لئے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔ ہماری لڑکی امۃ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے۔‘‘

(تفسیر آل عمران:35)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان ایک قرآنی صداقت کے اظہار کے علاوہ اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ آپ ایک محبت کرنے والے باپ تھے اور جیسے ہر محبت کرنے والا باپ اپنی اولاد کی بچپن کی حرکات اور خصوصیات کو قلبی محبت سےیاد رکھتا ہے اور ان کو بیان بھی کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی ہماری پھوپھی کی خداداد ذہانت اور ہوش مندی کو یاد رکھا اور اس کو ایک قرآنی آیت کی تفسیر میں بیان کر کے ہماری پھوپھی کو حیات جاوداں بخشی۔

ایک روایت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ سیر کے لیے تشریف لے جانے لگے تو خادمہ نے آکر اطلاع دی کہ حضرت اماں جانؓ فرماتی ہیں کہ امۃ الحفیظ رو رہی ہیں اور بضد ہیں کہ اپنے ابا جان کے ساتھ باہر جانا ہے۔ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا اس کو لے آؤ چنانچہ خادمہ امۃ الحفیظ بیگم کو باہر لے کر آئی تو آپ نے ان کو گود میں اٹھا لیا اور آپ اپنی گود میں اٹھائے سیر کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔

(ماخوذ از ’’دختِ کرام‘‘ صفحہ 317-318)

اور یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی حضرت مسیح موعودؑ بچوں کے احساسات کا خیال کرتے تھے جیسا کہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ آپ بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے باہر نکل آیا کرتے تھے اور سیرمیں بھی اٹھا لیا کرتے۔ صاحبزادی امۃ النصیر کی وفات پر ان کا جنازہ بھی اپنے ہاتھوں پر اٹھایا تھا اور چھوٹے بازار سے باہر نکلنے تک یعنی اڈا خانہ تک ہی اٹھائے ہوئے لے گئے تھے۔ یہ تمام واقعات حضور کی کمال شفقت اور محبت پر دلالت کرتے ہیں۔

خوشی کی تقاریب میں شرکت

بچوں کی ہر قسم کی خوشی کی تقریبوں کو آپ مناتے اور ان میں شریک ہوتے۔ آمین کے جلسے ہوتے تھے۔ اور اس تقریب پر سچی اورحقیقی خوشی کا اظہار ہوتا تھا اور نمونہ دکھایا جاتا تھا۔ مگر یہ تقریبیں مسنون اور معروف ہوتی تھیں۔ آپ یہ کبھی پسند نہ فرماتے تھے کہ ان تقریبات پر کسی قسم کا کوئی ایسا فعل ہو جو خلاف شریعت اور خلاف سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو۔ بچوں کے عقیقہ کی تقریب تو ان کے بچپن کے ایسے وقت ہوتی ہے کہ ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا۔ البتہ آمین کی تقریب ایسی تھی کہ وہ محسوس کرتے تھے اور جانتے تھے کہ کیا ہورہا ہے۔ ان تقریبوں کی کیفیت اور اس وقت کے جذبات کا اظہار ہر ایک آمین سے ہوتا ہے۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ (مرزا بشیرالدین محمود احمد) کی آمین کی تقریب کے بعد پھر تمام بچوں کی آمین کی ایک ہی تقریب تھی اور ہر دو آمین کی تقاریب شائع شدہ ہیں۔

غرض حضورؑ بچوں کی خوشیوں کی تقریب میں شریک ہوتے تاکہ ان کی خوشی دوبالا ہوجاوے۔ اور ایسی تقریب کا بابرکت ہوجانا تو ظاہر بات ہے۔ اکثر لوگ بچوں کی معصوم غلطیوں پر توجہ نہیں دیتے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس عمر میں بھی آپ کی تربیت کا خیال تھا جیسا کہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ روایت کرتی ہیں:

’’میری ہمشیرہ امۃ الحفیظ ؓبالکل چھوٹی سی تھیں کسی جاہل خادم سے ایک گالی سیکھ لی اور توتلی زبان میں حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے کسی کو دی۔ آپ نے بہت خفگی کا اظہار فرمایا۔ اور فرمایا کہ اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہوجاتے ہیں۔ بچے کو فضول بات ہرگز نہیں سکھانی چاہئے۔‘‘

حضور ؑنے حضرت اماں جانؓ کی خرابی صحت اور آرام کی وجہ سے آپ کے لیے ایک کھلائی کا انتظام کیا جس کے بارے میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی ایک تحریر پڑھیے۔ آپ فرماتی ہیں :

’’ایک چھوٹی سی بات لطیفہ ہی سمجھ لیں۔ یاد آگئی ہے وہ بھی سن لیں۔ ہمشیرہ امتہ الحفیظ کے لئے ایک کھلائی(دایا) کا آپ نے کسی احمدی بھائی کو لکھ کر انتظام کروایا تھا۔ پنڈی سے کسی بھائی نے ایک بہت صاف ستھری ہوشیار عورت کو بھجوا دیا تھا بہت بہتر معلوم ہوتی تھیں۔ وفا بیگم نام تھا۔ وعدہ لیا گیا کہ بچی کو چھوڑ کر نہیں جانا ہوگا اور جب تک ہوشیار ہوجائے اس کو پالنا ہوگا۔ وفا بیگم نے بڑے وثوق سے عہد کئے تھے کہ ہرگز چھوڑ کر نہیں جاؤں گی وغیرہ کام بھی اچھا کرتی تھیں۔ مگر ایک روز صبح دیکھا گیا کہ وفا بیگم چپکے سے رات کو لڑکی کو چھوڑ کر غائب ہوگئیں جب یہ خبر حضرت مسیح موعودؑ کو اوپر پہنچائی گئی تو آپ نے فی البدیہہ فرمایا:

عجب ہے رنگ دنیا کا، وفا نےبے وفائی کی

بہت وعدے کئے اس نے آخر میں برائی کی‘‘

(الفضل18؍دسمبر1968ء)

حضرت مصلح موعودؓ آپ کے بچپن کی بات بتاتے ہیں :

’’امۃ الحفیظ ڈھائی سال کی تھی۔ کبھی کبھار حضرت مسیح موعودؑ کے پاس جا کر کہا کرتی تھی کہ ابا مجھے چیجی (چیز) دو۔ اور حضرت مسیح موعودؑ اسے کوئی چیز کھانے کی دے دیا کرتے تھے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 18 صفحہ 583)

’’حضرت اماں جانؓ کو احساس تھا کہ صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم ؓچھوٹی عمر کی ہیں اور شاید حضرت مسیح موعود ؑکی زندگی میں جوانی کو نہ پہنچ سکیں۔ اس خیال کے مدنظر آپ نے ایک دونی(دو آنے کا سکہ) پر حضورؑ سے دعا کروا کے امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے لئے اپنے پاس رکھ لی۔ وہ دونی آج اسی طرح دخت کرام کی چھوٹی بیٹی فوزیہ شمیم صاحبہ کے پاس محفوظ ہے۔‘‘

(سیرت و سوانح خاتون مبارکہ دخت کرام صفحہ 32-35)

یہ چند واقعات حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اہل خانہ اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی تعلیم و تربیت سے متعلق ہیں۔ خدا کرے کہ ہم سب ان سے فیض یاب ہوں اور یہ ہماری تربیت کے لیے مشعل راہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق اپنے اخلاق کو ڈھالنے توفیق دے۔ ( آمین)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button