احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
قلمی مجاہدات
انگریز حکومت کی خصوصی توجہ کا مرکز پنجاب
ہندوستان کا وہ علاقہ جو عیسائی تبلیغی سرگرمیوں کا سب سے زیادہ نشانہ تھا وہ صوبہ پنجاب تھا ۔اس صوبہ پنجاب کو تبلیغ عیسائیت کے لیے بنیادی مرکز(base)قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ
’’پنجاب کے سرحدی لائن سے اور اسے اپنے کام کا base بنا کر عیسائیت ان مقامات تک پھیل سکتی ہے جہاں ابھی اس کا نام بھی نہیں پہنچا۔‘‘نیز یہ کہ ’’ وسط ایشیا میں عیسائیت کے مشنری کام کے لئے پنجاب ایک قدرتی base معلوم ہوتا ہے۔‘‘
(The Missions by R.Clark P.17
بحوالہ بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز از مولانا عبدالرحیم درد صاحب ص31)
پنجاب کی اس اہمیت کے پیش نظر لندن کی چرچ مشنری سوسائٹی نے یہاں کے لیے نا مزد عیسائی مبلغین کو 20جون 1851ءکو جو ہدایات جاری کیں ان میں یہ ہدایت بھی تھی :
’’We may trust that if the tidings of a Saviour‘s advent be spread with the first introduction of a Christian Government, a mighty impulse and advancement will be given to the Christian cause‘‘.
(The Missions of the Church Missionary Society by R.Clark P.2 – 3)
ترجمہ : ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ایک نجات دہندہ کی آمد کی خوشخبری عیسائی حکومت کے شروع ہونے کے ساتھ ہی لوگوں میں پھیلائی جائے تو عیسائیت کے حق میں ایک زبر دست اور ترقی پذیر تحریک ہو گی۔
شائد یہی وجہ ہے کہ انگریز حکام کی عیسائیت کی تبلیغی مساعی میں شرکت یہاں کہیں زیادہ نمایاں اور واضح ہے چنانچہ اس کا اعتراف کرتے ہوئے پنجاب کے ایک لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن نے 1888ءمیں مشنر ی کانفرنس میں فخریہ طور پر یہ اعلا ن کیا :
’’پنجاب کے گورنروں نے عیسائی مشنوں کی حمایت اور عملی اعانت کی روایات قائم کر دی ہیں ۔ یہ امر اپنی آپ ہی مثال ہے کہ پنجاب میں سی۔ ایم۔ایس کے بہت سے مشنوں کی بنیاد ان عام عیسائیوں نے رکھی ہے جو سرکاری ملازم ہیں۔‘‘
مزید کہا کہ
’’جن لوگوں کے میں نے نام لئے ہیں وہ مشنری کام کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش تھے۔جنہوں نے خداوند کی توقیر کی اور اس کے نام کا لوگوں کے سامنے اقرار کیا۔ وہ پنجاب کے نظم و نسق کے بہترین اور نہایت ممتاز افسر اعلیٰ تھے جو کبھی اس صوبہ میں پیدا ہوئے ہیں وہ ایسے اشخاص تھے جن کے نام کو لوگ بہت عزت اور توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔لارنس،منٹگمری،ایڈورڈز ،میکلورڈ ،رینل،ٹیلر ایسے نام ہیں ۔جو اس صوبہ کے ہر گھر میں معروف ہیں۔بعض اس صوبے کے باہر بھی ،بعض یورپ میں اور ہر اس جگہ جہاں ہندوستان کی تاریخ پڑھی جاتی ہے مشہور ہیں ۔وہ مشن جو انہوں نے ہمارے سرحدی صوبے میں قائم کئے سرحدی چوکی کی طرح قائم کھڑے ہیں۔‘‘
(بانیٔ سلسلہ احمدیہ اورانگریز از مولانا عبدالرحیم صاحب درد ص 38)
غرضیکہ ہندوستان میں عیسائی پادریوں کا انگریز حکومت کی زیر سرپرستی ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف قدیم اور جدید عیسائی اورمسلم تاریخ نویسوں کے ہاں مشترک ہے۔ چنانچہ ایک مسلمان تاریخ نویس عالم کا قول ہے کہ
’’عیسائی پادری مذہب مسیحیت کی تبلیغ و دعوت اور دین اسلام کی تردید میں سرگرم تھے ۔ حکومت وقت جس کا سرکاری مذہب مسیحیت تھا،ان کی پشت پناہ اور سر پرست تھی ۔وہ ہندوستان کو یسوع مسیحؑ کا عطیہ اور انعام سمجھتی تھی۔‘‘
(قادیانیت از سید ابو الحسن ندوی طبع اول ص 45)
ایک اور مسلمان مؤرخ کی رائے ہے کہ
’’حقیقت نفس الامری یہ ہے کہ پادریوں کی تحریک و تبلیغ میں خود گورنر شامل رہے ہیں۔مبلغین عیسائیت کو باقاعدہ امداد کیا بلکہ تنخواہیں دی جاتی تھیں۔اور بعض گورنر تبلیغ میں خاص دلچسپی اور جوش وسرگرمی رکھتے تھے۔‘‘
(1857ء پہلی جنگ آزادی واقعات و حقائق از میاں محمد شفیع ص119)
اس صدی کے دوران ہندوستان میں اس شاخ کی بڑھنے والی تعداد کے بارہ میں لکھا ہے کہ
‘‘In 1914 the number of baptized Protestants was about one million….However, since a century earlier Indian Protestants had numbered only a few hundred.’’
(Christianity in a Revolutionary Age ,Vol.3 by K.S.Latourette,P.407)
ترجمہ: 1914ءمیں بپتسمہ شدہ پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہو چکی تھی۔جبکہ ایک صدی قبل وہ محض چند سو تھے۔
ان عیسائی ہونے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے۔ حتیٰ کہ مسجدوں کے امام،خطیب اور مولوی بھی اس رو میں بہ گئے تھے۔اور کم و بیش دو سو مولویوں کے عیسائی ہو جانے کا ذکر ملتا ہے۔(ایسے علما ء کی فہرست کے لیے ملاحظہ ہو رسالہ’’خط شکاگو‘‘از پادری عمادالدین مطبوعہ1893ءو ’’وفات مسیح اور احیائے اسلام‘‘از مولانا دوست محمد شاہد صاحب ص44)۔
ان مولویوں میں سے بہت سے ایسے تھے جو عیسائی ہونے کے بعد عیسائیت کی تبلیغ کے لیے وقف ہو کر پادری بن گئے تھے۔چنانچہ آگرہ کی شاہی مسجد کے امام خطیب مولوی عمادالدین صاحب ریورنڈ مولوی عمادالدین کہلائے۔پادری مولوی رجب علی، پادری مولوی سید احمد شاہ،پادری سلطان محمد خان،پادری عبدالحق،پادری عبداللہ آتھم،اور پادری حافظ احمد مسیح دہلوی سب مسلمان مولوی تھے۔ اور آخر الذکر حافظ قرآن بھی تھے۔ چند اور مولوی جو عیسائی ہو کر پادری بن گئے تھے ان کے اسماء یہ ہیں: میاں سراج الدین، مولوی عبدالرحمٰن ،مولوی نظام الدین ،مولوی حسام الدین بمبئی، مولوی عبداللہ بیگ ،اور مولوی حارث دین وغیرہ۔
عیسائیوں کی ان کوششوں کے نتیجہ میں ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ 1888ءمیں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن نے عیسائیوں کی غیر معمولی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ
’’جس رفتار سے ہندوستان کی معمولی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے چارپانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے۔‘‘
(بانی سلسلۂ احمدیہ اور انگریز از مولانا عبدالرحیم صاحب دردص 37)
اس کامیابی کو عیسائی تاریخ میں منفرد قراردیتے ہوئے ان صاحب نے مزید لکھا کہ
’’عیسائیوں کی جماعت ایسی تیز رفتاری کے ساتھ پھیل رہی ہے کہ جتنی وہ قرون اولیٰ کے بعد کبھی نہیں پھیلی۔‘‘
(بانی سلسلۂ احمدیہ اور انگریز از مولانا عبدالرحیم صاحب دردصفحہ37)
سارے ہندوستان سمیت ملک عرب اور خاص مکہ ومدینہ پرصلیبی پرچم لہرانے کایہ وہ دجالی منصوبہ تھا کہ جس کی کامیابی کے خواب وہ دیکھ رہے تھے اور اس کے پوراہونے کی امیدیں بھی رنگ لارہی تھیں۔اس زہرناک طوفانی ہواکاذکرکرتے ہوئے ایک دردمند دل رکھنے والے اس عاشق محمدمصطفیٰ ﷺ کی ایک تحریرپڑھیے۔جواس تاریک رات کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:
’’اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردُشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گئی دُکھا۔ پس کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کیلئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔ سو بھائیو تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اور بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے۔ اگر تم ان تمام فتنوں کو ایک پلہ میزان میں رکھو اور دوسرے پلہ کیلئے تمام حدیثوں اور سارے قرآن کریم میں تلاش کرو تو ان کے برابر کیا ان کا ہزارم حصہ بھی وہ فتنے قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہوں گے پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجّال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کی رُو سے اس سے بدتر ہوگا۔ کیا تم ثابت کرسکتے ہو کہ ان فتنوں سے بڑھ کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ایسے اور فتنوں کا پتہ ملتا ہے جن کا اب نام و نشان نہیں یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم ان فتنوں کی نظیر تلاش کرنے کیلئے کوشش کرو یہاں تک کہ اسی کوشش میں مر بھی جاؤ تب بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوگا کہ کبھی کسی زمانہ میں ان موجودہ فتنوں سے بڑھ کر کوئی اور فتنے بھی آنے والے ہیں۔
صاحبو! یہاں وہ دَجّالیّتیں پھیل رہی ہیں جو تمہارے فرضی دجال کے باپ کو بھی یاد نہیں ہونگی۔ یہ کارروائیاں خلق اللہ کے اغواکے لئے ہزارہا پہلو سے جاری کی گئی ہیں جن کے لکھنے کیلئے بھی ایک دفتر چاہئے اور ان میں مخالفین کو کامیابی بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی ہوئی ہے کہ دلوں کو ہلا دیا ہے اور ان کے مکروں نے عام طور پر دلوں پر سخت اثر ڈالا ہے اور ان کی طبیعی اور فلسفہ نے ایسی شوخی اور بے باکی کا تخم پھیلادیا ہے کہ گویا ہر ایک شخص اس کے فلسفہ دانوں میں سے اَنَا الرَّبّ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ پس جاگو اور اٹھو اور دیکھو کہ یہ کیسا وقت آگیا اور سوچو کہ یہ موجودہ خیالات توحید محض کے کس قدر مخالف ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا خیال بھی ایک بڑی نادانی کا طریق سمجھا جاتا ہے اور تقدیر کے لفظ کو منہ پر لانے والا بڑا بےوقوف کہلاتا ہے اور فلسفی دماغ کے آدمی دہریت کو پھیلاتے جاتے ہیں اور اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ تمام کَل اُلوہیّت کی کسی طرح ہمارے ہاتھ میں ہی آجاوے ہم ہی جب چاہیں وباؤں کو دور کردیں موتوں کو ٹال دیں اور جب چاہیں بارش برسادیں کھیتی اُگالیں اور کوئی چیز ہمارے قبضہ قدرت سے باہر نہ ہو۔ سوچو کہ اس زمانہ میں ان بے راہیوں کا کچھ انتہا بھی ہے ان آفتوں نے اسلام کے دونوں بازوؤں پر تبر رکھ دیا ہے اے سونے والو بیدار ہوجاؤ اے غافلو اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5ص 51.- 53)
یہی وہ خوفناک وقت تھا کہ
’’ وَمَا مِنْ نَبِيِّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ ‘‘
(سنن ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی علامۃ الدجال حدیث 2235)کہ ہرنبی اس دل دہلادینے والے کرب وبلاکے زمانے سے ڈراتاچلاآیاتھا۔لیکن یہ نبی جونذیرہوتے ہیں وہ بشیربھی ہواکرتے ہیں ۔وہ زمانے کی زہریلی ہواؤں کے تریاقی انفاس کی بشارت بھی لاتے ہیں ۔اگردجال کی خبریں تھیں تو اس مسیح کی خوشخبری بھی ساتھ تھی کہ جس کے ہاتھوں اس کی ابدی موت مقدرتھی۔ اور وہ مسیح مبعوث ہوا۔رحمت کی ہواؤں نے اس کی منادی کی ۔اس کاذکرکرتےہوئے حضورعلیہ السلام ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’اے بھائیو! اس زمانہ میں وہ زہرناک ہوا اندرونی اور بیرونی طور پر پھیلی ہوئی ہے کہ جس کا استیصال انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ اس خدائے حیّ و قیّوم قادر مطلق کے اختیار میں ہے جو موسموں کو بدلتا اور و قتوں کو پھیرتا اور خشک سالی کے بعد باران رحمت نازل کرتا ہے۔ اور جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ گرمی کی شد ّت آخر بارش کو کھینچ لاتی ہے اس طرح پر کہ جب گرمی کمال کو پہنچتی ہے اور اس درجہ کے قریب اپنا قدم رکھنے لگتی ہے کہ جس سے قریب ہے کہ بنی آدم ہلاک ہوجائیں تب اس صانع قدیم کی حکمت کاملہ سے اس گرمی کا ایک تیز اثر سمندروں میں پڑتا ہے اور بوجہ شدّت اُس گرمی کے سمندروں میں سے بخارات اٹھتے ہیں تب سمندروں کی ہوا جو کہ سرد اور بھاری اور امساک کی قوت اپنے اندر رکھتی ہے ان بخارات کو اپنے میں جذب کر کے ایک حاملہ عورت کی طرح ان سے بھر جاتی ہے اور قرب و جوار کی ہوائیں قدرتی طور پر متحرک ہوکر اس کو دھکیلتی اور حرکت میں لاتی ہیں اور خود واسطہ بن کر اس بات کیلئے موجب ٹھہرتی ہیں کہ تا وہ ہوا بادلوں کی صورت میں ہو کر اپنے تئیں طبعاً اسی زمین کی طرف لاوے جہاں کی ہوا اس کی نسبت زیادہ گرم اور لطیف اور کم وزن اور کم مزاحم ہو۔ تب اُسی قدر کے موافق بارش ہوتی ہے کہ جس قدر گرمی ہوتی ہے۔ یہی صورت اُس روحانی بارش کی بھی ہے جو ظاہری بارش کی طرح قدیم سے اپنے موسموں پر برستی چلی آئی ہے یعنی اس طرح پر کہ خشک سالی کے ایام میں جب کہ خشک سالی اپنے کمال اور انتہا کو پہنچ جاتی ہے یکدفعہ مستعددلوں کی گرمی اور طلب اور خواہش کی حرارت نہایت جوش میں آجاتی ہے تب وہ گرمی رحمت کے دریا تک جو ایک سمندر ناپیدا کنار ہے اپنے التہاب اور سوز کو پہنچا دیتی ہے۔ تب دریائے رحمت اس کے تدارک کیلئے توجہ فرماتا ہے اور فیض بے علّت کے نورانی بخارات نکلنے شروع ہوجاتے ہیں تب وہ مقرب فرشتے جو اپنے نفس کی جنبش اور جوش سے سرد پڑے ہوئے اور نہایت لطیف اور
یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
کا مصداق ہیں ان فیوض کو قبول کر لیتے ہیں پھر ان فرشتوں سے تعلق رکھنے والی طبیعتیں جو انبیاء اور رسل اور محدثین ہیں اپنے حقانی جوشوں سے ان کو حرکت میں لاتے ہیں اور خود واسطہ بن کر ایسے محل مناسب پر برسا دیتے ہیں جو استعداد اور طلب کی گرمی اپنے اندر رکھتا ہے یہ صورت ہمیشہ اس عالم میں بوقت ضرورت ہوتی ہی رہتی ہے ہاں اس بھاری برسات کے بعد جو عہد مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوچکی ہے بڑی بڑی بارشوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اور وہ مُصفّا پانی اب تک ضائع بھی نہیں ہوا مگر چھوٹی چھوٹی بارشوں کی ضرورت ہے تا زمین کی عام سرسبزی میں فرق نہ آجائے سو جس وقت خدا وند حکیم و قدیر دیکھتا ہے کہ زمین پر خشکی غالب آگئی ہے اور اس کے باغ کے پودے مرجھائے جاتے ہیں تب ضرور بارش کا سامان پیدا کردیتا ہے یہ قدیم قانون قدرت ہے جس میں تم فرق نہیں پاؤگے۔ اسی کے موافق ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ ان دنوں میں بھی اپنے عاجز بندوں پر رحم فرماتا۔ زمانہ کی حالت کو دیکھو اور آپ ہی ایمانًا گواہی دو۔ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں الٰہی مددوں کی دین اسلام کو ضرورت ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5ص -50 51)
عیسائیت کے اسی عروج اور شان و شوکت کے زمانہ میں بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے امت محمدیہ میں ایک مسیح اور مہدی کی آمد کی خبر دی تھی جس کا ایک بڑا کام کسر صلیب اور قتل دجال تھا ان پیشگوئیوں کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑکو انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں مسیح موعود بنا کر بھیجا ۔آپ نے اس مشن کی تکمیل کے لئے جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے عیسائی حکومت کی سر پر ستی میں کام کرنے والے پادریوں کو دجال موعود سے تعبیر کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ بطور مسیح موعودمیرا کام صلیب کو توڑنا اور دجال کو قتل کرنا (یعنی دلائل کے میدان میں شکست دینا) ہے نیز فرمایا کہ
’’مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقا دکو پاش پاش کر دیا جائے۔‘‘
(فتح اسلام صفحہ 17حاشیہ،روحانی خزائن جلد 3ص11حاشیہ)
اس کے ساتھ ساتھ ہی آ پ اسلام کے بطل جلیل کے طور پر میدان کار زار میں اترے اور نہ صرف اسلام کا عیسائیت کے جارحانہ حملوں سے دفاع کیا بلکہ اس پر تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جاری کیا۔آپ نے عیسائیوں کے نام نہاد خدا حضرت عیسٰیؑ کی طبعی موت کا اعلان کیا اور اس کو نقلی اور عقلی طور پر ثابت کر کے ان کے بنیادی عقیدہ الوہیت مسیح، تثلیث اور کفارہ پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ بقول مولانا ابوالکلام آزاد ’’عیسائیت کا طلسم دھواں بن کر اڑنے لگا‘‘(ابوالکلام آزادنے لکھا کہ ’’… اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے ابتدائی اثرکے پرخچے اڑائے جوسلطنت کے سایہ میں ہونے کہ وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کاطلسم دھواں ہوکراڑنے لگا۔‘‘ (اخبار وکیل مئی 1908ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 1ص 14)اور اس ایک ہی وار سے قصر صلیب زمین بوس ہو گیا ۔
پادری لیفرائے جوبڑے طمطراق سے ہندوستان کوعیسائیت کے نام پرفتح کرنے کے خواب لے کرولایت سے یہاں آیاتھا اسلام کے اس بطل جلیل سے اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا۔
مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کے ترجمہ قرآن کادیباچہ مولوی نورمحمد نقشبندی صاحب نے لکھااس میں وہ لکھتے ہیں :
’’اسی زمانہ میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کراور حلف اٹھا کرولایت سے چلاکہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کوعیسائی بنا لوں گا۔ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کااقرارلے کرہندوستان میں داخل ہوکربڑاتلاطم برپاکیا…حضرت عیسیٰ کے آسمان پربجسم خاکی زندہ موجودہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کاحملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگرہواتب مولوی غلام احمدقادیانی کھڑے ہو گئے۔ اور لفرائے اوراس کی جماعت سے کہاکہ عیسیٰ جس کاتم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہوکردفن ہوچکے ہیں اور جس عیسیٰ کے آنے کی خبرہے وہ میں ہوں پس اگرتم سعادت مندہو تومجھ کو قبول کرلو۔ اس ترکیب سے اس نے لفرائے کواس قدرتنگ کیاکہ اس کو اپنا پیچھاچھڑانا مشکل ہوگیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کرولایت تک کے پادریوں کوشکست دے دی۔‘‘
(معجز نما کلام قرآن شریف مترجم، دیباچہ صفحہ30 ازمولوی نورمحمدصاحب نقشبندی چشتی مالک اصح المطابع دہلی)
عیسائیت کے ان جارحانہ حملوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں دوسرے مذاہب نے بھی اسلام اور بانیٔ اسلام پرتندوتیزحملے شروع کردیے ۔جس میں سے ایک اور نمایاں نام آریہ سماج کاتھا۔ ایک نئی جنم لینے والی پرجوش تنظیم، جس کے بانی پنڈت دیانندسرسوتی تھے۔ برہموسماج اور دیگرتنظیموں اور مذاہب کے عفریت اس کے سوااسلام کے نازک جسم پراپنے اپنے پنجے گاڑنے کے لئے تیارتھے۔ اور اسلام تھاکہ مظلوم وبے کس ’’ہمچوزین العابدین‘‘ اس کادفاع کرنے والااول توکوئی تھانہیں اور جوچندایک تھے وہ اپنی سی کوشش ناتمام میں مصروف توتھے لیکن اس تندوتیزطوفانی ہواؤں کامقابلہ کرنے کے لیے لاچاروبےبس تھے۔اور منتظرتھے کہ کوئی مردخداغیب سے ظہورمیں آئے اور ظلمت وضلالت کے گہرے سمندرمیں ڈوبتے ہوئے،یاس و امید کے بھنورمیں پھنسے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں کوتھام لے ۔
اس دورکے مسلمانوں کی کس مپرسی کاذکرکرتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب قادیانیت میں لکھتے ہیں :
’’ مسلمانوں پر عام طور پر یاس و ناامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا۔ 1857ء کی جدوجہد کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہٴ کار سے انقلابِ حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مردِ غیب کے ظہور اور ملہم اور مویّد من اللہ کی آمد کی منتظر تھی………
پنجاب ذہنی انتشار و بے چینی، ضعیف الاعتقادی اور دینی ناواقفیت کا خاص مرکز تھا…….پنجاب کے مسلمانوں کے عقائد میں تزلزل اور دینی حمیت میں خاصا ضعف آ چکا تھا۔ صحیح اسلامی تعلیم عرصہ سے مفقود تھی۔ اسلامی زندگی اور معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو چکی تھیں۔دماغوں اور طبیعتوں میں انتشار و پراگندگی تھی۔ ‘‘
(قادیانیت از سید ابو الحسن علی ندوی ص 12۔ 13مکتبہ دینیات لاہور)
سید ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب قادیانیت میں لکھتے ہیں :
’’ عالم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکا ر تھا اس کے چہرہ کا سب سے بڑا داغ وہ شرکِ جلی تھا جو اس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا تھا ۔قبریں اور تعزئیے بے محابا پُج رہے تھے۔غیر اللہ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی تھی۔بدعات کا گھر گھر چرچا تھا ۔خرافات اور توہمات کا دَور دَورہ تھا۔یہ صور ت حال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سنت کی دعوت اور اپنی پوری قوت کے ساتھاَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُکا نعرہ بلند کرے۔‘‘
(قادیانیت از سید ابو الحسن علی ندوی ص80-81مکتبہ دینیات لاہور)
نواب نور الحسن خان صاحب اپنی کتاب اقتراب الساعة میں فرماتے ہیں:
’’خلق کا یہ حال ہے کہ جو لوگ اچھے کام رات دن کرتے ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰة یا جو مال اپنے اوپر یا اپنے گھر بار پر صَرف کرتے، اٹھاتے ہیں اس میں بھی تو ان کی نیت مطابق شرع کے نہیں ہوتی ہے۔ یا تو دکھانا ، سنانا، ناموری حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے یا اسراف و تبذیر میں گرفتار ہوتے ہیں۔ پھر بھلا خداکی راہ میں جان دینے کو بے مطلب دنیا کے آج کل کون نکل سکتا ہے۔ وہ دن گئے کہ لوگ دین کے پیچھے دنیا پر لات مارتے تھے۔ اب تو جو کام دین کے پردے میں بھی ہوتا ہے وہ بھی غالباً دنیا طلبی ہی کے لئے ہوتا ہے۔ پھر اس جدال و قتال کو کس طرح جہادِ دین سمجھا جاوے۔ غزو فی سبیل اللہ ٹھہرایا جاوے۔ عوام تو جب سے دنیا ہے تب ہی سے کالانعام ہو رہے ہیں۔ خواص میں چراغ لے کر، مشعل جلا کر اگر ڈھونڈو گے تو ہزار میں ایک بھی بے ریا و سمع نہ ملے گا۔ یہ بڑے بڑے فقیہ ، یہ بڑے بڑے مدرس، یہ بڑے بڑے درویش جو ڈنکا دینداری، خدا پرستی کا بجا رہے ہیں، ردّ حق، تائید باطل، تقلید مذہب ، تقیید مشرب میں مخدوم عوام کالانعام ہیں۔ سچ پوچھو تو دراصل پیٹ کے بندے، نفس کے مرید، ابلیس کے شاگرد ہیں۔چندیں شکل از برائے اکل
ان کی دوستی دشمنی ان کے باہم کا ردّ و کدّ فقط اسی حسد و کینہ کے لئے ہے نہ خدا کے لئے، نہ امام کے لئے، نہ رسول کے لئے۔ علم میں مجتہد، مجدد ہیں لیکن حق، باطل، حلال، حرام میں کچھ فرق نہیں کرتے۔ غیبت، سبّ و شتم، خدیعت و زور، کذب و فجور افتراء کو گویا صالحات باقیات سمجھ کر رات دن بذریعہٴ بیان و زبان خلق میں اشاعت فرماتے ہیں۔ یہی زبان ذریعہ ان کی معاش کا ہے۔ تھوڑا بہت ڈر خدا کا اگر کسی کو ہے تو انہیں بیچارے غرباء موحدین متبعین سنت کو ہے جن کو سب نے اپنے خیال خام میں ناکام سمجھ رکھا ہے۔‘‘
(اقتراب الساعةاز نواب نور الحسن صاحب صفحہ 7-8 مطبع:مفید عام آگرہ 1301ھ)
٭…٭…(باقی آئندہ)…٭…٭