سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

1860ء تا 1867ء

سیالکوٹ کا زمانہ

…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……

سیالکوٹ کے زمانہ سے متعلق کچھ اہم واقعات

بَلا سنگھ سے دوڑ

سیالکوٹ کے اسی زمانے سے تعلق رکھنے والاایک اوردلچسپ واقعہ بھی قابل ذکرہے جس سے آپؑ کی دینی غیرت اور محبت کا پتہ چلتاہے۔ سیالکوٹ کاشہراوراس کے لوگ آپؑ کے عشق الٰہی اور عشق رسولﷺ کے علمی اورروحانی میدان کے گواہ توتھے ہی۔ البتہ اس واقعہ نے آپؑ کی جسمانی طاقت کا مظاہرہ بھی دیکھاکہ وہ شرم وحیاکاپیکر جو اپنی کوٹھڑی کادروازہ بندکرتے ہوئے جب تک دروازے کے کواڑبندنہ ہوجائیں پیچھے مڑکربھی نہیں دیکھتا لیکن جب اسلامی غیرت کا تقاضاآیا تو کھلے میدان میں دوڑکے لیے تیارہوگئے۔ اس واقعہ کی روایت محترم علامہ سیدمیرحسن صاحب کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ

’’دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیشروی تو عیاں ہے۔ مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپؑ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہو چکی تھی۔ اس کا مفصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخاست ہونے کے بعد جب اہلکار گھروں کو واپس ہونے لگے۔ تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا۔ ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں۔ آخر ایک شخص بلّا سنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہو جائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے۔ آخر شیخ الٰہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اس پُل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پاوٴں دوڑو۔ جوتیاں ایک آدمی نے اٹھا لیں۔ اورپہلے ایک شخص اس پُل پر بھیجا گیا۔ تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پُل پر پہنچا۔ مرزا صاحب اور بلّا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب پُل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ مرزا صاحب سبقت لے گئے۔ اور بلّا سنگھ پیچھے رہ گیا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر280)

دوڑکایہ مقام توآج کل چاروں طرف سے بازاروں میں گھراہواہے۔ سیالکوٹ کے احباب اس جگہ کی نشاندہی کرنے کی ایک کوشش کرتے ہیں کہ وہ جگہ اس بازارکے چوک میں بنتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

آپؑ کا انگریزی پڑھنا

سیالکوٹ کے زمانہ میں ہی آپؑ کا ایک انگریزی کلاس میں شامل ہونے کابھی ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ علامہ سیدمیرحسن صاحب بیان کرتے ہیں:

’’اس زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے۔ (اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر150)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے حیات احمد جلد اوّل کے صفحات 275تا288میںیہ بحث اٹھائی ہے جس میں یہ ثابت کیاہے کہ حضرت اقدسؑ کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ خاکساریہاں صرف حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کی رائے درج کر کےجو آپؓ نے میرحسن کی روایت پر دی ہےاس مضمون کوختم کرتاہے۔ آپؓ لکھتے ہیں:

’’خاکسارعرض کرتا ہے کہ اوّل مولوی میر حسن صاحب موصوف نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سیالکوٹ میں ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھی تھیں اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ انگریزی خواں تھے۔ ایک یادو کتابیں پڑھنے کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ آپ کو حروف شناسی ہو گئی تھی کیونکہ پہلے ز مانہ میں جو انگریزی کی پہلی کتاب ہو تی تھی۔ اس میں صرف انگریزی کے حروف تہجی کی شناخت کروا ئی جاتی تھی۔ اور دوسری کتاب میں حروف جوڑ کر بعض چھوٹے چھوٹے آسان الفاظ کی شناخت کروائی جاتی تھی۔ اور آج کل بھی انگریزی کی ابتدائی ایک دو کتابوں میں قریباً اسی قدر استعداد مدنظر رکھی جاتی ہے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ جب میں غالباً ساتویں جماعت میں تھا تو ایک دفعہ میں گھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس کھڑا تھا اور میرے پاس ایک انگریزی طرز کا قلمدان تھا جس میں تین قسم کی سیاہی رکھی جاسکتی ہے۔ اس میں Red.Copying.Blue کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ میں یہ قلم دان دیکھا تو اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یہ الفاظ پڑھنے چاہے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ پہلا اور تیسرا تو آپ نے غور کے بعد پڑھ لیا مگر درمیان کے لفظ کے متعلق پڑھنے کی کوشش کی مگر نہیں پڑھ سکے۔ چنانچہ پھر آپ نے مجھ سے وہ لفظ پوچھا اور اس کے معنے بھی دریافت فرمائے۔ غرض معلوم ہو تا ہے کہ چھوٹے مفرد اور آسان الفاظ آپ غور کرنے سے پڑھ سکتے تھے جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو انگریزی حروف شنا سی ہوگئی بس اس سے زیادہ نہیں۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر150)

لیکن ان روایات سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ گویاحضرت اقدسؑ انگریزی جانتے تھے کیونکہ حضرت اقدسؑ کی بعدکی زندگی میں ہم آپؑ کی ہی تحریرات سے یہ جانتے ہیں کہ آپؑ انگریزی نہیں جانتے تھے۔ بلکہ آپؑ کو ہونے والے انگریزی الہامات سے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ کسی انگریزی جاننے والے سے پوچھ لیاکرتے تھے کہ اس کے معنی کیاہیں۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں ذکرفرمایاہے کہ انگریزی الفاظ وغیرہ کی سمجھ آپؑ کونہیں تھی سوائے اس کے کہ جوسن لیااس کواسی طرح اس کی صوتی آوازکے مطابق لکھ لیا۔

مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے ایک بار کچھ ایساہی سوال آپؑ سے کیاتھا۔ کیونکہ بعض جاہل اورتنگ نظرمولوی جوکہ انگریزی لکھنے پڑھنے کوبھی کفرسمجھتے تھے ان کایہ کہنا تھا کہ مرزاصاحب کوانگریزی زبان میں الہام ہوتاہے۔ جبکہ انگریزی لکھنا، پڑھنا بولنا یہ سب کفرکی علامتیں ہیں۔ تواس پر بٹالوی صاحب نے آپؑ کے الہامات کادفاع کرتے ہوئے یہ بھی لکھاتھا کہ مرزاصاحب تو انگریزی زبان سے ناواقف اور امّیٔ محض ہیں۔ اس لیے آپؑ کواس زبان میں الہام ہونا آپ کی سچائی کی دلیل توہے ہی بلکہ ہستی باری تعالیٰ کی بھی دلیل ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’دوسرا فائدہ و سرّ الہام انگریزی زبان کا یہ ہے کہ اس وقت مؤلف کے مخاطب اور اسلام کے منکر و مخالف (عیسائی آریہ برہمو وغیرہ) اکثر انگریزی خوان ہیں۔ ان کا افہام یا افحام (ساکت کرنا) جیسا کہ الہامات انگریزی سے ممکن ہے عربی یا فارسی وغیرہ الہامات سے ممکن نہیں۔ عربی وغیرہ مشرقی زبانوں کے الہامات کو (وہ ان کے مضامین سے آنکھ بند کرکر) یقیناً مؤلف کا ایجاد طبع سمجھتے۔ اب (جبکہ وہ انگریزی الہامات پڑھتے اور مؤلف کا انگریزی زبان سے محض اُمّی و اجنبی ہونا سنتے ہیں ) وہ ان الہامات مؤلف کو تعجب کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور بے اختیار ان کو خرق عادت و برخلاف عام قانون قدرت (جن کو وہ غلطی سے قدرت خداوندی کا پیمانہ سمجھ رہے تھے) ماننے لگے ہیں۔

ماہ صیام میں جبکہ میں سملہ پر تھا ایک بابو صاحب برہم سماج کے لکچرار و پریسٹ (جو میرے ہمسایہ تھے) مجھ سے قانون قدرت (جس کو لوگوں نے قانون سمجھ رکھا ہے اور درحقیقت وہ خدا کی قدر ت کا قانون نہیں ہے (دیکھو اشاعۃ السنۃ نمبر 8 جلد 4 میں مضمون ’’النیچر‘‘) کے تغیر و تبدل میں ہم کلام ہوئے۔ جب میں نے یہ ثابت کر دیا اور اُن سے تسلیم کرا لیا کہ خدا کی قدرت انہی حالات و واقعات میں (جو ہم دیکھ رہے ہیں ) محصور و محدود نہیں ہے بلکہ وہ اِس سے فوق الفوق اور وراء الورا وسعت رکھتی ہے اور ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ ان اسباب و موجودات سے وہ کام لے جو اس وقت تک ان سے نہیں لئے گئے یا ہم نے نہیں دیکھے۔ تو وہ صاحب بولے کہ یہ امر ممکن تو ہے اور بہ نظر قدرت وسیع وغیر محدود خداوندی ہم اِس امکان کو مانتے ہیں پر ہم اِس کی فعلیت (وقوع) کو کیونکر مان لیں جب تک اس کا مشاہدہ نہ کر لیں۔ اس پر میں نے مؤلف براہین احمدیہ کے الہامات انگریزی زبان کو پیش کیا اور یہ کہا کہ ایک شخص کا انگریزی زبان سے امّی و اجنبی محض ہو کر (جس کو ہم روز مرہ کے مشاہدے و تجربے سے بخوبی جانتے ہیں اور دوسرے کو ثابت و معلوم کرا سکتے ہیں ) بلا تعلیم و تعلم اِس زبان میں ایسی باتیں بیان کرنا (جن کا بیان انسانی طاقت سے خارج ہو) تمہاری تجویزی قانون قدرت کے مخالف نہیں تو کیا ہے؟ یہ سُن کر بابو صاحب موصوف نے سکوت کیا اور یہ فرمایا کہ ایسے شخص کو میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے یہ بھی سنا کہ انہوں نے ایک خط بھی متضمن اظہار اشتیاق ملاقات مؤلف براہین احمدیہ کے نام لکھا اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ اگر وہ اپنے ارادے و وعدے کو پورا کریں گے اور مؤلف کے زا د بوم کے ساکنین ہندو مسلمانوں کی متواتر شہادت سے ان کا انگریزی زبان سے محض ناواقف ہونا ثابت کر لیں گے تو وہ اِس امر کا خرق عادت اور کرامت ہونا مان لیں گے۔ اور وہ جب الہامات یا مؤلف کی کسی اور پیشن گوئی کا خود تجربہ و مشاہدہ کر لیں گے تو قبول و اظہار اسلام سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ ‘‘

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button