احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……
سیالکوٹ کے زمانہ سے متعلق
کچھ اہم واقعات
مکان کی چھت گرنے کا واقعہ(حصہ دوم)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب ؓنے حضرت اقدسؑ کی ایک ڈائری سے یہی واقعہ نوٹ فرمایاہے:
’’ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اَور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات مَیں ایک مکان کی دوسری منزل پر سو یا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اَور بھی تھے۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی۔میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کوئی چوہاہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے۔تھوڑی دیرکے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی۔پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہا ں سے نکلا۔ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اوروہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بچ گئے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر236)
یہ واقعہ کم وبیش انہیں الفاظ کےساتھ ملفوظات جلدنہم صفحہ 294 پر بھی بیان ہوا ہے حضرت اقدس ؑ بیان فرماتے ہیں :
’’ایساہی سیالکوٹ کاایک اَور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کومیں ایک مکان کی دوسری منزل میں سویاہواتھااوراسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ سولہ اورآدمی بھی تھے۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آوازآئی…یہ خداتعالیٰ کی معجزنماحفاظت ہے جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیرگرنے سے محفوظ رہا۔‘‘
محترمہ مائی حیات بی بی صاحبہ بنت فضل دین صاحب کہ جن کے مکان میں حضرت اقدسؑ سیالکوٹ میں رہائش پذیر تھے انہوں نے بھی چوبارہ کے گرنے کی بابت اپنی روایت میں ذکرکیاہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ
’’پہلے مرزا صاحب اسی محلہ میں ایک چوبارہ میں رہا کرتے تھے۔ جو ہمارے موجودہ مکان واقع محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ہے۔ جب وہ چوبارہ گر گیا۔ تو پھر مرزا صاحب میرے باپ کے مکان واقع محلہ کشمیری میں چلے گئے۔ چوبارہ کے گرنے کا واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس چوبارہ میں خلیل۔ منشی فقیر اللہ وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو مرزا صاحب نے کہا باہر آ جاؤ۔ جب وہ سب باہر دوسرے مکان کی چھت پر آئے۔ تو چوبارہ والا چھت بیٹھ گیا۔ حافظ محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ خلیل کہتا تھا۔ کہ چوبارہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔ کہ جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر625)
آسمانی بجلی کاگرنا اورمعجزانہ حفاظت
ایسا ہی اس ڈائری میں ایک اور واقعہ یوں ہے :
’’حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی۔ جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی۔ سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا۔ اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ اردگرد د یوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا۔بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا۔دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اس کو جلاد یا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 236)
حضرت اقدسؑ نے یہ واقعہ اپنی زبان مبارک سے بھی متعددمرتبہ بیان فرمایاہے چنانچہ ملفوظات جلد6صفحہ209،.210 ،ملفوظات جلدنہم صفحہ294اورجلددہم کےصفحہ233 پر بھی بیان فرمایا ہے بلکہ اس جگہ پرتوآپؑ نے اس مندرکی پیچ درپیچ گلیوں کا نقشہ بھی لکیروں سے کھینچاہواہے۔چنانچہ آپؑ بیان فرماتے ہیں :
’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم سیالکوٹ میں ایک مکان پر تھے اور پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی ہمارے ساتھ تھے۔ دفعتاً بجلی اس مکان کے دروازے پر پڑی اور دروازے کی شاخ کو دوٹکڑے کر دیا اور مکان دھواں دھار ہو گیا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا بڑی کثرت سے گندھک جلائی گئی ہے۔ پھر چند منٹ کے بعد ہی ایک دوسرے محلے میں ایک مندر تھا اور اس کے پیچ در پیچ راستے تھے۔
چنانچہ اس موقع پر آپؑ نے کھڑے ہو کر اپنے دست مبارک کی لکڑی سے زمین پر ذیل کی صورت کا ایک نقشہ کھینچا۔
اور فرمایاکہ
اس قسم کے پیچ در پیچ راستوں سے ہو کر وہ بجلی اندر مندر میں گئی اور وہاں ایک سادھو بیٹھا تھا اس پر جا کر گری چنانچہ وہ سادھو ایک چو(جلی ہوئی لکڑی) کی طرح ہوگیا ہوا تھا۔‘‘
(ملفوظات جلد10ص 233،الحکم14؍اپریل 1908ء جلد12نمبر27 ص3)
راجہ تیجا سنگھ کے اس مندرکی کچھ مزیدتفصیل کے طورپرعرض ہے کہ ایک سکھ سردار تیجا سنگھ جو ایک مخیراور بہادر ماہرفن تعمیرات تھا سیالکوٹ کے محلہ دھارووال میں رہائش پذیر تھا جسے آج کل گلی بدھ سنگھ بھی کہتے ہیں۔اس سردارنے اسی محلہ میں ایک شاندارشوالہ تیار کرایا۔ا س کاکلس کئی سیرسونے سے تیار کرایا گیا۔یہ شوالہ صرف شاہی افراد کے لئے مخصوص تھا۔ایک بار جوا س کلس کا یہ سونا چوری ہوگیا تواس پرسونے کے پتروں کی بجائے سونے کاپانی چڑھا دیاگیا۔ اس راجہ نے قلعہ سیالکوٹ سے شوالہ تک ایک سڑک بھی بنوائی جسےآج کل دودروازہ روڈ یااقبال روڈ کہا جاتا ہے۔ راجہ تیجا سنگھ کے بعد اس کابیٹا سرداراجیت سنگھ سیالکوٹ کاحاکم بنا۔[ماخوذ از ’’تاریخ سیالکوٹ‘‘ مصنفہ اشفاق نیاز ایڈیشن پنجم 2009ء صفحات 61-63] یہ شوالہ جس جگہ ہے آج کل اس کو ’’محلہ شوالہ پارک‘‘کہاجاتاہے۔
خاندانی معززشریف افسر
پنڈت دیوی رام جو کہ حضرت اقدسؑ کی جوانی کے زمانہ میں قادیان کے ایک سکول میں مدرس کے طورپر متعین رہے ان کا ایک تفصیلی بیان سیرت المہدی میں درج ہے۔ اس میں وہ ایک جگہ آپؑ کے زمانہ ٔسیالکوٹ کے متعلق کچھ باتیں بیان کرتے ہیں جوکہ بقول ان کے انہیں حضرت اقدسؑ نے خود بیان فرمائی تھیں۔وہ بیان کرتے ہیں :
’’کچھ مدّت اس سے قبل سیالکوٹ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کلرک یا سپرنٹنڈنٹ رہے تھے۔ انہی ایام میں ایک گوپی ناتھ مرہٹہ بھاگ کر ریاست جموں میں ایک باغ میں رہائش رکھتا تھا۔ اس کے متعلق گورنمنٹ کا حکم تھا کہ اگر اسکو تحصیلدار پکڑے تو اس کو اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ دیا جائے گا۔ اور اگر ڈپٹی کمشنر پکڑے تو اسے کمشنر بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ مرہٹہ مرزا صاحب کی ملازمت کے ایام میں ایک ڈپٹی کمشنر کے قابو آیا۔ اس کا بیان مرزا صاحب نے قلمبند کیا۔ کیونکہ اس مرہٹہ کا مطالبہ تھا کہ مَیں اپنا بیان ایک خاندانی معزز شریف افسر یا حاکم کو لکھواؤں گا۔ اور اس نے خاندانی عزت و نجابت کے لحاظ سے مرزا صاحب کو منتخب کیا۔ یہ حالات مرزا صاحب نے خود اپنی زبان سے سنائے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 759)
بغیرمنڈیرکی چھت پر نہ سونا
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں بغیر منڈیر کے کوٹھے پر سونے کی ممانعت ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحبؑ عملاً بھی اس حدیث کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ غالباً سیالکوٹ میں آپ کی چارپائی ایک بے منڈیر کی چھت پر بچھائی گئی تو آپ نے اصرار کے ساتھ اس کی جگہ کو بدلوا دیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گورداسپور میں بھی ہوا تھا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 820)
غالباً 1904ء کے سفرسیالکوٹ میں جس مکان پرآپؑ کی رہائش تھی اس کی چھت بغیر منڈیرکے تھی جہاں آپؑ کی چارپائی بچھائی گئی تھی۔اورحضرت علیہ السلام کے جگہ بدلوانے پراسی دن اس چھت کی منڈیربنوائی گئی۔
ترجمان عربی
علامہ سید میر حسن صاحب نے قیام سیالکوٹ کے اس زمانے کا ایک اَورواقعہ بیان کیاہے وہ لکھتے ہیں :
’’اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہواتو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کا نام پرکسن تھا۔اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہوگئے تھے۔)۔(خاکسار مرتب عرض کرتاہے کہ اس کانام پرکنس (Perkins)یا پرکنزتھا ۔)محمدصالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا۔ترجمان کی ضرورت تھی۔مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو۔اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھو اتے جاؤ۔ مرزا صاحب نے اس کام کو کماحقہ ادا کیا۔ آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہو ئی۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول صفحہ92)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭