سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

1860ء تا 1867ء

سیالکوٹ کا زمانہ

…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……

مذہبی مناظرے، علمی مجالس عرفان بزرگوں اور مشاہیراورپادریوں سے ملاقاتیں

(حصہ چہارم)

محترم لالہ بھیم سین صاحب کاحضرت اقدسؑ سے قرآن پڑھنا(حصہ دوم)

حضرت اقدسؑ نے محترم لالہ بھیم سین صاحب کاذکراپنے کئی نشانات اوررؤیاوکشوف کے ضمن میں بھی فرمایاہے۔ چنانچہ حضرت عرفانی صاحبؓ اپنی تصنیف حیات احمدؑ میں بیان فرماتے ہیں :

’’سیالکوٹ میں ایک کائستھ صاحب لالہ بھیم سین بھی تھے۔ وہ بٹالہ میں آپ کے ہم مکتب تھے۔ اور ایک ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لالہ مٹھن لال صاحب کے رشتہ دار تھے اور اس وجہ سے حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے ساتھ انہیں پرانا تعلق تھا۔ لالہ بھیم سین اور حضرت مرزا صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے اور باہم بڑا ربط ضبط تھا۔ لالہ بھیم سین حضرت مرزا صاحب کے اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے گرویدہ اور معتقد تھے۔

پنجاب میں چیف کورٹ کا نیا نیا افتتاح ہوا تھا اور امتحان وکالت کے لئے ابتدائی آسانیاں میسر تھیں اور بعض اہلکاروں کو قبل از امتحان بھی قانونی پریکٹس کی صاحب ڈپٹی کمشنر کی سپارش پر اجازت دے دی جاتی تھی۔ لالہ بھیم سین صاحب بھی اسی قسم کے اہلکاروں میں سے ایک تھے۔ چونکہ لالہ مٹھن لال صاحب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر صاحب سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر کے ملاقاتی تھے۔ انہوں نے باوجودیکہ لالہ بھیم سین لوکل بورڈ میں اہلمد تھے۔ ایک سپارشی چٹھی کے ذریعہ ان کو وکالت کی اجازت منگوا دی تھی۔ ہاں شرط یہ تھی کہ اگروہ امتحان میں پاس نہ ہوں۔ تو انہیں اپنے اصلی عہدہ پر واپس ہوجانا پڑے گا۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے رخصت لے رکھی تھی۔ تیاری امتحان میں مشغول تھے اور دن کو باقاعدہ پریکٹس کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کو بھی تحریک کی کہ وہ امتحان وکالت دے دیں۔ غرض اس تحریک یا اور اسباب کی بناء پر حضرت مرزا صاحب بھی شامل امتحان ہوئے مگر قبل اس کے جو نتیجہ شائع ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کو نتیجہ امتحان سے آگاہ فرما دیا۔

…… حضرت مرزا صاحب نے روٴیا میں دیکھا کہ امتحان کے جو پرچے تقسیم ہوئے ہیں وہ دو قسم کے کاغذات پر ہیں : زرد اور سرخ۔ تمام امیدواروں کو زرد رنگ کے پرچے تقسیم ہوئے ہیں اور لالہ بھیم سین کو سرخ رنگ کا پرچہ۔ حضرت مرزا صاحب نے اس کی تعبیر یوں کی ہے کہ لالہ بھیم سین پاس ہو جائیں گے گویا سرخروہوں گے اور زرد رنگ سے نا کامی کی تعبیر کی۔ امتحان کے کمرہ میں بعض حالات اور واقعات ایسے پیش آئے تھے کہ قریب تھا کہ وہ امتحان منسوخ ہو جائے۔ لیکن آخر جب نتیجہ نکلاتو وہ عین خواب کے مطابق تھا۔ لالہ بھیم سین کو حضرت مرزا صاحب کی خوبیوں اور فضائل کا پہلے ہی اعتراف تھا اور وہ ان کی روٴیا کو روٴیائے صالحہ یقین کرتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ایک مرتاض زندگی بسر کرنے والے بزرگ ہیں۔ اس واقعہ نے انہیں اور بھی معتقد بنا دیا۔ (حیات احمد جلد اول صفحہ 108، 109)

اس واقعہ کو حضرت اقدسؑ نے خود بھی بیان فرمایا ہے۔ اور براہین احمدیہ کے صفحہ 256 [ایڈیشن اول۔ مرتب] میں بھی اس کا ذکر کیا ہے اور یہ 1868ء کا واقعہ ہے۔ لالہ بھیم سین صاحب نے خود اپنے خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعوؑد کو قادیان خبر دی تھی کیونکہ آپ سیالکوٹ سے آچکے تھے۔ حضرت اقدسؑ اپنے نشانات کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ

’’اسی طرح ایک مرتبہ خدا نے ہم کو خواب میں ایک راجہ کے مرجانے کی خبر دی اور وہ خبر ہم نے ایک ہندو صاحب کو کہ جو اَب پلیڈری کا کام کرتے ہیں بتلائی۔ جب وہ خبر اسی دن پوری ہوئی تو وہ ہندو صاحب بہت ہی متعجب ہوئے کہ ایسا صاف اور کھلا ہوا علم غیب کا کیونکر معلوم ہوگیا۔

پھر ایک مرتبہ جب انہی وکیل صاحب نے اپنی وکالت کے لئے امتحان دیا تو اسی ضلع میں سے ان کے ساتھ اسی سال میں بہت سے اَور لوگوں نے بھی امتحان دیا۔ اس وقت بھی مجھ کو ایک خواب آئی اور میں نے اس وکیل صاحب کو اور شاید تیس یا چالیس اَور ہندوؤں کو جن میں سے کوئی تحصیلدار کوئی سرشتہ دار کوئی محرر ہے بتلایا کہ ان سب میں سے صرف اس شخص مقدم الذکر کا پاس ہوگا اور دوسرے سب امیدوار فیل ہوجائیں گے۔ چنانچہ بالآخر ایسا ہی ہوا اور 1868ء میں اس وکیل صاحب کے خط سے اس جگہ قادیان میں یہ خبر ہم کو مل گئی۔ و الحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ ‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 284حاشیہ)

راجہ تیجا سنگھ کی خبر وفات قبل از وقت مل گئی

راجہ تیجا سنگھ صاحب (جن کا ذکر اس سوانح میں پہلے بھی آچکا ہے )کی وفات کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبل از وقت دے دی تھی اور لالہ بھیم سین کو حضرت نے آگاہ کر دیا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ کہ ’’انہی وکیل صاحب یعنی لالہ بھیم سین کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں۔ (اب فوت ہو چکے ہیں۔ ایڈیٹر) ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر ان کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہو گئے ہیں۔ اور انہوں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا۔ اور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہواتو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ وغیرہ میں ہیں بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہیے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہو گئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پا کر نہایت تعجب کیاکہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہو گئی۔ اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے ( آج 1915ء میں 36برس پہلے۔ ایڈیٹر) براہین احمدیہ میں درج ہے۔ دیکھو صفحہ 256‘‘

(حیات احمدؑ جلد اول صفحہ110، 111)

حضرت اقدسؑ نے اپنی ایک اَورتصنیف تریاق القلوب میں اس نشان کااس طرح ذکرفرمایاہے:

’’انہی وکیل صاحب یعنی لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر اُن کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہوگئے ہیں اور انہوں نے اِس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور اُنہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست طیار ہونی چاہیئے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیاکہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔ اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔ دیکھو صفحہ 256۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ 256-257)

محترم لالہ بھیم سین صاحب کولکھے جانے والے دوخط

محترم لالہ بھیم سین صاحب کو لکھے جانے والے دوخط ہمارے سلسلہ کے لٹریچرمیں محفوظ ہیں ایک خط وہ ہے جو حضرت اقدسؑ نے انہیں 14؍ جون 1903ء کولکھا تھا جو مکتوبات احمدجلداول ص 87 پرمکتوب نمبر22 کے طورپر درج ہے۔ اس خط میں جو کہ سات صفحات پر مشتمل ہے، اسلام کی سچائی او رقرآن کی حقانیت بالمقابل وید وغیرہ کے مضامین کے ساتھ ساتھ لالہ صاحب کے کچھ سوالات بھی ہیں جن کاجواب دیاگیا ہے۔

اورایک دوسراخط جو اس سے کہیں پہلے کا ہے وہ 9 صفحات پر مشتمل ہے او ربزبان فارسی ہے۔ غالب امکان ہے کہ قیام سیالکوٹ کے دوران کاہی ہوگا۔ اوراس میں سورة فاتحہ کی خوبصورت تفسیر کرتے ہوئے بت پرستی کی تردید کی گئی ہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button