یادِ رفتگاں

خاموش محبت۔ چودھری حمیداللہ صاحب مرحوم کی یاد میں

(آصف محمود باسط)
تصویر بشکریہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل

چودھری حمید اللہ صاحب بڑے آدمی تھے۔ ہر لحاظ سے۔ اس لیے ان کے بارے میں بہت سے بڑے لوگ لکھیں گے اور بہت اچھا لکھیں گے۔ چودھری صاحب سے متعلق میری گزارشات ایک فاصلے سے دیکھنے والے، جسے انگریزی میں bystander کہتے ہیں، کے مختصر سے تجربات اور مشاہدات سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

ربوہ میں دفاتر صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید جس سڑک پر واقع ہیں، وہاں ایک بزرگ نظر آیا کرتے۔ بظاہردراز قد نہ ہونے کے باوجود ایسے رعب دار تھے کہ درازقد معلوم ہوتے۔ لڑکپن اور نوجوانی کا سارا زمانہ، بلکہ پنجاب یونیورسٹی چلے جانے سے پہلے میرے قیامِ ربوہ کا سارا زمانہ چودھری صاحب سے صرف اسی قدر تعارف تک محدود تھا۔ کبھی چودھری صاحب سے کوئی کام بھی نہ پڑا کہ زیادہ تعارف حاصل ہوتا۔ بزرگان سے ملنے کا شوق تھا مگر ان کی گھمبیر خاموشی، قدرے اوپر کو بلند کیا ہوا چہرہ اور پھر اس بلندی سے نیچے کی طرف دیکھتی نگاہ، اس شوق کو پورا کرنے میں ہمیشہ حائل ہوجاتے رہے۔ پھر یہ جان کر کے وہ وکیلِ ’’اعلیٰ‘‘ ہیں، ایک چودہ پندرہ سال کا نوجوان تو ویسے ہی سہم جاتا اور اپنے اس شوق کو اپنی اوقات سے بڑھا ہوا خیال کرتا رہا۔ قصہ مختصر یہ کہ چودھری صاحب سے کبھی بھی واقفیت حاصل نہ ہوسکی۔

انہی دنوں میں مجلس خدام الاحمدیہ نے ایک مجلہ شائع کیا۔ اس میں خدام الاحمدیہ کی بہت سی تاریخی تصاویر تھیں۔ ان میں چودھری صاحب کی اس دور کی تصاویر نظر آئیں جب یہ مجلس خدام الاحمدیہ میں سرگرمِ عمل تھے بلکہ صدر بھی رہے تھے۔ ان تصاویر میں سے ایک تصویر کو دیکھ چودھری صاحب کے پرانے خادمِ سلسلہ ہونے سے آگاہی حاصل ہوئی۔ معلوم ہوا کہ وہ تو بڑے پرانے وقتوں سے سلسلہ کی خدمت کررہے ہیں۔

پھر تعلیم اور روزگار کے سلسلے مجھے پہلے ربوہ سےلاہور لے گئے۔پھر لاہور سے لندن لے آئے۔ چودھری صاحب سے یوں بھی کون سا تعلق تھا کہ ٹوٹتا۔ نہ کوئی ربط تھا، نہ ٹوٹا،نہ کبھی چودھری صاحب کی یاد آئی۔ کبھی کبھی ایم ٹی اے پر کسی پروگرام میں نظر آجاتے۔ یا کبھی جلسہ سالانہ یوکے کی جلسہ گاہ میں ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف آتے یا جاتے نظر آجاتے۔

اللہ تعالیٰ کی ستاری اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی بندہ نوازی کی بدولت خاکسار کی وقفِ زندگی کی درخواست قبول ہوئی اور ایم ٹی اے میں تعیناتی ہوئی۔ ایک جلسہ سالانہ پرحضور انور کا ارشاد موصول ہوا کہ خاکسار نے جلسہ سالانہ پر کچھ بزرگان کے ساتھ جلسہ سالانہ کی تاریخ کے حوالہ سے پروگرام پیش کرناہے۔ یہ پروگرام جلسہ گاہ کے سٹوڈیو سے لائیو پیش ہونا تھا۔ اکثر بزرگوں کے نام بھی حضرت صاحب نے خود ارشاد فرمائے۔ ان میں چوہدی حمیداللہ صاحب، مرزا خورشید احمد صاحب، مرزا غلام احمد صاحب اور سید میر محمود احمد ناصر صاحب شامل تھے۔

میں تو ہمیشہ ہی ان سب بزرگان سے مرعوب رہا تھا۔ حضرت صاحب کا ارشاد نہ ہوتا تو شاید کبھی خود ہمت بھی نہ کرتا کہ انہیں پروگرام میں بلاؤں اور سوال جواب کروں۔ باقی بزرگوں سے تو کچھ تعارف بھی تھا۔ چودھری صاحب سے تو ذرا سا بھی تعارف نہ تھا۔

 ان بزرگوں کو اطلاع دی تو باقی نے تو اسقدر فرما دیا کہ ’’ٹھیک ہے۔ حضور کا ارشاد ہے تو حاضر ہوجائیں گے‘‘۔ لیکن چودھری حمید اللہ صاحب نے یہ تو فرمایا ہی مگر ساتھ نہایت مفصل استفسار بھی فرمایا کہ ’’کیا موضوع ہوگا؟ پروگرام کتنی دیر کا ہوگا؟ کتنے اور مہمان ہوں گے؟ پروگرام کہاں ہوگا؟کیا سوال ہوں گے؟ معین سوال مجھے لکھ کر بھیجیں!‘‘

جب اس بات کی تسلی انہیں کروادی کہ جیسا وہ فرما رہے ہیں، اس کی تعمیل ہوگی، تو پھر یہ کہہ کر گویا ہوئے کہ ’’آپ کے دادا جان درویش تھے۔۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد میرے دادا جان مرحوم کے کچھ واقعات سنا ئے۔ میرے والد صاحب کا حال احوال بھی پوچھا۔ آپ میری حیرت کا اندازہ کر ہی سکتے ہیں۔ میرا تو خیا ل تھا کہ چودھری صاحب مجھے جانتے تک نہ ہوں گے، کجا یہ کہ اتنی تفصیل سے جانتے ہوں۔

تو چودھری صاحب سے تعارف کا پہلا زینہ ٹیلی فون پر ہونے والی یہ ملاقات تھی۔ ابھی چودھری صاحب پاکستان ہی میں تھے۔ ابھی جلسہ پر انگلستان آنا تھا۔ تو اس روز کے بعد متعدد مرتبہ ان کے دفتر سے فون آتا کہ چودھری صاحب بات کریں گے۔ اور چودھری صاحب پوچھتے کہ فلاں سوال میں معین طور پر بتائیں کہ کیا چاہتے ہیں۔ جس باریکی سے چودھری صاحب تیاری کررہے تھے، میری گھبراہٹ اور پریشانی اسی قدر بڑھتی جاتی تھی۔ پچیس، تیس منٹ کے پروگرا م میں جس میں چودھری صاحب اور ایک اور جہاں دیدہ بزرگ نے شامل ہونا تھا، ہر سوال کا جواب تین چار منٹ سے زیادہ نہ ہو سکتا تھا۔ اور چودھری صاحب کی تیاری سے تو لگ رہا تھا کہ ہم پہروں بیٹھ کر جلسہ سالانہ پر گفتگو کریں گے۔

خیر! جلسہ آپہنچا، پروگرام کا وقت بھی آپہنچا اور چودھری صاحب بھی ہمارے جلسہ گاہ کے عارضی سٹوڈیو میں رونق افروز ہوئے۔ ساتھ ایک اور بزرگ بھی تشریف فرما تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دوسرے بزرگ کو کیسے بتاؤں کہ آپ کو پروگرام کے دوران بھی شاید اسی بے نیازی سے بیٹھنا پڑے، جس بے نیازی سے آپ ابھی تشریف فرما ہیں۔ ان اضطراری لمحات کے دوران باتوں باتوں میں میں نے دو چار بار اس بات کو دہرایا کہ جلسہ کی نشریات کے دوران پروگراموں کا دورانیہ مختصر سا ہوتا ہے۔ مگر چودھری صاحب اور دوسرے بزرگ کی طرف سے مجھے کوئی ایسا سگنل نہ ملا کہ میری اس بات میں ملفوف پیغام رجسٹر بھی ہورہا ہے یا نہیں۔

پروگرام ہوا اور چودھری صاحب مرحوم کی خدمت میں پہلا سوال پیش کیا۔ چودھری صاحب نے تمام طے شدہ سوالات کے جوابات اسی ایک سوال کے جواب میں عنایت فرمادیے۔ پھر باقی وقت میں دوسرے مہمان کے علم اور تجربہ سے استفادہ کیاگیا۔ اور یوں پروگرام دو ہی سوالوں میں بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچا۔ چودھری صاحب نے اپنی وسیع و عریض تیاری کے باوجود اپنے جوابات کی یوں تلخیص کی کہ یہ بجائے خود میرے لیے ایک سیکھنے کا موقع بن گیا۔

اس کےبعد جب تک چودھری صاحب کا قیام لندن میں رہا، چودھری صاحب مسجد فضل کے بالمقابل گیسٹ ہاؤس میں فروکش رہے۔ کسی بھی نماز پر ملاقات ہو جاتی تو فرماتے کہ ’’فلاں سوال کا جواب پورا نہیں ہوسکا۔ اصل بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘ اور اس کے بعد چودھری صاحب زیرنظر واقعہ کی وہ تفصیلات بتاتے جو اس روز بیان سے رہ گئی تھیں۔ میں ان کے ساتھ چلتا جاتا۔ پھر گیسٹ ہاؤس آجاتا اور چودھری صاحب اندر تشریف لے جاتے۔ لیکن دوچار ملاقاتوں میں یہ ہوا کہ چودھری صاحب اندر بلالیتے اور گیسٹ ہاؤس کی بیٹھک میں بٹھا کر واقعات سناتے۔

یہ ملاقاتیں میرے لیے جماعتی تاریخ کے پوشیدہ گوشوں سے واقفیت کا سبب بنیں۔ جماعتی تاریخ سے شغف پیدا ہوا اور اس شغف میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ یوں میں اپنے اس بڑھتے ہوئے شغف اور شوق کے لیے چودھری صاحب مرحوم کا مقروض ہوتا چلا گیا۔ آج بھی ہوں۔

پھر چودھری صاحب مرحوم کو خود بھی جماعتی تاریخ سے ایسی محبت تھی کہ صرف خود بیان کرنے پر اکتفا نہ فرماتے۔ اسی جلسہ کی بات ہے۔ اسی گیسٹ ہاؤس میں محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب بھی مقیم تھے۔ ایک روز میں چودھری صاحب کی مجلس سے اٹھ کر رخصت ہو ہی رہا تھا کہ محترم شاہ صاحب داخل ہوئے۔ چودھری صاحب فرمانے لگے:’’جماعتی تاریخ پوچھنی ہے تو شاہ صاحب سے پوچھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ جو اسے معلوم ہے وہ تاریخ ہے، جو اسے معلوم نہیں وہ تاریخ ہی نہیں۔ تو شاہ صاحب کا بھی یہی حال ہے۔ ان سے ضرور تاریخی باتیں سنا کریں!‘‘

چودھری صاحب کی واپسی کا وقت آیا تو مجھے ان کے معاون کا فون آیا کہ چودھری صاحب یادفرماتے ہیں۔ میں حاضر ہوا تو فرمانےلگے:’’اگلے سال جلسہ پر کوئی پروگرام کرنا ہو تو اس کے سوالات ابھی سے بھیج دیں۔ میں جماعت کی تاریخ کو بیان کرنے میں بہت احتیاط کا قائل ہوں۔ کوئی بات بغیر مستند حوالے کے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ بہت گہرائی سے تیاری کرتا ہوں۔ اس لیے اگر کوئی پروگرام کرنا ہوا تو میرے واپس پہنچنے پر بتادیں‘‘۔

اب ان مختصر ملاقاتوں میں مجھے چودھری صاحب سے اس قدر تعارف ہوچکا تھا کہ مجھے یہ غلط فہمی لمحے بھر کو بھی نہ ہوئی کہ چودھری صاحب شاید پروگرام میں آنے کے شوق میں ایسا فرمارہے ہیں۔ چودھری صاحب کو اللہ نے خدمتِ دین کے بہت مواقع دیے۔ چودھری صاحب ان معاملوں میں سیر چشم ہوچکے تھے۔ پھر اس واقعہ کے بعد گزرنے والا پورا سال اس بات کی گواہی بن گیا کہ چودھری صاحب نہ صرف تاریخ کو ریکارڈ میں لانا چاہتے تھے، بلکہ ہر طرح کی احتیاط کو ملحوظ رکھنا ایک مقدس فریضہ خیال کرتے تھے۔

انہی ملاقاتوں میں میں یہ بھی جان چکا تھا کہ چودھری صاحب بہت زندہ دل آدمی بھی ہیں۔ طبیعت میں شگفتگی بھی بہت تھی اور مزاح میں اعلیٰ ذوق نمایاں تھا۔ یوں وقت گزرتا رہا اور چودھری صاحب سے تعارف کے ساتھ ساتھ اُنس اور محبت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

ان کے واپس چلے جانے کے بعد ان سے درخواست کی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے عمل میں شامل احباب کے بیانات میں اب کہیں کہیں فرق آنے لگا ہے۔ لہذا حضرت صاحب سے رہنمائی لی گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ آپ کے ساتھ آئندہ جلسے پر یہ واقعات ریکارڈ کرلیے جائیں۔

اس روز کے بعد سے چودھری صاحب سے متعدد مرتبہ رابطہ ہوا۔ سوالات ترتیب دیے جارہے ہیں۔ پروگرام کادورانیہ بتایا جارہا ہے (جسے ہم نے تجربہ کی بنیاد پر غیر معین رکھا تھا)، ساتھ کون ہوگا؟(یہ احتیاط بھی اس مرتبہ خاص طور پر کر لی گئی تھی)، وغیرہ۔

تصویر بشکریہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل

محترم چودھری صاحب مرحوم کی تیاری کے ان مراحل نے ایک جلسے سے دوسرے جلسے کے درمیانی انتظار کو سہل کردیا۔ چودھری صاحب کے ہر فون یا خط سے ایسا محسوس ہوتا کہ گویاجلسہ کل ہے اور مجھے اس وقت دفتر میں نہیں جلسہ گاہ میں ہوناچاہیے۔

جلسہ آیا۔ چودھری صاحب بھی آئے۔ حاضر ہوا تو مجھے گیسٹ ہاؤس کی بیٹھک میں بٹھا کر اپنے کمرے میں تشریف لے گئے۔ واپس آئے تو ہاتھ میں ایک ضخیم مگر نفاست سے پلندہ تھا۔ کہنے لگے ’’یہ وہ سارے جواب ہیں جو میں نے آپ کے سوالوں کے دینے ہیں۔ میں نے اس میں سے پڑھ کے سنانا ہے۔ یہ آپ کے لیے ایک کاپی ہے!‘‘

مارے ادب کے میں تو اپنی حیرت کا اظہار بھی نہ کرسکا۔ صرف اتنا کہا کہ ’’چودھری صاحب، پروگرام گفتگو کی طرز پر ہوگا۔ تو اگر آپ پڑھ کر سنائیں گے۔۔۔‘‘

ہنستے ہوئے فرمایا:’’میں نے اپنا کام کرلیا ہے۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اسے گفتگو کیسے بناتے ہیں!‘‘

یہ پروگرام جلسے کے بعد بیت الفتوح سٹوڈیو میں ریکارڈ کرنا تھا۔ جلسے کی مصروفیت میں تو وقت نہ ملا، مگر بعد میں جب اس ’’مسودے‘‘ کو پڑھنا شروع کیا تو میری پریشانی خوشگوار حیرت میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ چودھری صاحب مرحوم نے تو ایسی محنت سے تمام واقعات کو یکجا کیا ہوا تھا کہ گاڑیوں کے نمبر اور ان میں بیٹھے افراد اور ان گاڑیوں کی ترتیب کہاں سے کہاں تک کیا تھی اور پھر کہاں سے کہاں تک اس ترتیب میں کیا تبدیلی کی گئی۔ یہ سب تفصیلات موجود تھیں۔

ریکارڈنگ کے لیے انہیں مسجد فضل سے بیت الفتوح لے جارہا تھا۔ راستے میں عرض کی کہ ’’چودھری صاحب، آپ اسے پڑھتے جائیے گا۔ میں یونہی کہیں کوئی سوال کرلوں گا۔ مگر سوال صرف آپ کی گزشتہ بات کو اگلی بات سے پیوستہ کرنے کے لیے ہوگا۔کہنے لگے: ’’ٹھیک ہے۔ جس طرح مرضی کر لیں۔ میں نے تو سارا پڑھ کر ہی سنانا ہے۔ تاریخ کا معاملہ ہے اور اسے بیان بھی حضرت صاحب کے ارشاد پر کیا جارہا ہے۔ اس میں ذرا سی بے احتیاطی آئندہ تدوین ِتاریخ میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ تاریخ بہت احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘

ریکارڈنگ شروع ہوئی۔ اب اس ’’مجموعۂ حقائق‘‘ کی ایک کاپی میرے سامنے تھی اور ایک چودھری صاحب کے۔ پروگرام کا آغاز ہوا۔ چودھری صاحب تمام حقائق پڑھ کر سناتے جاتے، میں اپنی کاپی میں ساتھ ساتھ دیکھتا جاتا۔ مبادا یکسانیت کا رنگ آجائے، میں کہیں اگلے پیراگراف سے ایک سوال بنا لیتا۔ چودھری صاحب کے پائے روانی میں ذرا لغزش نہ آتی اور بیان جاری رہتا۔

اس انٹرویو کے نشر ہوجانے کے بعد بھی معلوم ہوا کہ کہیں کہیں بعض متعلقہ احباب کی رائے مختلف ہے۔ معاملہ حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا تو ارشاد ہوا کہ چودھری حمیداللہ صاحب کو کہو کہ سب بیانات یکجا کریں اور ایک فائنل شکل میں اسے تیار کریں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد انہیں پہنچا دیا گیا۔ چودھری صاحب نے فوراً ایک کمیٹی قائم کی جس میں صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، صاحبزادہ مرز غلام احمد صاحب، چودھری حمید نصراللہ صاحب شامل تھے۔ کئی ماہ کی محنت سے انہوں نے ان سب افراد کے انٹرویو ریکارڈ کیے جو ہجرت کے واقعات میں کہیں بھی کوئی کردار ادا کرچکے تھے۔ انہیں تحریر کرکے، یکجائی صورت میں حضرت صاحب کی خدمت میں ارسا ل کیا۔ صرف خود دستخط نہ کیے بلکہ ان تمام بزرگان کے دستخط بھی سرورق پر کروائے۔ الحمدللہ یہ تاریخی دستاویز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مرکزی شعبہ آرکائیو لندن میں محفوظ کرلی گئی ہے۔

ایک اور تاریخی معاملہ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم چودھری صاحب کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کا حکم فرمایا۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ صرف ریکارڈ میں رکھنے کے لیے ہے، نشر کرنے کے لیے نہیں۔

حضرت صاحب کا حکم مع تمام ہدایات چودھری صاحب مرحوم تک پہنچایا۔ چودھری صاحب نے اپنی تیاری کا آغاز کیا۔ اگلے کئی ماہ خود بھی مصروف رہے، اور میرے علم میں بھی اضافہ فرماتے رہے۔پھر جلسہ آیا اور چودھری صاحب بھی آئے تو اس انٹرویو کی ریکارڈنگ کا سامان ہوا۔ میرے لیے اس مرتبہ نئی سیکھنے کی بات یہ تھی کہ چودھری صاحب نے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ نشر نہیں ہوگا، ہر طرح کی احتیاط کا اہتمام کیا۔ ہر واقعہ کی تاریخ، دن اور وقت تک کا بیان بڑی احتیاط کے ساتھ ریکارڈ کروایا اور یہ تاریخی دستاویز وڈیو کی شکل میں ریکارڈ میں محفوظ ہوگئی۔

گیسٹ ہاؤس کی مختصر ملاقاتیں اور انہیں بیت الفتوح لے جانے اور واپس مسجد فضل چھوڑنے کی ڈرائیوز یاد آتی ہیں تو وہ بہت سی باتیں بھی یاد آجاتی ہیں، چودھری صاحب سے سیکھنے کو ملیں۔ چودھری صاحب کی خوش مزاجی بھی دیکھنے کو ملی۔ اس سے بھی یہ سیکھنے کو ملا کہ آدمی کیسا ہی بڑا افسر بن جائے، طبیعت کی لطافت کو برقرار رکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔اور اس لطافت کو اپنے سے بہت چھوٹوں کے ساتھ برت لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

ایک روز بیت الفتوح سے واپس جاتے ہوئے چودھری صاحب بتانے لگے کہ مبلغین سلسلہ پاکستان سے باہر کے ممالک میں کیسے بھیجے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ’’جن مبلغین کو بیرونِ ملک بھیجنا ہو، ان کا کوئی ٹیسٹ وغیرہ بھی ہوتا ہے؟‘‘۔

فرمانے لگے کہ بالکل ہوتا ہے۔ میں نے بڑے ادب سےپوچھا کہ کس چیز کا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ فرمانے لگے کہ ’’آپ بتائیں، کیا ٹیسٹ ہوتا ہوگا؟‘‘

چودھری صاحب میرے بزرگ تھے۔ میرے اور ان کے درمیان ہمیشہ ادب کی ایک اونچی فصیل حائل رہی۔ اس لمحے میں جانے کیا ہوا کہ میں نے ابھی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ’’ بلڈ ٹیسٹ ؟‘‘۔

لیکن زبان سے یہ الفاظ پھسلنے کی دیر تھی کہ مجھے وہ تشویش لاحق ہوئی جو کرکٹ میں بیٹس مین کو تب ہوتی ہے جب وہ شاٹ مار کے گیند کو ہوا میں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ باؤنڈری پار کرے گا یا میں کیچ آؤٹ ہوجاؤں گا۔

چودھری صاحب کھلکھلا کر ہنسے تو مجھے تسلی ہوئی اور جان میں جان آئی۔ میں نے یہ بات بغیرسوچے سمجھے کہہ دی تھی۔ لیکن اگر چودھری صاحب مرحوم یوں اس مذاق کو مذاق ہی سمجھ کر ہنس نہ دیتے تو میں اس ملال میں جانے کب تک دھنسا رہتا۔ پھر کافی تفصیل سے بتاتے رہے کہ ٹیسٹ اور انٹرویو کا کیا طریقۂ کار ہے۔میں نے بھی اپنی معلومات میں اضافہ کے لیے سوال پوچھا تھا۔ مجھے اس روز اس حوالہ سے تحریکِ جدید کے ضابطوں اور قاعدوں سے آگاہی حاصل ہوئی۔

ٹیسٹ اور انٹرویو سے یاد آیا کہ شعبہ آرکائیو کا قیام عمل میں آیا تو حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ چونکہ ہمارا اکثر تاریخی مواد پاکستان میں ہے لہذا ایک مربی سلسلہ کی تقرری پاکستان میں ہمارے دفتر کے کل وقتی نمائندے کے طور پر کردی جائے۔ حضرت صاحب کے ارشاد پر محترم میر محمود احمد ناصر صاحب سے نام تجویز کرنے کی درخواست کی جنہوں نے ایک بہت ہی ہونہار، محنتی اور تاریخ سے شغف رکھنے والے ایک مربی سلسلہ کا نام تجویز کیا۔ حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہِ شفقت منظوری عطا فرمائی۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ چونکہ یہ نئی طرز کا سیٹ اپ ہوگا، اس لیے چودھری حمید اللہ صاحب کو لکھ دو کہ انتظام کردیں۔ ساتھ حضور انور نے یہ رہنمائی بھی فرمادی کہ الاؤنس کس محکمہ سے جائے گا اور بجٹ وغیرہ کی کیا صورت ہوگی۔

اگرچہ طرزنئی تھی۔ چودھری صاحب مرحوم نے ایک دن بھی کسی تنگی کا احساس نہ ہونے دیا۔ ریکارڈ کے حصول کا مرحلہ آیا تو بھی یہ سیٹ اپ نئی طرز کا ہونے کے باعث ہمیں متعلقہ محکموں اور شعبوں کو بتانا پڑتا کہ ہم کون ہیں اور یہ کہ حضرت صاحب کا ارشاد ہمیں ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے سلسلہ میں کیا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں۔ قارئین جانتے ہی ہیں کہ یہ مراحل اتنے آسان نہ رہے ہوں گے جس آسانی سے انہیں ڈیڑھ سطر میں لکھ دیا گیا ہے۔ ان مراحل میں چودھری صاحب مرحوم نے ازراہِ مہربانی و عنایت بے حد تعاون فرمایا اور رہنمائی بھی فرماتے رہے۔ اس سب میں نہ تو میری کوئی حیثیت تھی، نہ میرے رفیقِ کار کی۔ یہ چودھری صاحب کی خلیفہ وقت کی اطاعت اور تاریخ کے محفوظ ہوجانے کی تڑپ تھی جو انہیں ہمارے شعبے پر مائل بہ کرم رکھتی۔

اخبار الحکم جاری کرنے کی تجویز حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں پیش ہوئی تو حضور انور نے اجازت مرحمت فرمائی۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ تیاری شروع کردی جائے، تاہم دو احباب کے بارے میں فرمایا کہ انہیں لکھ کر پوچھو ان کی کیا رائے ہے۔ان میں سے ایک محترم چودھری حمیداللہ صاحب تھے۔

حضرت صاحب فیصلہ فرماچکے تھے مگر یہ بات ابھی ان دونوں بزرگوں سے بیان نہیں کرنی تھی۔ صرف ان کی رائے لینی تھی۔ تعمیلِ ارشاد میں دونوں احباب کو لکھ دیا گیا۔ چودھری صاحب مرحوم نے فرمایا کہ بہت ہی اچھی تجویز ہے اور ایسا اخبار جلد اور ضرور شروع ہونا چاہیے۔ دوسرے بزرگ نے لکھا کہ ایسے اخبار کی چنداں ضرورت نہیں۔

اگلی ملاقات میں دونوں کی آرأ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کی جانی تھیں۔ حضور نے ابھی دونوں تجاویز سنی بھی نہ تھیں کہ فرمایا چودھری صاحب نے کہا ہوگا کہ ضرورت ہے اور دوسرے صاحب نے کہا ہوگا کہ ضرورت نہیں ہے۔ ’’ایسا ہی ہے؟‘‘۔ عرض کی کہ باکل ایسا ہی ہے۔اس پر ایک مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا: ’’بس ٹھیک ہے۔ یہی دیکھنا تھا۔‘‘

ادارہ الحکم کے قیام کے بعد مدیر صاحب الحکم کو ضرورت محسوس ہوئی کہ چونکہ جماعت کا بہت سا تاریخی مواد اردو میں ہے، لہذا اس کے انگریزی ترجمہ کے لیے پاکستان سے ایک مربی سلسلہ کی تقرری ان کے ساتھ جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کی سمجھ رکھتے ہوں اور پاکستان ہی میں رہ کر ادارے کا کام کریں۔ حضرت صاحب کی منظوری اوررہنمائی سے قاصد معین صاحب (مدیر الحکم) پاکستان گئے۔ محترم چودھری حمیداللہ صاحب کو حضرت صاحب کا ارشاد پہنچ چکا تھا۔ چودھری صاحب نے ٹیسٹ اور انٹرویو کے مراحل کو آسان کرنے میں مدیر صاحب کے ساتھ بے حد تعاون کیا۔ جن مربیان کرام کے ٹیسٹ اور انٹرویو کیے گئے، ان میں سے اکثر کے نام چودھری حمید اللہ صاحب نے تجویز کیے تھے۔جب ان میں سے ایک بہت محنت اور محبت سے کام کرنے والے دوست کی تقرری الحکم کے ساتھ ہوچکی تو ان کے الاؤنس اور دیگر انتظامی امور میں بھی کوئی دقت نہ آنے دی۔ یوں مدیر صاحب اور ادارہ الحکم کو چودھری صاحب مرحوم سے تعارف حاصل ہوا اور اطاعتِ خلافت میں ہر کام کو بہترین طرز پر سرانجام دینے کا عملی سبق سیکھنےکو ملا۔

شعبہ آرکائیو 2014ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا۔ جلسہ سالانہ 2015ء پر جماعت کے تاریخی مواد پر مبنی نمائش لگائی گئی۔ جلسہ کے تینوں دن اور پھرتیسرے روز رات گئے تک نمائش لگی رہی۔ پھر تمام مواد کو سمیٹ کر ڈبوں میں محفوظ کرکے ہم واپس لندن دفتر میں لے آئے۔

جلسے کے اگلے روز صبح گیارہ بجے کے قریب مجھے چودھری صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے’’آرکائیو کی نمائش کہاں ہے؟‘‘

عرض کی کہ ہماری مستقل نمائش تو ابھی کوئی نہیں ہے۔ جلسے پہ لگائی تھی۔ مگر سمیٹ کر رکھ دی ہے۔ اس پر کہنے لگے:’’ابھی میری ملاقات تھی۔ حضور نے مجھے پوچھا ہے کہ میں نے نمائش دیکھی ہے یا نہیں۔ جب میں نے بتایا کہ جلسہ کے دنوں میں نہیں دیکھ سکا تو حکم فرمایا ہے کہ ابھی جا کر دیکھیں اور شام کو آکر بتائیں کہ دیکھ لی ہے‘‘

میں نے عرض کی کہ آپ ابھی تشریف لے آئیں۔ ہم تمام مواد ڈبوں سے نکال کر دکھادیتے ہیں۔

تھوڑی ہی دیر میں چودھری صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے اور میرے رفقأ کار نے تمام تاریخی مواد چودھری صاحب مرحوم کو دکھایا۔ بڑی تسلی سے دیکھتے رہےحوصلہ افزائی بھی فرماتے رہے۔ تقریباً ہر دستاویز ہی کے ساتھ کچھ نہ کچھ مزید معلومات ہمیں دیتے رہے۔ پھر شام ہونے سے پہلے پہلے یہ کہہ کر تشریف لے گئے کہ ’’اب میں واپس جاکر اپنی رپورٹ لکھوں کہ دیکھ آیا ہوں۔‘‘

چودھری صاحب مرحوم بہت کم گو آدمی تھے۔ پھر کسی کا ملنا جلنا بھی ان سے کم رہا ہو، تو کتنی گفتگو ہوگئی ہوگی؟ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے چودھری صاحب سے کتنی باتیں سن لی ہوں گی۔ مگر چودھری صاحب زبانِ حال سے بہت کچھ سکھا گئے۔ خلافت سے محبت اورخلیفۂ وقت کی اطاعت۔ جماعتی تاریخ کو محفوظ کرنے کی ضرورت۔ تاریخ کو محفوظ کرنے میں احتیاط کے تقاضے۔ جماعت کے انتظامی معاملات میں سہولت پیدا کرنے کی اہمیت اور اس کے فوائد۔

اس سب کے لیے میں محترم چودھری حمید اللہ صاحب مرحوم کا مقروض ہوں۔ یہ سطور جو میں نے لکھیں، محض اپنے دل کی تسلی کے لیے ہیں۔ ورنہ ایسے قرض کہاں چکائے جاسکتے ہیں؟

 ایک اور بات جس سے اپنے دل کو تسلی دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ خود اتنے کم گو تھے تو یقیناً خاموشی کی زبان کو سمجھتے بھی ہوں گے۔میں ان کے رعب میں کبھی انہیں بتا نہ سکا، لیکن خدا کرے انہوں نے میری خاموش محبت کو محسوس کر لیاہو۔اللہ تعالیٰ محترم چودھری صاحب مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کو سلطانانِ نصیر عطا فرماتا چلا جائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button