وہ اتنا پیارا ہے
اگر وہ سامنے آئے، وہ اتنا پیارا ہے
تو دل میں دیپ جلائے وہ اتنا پیارا ہے
غزل ، کہانی ، گرامر ، اُسے سلامی دیں
اگر وہ اردو پڑھائے ، وہ اتنا پیارا ہے
گُلاب اُس کے بدن سے ادھار لے خُوشبو
صبا گلے سے لگائے وہ اتنا پیارا ہے
وہ لب کُشا ہو تو غالِب کرے قدم بوسی
کہے گا میر بھی ’’ہائے‘‘ وہ اتنا پیارا ہے
وہ فلسفے پہ جو بولے تو فرطِ حیرت سے
ارسطو سر کو کھجائے، وہ اتنا پیارا ہے
اُسی کی بات کو میں آخری سند سمجھوں
اُسی کی ’’رائے‘‘ ہے رائے ، وہ اتنا پیارا ہے
فراز و فیض اُسے داد دیں مَزاروں سے
وہ جب بھی شعر سنائے ، وہ اتنا پیارا ہے
اُسی کے واسطے میں بن سنور کے سوتا ہوں
کہ کاش خواب میں آئے، وہ اتنا پیارا ہے
میں چاہتا ہوں کسی روز وہ خفا ہو کر
مجھے بھی چار ’’سنائے‘‘ وہ اتنا پیارا ہے
وہ میکدے کو جو دیکھے تو میکدہ جُھومے
سبُو کو ہوش نہ آئے وہ اتنا پیارا ہے
تو پھر وہ ذرّہ بھی گوہر مثال ہوتا ہے
جسے وہ ہاتھ لگائے وہ اتنا پیارا ہے
میں بھول جاؤں گا سارے بہشت کے منظر
اگر وہ پاس بٹھائے ، وہ اتنا پیارا ہے
میں چاہتا ہوں کسی روز برف باری ہو
اسے پلاؤں میں چائے وہ اتنا پیارا ہے
وہ شخص دیکھنے نکلے کبھی جو عید کا چاند
تو چاند نوروں نہائے وہ اتنا پیارا ہے
میں اس کے شہر کی مٹی بھی چوم سکتا ہوں
دل و نظر کو بچھائے وہ اتنا پیارا ہے
وہ سامنے ہو تو پھر جی ، حضور ، وہ ، میں ، نا
سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے وہ اتنا پیارا ہے
(مبارک صدؔیقی)