سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

1860ء تا 1867ء

سیالکوٹ کا زمانہ

…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……

کچہری میں عام تعطیل

ضلع کا سب سے بڑا افسر یعنی ڈپٹی کمشنر جس کے عملہ میں آپؑ شامل تھے۔ اس کے دل میں آپ کے لیے عزت واحترام کے جذبات تھے۔ اور ایک روایت ہمیں یہ بھی ملتی ہے کہ جب حضورانور علیہ السلام نے اپنی اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور قادیان واپس آنے لگے تو اس روز آپ کے اعزاز میں اس ڈپٹی کمشنر نے عام تعطیل کا اعلان کیا کہ ایسا نیک اور پاکبازنوجوان اس کے عملے سے رخصت ہوکے جارہاہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلداول ص 93۔ 94)ایک اورکتاب میں جوکہ ایک مخالف مصنف کی کتاب ہےیوں لکھاہواہے:

“Mirza left the job at Sialkot Court in 1868 without any obvious reason and settled down in Qadian. [H.E. Perkins, DC Sialkot.]Perkins ordered that the Courts should be closed as a mark of respect the day the Mirza left for Qadian.”

( The Ahmadiya Movement : British – Jewish Connections page:13to14)

اس کے مصنف کانام بشیراحمدہے اوریہ کتاب 1994ء میں شائع ہوئی اوراسی کتاب کا ترجمہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ’’تحریک احمدیت۔ یہودی وسامراجی گٹھ جوڑ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ (اس کا مترجم احمدعلی ظفر تھا،پبلشر عبداللہ اکادمی لاہور، پرنٹر نصرت پریس لاہور جبکہ یہ ترجمہ 987 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس اردوترجمہ میں لکھاہے کہ

’’جس روزمرزاصاحب نے قادیان کو روانگی اختیار کی اس دن احترام کے طورپر پرکنز نے کچہری میں تعطیل کردی۔‘‘

( تحریک احمدیت۔ یہودی و سامراجی گٹھ جوڑ ص:60 بحوالہ دسمبر 1972ء کے سالانہ اجتماع پرعبدالمنان عمرکا خطاب، احمدیہ انجمن لاہور 1981ء ص12۔ البتہ انگریزی والے حصہ میں 1977ء سالانہ جلسہ کا حوالہ دیاگیاہے۔ )

خاکسارنے یہ حوالہ مذکورہ انگریزی اور اس کے اردوترجمہ سے لیاہے۔ اسی باب میں ایک جگہ 1860ء سے 1870ء تک کے سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنرزکی فہرست دی گئی ہے۔ اس فہرست کو اگر سامنے رکھیں اور وہ درست سمجھی جائے تو عام تعطیل کااعلان کرنے والے ڈپٹی کمشنر کانام پرکنزنہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس فہرست کے مطابق مسٹرپرکنز کاسیالکوٹ میں تقرر16؍فروری 1864ء سے 24؍اگست 1864ء تک کاہے۔ اورظاہرہے کہ اس زمانے میں توآپؑ نے ملازمت ختم کی اورنہ ہی استعفیٰ دیاتھا۔ البتہ ملازمت کے اختتام کاسال 1868ء یا1867ء سمجھاجائے تو وہ ڈپٹی کمشنرگریفن صاحب ہوسکتے ہیں یا میجرٹی ڈبلیو مرسر، لہٰذااگر تعطیل کی روایت کودرست ماناجائے تو راوی کوڈپٹی کمشنرکے نام میں بہرحال سہوہواہے۔

سیالکوٹ کے مشنری انچارج ریورنڈٹیلر کااعتراف عظمت

یہ پادری سکاچ مشن کے ایک مشہورپادری تھے سیالکوٹ مشن کے انچارج تھے اور یہاں حضرت اقدسؑ کے ساتھ ان کی مذہبی گفتگورہتی تھی۔ ان علمی ومذہبی مناقشوں کے باوجود ان کے دل میں آپؑ کی علمی اور اخلاقی عظمت ایسی گھرکرگئی تھی کہ جب وہ واپس انگلستان جانے لگے تو اپنی وہ شان وشوکت جو اس زمانے میں ان کو ہواکرتی تھی اس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حضورانور علیہ السلام سے الوداعی ملاقات اور زیارت کے لیے کچہری میں آئے۔ ڈپٹی کمشنر مسٹرپرکنس نے پوچھا تو بتایا کہ میں مرزاصاحب سے ملنے کے لیے آیا ہوں اور پھر جہاں آپ بیٹھے ہوئے تھے وہیں سیدھےگئےاوروہیں چٹائی پر آپ کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپس چلے گئے۔

( مأخوذازسیرت حضرت مسیح موعودؑ، از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمدؓ خلیفۃ المسیح الثانی، انوار العلوم جلد 3ص339، لائف آف احمدؑ جلداول ص39، تاریخ احمدیت جلداول ص93)

منشی سراج الدین صاحب والدمحترم مولوی ظفرعلی خان صاحب

سیالکوٹ میں ہی امانت ودیانت کے ساتھ ساتھ آپ کی نیکی اور تقویٰ کاشہرہ کس قدرتھا اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہےکہ آپ کے دعویٰ نبوت اورمہدویت کے بعد جب کہ مسلمانوں کی طرف سے آپ پرکفرکے فتاویٰ لگائے گئے۔ تب بھی وہاں کے رہنے والے لوگ جنہوں نے آپ کو دیکھا اور آپ کے ساتھ وقت گزارا وہ آپ کی نیکی اورتقویٰ کے قائل اورمعترف تھے۔ چنانچہ برصغیر کے مشہورومعروف رہنما مولانا ظفرعلی خان صاحب کے والد بزرگوارمنشی سراج الدین صاحب جو خود ہندوپاک کی صحافت میں ایک نام اور مقام رکھتے تھے اور ایک مشہوراخبارزمیندارکے بانی تھے اپنے اخبارمیں لکھتے ہیں :

’’مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر22۔ 24سال کی ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ ‘‘

(اخبارزمیندار مئی 1908ء بحوالہ اخباربدر، 25 جون 1908ء صفحہ13/جلد7نمبر25)

شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب استاذگرامی شاعر مشرق علامہ اقبال

ایک اَور شہادت جو بہت اہمیت رکھتی ہے وہ شمس العلماء مولانا سیدمیرحسن صاحب مرحوم سیالکوٹی کی ہے۔ مولانا صاحب سیالکوٹ ہی میں نہیں ہندوستان بھر میں علوم مشرقی کے بلند پایہ عالم اور مسلمانوں میں ایک نہایت ممتاز شخصیت کے حامل تھے۔ ڈاکٹر محمد اقبال ایسے شہرہ آفاق فلسفی شاعر ابتدا میں آپ ہی سے شرف تلمذرکھتے تھے جس پر انہیں ہمیشہ ناز رہا۔ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے مولانا صاحب موصوف کو بھی حضورؑ سے اکثر ملاقات کا موقع ملتا تھا۔ مولوی صاحب نے اس زمانہ میں حضور کو بڑے قریب سے مطالعہ کیا اور دیکھا۔ وہ سرسید تحریک کے دلدادہ تھے مگر ان کے دل پر حضور کی بزرگی، تقدس اور تقویٰ کا غیر معمولی اثر تھا اور وہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بے حد عزت کیا کرتے تھے۔ 26؍ نومبر1922ء کو انہوں نےحضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ کوایک مکتوب لکھااپنے اس مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’…خلاصہ یہ ہے کہ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت اپنے ہر قول وفعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔‘‘

(اخبارزمیندار مئی 1908ء بحوالہ اخباربدر، 25؍جون 1908ء صفحہ13/جلد7نمبر25)

ایک اور تفصیلی روایت میں مولانا صاحب نے آپؑ کے سیالکوٹ کے متعلق کچھ واقعات بیان فرمائے ہیں یہ دونوں روایات اس باب کے آخر پر من وعن درج ہیں۔ ایک روایت میں آپ نے لکھا:

’’حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہرسیالکوٹ میں تشریف لائے اورقیام فرمایا چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اورفضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے… مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ تھے…‘‘

(سیرت المہدی جلداوّل، روایت نمبر150)

ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سیالکوٹ میں، مولانا سیدمیرحسن صاحب سے ملے تو انہوں نے چشم پُرآب ہو کر فرمایا:

’’افسوس !ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کرسکتا ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی۔ بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں۔‘‘

(اخبارالحکم، 7 اپریل 1934ء ص3/جلد37نمبر12، تاریخ احمدیت جلداول ص95)

میاں بوٹاکشمیری جن کے گھرمیں حضورؑ کی رہائش تھی بیان کرتے ہیں کہ

’’میں تو ان کو ولی اللہ جانتاہوں۔ ایک دفعہ میرے والد بیمارہوئے تمام ڈاکٹر اورحکیم جواب دے چکے کہ اب یہ نہیں بچے گا اورعلاج کرنا فضول ہے لیکن ہم نے حضرت مرزاصاحب کو بلایا آپ نے دعا فرمائی اور کچھ علاج بھی بتایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی دعا سے میرے والدصاحب کوشفا دی اور بہت سی ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوئیں۔‘‘

(الفضل 8 اکتوبر 1925ء ص6کالم 3جلد13نمبر41، تاریخ احمدیت جلداول ص85-86)

ایک روایت محترمہ مائی حیات بی بی صاحبہ کی ہے جو پہلے درج کی جاچکی ہے۔ جن کے گھرمیں اول اول حضورؑ کاقیام رہا۔ ان کی روایت کا یہ اقتباس دوبارہ ہمارے پڑھنے والاہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں :

’’ہمارے نانا فضل دین صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب جب کچہری سے واپس آتے تو چونکہ آپ ا ہلمد تھے۔ مقدمہ والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آ جاتے۔ تو مرزا صاحب فضل دین صاحب کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچہری میں ہی کر دیں گے۔ گھر میں وہ کسی سے نہیں ملتے۔‘‘

سید میرحسن کی ایک روایت پہلے بیان ہوچکی ہے۔ سیالکوٹ میں وہ حضرت اقدسؑ کے ہم مجلس بھی رہے اور بہت سارے واقعات کے چشمدید گواہ بھی رہے وہ بیان کرتے ہیں :

’’حسب عادت زمانہ صاحبِ حاجات جیسے اہل کاروں کے پاس جاتے ہیں۔ ان کی خدمت میں بھی آجایاکرتے تھے۔ اسی عمرامالک مکان کے بڑے بھائی فضل دین نام کو جو فی الجملہ محلہ میں موقر تھا۔ آپ بلا کرفرماتے۔ میاں فضل دین ان لوگوں کو سمجھادو کہ یہاں نہ آیاکریں۔ نہ اپنا وقت ضائع کیاکریں اورنہ میرے وقت کو برباد کیاکریں۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں حاکم نہیں ہوں۔ جتنا کام میرے متعلق ہوتاہے کچہری میں ہی کرآتاہوں…‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر280)

روایت کے ان الفاظ پر غورکریں تو صاف معلوم ہوجاتاہے کہ ایسے الفاظ وہی کہہ سکتاہے کہ جو صرف اپنے کام سے کام رکھے اور کسی بھی قسم کی پیشہ وارانہ خیانتوں میں نہ پڑاہواورنہ جانتاہو۔

اسی روایت میں سیدمیرحسن کے یہ الفاظ آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہیں وہ بیان کرتے ہیں :

’’حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہرسیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اورفضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے…مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ تھے…‘‘

دراصل یہ بھی زندگی کاایک تجربہ تھا۔ ایک امتحان تھا اورخداتعالیٰ آپؑ کے اخلاق عالیہ و فاضلہ اورآپ کی نیکی وتقویٰ وراستبازی پر ایک زمانے کوشاہداور گواہ بنانا چاہتاتھا۔ اسی تجربہ ومشاہداتی کیفیت کاذکرکرتے ہوئے حضورؑ اپنی ایک تصنیف میں بیان فرماتے ہیں :

’’اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو پورے طور پر صوم و صلوٰةکے پابند ہوں اور جو ان ناجائز حظوظ سے اپنے تئیں بچا سکیں۔ جو ابتلا کے طور پر ان کوپیش آتے رہتے ہیں۔ میں ہمیشہ ان کے منہ دیکھ کر حیران رہا۔ اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام دلی خواہشیں مال ومتاع تک خواہ حلال کی وجہ سے ہو یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں۔ اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں صرف اسی مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں۔ میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ۔ حلم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پرہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں۔ بلکہ بہتوں کو تکبر اور بد چلنی اور لا پروائی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ حکمت تھی۔ کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا اور بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ185-186 حاشیہ)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button