احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……
آپؑ کی رہائش کہاں کہاں رہی(حصہ دوم)
نوٹ ثانی:’’ میں نے وہ مکان جا کر دیکھا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اثنائے قیام سیالکوٹ میں ملازمت کے ایام میں رہا کرتے تھے۔ یہ مکان محلہ چودھری سلطان میں واقع ہے اور اس کے ساتھ پہلو میں جانب جنوب چراغ دین صاحب کا مکان ہے جو دو منزلہ ہے۔ لیکن پہلے ایک منزلہ تھا۔ اور موجودہ شکل بعد کی ہے۔ چراغ دین صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ جب مرزا صاحب یہاں رہا کرتے تھے تو اس وقت میری عمر 10۔ 11 سال کی تھی۔ اور اس وقت مرزا صاحب کی داڑھی ذرا ذرا سی تھی۔ جب آپ کام کاج سے فارغ ہو کر باہر سے آتے تو کسی سے بات نہ کرتے اور اندر ہروقت لکھنے پڑھنے کا ہی کام کرتے۔ اب وہ مکان جس میں مرزا صاحب رہتے تھے۔ ماسٹر عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر نے جو احمدی ہیں خرید کیا ہوا ہے۔ پہلے اس مکان میں صرف ایک ہی دروازہ تھا بعد میں جب تقسیم ہوا تو درمیاں میں دیوار حائل کر کے دو دروازے نکال لیے گئے ہیں۔ مرزا صاحب اس کوٹھڑی میں رہتے تھے جو ان کے مکان کے ساتھ ہے اور اب تک وہ کوٹھڑی اسی حالت میں ہے۔ ‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیالکوٹ کے اس زمانے کے حوالے سے یہ ایک بہت مفید روایت ہے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ آپؑ اپنی عمر کے اس حصہ میں تشریف لائے تھے کہ جب کہ آپؑ کی مَسیں بھیگ رہی تھیں، اور دومکانوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اوریہ بھی کہ وہ کون سا خوش قسمت گھرانہ تھا کہ جسے یہ بھی سعادت ملتی رہی کہ آپؑ کا کھانا تیارکرکے بھیجتارہے۔ بہرحال آپؑ کی رہائش گاہوں کے بارہ میں ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت اقدس جب سیالکوٹ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ایک چوبارہ میں قیام فرمایایہ وہی چوبارہ ہے جس کا ذکر حضرت اقدسؑ کی حفاظت الٰہی کے ضمن میں اکثرکیاجاتاہے۔
اس چوبارہ کے گرنے کےبعد آپؑ کشمیری محلہ میں منتقل ہوگئے۔ مذکورہ بالاروایت کےمطابق یہ مکان میاں فضل دین صاحب کا تھا جو مذکورہ بالا راویہ مائی حیات بی بی صاحبہ کے والدمحترم تھے اورحافظ محمدشفیع صاحب کے نانا تھے۔ لیکن محترم سیدمیرحسن صاحب کی روایت جو ابھی درج ہوگی اس کے مطابق یہ مکان میاں فضل دین صاحب کے بھائی عمرا نامی کشمیری کاتھااورفضل دین صاحب اس کے بڑے بھائی تھے۔
اور یہ مکان بعدمیں ماسٹر عبدالعزیز صاحب ٹیلرماسٹر نے جو خودبھی احمدی تھے خرید لیا تھا اور1935ء کی روایت جو سیرت المہدی کی مذکورہ روایت ہے اس کے مطابق یہ محلہ، محلہ چودھری سلطان کے نام سے بھی معروف ہے۔ اوروہ کمرہ جس میں حضرت اقدسؑ قیام پذیررہے اس کی نشاندہی 1935ء میں یوں کی گئی ہے کہ
’’میں نے وہ مکان جا کر دیکھا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے اثنائے قیام سیالکوٹ میں ملازمت کے ایام میں رہا کرتے تھے۔ یہ مکان محلہ چودھری سلطان میں واقع ہے اور اس کے ساتھ پہلو میں جانب جنوب چراغ دین صاحب کا مکان ہے جو دو منزلہ ہے۔ لیکن پہلے ایک منزلہ تھا۔ اور موجودہ شکل بعد کی ہے۔ اب وہ مکان جس میں مرزا صاحب رہتے تھے۔ ماسٹر عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر نے جو احمدی ہیں خرید کیا ہوا ہے۔ پہلے اس مکان میں صرف ایک ہی دروازہ تھا بعد میں جب تقسیم ہوا تو درمیاں میں دیوار حائل کر کے دو دروازے نکال لیے گئے ہیں۔ مرزا صاحب اس کوٹھڑی میں رہتے تھے جو ان کے مکان کے ساتھ ہے اور اب تک وہ کوٹھڑی اسی حالت میں ہے۔ ‘‘
ضمناً یہاں یہ ذکربھی کرتاچلوں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بھی اسی محلہ میں پیداہوئے بلکہ اسی مکان کے قریباً سامنے کرکے ہی آپؓ کا مکان ہے۔ آپؓ کی تاریخ پیدائش 1858ء ہے اورکیابعیدہے کہ بچپنے کے دنوں میں آپؑ کی نظر شفقت کے بھی کبھی موردبن جایاکرتے ہوں۔ اور یہ وہی نظرہی ہوجو اس چھوٹے سے بچے کو سیالکوٹ محلہ سلطان کی گلیوں سےاٹھاکر سلطان القلم کے قدموں میں ایسابٹھایا کہ آسمان کا ستارہ بنادیا۔
یہ مکان خاکسار نے بھی دوتین مرتبہ دیکھاہے اور اب سال 2011ء میں بھی دیکھاہے اور دوسرے مکانات کی بابت بھی کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حتمی طور پران کی نشاندہی کرنا قدرے مشکل امرہے۔
i. تیسری رہائش گاہ ایک بیٹھک ہے۔ سیدمیرحسن صاحب نے حضرت اقدسؑ کے سیالکوٹ میں رہائش کے زمانہ کی بابت دومرتبہ تفصیلی حالات وواقعات بیان فرمائے ہیں اس میں وہ بیان کرتے ہیں :
’’اسکے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمع منصب علی حکیم کے رہاکرتے تھے۔ وہ (یعنی منصب علی۔ خاکسار مؤلف) وثیقہ نویسی کے عہدہ پر ممتاز تھے…۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل ص 252 روایت نمبر280)
’’…چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل ص 252 روایت نمبر280)
ان روایات کےمطابق ایک تیسری رہائش گاہ آپؑ کی وہ قرارپاتی ہے جو یہ ایک بیٹھک تھی اور مؤرخ احمدیت حضرت مولانا دوست محمدصاحب شاہدؒ کے مطابق ’’او ر غالباً یہیں آخر تک مقیم رہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلداوّل ص 252 روایت نمبر280)
یہ جامع مسجد کون سی تھی اوربیٹھک کون سی تھی۔ اغلباًیہ جامع مسجد وہی ہے جو حضرت میرحسام الدین صاحب کی مسجدکہلاتی تھی اور آج کل’’ مسجدمبارک‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اور یہ مکان بھی حضرت میرحسام الدین صاحبؓ کا تھا جس کی بیٹھک میں آپؑ قیام پذیررہے۔ واللہ اعلم
سیالکوٹ میں آپؑ کی مصروفیات
اپنے مفوضہ فرائض کی احسن رنگ میں ادائیگی کے علاوہ آپؑ کی اس زمانے میں اورکیا مصروفیات رہتی ہوں گی جو روایات ہمارے سامنے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بہت ہی محتاط اندازے کے مطابق آپؑ کی مصروفیات کی ایک دھندلی سی جھلک کچھ اس طرح سے نظر آتی ہے :
- مفوضہ فرائض کی ادائیگی
- عبادت وتلاوت قرآن کریم
- خدمت خلق اور درس وتدریس
- علمی ودینی گفتگو، مذہبی مناظرے اور علمی مجالس عرفان
- بزرگوں سے ملاقات
مفوضہ فرائض کی ادائیگی
جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضورانورعلیہ السلام ڈپٹی کمشنرکی عدالت میں محررکے فرائض بجا لانے پر مامورہوئے تھے۔ ہرچندکہ عہدے کے اعتبار سے عام اور معمولی ساعہدہ ہی تھا۔ لیکن اپنی دیانت اور تقویٰ اور علمی لیاقت کی بنا پر آپؑ کی بہت جلدشہرت ہوگئی۔
اپنے کاموں اورلیاقت اور اس ڈیوٹی میں محنت اور دیانت داری ایسی تھی کہ گویا اپنی مثال آپ تھے۔ جس جگہ آپ ملازمت کررہے تھے وہ جگہ ایسی تھی کہ جہاں رشوت اورہرجائزوناجائز حیلوں اورطریقوں سے حقوق لیے بھی جاتے تھے اوردبائے بھی جاتے تھے۔ اور اس کے لیے جھوٹ اور جھوٹی گواہیاں تو گویامعمول کی بات اور معمولی سی بات سمجھی جاتی تھی۔ ایسے ماحول میں اپنے آپ کواس طرح کے ہرعیب سے بچائے رکھنا اور اپنی ذمہ داری پوری محنت اوردیانتداری سے پوری کرنا ایسی جوانمردی ہے کہ جو بجزاعلیٰ درجہ کے متقی کے اورکسی کے نصیب میں نہیں۔ آپ کی سوانح سے معلوم ہوتاہے کہ جب آپ کچہری میں ہوتے تو ایک دانا اور ہوشیاراورقوی امین اورمطیع وفرمانبردار نوکر کی طرح اپنے مفوضہ فرائض سرانجام دیتے اور جب کچہری سے واپس تشریف لاتے تووہاں کے تمام معاملات کو گویاوہیں چھوڑکر اپنے گھرتشریف لاتے اور باقی ساراوقت تلاوت قرآن اور عبادت الٰہی میں گزارتے۔ اور کسی سے کوئی میل ملاقات اورتعلق گویانہ ہونے کے برابرہوتا۔
سیالکوٹ کے رہنے والے، آپ کے ہمسائے یا ہمنشین، کچہری کے ملازمین یا افسران بالا سب آپ کی نیکی، تقویٰ اور امانت ودیانت کے معترف تھے، دل سے قائل تھے اور زبان سے اس کا اظہاربھی کرتے تھے۔
آپ کی دیانتداری اورپاکیزگی اور پاکیزہ جوانی کی یہ گواہی دینے والے وہاں کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تب اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور یہ چشم دید گواہ عام لوگ تو تھے ہی آپؑ اپنی نیکی اور تقویٰ میں بھی مشہور تھے یہاں تک کہ پادری لوگ بھی آپ کے معترف تھے حالانکہ مذہبی عقائد کے بنا پر ہمیشہ مباحثات میں وہ آپ سے زَک اٹھایاکرتے تھے۔
(باقی آئندہ)