’’جنگِ بدر کے قصہ کو مت بھولو‘‘
ہوا ہے اہلِ محبت کو امتحاں درپیش
ہوا ہے مشت بھر افراد کو جہاں درپیش
ہیں اہلِ درد کو پھر تیر اور کماں درپیش
خوشا نصیب، کہ ہے میرِ کارواں درپیش
وہی ہے ڈھال، سو اس ڈھال کو نہیں بھولو
کبھی بھی بدر کے احوال کو نہیں بھولو
پھر آج مدِمقابل ہیں اہلِ جاہ و حشم
اٹھائے ہیں وہی کبر و غرور کا پرچم
انہیں نصیب سبھی فیصلوں کے لوح و قلم
یہاں پہ چال کوئی ہے تو بس ثباتِ قدم
یہی ہے چال تو اِس چال کو نہیں بھولو
کبھی بھی بدر کے احوال کو نہیں بھولو
امیرِ اہلِ وفا پھر ہوا ہے سجدہ ریز
جو سجدہ گاہ سے اٹھی صدائے لرزہ خیز
تو دیکھ لینا کہ ہوگی وہ انقلاب انگیز
ستم گرو، وہ دعائیں ہیں مثلِ تیغِ تیز
سو اپنے گِرد بچھے جال کو نہیں بھولو
کبھی بھی بدر کے احوال کو نہیں بھولو
امیرِ قافلہ سجدے سے اٹھ کے آئے گا
تو اُس کے ساتھ خدائے قدیر آئے گا
وہ اپنے ہاتھ سے کنکر بھی گر اڑائے گا
تو اہلِ ظلم پہ طوفان ٹوٹ جائے گا
پس آنسوؤں سے لکھی فال کو نہیں بھولو
کبھی بھی بدر کے احوال کو نہیں بھولو
(آصف محمود باسط)