سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

1860ء تا 1867ء

سیالکوٹ کا زمانہ

ملازمت میں الٰہی حکمتیں(حصہ دوم)

(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت اقدسؑ کا ملازمت کایہ دوراپنے اندر بے شمارالٰہی حکمتیں رکھتا تھا۔ اور سیالکوٹ کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےگویاکہ ایک روحانی ٹریننگ کا بھی زمانہ تھا جس میں آپ کے ہاتھوں پادریوں سے معرکہ آرائی کا آغاز ہونا مقدر تھا۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق یہ دور ختم ہونے کو آیا تو آپؑ کے والد بزرگوار کے دل میں جدائی کا زخم جو آہستہ آہستہ مندمل ہوگیا تھا یکایک تازہ ہوگیا اور انہوں نے ایک آدمی بھجوا کر اپنے چہیتے فرزند کو ملازمت سے استعفیٰ دے کر واپس آجانے کی فوری ہدایت دی۔ چنانچہ آپؑ یہ ارشاد ملتے ہی ملازمت سے مستعفی ہو کر سیالکوٹ سے قادیان کو چل دیے اور اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس عرصۂ ملازمت کا ذکرکرتے ہوئے خود تحریر فرماتے ہیں کہ

’’ایسا ہی ان کے (یعنی والدصاحب کے۔مرتب ناقل) زیر سایہ ہونے کے ایام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی۔آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا۔اس لئے انکے حکم سے جو عین میری منشاء کے موافق تھا۔میں نے استعفا دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اورپھر والد صاحب کی خدمت میں حاضرہو گیا۔اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکری پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں۔ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو پورے طور پر صوم و صلوٰةکے پابند ہوں اور جو ان ناجائز حظوظ سے اپنے تئیں بچا سکیں جو ابتلاء کے طور پر ان کوپیش آتے رہتے ہیں۔میں ہمیشہ ان کے منہ دیکھ کر حیران رہا اور اکثر کو ایسا پایا کہ ان کی تمام دلی خواہشیں مال ومتاع تک خواہ حلال کی وجہ سے ہو یا حرام کے ذریعہ سے محدود تھیں۔اور بہتوں کی دن رات کی کوششیں صرف اسی مختصر زندگی کی دنیوی ترقی کے لئے مصروف پائیں۔میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ۔حلم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پرہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں۔بلکہ بہتوں کو تکبر اور بد چلنی اور لا پروائی دین اور طرح طرح کے اخلاق رذیلہ میں شیطان کے بھائی پایا۔اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ حکمت تھی۔کہ ہر ایک قسم اور ہر ایک نوع کے انسانوں کا مجھے تجربہ حاصل ہو اس لئے ہر ایک صحبت میں مجھے رہنا پڑا۔اور بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے۔ ؂

من بہر جمعیتے نالاں شدم جفت خوشحالاں وبدحالاں شدم

ہر کسے ازظن خود شدیار من وز درون من بخست اسرار من

حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بدستور انہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہو گیا مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ184-187حاشیہ)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے سیالکوٹ میں ملازمت کے متعلق ایک اعتراض کاجواب دیتے ہوئے اور بعض مصالح کاذکرکرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں:

’’بعض لوگ دعویٰ سے پہلی زندگی پر ہمیشہ از راہِ تمسخر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ پندرہ بیس روپیہ کے سیالکوٹ میں ملازم تھے۔ اس کے متعلق اوّل تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام نے ایک عورت سے نکاح کی خاطر اس کے والد کی دس سال بکریاں چَرائیں اس لئے یہ بیہودہ اعتراض ہے۔ پندرہ بیس روپیہ ماہوار بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تنخواہ سے زیادہ ہی ہیں جو ایک دو روپیہ ماہوار سے زیادہ نہیں بنتی۔ مگر ہم کہتے ہیں اگر آپ دو روپیہ ماہوار پر بھی ملازم ہوتے تو بھی یہ کوئی اعتراض کی بات نہ تھی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کوفہ کے لوگ ہمیشہ شرارتیں کرتے رہتے تھے اورعُمال کو بہت تنگ کرتے تھے۔ آپ نے ایک شخص کو جن کا نام عبدالرحمٰن تھا اور جسے انگریزی کتابوں میں SAGACIOUS QAZI کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہاں قاضی مقرر کر کے بھیجا اُس وقت ان کی عمر صرف 19 سال کی تھی۔ وہ جب پہنچے تو کوفیوں نے کہا کہ’’گُربہ کشتن روزِ اوّل‘‘والا معاملہ اس کے ساتھ کرنا چاہئے اور شہر سے باہر جا کر اس کا مذاق اُڑانا چاہئے تا وہ سر نہ اُٹھا سکے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ جب ملیں تو اس کی عمر پوچھیں خود ہی شرمندہ ہو جائے گا۔ وہ شہر سے باہر گئے اور شاندار استقبال کیا اور پھر ایک نے پوچھا آپ کی عمر کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب اسامہؓ کو حضرت عمرؓ اور حضرت ابوبکرؓ پر سردار مقرر کر کے بھیجا تھا اس وقت جو اسامہؓ کی عمر تھی میری اس سے ایک سال زیادہ ہے۔ اس پر وہ لوگ سمجھ گئے کہ اس شخص کو عمرؓ جیسے شخص نے کچھ دیکھ کر ہی یہاں کیلئے چُنا ہے اور آپس میں اشارے کرنے لگے کہ بس اب کوئی شرارت نہ کرنا۔ سو اگر تنخواہ کا بھی کوئی معیار ہے تو بہرحال حضرت مرزا صاحب کی تنخواہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ تھی لیکن ہم اسے نبوت کے لئے کوئی معیار نہیں سمجھتے کیونکہ اگر تنخواہ کا زیادہ ہونا صداقت کا معیار ہو تو سب سے بڑا روحانی انسان ہندوستان کا وائسرائے قرار پائے گا جو ساڑھے بائیس ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتا ہے۔ اگر تنخواہ کی کمی بیشی بھی کوئی چیز ہے تو پھر پانچ سات کی کیا شرط ہے۔ امریکہ کے پریذیڈنٹ اور وہاں کے بڑے بڑے کروڑ پتیوں کی فضیلت کو کیوں نہ تسلیم کیا جائے۔ یہ تو وہی سوال ہے کہ کفار نے کہا تھا کہ اگر تو خدا کا رسول ہے تو تیرے پاس اس قدر اموال ہونے چاہئیں کہ تیرا گھر سونے کا ہو۔

سیالکوٹ میں ملازمت کی وجہ اور حکمتِ الٰہی

خیر مَیں بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جو آپؑ کو سیالکوٹ لے گیاتو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کو گھر میں کھانے کو نہ ملتا تھا اور معاش کے لئے آپ کو کسی نوکری کی تلاش تھی۔ خدا کے فضل سے گورنمنٹ ہمارے خاندان کو رؤسائے پنجاب میں شمار کرتی ہے ہماری جائیداد کو دیکھ لوقادیان کے ہم مالک ہیں اور ان لوگوں سے قبل جنہوں نے سکونت کی غرض سے ہم سے زمین خریدی کسی کی چَپّہ بھر زمین بھی وہاں نہ تھی۔ اس کے علاوہ تین اور گاؤں ہماری ملکیت ہیں اور دو میں تعلّقہ داری ہے۔پس سوچنا چاہئے کہ اگر مرزا صاحب نے نوکری کی تو ضرور اس میں کوئی اور غرض ہوگی آپ کے دل کی یا خدا تعالیٰ کی اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں دونوں کی ایک ایک غرض تھی۔ حضرت مرزا صاحب کی ایک تحریر ملی ہے جو آپ نے والد صاحب کے نام لکھی تھی۔ آپ کے والد صاحب آپ کو دنیوی معاملات میں ہوشیار کرنے کیلئے مقدمات وغیرہ میں مصروف رکھنا چاہتے تھے اور آپ کی جو تحریر ملی ہے اس میں آپ نے اپنے والد صاحب کو لکھا ہے کہ دنیا اور اس کی دولت سب فانی چیزیں ہیں مجھے ان کاموں سے معذور رکھا جائے مگر انہوں نے جب آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تو آپ سیالکوٹ چلے گئے کہ دن کو تھوڑا سا کام کر کے رات کو بے فکری کے ساتھ ذکرِ الٰہی کر سکیں۔

دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ قادیان سارا ہماری ملکیت ہے اور اب بھی جن لوگوں نے وہاں زمینیں لی ہیں وہ سب احمدی ہیں اس لحاظ سے بھی گویا وہاں کے لوگ ہماری رعایا ہیں اس لئے وہاں کے لوگوں کی حضرت مرزا صاحب کے متعلق شہادت پر کوئی کہہ سکتا تھا کہ ’’خواجہ کا گواہ مینڈک‘‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ لا ڈالا جہاں آپ کو غیروں میں رہنا پڑا اور اس طرح خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ ناواقف لوگوں میں سے وہ لوگ جن پر آپ یا آپ کے خاندان کا کوئی اثر نہ ہو آپ کی پاکیزہ زندگی کیلئے شاہد کھڑے کئے جائیں۔ پھر سیالکوٹ پنجاب میں عیسائیوں کا مرکز ہے وہاں آپ کو ان سے مقابلہ کا بھی موقع مل گیا۔ آپ عیسائیوں سے مباحثات کرتے رہتے تھے اور مسلمانوں نے آپ کی زندگی کو دیکھا۔ قادیان کے لوگوں کو آپ کے مزارع کہا جا سکتا تھا مگر سیالکوٹ کے لوگوں کی یہ حیثیت نہیں تھی۔ وہاں کے تمام بڑے بڑے مسلمان آپ کی عُلوِّ شان کے معترف ہیں۔ مولوی میر حسن صاحب جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے استاد تھے اور جن کے متعلق ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اظہارِ عقیدت کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ آخر تک سلسلہ کے مخالف رہے مگر وہ ہمیشہ اس بات کے معترف تھے کہ مرزا صاحب کا پہلا کیریکٹر بے نظیر تھا اور آپ کے اخلاق بہت ہی اعلیٰ تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ میں معمولی نوکری اس غرض سے کرائی تھی۔ اس زمانہ میں عیسائیوں کا بڑا رُعب ہوتا تھا اب تو کانگریس نے اسے بہت کچھ مٹا دیا ہے اس زمانہ میں پادریوں کا رُعب بھی سرکاری افسروں سے کم نہ تھا اور اعلیٰ افسر تو الگ رہے ادنیٰ ملازموں تک کی یہ حالت تھی کہ چٹھی رسان دیہات میں بڑی شان سے جاتے اور کہتے لاؤ مٹھائی کھلاؤ تمہارا خط لایا ہوں۔ تو اس وقت پادریوں کا بہت رُعب تھا لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو وہ حضرت مرزا صاحب کے ملنے کیلئے خود کچہری آیا۔ ڈپٹی کمشنر اسے دیکھ کر اس کے استقبال کیلئے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں کوئی کام ہو تو ارشاد فرمائیں مگر اس نے کہا میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں۔ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ آپ کے مخالف بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا جوہر ہے جو قابلِ قدر ہے۔‘‘

(’’تحقیق حق کاصحیح طریق”: انوارالعلوم جلد13ص 406تا 408)

یہ تھا وہ پس منظر جس میں حضرت اقدسؑ کی عمرکا کچھ حصہ ملازمت میں بسرہوا۔ اورآپؑ کی ملازمت کا سب سے لمبا اورایک معین زمانہ بھی یہی ہے جس کاذکرہم اپنے اس باب میں کچھ تفصیل سے کرناچاہتے ہیں یعنی سیالکوٹ میں ملازمت ،البتہ کچھ اور ایسے مواقع بھی پیش آئے جن میں آپؑ کو ملازمت کی پیشکش ہوئی یا آپؑ نے ملازمت کا ارادہ فرمایا۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان کا ذکربھی یہیں کردیاجائے۔ان کی تفصیل اگلی قسط میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button