سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

1860ء تا 1867ء

وَقَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ لَوْلَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا

سیالکوٹ میں قیام بسلسلہ ملازمت، ودیگرمصروفیات

مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے

سیالکوٹ کاتاریخی پس منظر

سیالکوٹ ایک تاریخی عظمت اورشہرت کاحامل شہر ہے، وہ اپنی صنعت اوربعض شخصیات کی وجہ سے بھی مشہورہے۔ ہزاروں سال قبل کورؤوں اور پانڈؤوں کی سلطنت میں شامل یہ شہر، ایک قدیم تاریخی اہمیت کا حامل شہرہے۔ راجہ سول یا راجہ شالباہن کاآبادکردہ یہ شہراسی کے نام سے معروف ہوا۔ 1185ء میں سلطان شہاب الدین محمدغوری نے اس شہرکو فتح کرنے کے بعد دہلی کی عملداری میں شامل کرلیا۔ بعدمیں احمدشاہ درانی کے قبضہ میں جانے کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سکھ حکومت میں رہتے ہوئے 1849ء میں یہ انگریزی حکومت کے زیرتسلط رہا۔

اس کے شمال میں چندہی کلومیٹرکے فاصلہ پر جموں کشمیر، شمال مغرب میں گجرات، مغرب میں گوجرانوالہ اورجنوب میں نارووال واقع ہیں۔ دریائے چناب کے کنارہ پربسے ہوے اس شہر کے اندر تین تاریخی برساتی نالے، نالہ ایک، نالہ بھیڈاورنالہ پلکھوبہتے ہیں۔

انگریزکمانڈرانچیف لارڈ نیپئیر (Sir Lord Napier) نے 1849ء میں سیالکوٹ شہرکا سروے کرکے چھاؤنی کی تعمیرکی منظوری دی جو 1852ء میں مکمل ہوئی۔

1890ء میں وزیرآباد سے سیالکوٹ جموں ریلوے سیکشن کی توسیع ہوئی اور یہاں سے نارووال سیکشن 1915ء میں شروع ہوا۔ یہ شہر کھیل اورچمڑے، آلات جراحی، کٹلری اور اینٹوں کی صنعت سے شہرت یافتہ شہرہے۔ علامہ اقبال، فیض احمدفیض، راجندرسنگھ بیدی، مولانا عبیداللہ سندھی، کلدیپ نیر، راجندرکمار، ظہیرعباس، شعیب ملک، شہنازشیخ، منظورجونئیرجیسی شخصیات بھی شہر سیالکوٹ کی رونق اور شہرت میں اضافہ کرنے کا باعث ہیں۔ حضرت سر چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ صدرعالمی عدالت انصاف اورسیکرٹری جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کا تعلق بھی اسی شہر سیالکوٹ سے تھا۔

لیکن شہرسیالکوٹ کے نصیبے میں ایک چیزایسی ہے کہ جو اس کی تاریخی حیثیت کو اب قیامت تک اہم سے اہم تربناتی چلی جائے گی۔ جو اس کی شہرت میں ابدالآباد تک اضافہ کاباعث بنتی چلی جائے گی۔ یہ شہراپنی اس خوش بختی پرجتنا بھی فخرکرے کم ہے۔ اس شہرکی سرزمین جتنابھی نازکرے کم ہے اوروہ یہ کہ اس شہرکی گلیوں نے خداکے ایک پیارے، اس کے مامور اوراس کے رسول، امام مہدی کے قدم چومے ہیں۔ وہ نبی اللہ اس شہرمیں سات سال کے قریب مدت تک رہا۔ یہ ایک ایسی سعادت ہے جو قادیان کے علاوہ اَورکسی شہرکوحاصل نہیں ہوئی کہ حضرت اقدس امام مہدی علیہ السلام اتنالمبا عرصہ کسی شہرمیں رہے ہوں۔ اوریوں یہ بستی بھی ان متبرک اوربابرکت بستیوں میں شمارہوئی کہ جو خدا کی نگاہ میں مقبول ہوجایاکرتی ہیں۔ کیونکہ خداکے یہ پیارے جہاں رہتے ہیں وہ مقامات بابرکت ہوجایاکرتے ہیں :

’’اسی طرح ان کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزوجلّ ایک برکت رکھ دیتاہے وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتاہے۔ خداکے فرشتے اسکی حفاظت کرتے ہیں۔ اسی طرح ان کے شہر یاگاؤں میں بھی ایک برکت اورخصوصیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح اس خاک کوبھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پران کاقدم پڑتاہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 19)

خداکے پیارکی نگاہیں اس بستی پرپڑتی رہیں اور خداکا یہ پیارابھی اس شہرکومحبت کی نگاہ سے دیکھتا رہا اور یاد کرتا رہا۔ چنانچہ ایک موقعہ پرآپؑ نے فرمایا:

’’مَیں وہی شخص ہوں جو…براہین کی تالیف کے زمانہ کے قریب اسی شہر میں قریباً سات سال ر ہ چکا… مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اِس میں گذار چکا ہوں اور شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں …‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20صفحہ 242-243)

بہرحال یہ سعادت اور خوش بختی سیالکوٹ کے حصہ میں آئی کہ خداکا رسول اس جگہ ایک عرصہ تک قیام کرے اور اس کی مٹی کے ذرے ان بابرکت قدموں کو چومیں، بلاشبہ سیالکوٹ اس سعادت پر جتنا بھی فخرکرے وہ کم ہے۔

بسائے دل میں محبت مسیح پاک تری

بلند بخت ترا، خوش نصیب خاک تری

خوشا وہ دن تری گلیاں تھیں آشنا اس سے

’’فَقَدْ لَبِثْتُ‘‘ کے شاہد تھے سقف و بام ترے

(عبدالمنان ناہید:بحوالہ ماہنامہ انصاراللہ نومبر2004ء ص 76 جلد53شمارہ نمبر11)

پھراسی نسبت سے اس شہرکومسیح موعودؑ اور امام مہدی جیسے عظیم المرتبت فرستادے کے صحابہؓ کاشہرہونے کااعزازحاصل ہے۔ مسیح پاک کے ایک پاک محب اوراس کے منہ کے بھوکے ایک عاشق جان نثارحضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ، غریب لیکن دل وجان سے فدائی حضرت منشی شادی خان صاحبؓ اورحضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ جیسے نابغہ روزگاراورعالمی شہرت پانے والامسیح پاک کے خلفاء کافرمانبرداراور ان کی بزرگ والدہ ایک جری وبہادر غیوراور مؤحد صحابیہ اور ان کے علاوہ بیسیوں اَور جوسیالکوٹ کی تب وتاب میں اضافہ کاباعث ہیں اور رہیں گے۔

سیالکوٹ میں آپؑ کا بسلسلہ ملازمت قیام اور خدائی حکمتیں

حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے چونکہ ہرقسم کے انسانوں کے لئے نمونہ بھی بناناتھا توہم دیکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کا یہ قیام جو کہ قادیان سے باہرآپ کاکسی بھی شہرمیں طویل ترین قیام ہے اس میں آپؑ کی سیرت کے درجنوں پہلوہمارے سامنے آتے ہیں جو زندگی کے مختلف امورمیں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

اس میں پردیس میں رہنے والوں کے لئے ایک نمونہ ہے، دفتروں میں کام کرنے والوں کے لئے نمونہ، افسروں کی اطاعت خواہ وہ افسر شفقت کرنے والاہو، یاسختی کرنے والاافسر[سہج رام] ہوتواس کی ماتحتی میں کام کرنے والوں کے لئے نمونہ، جوانوں کے لئے بھی ایک نمونہ ہے کہ عنفوان شباب میں گھرسے دور، بڑوں کی نگرانی کے بغیرکیسے رہاجاتاہے، گلی محلہ میں آناجاناکیسے ہو اس میں نمونہ، غیرمذاہب والوں کے ساتھ تبلیغی اورعلمی گفتگوکیسے کرنی ہے، اس میں نمونہ، اپنے دوست احباب ہم مذہب ہوں یا غیرمذہب والے ان کے ساتھ رفاقت اوردوستی نباہنے میں نمونہ، ملازمت کے انتخاب میں کیا کیا معیارہوں اس میں نمونہ، اپنی تنخواہ میں کیسے گزاراکرناہے اورپیسوں کو کیسے خرچ کرناہے اس میں نمونہ، اپنے ماتحتوں اور خدام سے شفقت اورعطاکرنے میں نمونہ، ماں باپ کی اطاعت کاحیرت انگیزنمونہ کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے حکم کے تابع نوکری کرنااور جب حکم ہوتوبغیرچون وچراوسوچے سمجھے نوکری چھوڑکرواپس چلے آنا، اور تنہائی میں اورڈیوٹی میں ذکرالٰہی اور قیام عبادت میں نمونہ، الغرض انسانی زندگی کے بے شمارپہلوہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس پیارے کو اپنے وطن اورگھربارسے دوررکھ کربنی نوع انسان کے لئے نمونہ فراہم کیا۔

ملازمت میں الٰہی حکمتیں

حضرت مرزاصاحبؑ کے ملازمت کرنے پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ دیکھیں جی نبی توملازمت نہیں کرتا۔ اب کہنے کویہ علماء ہیں لیکن پرلے درجے کاجاہلانہ اعتراض کرڈالا۔ پہلی بات تویہ ہے کہ یہ اصول کہاں سے لیاکہ نبی ملازمت نہیں کرتا۔ قرآن میں ہے کہیں؟نبی اکرمﷺ نے فرمایاہے کہیں؟ یاچلیں بائبل یاکسی پرانے صحیفوں میں لکھاہواہے؟؟ ظاہرہے کہیں بھی نہیں توپھرحضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں ایسی بات کرناکہ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں۔ اوراس کے برعکس ہرکوئی جوتھوڑاسابھی قرآن وحدیث کاعلم رکھنے والاہے وہ جانتاہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے رزق حلا ل کمانے کی کتنی تلقین ہے اور محنت اور مشقت کرکے روزی کمانے والے کوتونبی پاکﷺ نے حبیب خدا قراردیاہے۔ فرمایا

’’اَلْكَاسِبُ حَبِيْب اللّٰه‘‘( روح المعانی زیرآیت وَمِنْ رَحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمْ…(القصص:74))

کہ ہاتھ سے کمائی کرنے والا، محنت سے کمانے والا خداتعالیٰ کا پیارااور محبوب ہوتاہے۔ بلکہ کسب حلال کوتوعین فرض قراردیا۔ فرمایا

طَلَبُ کَسْبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَالْفَرِیْضَۃ۔

(مشکوٰۃ المصابیح کتاب البیوع باب الکسب وطلب الحلال حدیث نمبر۔ 2781)

جاہل لوگوں کے نزدیک تو آپؑ کاملازمت کرنامحل اعتراض ہے، لیکن یہ اعتراض بھی کوئی نیانہیں، مامورین کے متعلق ایسے اعتراض ہوتے چلےآئے ہیں۔ سورۃ الفرقان کی آیت 7 میں اسی مضمون کااعتراض بیان ہواہے کہ

وَقَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ لَوْلَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا۔

کہ اس رسول کوکیاہواہے یہ توہماری طرح ہی کھانابھی کھاتاہے اوربازاروں میں بھی پھرتا ہے وغیرہ وغیرہ گویاوہ رسول کوکوئی مافوق البشرمخلوق شمارکرتے ہیں، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوتی وہ ہم جیسے انسانوں میں سے ہی ہوتاہے اورہم جیسے انسانوں کے اندررہتے ہوئے ہمارے ساتھ زندگی بسرکرتے ہوئے وہ کنول کے پھولوں کی طرح کھل کر اپنی تمام تررعنائیوں اورخوبصورتیوں کے ساتھ منصہ شہودپرآتاہے تاکہ وہ یہ کہہ سکے کہ

قُلْ اِنَّمَااَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ

کہ دیکھو میں بھی تو تمہاری طرح کاہی انسان ہوں، بشرہوں، اورسارے مسائل اورعوامل کاسامناکرتے ہوئےجن کا تمہیں سامناکرناپڑتاہے، انہیں میں رہتے ہوئے گزراہوں اور اب اس منزل اورمقام پر فائز ہوا ہوں، جوحسن ورعنائی تم دیکھ سکتے ہووہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ یُوْحیٰ اِلیَّ… میرا خدا مجھ سے ہمکلام ہواہے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button