سود،انشورنس،بینکنگ

حکومتی بینکوں میں جمع شدہ رقم پر ملنے والے منافع کا استعمال

سوال: حکومتی بینکوں میں رقم جمع کروانے اور اس رقم پر ملنے والے منافع کو ذاتی استعمال میں لانےکے بارے میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء ربوہ کے ایک استفسار پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 12؍ نومبر2017ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:اس مسئلہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں جو فیصلہ ہوا تھا، میرا موقف بھی اسی کے مطابق ہے۔

(نوٹ از ناقل:۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں اس مسئلہ پر ہونے والا فیصلہ درج ذیل ہے:

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے اس مسئلہ پر درج ذیل سفارشات حضورؒ کی خدمت اقدس میں پیش کی گئیں :

صدر انجمن احمدیہ بینکوں میں جمع شدہ رقوم پر کسی قسم کا سود نہیں لے رہی۔ اور نہ ہی P.Fکی رقم ایسے بینکوں میں جمع کرائی جا رہی ہے، جن کا کاروبار یا ذریعہ آمدنی سود پر مبنی ہو۔ بلکہ حکومت کی قومی بچت کی سکیموں کے تحت قومی ادارہ میں لگائی گئی ہیں۔ یہ ادارہ اپنے سرمایہ کو قومی رفاہی کاموں میں لگاتا ہے(نہ کہ سودی کاروبار پر) اس کے نتیجہ میں معیشت میں ترقی ہوتی ہے اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جو حکومت کے Revenue میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح حکومت اپنے Depositorکو بھی اپنے منافع میں شریک کر لیتی ہے، جسے حکومت منافع کا نام دیتی ہے۔ جب Depositorکو اپنی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ رقم واپس بھی لے لیتا ہے۔

بینک اور قومی بچت سکیموں کے اس فرق کی بنا پر ہی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس قومی ادارہ میں P.Fکی رقم لگائی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے بلال فنڈ اور تزکیہ اموال فنڈ کی رقوم بچت سکیموں میں لگائی گئی ہیں۔

مفتی سلسلہ احمدیہ(حضرت ملک سیف الرحمٰنؒ )کے نزدیک بھی حکومت نے جو بچت کی سکیمیں جاری کی ہوئی ہیں ان میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے تحریر کیا ہے:

’’اگر کوئی چاہے تو حکومت نے بچت کی جو اسکیمیں جاری کی ہوئی ہیں ان میں حصہ لے سکتا ہے اور ان میں جو منافع ملتا ہے اسے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔‘‘

علاوہ ازیں پاکستان میں اس وقت کوئی متبادل نظام یا محفوظ ادارے موجود نہیں۔ جن میں اطمینان کے ساتھ سرمایہ لگایا جا سکے۔ جہاں سرمایہ محفوظ ہو، نفع بخش ہو یا نفع بخش نہیں تو کم از کم وقت گزرنے کے ساتھ روپیہ کی قیمت میں آنے والی کمی سے سرمایہ متاثر نہ ہو۔ (اس لئے بینکوں میں روپیہ جمع کرانے کی بجائے جہاں روپیہ ہی کے لین دین کا واضح سودی کاروبار ہوتا ہے، ان سکیموں میں روپیہ لگایا گیا ہے، جن میں سرمایہ کو رفاہی تعمیری کاموں پہ خرچ کرنے کی وجہ سے حکومت سود سے پاک قرار دیتی ہے۔ یا کم از کم وہ بینکوں کی نسبت یقینی سودی کاروبار نہیں کرتیں )

ایک ممکنہ شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جماعت اپنے سرمایہ سے خود ایسے کاروباری منصوبے جاری کرے جو یقینی طور پر سود کی آلائش سے پاک ہوں۔ مگر ملک کی موجودہ فضا جس میں سے جماعت گزر رہی ہے، ایسی سرمایہ کاری کےلئے سردست موافق نہیں۔

اس طرح گویا قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری ایک اضطرار کا رنگ رکھتی ہے۔ جس کے برعکس کوئی متبادل نظام سرمایہ کاری کا ملک میں موجود نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی ان سفارشات کو13؍ اگست 1987ء کو منظور کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button