سود،انشورنس،بینکنگ

انشورنس کروانے کے بارے میں اسلامی تعلیم

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ کاروباروں میں مختلف قسم کے مفادات کے حصول نیز حادثاتی نقصانات سے بچنے کےلیے انشورنس کروانے کے بارے میں اسلامی حکم کیا ہے؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11؍اپریل 2016ء میں جو جواب عطا فرمایا، اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

جواب:۔ انشورنس صرف وہ جائز ہے جس پر ملنے والی رقم نفع و نقصان میں شرکت کی شرط کے ساتھ ہواور اس میں جوئے کی صورت نہ پائی جاتی ہو۔ اگر صرف نفع کی شراکت کی شرط کے ساتھ ملے تو سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

اسی طرح اگر پالیسی ہولڈرکمپنی کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے کہ وہ صرف اپنی جمع شدہ رقم وصول کرے گا اور اس پر سود نہ لے گا تو ایسی انشورنس کروانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے انشورنس اور بیمہ کے سوال پر فرمایا :

’’سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے۔ قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی۔ دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ ‘‘

(اخبار بدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ27؍مارچ 1903ء صفحہ 76)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا :

’’اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدے اور نقصان میں شامل ہو گا تو پھر بیمہ کرانا جائز ہو سکتا ہے۔ ‘‘

(الفضل7؍جنوری1930ء)

’’ایک خط کے جواب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھایاکہ یہ بات درست نہیں کہ ہم انشورنس کو سود کی ملونی کی وجہ سے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ کم از کم میں تو اسے اس وجہ سےناجائز قرار نہیں دیتا۔ اس کے ناجائز ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ انشورنس کے کاروبارکی بنیاد سود پر ہے۔ اور کسی چیز کی بنیاد سو د پر ہونا اور کسی چیز میں ملونی سود کی ہونا ان میں بہت بڑا فرق ہے۔ گورنمنٹ کے قانون کے مطابق کوئی انشورنس کمپنی ملک میں جاری نہیں ہو سکتی جب تک ایک لاکھ کی سیکوریٹیز گورنمنٹ نہ خریدے۔ پس اس جگہ آمیزش کا سوال نہیں بلکہ لزوم کا سوال ہے۔

۲۔ دوسرے انشورنس کا اصول سود ہے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ کے مطابق اسلامی اصول یہ ہے کہ جو کوئی رقم کسی کو دیتا ہے یا وہ ہدیہ ہے یا امانت ہے یا شراکت ہے یا قرض ہے۔ ہدیہ یہ ہے نہیں۔ امانت بھی نہیں، کیونکہ امانت میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ یہ شراکت بھی نہیں، کیونکہ کمپنی کے نفع ونقصان کی ذمہ داری اور اس کے چلانے کے اختیار میں پالیسی ہولڈر شریک نہیں۔ ہم اسے قرض ہی قرار دے سکتے ہیں اور حقیقتاً یہ ہوتا بھی قرض ہی ہے۔ کیونکہ اس روپیہ کو انشورنس والے اپنے ارادہ اور تصرف سے کام پر لگاتے ہیں اور انشورنس کے کام میں گھاٹا ہونے کی صورت میں روپیہ دینے والے پر کوئی ذمہ واری نہیں ڈالتے۔ پس یہ قرض ہے اور جس قرض کے بدلہ میں کسی قبل از وقت سمجھوتہ کے ماتحت کوئی نفع حاصل ہو اسے شریعت اسلامیہ کی رو سے سود کہا جا تا ہے۔ پس انشورنس کا اصول ہی سود پر مبنی ہے۔

۳۔ تیسرے انشورنس کا اصول ان تمام اصولوں کو جن پر اسلام سوسائٹی کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے باطل کرتا ہے۔ انشورنس کو کلی طور پر رائج کر دینے کے بعد تعاون باہمی، ہمدردی اور اخوت کا مادہ دنیا سے مفقود ہو جاتا ہے۔ ‘‘

(اخبار الفضل قادیان مؤرخہ 18؍ستمبر1934ءصفحہ5)

بعض ملکوں میں حکومتی قانون کے تحت انشورنس کروانا لازمی امر ہوتا ہے۔ ایسی انشورنس کروانا جائز ہے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سے ایک دوست نے25؍جون 1942ء کو سوال کیا کہ یو۔ پی گورنمنٹ نے حکم دیا ہے کہ ہر شخص جس کے پاس کوئی موٹر ہے وہ اس کا بیمہ کرائے کیا یہ جائز ہے؟حضور نے فرمایا :

’’اس کے متعلق بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ حکم صرف یوپی گورنمنٹ کا ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی گورنمنٹ کا یہی حکم ہے۔ یہ بیمہ چونکہ قانون کے ماتحت کیا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے اسے جبری قرار دیا گیاہے اس لئے اپنے کسی ذاتی فائدہ کے لئے نہیں بلکہ حکومت کی اطاعت کی وجہ سے یہ بیمہ جائز ہے۔ ‘‘

(الفضل 4؍نومبر 1961ء فرمودہ 25؍جون 1942ء)

انشورنس کے متعلق مجلس افتاء نے درج ذیل سفارش حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں پیش کی جسے حضور انورنے 23؍جون 1980ء کو منظور فرمایا:

’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کے مطابق جب تک معاہدات سود اور قمار بازی سے پاک نہ ہوں بیمہ کمپنیوں سے کسی قسم کا بیمہ کرواناجائز نہیں ہے۔ یہ فتاوی مستقل نوعیت کے اور غیر مبدل ہیں البتہ وقتاً فوقتاً اس امر کی چھان بین ہوسکتی ہے کہ بیمہ کمپنیاں اپنے بدلتے ہوئے قوانین اور طریق کار کے نتیجہ میں قمار بازی اور سود کے عناصر سے کس حد تک مبراہو چکی ہیں۔

مجلس افتاء نے اس پہلو سے بیمہ کمپنیوں کے موجودہ طریق کار پر نظر کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگرچہ رائج الوقت عالمی مالیاتی نظام کی وجہ سے کسی کمپنی کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے کاروبار میں کلیۃًسود سے دامن بچا سکے لیکن اب کمپنی اور پالیسی ہولڈر کے درمیا ن ایسا معاہدہ ہونا ممکن ہے جو سود اور قمار بازی کے عناصر سے پاک ہو۔ اس لئے اس شرط کے ساتھ بیمہ کروانے میں حرج نہیں کہ بیمہ کروانے والا کمپنی سے اپنی جمع شدہ رقم پر کوئی سود وصول نہ کرے۔ ‘‘

(رجسٹر فیصلہ جات مجلس افتاء صفحہ60غیر مطبوعہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button