سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مقدمات(حصہ چہارم)

مقدمات کے لئے طریق سفر

جیساکہ بیان ہوچکاہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مقدمات کے لیے مختلف مقامات پر تشریف لے جاتے رہے۔ اس کے لیے کبھی آپؑ یکہ پر جاتے اور کبھی گھوڑے پر اور کبھی میلوں میل کا سفر پیدل ہی طے کرتے۔ یہ سفرخود ایک مشقت اور محنت اورجفاکشی کو چاہتے تھے۔ اس وقت کو سفروں کی صعوبتوں کا تصورکرناہمارے لئے آج ممکن نہیں۔ سفر کے لئے کوئی موٹرکاریں اوربسیں یا ویگنیں نہ ہواکرتی تھیں، بہلیاں اور یکے ہواکرتے تھے کہ جن پرسفرکرنا جسم کے لئے اتنا مشقت طلب اور تکلیف دہ ہوتاکہ پیدل چلنے کو ترجیح دی جاتی۔ حضورؑ کے لیے ڈلہوزی کا پہاڑی سفر تو اوربھی تکلیف دہ ثابت ہوتا جہاں آپؑ کو متعدد بار جاناپڑا۔ لیکن اپنے والد بزرگوار کی اطاعت اور رضائے باری تعالیٰ کی خاطر یہ سب تکلیفیں حضورؑنے کمال بشاشت کے ساتھ برداشت فرمائیں۔

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریرفرماتے ہیں کہ

’’مقدمات کے لئے جب آپؑ قادیان سے جایا کرتے تھےتو مختلف اوقات میں آپؑ کے ساتھ مختلف آدمی ہوتے تھے۔ کبھی مرزا اسماعیل بیگ صاحب ساکن قادیان۔ کبھی مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال اور کبھی میاں غفار(عبد الغفار) یکہ بان قادیان۔ آپؑ کا طریق عمل یہ ہوتا تھاکہ آپ سواری کے لئے گھوڑا لے لیا کرتے تھے۔ (جو آپ کے اصطبل میں اس وقت بہت ہوتے تھے)۔ مرزا اسماعیل بیگ صاحب کا بیان ہے کہ گاوٴں سے باہر نکل کر وہ ان کو سوار کر لیا کرتے تھے۔ اور نصف راستہ تک مرزا اسماعیل بیگ سوار رہتے اور نصف راستہ خود۔ اسی طرح پر واپسی کے وقت آپؑ کا طریق تھا۔ مرزا اسماعیل بیگ صاحب عذر کرتے اور شرم کرتے تو آپؑ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے!

مرزا دین محمد صاحب (جو لنگروال کے رہنے والے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک زندہ ہیں۔ اور ان کا خاندان احمدی ہے )بیان کرتے ہیں۔ کہ میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واقف نہ تھا یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ گزینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وہ صوم و صلوٰة کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے۔ یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا۔ اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب آپؑ مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے ساتھ اپنے پیچھے سوار کر لیتے تھے۔ اور بٹالہ جا کر اپنی حویلی میں گھوڑا باندھ دیتے۔ (بٹالہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خاندان کی غیرمنقولہ جائیداد کچھ دکانیں اور ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ جو آخر ان مقدمات کے نتیجہ میں فروخت ہو گئی جو شرکاء کی وجہ سے ہوئے۔ یہ بہت بڑی قیمتی جائیداد تھی۔ میں نے اس حویلی کو دیکھا ہے۔ عرفانی)اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا۔ آپؑ اس میں قیام فرماتے۔ اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولاہے کے سپرد تھاجو ایک غریب آدمی تھا آپؑ وہاں پہنچ کر دو پیسہ کی روٹی منگواتے۔ یہ اپنے لئے ہوتی تھی۔ اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھا لیتے۔ باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی وہ اس جولاہے کو دے دیتے۔ اور مجھے کھانا کھانے کے لئے چار آنہ دیتے تھے۔ آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے۔ اور کسی قِسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔ ……غرض ان مقدمات کی پیروی میں آپؑ خدام کے ساتھ بہترین سلوک فرماتے اور ان کو آرام پہنچانے کی پوری سعی فرماتے تھے۔‘‘

(حیات احمدؑ، جلداول صفحہ315-316)

اس سفرڈلہوزی کا ایک واقعہ سیرت المہدی میں لکھاہے جو آپ کے تقویٰ اور’’عشق الٰہی وَسّے مونہہ پرولیاں ایہہ نشانی‘‘کا منہ بولتاثبوت ہے۔ حضرت اماں جانؓ اس کی راوی ہیں۔آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی مقدمہ کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جا رہا تھا راستہ میں بارش آگئی مَیں اور میرا ساتھی یکہ سے اُترآئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔ میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہو گئی اور مالک مکان تیز ہو گیا اور گالیاں دینے لگا۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا۔ جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اسکے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں۔ حضرت صاحبؑ فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا نہ میں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔ ‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر8)

مقدمات میں تعلق باللہ

اوپربیان ہوچکاہے کہ ہروقت خداتعالیٰ کی ذات آپؑ کے مدنظررہتی تھی۔ اورکبھی بھی اور کسی بھی مصروفیت اور مشغولیت نے آپؑ کو ذکرالٰہی سے دورنہیں کیا۔ چنانچہ مقدمات میں بھی ہم یہی اسوہ دیکھتے ہیں۔ حالانکہ عدالت اورمقدمات کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہواکرتی ہے کہ ایسے نازک وقت میں نمازکا اہتمام والتزام ایک مشکل امرثابت ہواکرتاہے۔ لیکن کیاہی متوکل اور بے نیازیہ شخص تھا کہ مقدمہ عدالت میں پیش ہے، حاضری کا کوئی بھی وقت ہوسکتاہے، ہرکارہ کسی بھی وقت یہ صدالگاسکتاہے کہ فلاں ابن فلاں بنام سرکار…حاضرہو…لیکن جونہی نمازکا وقت ہوتا تو اس عدالت کی صدا کوچھوڑچھاڑکراوراس سے غیرحاضری کے ہونے والے نقصانات کی کچھ بھی پروا نہ کرتےہوئےبارگاہ الٰہی کی صداپرلبیک کہتے ہوئے اس کی بارگاہ میں جاحاضرہوتے۔

حضرت عرفانیؓ بیان فرماتے ہیں :

’’مقدمات کا یہ سلسلہ بڑا لمبا تھا۔ اور چیف کورٹ تک بعض مقدمات کی پیروی آپ کو کرنی پڑی۔ میں اس سیرت کے پڑھنے والوں کو حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے اس حصہ سے واقف کرتے ہوئے جس امر پر متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ آپ کا تعلق باللہ ہے۔

جن لوگوں کو حضرت مرزا صاحبؑ کی صحبت میں رہنے اور آپ کی باتیں سننے کا موقعہ ملا ہے یا جنہوں نے ان تقریروں کو جو شائع ہو چکی ہیں پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب ہمیشہ دست بکار دل بہ یار کی ہدایت فرمایا کرتے تھے۔ مقدمات میں فریق مقدمہ کو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ مدعی ہوں یا مدعا علیہ۔ ایک اضطراب اور بے قراری کی حالت میں ہوتے ہیں مگر مرزا صاحب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تھے۔ طبیعت میں کوئی بے چینی اور گھبراہٹ نہیں ہوتی تھی۔ پورے استقلال اور وقار کے ساتھ دل بہ یار متوجہ رہتے۔ جہاں یہ مقدمات کی پیروی محض اطاعت والد کے فرض کے ادا کرنے کے لئے تھی۔ وہاں آپ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضا نہیں کی اور اس طرح پر ان فرائض سے غافل نہیں ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق ہیں۔ عین کچہری میں آپ وقت نماز پر اسی طرح مشغول ہو جاتے گویا آپ کو اور کوئی کام ہی نہ تھا۔ اور بسا اوقات ایسا ہوا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں اور ادھر مقدمہ میں طلبی ہوئی۔ مگر آپ اسی طرح اطمینان قلب سے نماز میں لگے رہے ہیں۔ ایک مرتبہ فرماتے تھے کہ

’’میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آواز دی۔ مگر میں نماز میں تھا۔ فریق ثانی پیش ہو گیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا۔ اور بہت زور اس بات پر دیا مگر عدالت نے پروانہ کی۔ اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی۔ میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھا ہو مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ میں تو نمازپڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں۔‘‘

(حیات احمدؑ، جلداول ص86، 87)

مقدمات اور راستبازی کا اعجازی نمونہ

انسانی زندگی میں کبھی کبھی ایسے موڑآیاکرتے ہیں کہ بڑے بڑے مخلص اور عالم اورنیکی کا شہرہ رکھنے والے بھی تھک سے جاتے ہیں اوراپنی نجات اور کاربرآری کے لیے تقویٰ اورامانت ودیانت سے پہلو تہی کرجاتے ہیں گویا دنیا کو دین پر مقدم کرلیاکرتے ہیں۔

لیکن حضرت اقدسؑ کی سیرت اورسوانح کاایک روشن باب اور آپؑ کے کیریکٹرکا زبردست پہلو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے ہی لمحات جب آپؑ کی زندگی میں آئے کہ جب آپؑ کو جھوٹ اور سچ میں سے ایک کو اختیار کرنے کے ایسے حالات ِیقینیہ واردہوئے کہ سچ بولنے کانتیجہ عزت ووقار اورمالی نقصان کثیرکا باعث تھا یا جان کوہی خطرہ تھا اور بڑے بڑے نامی وکلاء کی بھی حالات وواقعات کی نزاکت کے پیش نظریہی رائے تھی کہ جھوٹ کے سواچارہ نہیں، تب بھی آپؑ نے اپنی عزت، مال، وقت اور جان تک کی کوئی پروا نہیں کی اور سچ کو اختیارفرمایا۔

آپؑ کی راستبازی او رسچ کو اختیارکرناایسا عام اور لابدی امرتھا کہ اپنے تواپنے غیر بھی فریق مخالف ہونے کے باوجود آپؑ کی شہادت اس مقدمہ میں ڈلوا دیتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ادھرسے سچی اور سیدھی بات ہوگی اور اسکی قانونی موشگافیوں سے ہم فائدہ اٹھالیں گے۔ چنانچہ ایساہی ہواکرتا۔

اس کی ایک دومثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

’’ایک دفعہ جبکہ حضرت اقدسؑ کی عمر پچیس تیس برس کی تھی آپ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہوگیا۔ آپ کے والد بزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں اس لئے انہوں نے موروثیوں پر دعویٰ دائر کر دیا اور حضور کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور بھیجا۔ آپ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھے۔ حضرت اقدسؑ جب نہر سے گذر کر پتھنا نوالہ گاؤں پہنچے تو راستے میں ذراسستانے کے لئے بیٹھ گئے اور ساتھیوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ابا جان یونہی زبردستی کرتے ہیں درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں یہ غریب لوگ اگر کاٹ لیا کریں تو کیا حرج ہے۔ بہر حال میں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں۔ ہاں ہمارا حصہ ہو سکتے ہیں۔ موروثیوں کو بھی آپ پر بے حد اعتماد تھا۔ چنانچہ جب مجسٹریٹ نے موروثیوں سے اصل معاملہ پوچھا تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ خود مرزا صاحب سے دریافت کر لیں۔ چنانچہ مجسٹریٹ نے حضور سے پوچھا۔ حضور نے فرمایا کہ میرے نزدیک درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے۔ ویسے ہی درختوں میں بھی ہے۔ چنانچہ آپ کے اس بیان پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس کے بعد جب حضور واپس قادیان تشریف لائے تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا فیصلہ ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تو باہر تھا مرزا صاحب اندر گئے تھے ان سے معلوم ہوگا۔ اس پر حضرت صاحبؑ کو بلایا گیا۔ حضور نے سارا واقعہ بلا کم و کاست بیان کر دیا جسے سن کر آپ کے والد بزرگوار سخت برہم ہوئے…‘‘

(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ72-73)

مقدمات کی دنیا میں یہ وہ مقام ہواکرتے ہیں کہ اگر ان میں کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اس کے قدم ڈگمگا جاتے۔ مگر آپ نے کمال جرأت اور بہادری سے ہر موقع پر دنیوی مصلحتوں کو پایہ استحقار سے ٹھکرادیا۔ اپنے والد کی خفگی کا نشانہ بھی بنے اور شماتت اعداء کے چرکے بھی برداشت کیے۔ مگر گوارا نہیں کیا تو راست گفتاری کو چھوڑنا گوارانہیں کیا۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button