سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ

صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب اور اعلیٰ ملازمت کے مراحل

صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب نے سرکاری ملازمت پٹواری کے عہدہ سے شروع کی اور درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ پٹواری سے قانون گو، پھر نائب تحصیلدار، پھر تحصیلدار، پھر اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر اور افسر خزانہ ہوئے اور ایک دفعہ مختصر زمانے کے لئے قائم مقام حاکم ضلع یا ڈپٹی کمشنر کے فرائض بھی آپ نے انجام دیے تھے۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں بحیثیت افسر محکمۂ بندوبست فرائض انجام دیے، جس کا آپ نے اپنی کتاب امثال میں بھی ذکر کیا ہے۔ ایک بار گورنمنٹ کی طرف سے ریاست بہاولپور میں مشیر مال بنا کر بھی بھیجے گئے تھے، جہاں خاصی مدت تک آپ کا قیام رہا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب لکھتے ہیں:

’’خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مرزا صاحب کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے… وہ آج کل سونی پت حصہ ضلع میں سب ڈویژنل افیسر ہیں جہاں وہ ریاست بہاولپور کی ریونیو منسٹری سے اپنی میعاد پوری کر کے گئے ہیں۔‘‘

(حیات احمد جلداوّل ص82)

’’خان بہادر‘‘ کا خطاب

آپ کو انگریزی حکومت کی طرف سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ یہ خطاب یقیناًآپ کی قابلیت کی وجہ سے اور آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو دیا گیا تھا۔ لیکن آپ اس خطاب کو اپنے لئے باعث افتخار و شرف نہ گردانتے تھے۔اور عام طور پر اپنے نام کے ساتھ ’’خان بہادر‘‘ لکھا بھی نہیں کرتے تھے۔

’’ایک دفعہ ایک انگریز افسر نے آپ سے پوچھا کہ خان بہادر! آپ اپنے دستخطوں کے ساتھ ’’خان بہادر‘‘ کیوں نہیں لکھتے۔ آپ نے جواباً اسے کہا۔’’صاحب! خان بہادر کا خطاب سرکار سے مجھے اب ملا ہے اور مرزا کا لقب مجھے ابًا عَنْ جَدٍّ حاصل ہے۔ خان بہادر کا خطاب مشروط ہے اور مرزا کا خطاب غیر مشروط۔ اس لئے میں وہی خطاب اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہوں جو ہر حال میں میرے نام کے ساتھ رہا اور رہے گا۔‘‘

(حضرت مرزاسلطان احمد،مرتبہ میرانجم پرویز،ص15)

سرکاری ملازمت میں آپ نے اپنے فرائض بڑی محنت اور دیانت داری سے انجام دئے۔ جس جگہ بھی رہے، نیک نام رہے۔تدبروفراست اور امانت ودیانت آپ کی پیشہ وارانہ زندگی کازیوررہا۔باوجودانگریزحکومت کے آپ نے ہندوستانی ہونے کے باوصف ایک وقاراورعزت وغیرت کے ساتھ اپنی ملازمت کا ساراعرصہ بسرکیا۔بہت سے واقعات میں سے صرف دوواقعات ہدیۂ قارئین کئے جاتے ہیں۔

ایک ادبی رسالہ ’’نیرنگ خیال‘‘ میں لکھاہے :

’’صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی ملازمت سے ان کے سبکدوش (ریٹائر) ہونے کا وقت آیا تو انہی دنوں پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد حکومت کے خلاف ترک موالات (نان کوآپریشن) کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ پہلے لاہور اور پھر گوجرانوالہ ان ہنگاموں کی لپیٹ میں آ گیا۔ مرزا سلطان احمد گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہاں سب سے زیادہ ہنگامے ہوئے۔ عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ لیڈروں کی ہدایات کے برخلاف انہوں نے آئینی حدود کو توڑ دیا۔ بعض سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور ریلوے اسٹیشن تو پورے کا پورا جلا دیا۔ ایک جم غفیر ہاتھوں میں بانس، لاٹھیاں اور اینٹ پتھر لئے ہوئے ضلع کچہری کی طرف بڑھا۔ ایسے وقت میں مرزا سلطان احمد سے کہا گیا کہ وہ عوام کے اس مشتعل گروہ کو منتشر کرنے اور آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے گولی برسانے کا حکم دے دیں۔

ایسے وقت میں اگر کوئی کمزور دل و دماغ کا انسان ہوتا تو کیا کرتا۔ لیکن اب ذرا مرزا سلطان احمد صاحب کی حالت پر بھی غور کیجئے۔ اور ان کے فیصلہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ان کی ذمہ داریوں کو بھی پیش نظر رکھئے۔ فوجی اور دیگر اعلیٰ حکام کی خواہش کو بھی ذہن میں رکھئے۔ پھر سنئے کہ مرزا سلطان احمد صاحب نے کیا کیا اور وہ کیا جس کی ایک ہندوستانی حاکم سے غالباً امید نہیں کی جا سکتی۔ آپ نے کہا میں ان معصوم بچوں اور ان بے خبر لوگوں پر گولی چلانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میرے نزدیک شورش کے ذمہ واریہ نہیں کوئی اور ہیں۔ اور وہ جو ذمہ وار ہیں وہ لوگ اس مجمع میں موجود نہیں۔ آپ کے اس فیصلہ کی وجہ سے گوجرانوالہ دوسرا جلیانوالہ باغ بن جانے سے محفوظ رہا۔ گو عمارات وغیرہ کا نقصان ضرور کچھ نہ کچھ ہوا۔ مرزا سلطان احمد ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ اگر اپنے تدبر اور خوش بیانی سے کام نہ لیتے تو یہ مشتعل لوگ نہ جانے کیا کر کے دم لیتے۔ مرزا صاحب نے اس پُر جوش ہجوم کے سامنے ایسی سلجھی ہوئی تقریر کی کہ نفرت و غصہ کی یہ آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ وہی جلوس مرزا سلطان احمد کی سرکردگی میں شہر کو واپس ہوا اور جن کی زبانوں پر’انگریز مردہ باد‘ کے نعرے تھے، وہ اب ’مرزا سلطان احمد زندہ باد‘ کے نعرے لگانے لگے۔ یہ نازک موقع گزر گیا۔ تحقیقاتی کمیٹیاں بیٹھیں۔ آپ بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ آپ کے یہ جواب پبلک میں آئے اور ان پر ولایت کے دار العوام میں سوال و جواب اور چہ میگوئیاں ہوئیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ مرزا کی پنشن اور سرکار کے عطا کئے ہوئے مربع جات ضبط ہوں گے۔ اور معتوب ٹھہرائے جائیں گے۔ مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور آخر یہ سب افواہیں بھی بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ ترک موالات کے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے تو گورنر پنجاب نے ایک ملاقات میں مرزا سلطان احمد سے کہا کہ آپ گوجرانوالہ کا انتظام ٹھیک طور پر نہ کر سکے۔ مرزا صاحب اس کے جواب میں بولے کہ لاہور میں تو ’’یور ایکسی لینسی‘‘ بہ نفس نفیس موجود تھے۔ پھر بھی یہاں کے ہنگاموں کو نہ روک سکے۔ آپ یہاں روکتے تو یہ ہنگامے وہاں نہ پہنچتے۔ مرزا صاحب کے اس جرأت مندانہ معقول جواب پر لاٹ صاحب خفیف ہو کر رہ گئے۔‘‘

(ماخوذازانجمن ص 137-138 از فقیر سید وحید الدین صاحب آتش فشاں پبلی کیشنز لاہور،ماخوذاز نیرنگ خیال جوبلی نمبر۔ مئی جون 1934ء ص 287-288)

اب آپ کی جرأت کاایک اَور واقعہ بھی ملاحظہ فرمائیے اور خداکے اس بندے کے پاک کانشنس اورغیرت کی گہرائی کودیکھیے۔محترم چودھری محمد علی صاحب ایم اے مرحوم بیان کرتے ہیں:

’’ایک مرتبہ لاہور میں پنجاب کے سینئر افسران کی دعوت تھی۔ جس میں علاوہ دیگر افسران کے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب بھی مدعو تھے۔بشپ آف لاہور بھی وہاں موجود تھے۔ صاحبزادہ صاحب نے چونکہ حضرت اقدس مسیح موعوؑد کی بیعت نہیں کی تھی بشپ صاحب نے غالباً اس خیال سے کہ یہ بھی حضرت اقدسؑ کے مخالفین میں شامل ہیں آپ[یعنی حضرت بانیٔ سلسلہ] کے خلاف زبان درازی کرنی چاہی۔ صاحبزادہ صاحب نے انہیں دو ایک بار ایسا کرنے سے روکا لیکن وہ باز نہ آئے۔ جس پر صاحبزادہ صاحب نے کھانے سے بھری پلیٹ بشپ صاحب کو دے ماری۔ آپ اگرچہ ابھی تک حضرت اقدس ؑکی بیعت سے مشرف نہ ہوئے تھے لیکن آپ کے لئے دل میں ایک غیرت اور احترام کا تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا آپ نے اس بات کی کوئی پروا نہ کی کہ دعوت میں موجود حاضرین بشپ کے رویے کے خلاف آپ کے اس رد عمل پر کیا کہیں گے۔‘‘

(روزنامہ الفضل جلد58-93 نمبر 139 مورخہ 20 جون 2008ء صفحہ4 کالم 4)

امانت ودیانت میں بھی آپ کانمونہ قابل رشک وتقلیدتھا۔ محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر انچارج ریسرچ سیل نے ایک بار بیان فرمایا:

’’میں نے سنا ہے کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا قلم اس قدر رواں تھا کہ دو مقدموں کے دوران جو تھوڑا سا وقت ملتا تھا اس میں مضمون لکھ لیتے تھے اور خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ مضمون وغیرہ لکھنے کے لئے سرکاری قلم استعمال نہیں فرماتے تھے بلکہ ذاتی قلم دوات رکھی ہوئی تھی۔ دفتر کا قلم صرف دفتری امور کے لئے مختص تھا۔‘‘

(حضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویز صفحہ 87)

محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمد صاحب نے چندسال پہلے مجلس انصاراللہ پاکستان کی ایک تقریب میں ’’کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘کے عنوان سے ایک خطاب فرمایایہ ماہنامہ انصاراللہ ربوہ اکتوبر2009ء میں اورالفضل انٹرنیشنل 25-31مئی2012ء شمارہ 21جلد19ص13کالم2،1میں بھی شائع ہوا۔اس میں ایک واقعہ کاذکرکرتے ہوئے انہوں نے بیان فرمایا:

’’میرےوالدمرزاعزیزاحمدصاحبؓ اپنی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں سیالکوٹ میں تعینات رہے۔ان سے قبل میرے دادا حضرت مرزاسلطان احمدصاحبؓ بھی وہاں سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے۔…میرے والدصاحب بتاتے تھے کہ جب سیالکوٹ سے ان کی تبدیلی ہوئی تووہاں سے روانگی کے وقت ایک آدمی جومیرا واقف بھی نہ تھا میرے پاس آیا۔ا س نے مٹی کے بنے ہوئے دوگلدان مجھے دیے اورکہنے لگا کہ یہ میں اپنی خوشنودی کے سرٹیفیکیٹ کے طورپردے رہاہوں۔میں نے آپ کے داداکوکچہری میں کام کرتے دیکھا اورپھرآپ کے والدکواور اب آپ کو۔اور مجھے خوشی ہے کہ جس دیانت اورمحنت سے بڑے مرزاصاحب نے اپنے فرائض سرانجام دئے تھے اُسی محنت اوردیانت سے آپ کے والد اورآپ نے کام کیاہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 25-31مئی 2012ء شمارہ 21جلد19 ص13)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button