خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍اکتوبر2020ء

مَیں تمہارے بارے میں محتاجی سے نہیں ڈرتا بلکہ مَیں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے اور پھر تم بڑھ چڑھ کر حرص کرنے لگ جاؤ (الحدیث)

حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح رضی اللہ عنہ نےحضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے مسلمانوں کے دارارقم میں پناہ گزیں ہونے سے پیشتر نویں نمبر پراسلام قبول کیا

دس ہجری، حجة الوداع کے موقعے پر حضرت ابوعبیدہؓ نےرسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاح ؓکی اطاعت کی کیفیت سنی تو فرمایا رَحِمَہُ اللّٰہُ اَبَا عُبَیْدَہ۔کہ ابوعبیدہ پر اللہ کی رحمت ہو کہ اس نے یہ اطاعت کا معیار قائم کیا

امین الامّت، عشرہ مبشرہ کی بشارت پانے والے، آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

ہم تو پہلے بھی ان تکلیفوں سے گزرتے رہے ہیں، اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کی مدد سے گزر جائیں گے لیکن اگر یہ (مخالفین) باز نہ آئے تو ان کی تباہی یقینی ہے

مخالفینِ احمدیت کو انتباہ اور پاکستانی احمدیوں کو اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے اور دعائیں کرنے کی تلقین

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مَیں ضرور تمہارے ساتھ ایک ایسے امین شخص کو بھیجوں گا جو اس کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ھٰذَا أَمِیْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔ یہ اس امّت کا امین ہے

حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے خَود کے ان دو حلقوں میں سے ایک کو اپنے دانت سے پکڑا اور اتنے زور سے کھینچا۔ اتنے مضبوطی سے وہ اندر گڑھ گئے تھے کہ جب کھینچ کر نکالا تو آپؓ کمر کے بل زمین پر گر گئے اور آپؓ کا سامنے کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ پھر آپؓ نے دوسرے حلقے کو بھی دانتوں سے پکڑ کر زور سے کھینچ کر باہر نکالا کہ آپؓ کا سامنے کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا

دیکھو! جب تم دشمن پر غلبہ پاؤ تو کسی بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا،کسی جانور کو ہلاک نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا، معاہدہ کر کے اسے خود نہ توڑنا

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍اکتوبر2020ء بمطابق 02؍اخاء1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

بدری صحابہ کے ذکر میں جن صحابی کا ذکر ہو گا وہ ہیں حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کا نام عامر بن عبداللہ تھا اور ان کے والد کا نام عبداللہ بن جَرَّاح تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ اپنی کنیت کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں جبکہ آپؓ کے نسب کو آپؓ کے دادا جَرَّاح سے جوڑا جاتا ہے۔ آپؓ کی والدہ کا نام اُمَیْمَہ بنتِ غَنْم تھا اور آپؓ کا تعلق قبیلہ قریش کے خاندان بَنُو حَارِثْ بِنْ فِہْر سے تھا۔

(الاصابة فی تمییز الصحابة جزء ثالث صفحہ 475، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 2005ء)

حضرت ابوعُبَیْدہؓ کا یہ حلیہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا قد لمبا تھا، جسم نحیف تھا، دبلے پتلے تھے اور چہرے پر کم گوشت تھا۔ سامنے کے دو دانت غزوۂ احد کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار میں پھنسے ہوئے خود کے حلقوں کو نکالتے ہوئے ٹوٹ گئے تھے۔ آپؓ کی داڑھی زیادہ گھنی نہ تھی اور آپؓ خضاب کا استعمال کیا کرتے تھے۔

(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد دوم صفحہ 135، حضرت ابوعبیدہ بن الجَرَّاح، دارالاشاعت اردو بازار کراچی)

حضرت ابوعبیدہ بن جرّاحؓ نے متعدد شادیاں کی تھیں مگر ان میں صرف دو بیویوں سے اولاد ہوئی۔ آپؓ کے دو بیٹے تھے ایک کا نام یزید اور دوسرے کا نام عُمَیر تھا۔(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 41)

حضرت ابوعبیدہ ؓان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی، جن کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔

(اسد الغابة فی معرفة الصحابہ جلد ثالث صفحہ 22، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالفکر بیروت، 2003ء)

حضرت ابوعبیدہ ؓکا شمار قریش کے باوقار، بااخلاق اور باحیا لوگوں میں ہوتا تھا۔

(الاصابة فی تمییز الصحابة جزء ثالث صفحہ 477، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 2005ء)

حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت ابوبکر ؓکی تبلیغ سے اسلام قبول کیا۔ اس وقت مسلمان ابھی دارِ ارقم میں پناہ گزیں نہیں ہوئے تھے اس سے پہلے کی بات ہے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کا اسلام لانے میں نواں نمبر ہے۔

(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 798، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)
(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 124 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر امّت کا ایک امین ہوتا ہے اور میری امّت کے امین ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب ابی عبیدہ بن الجَرَّاحؓ، حدیث نمبر 3744)

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کے مطابق نجران کے لوگ جبکہ صحیح مسلم کی ایک اَور روایت کے مطابق یمن کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کسی ایسے شخص کو بھیجیں جو ہمیں دین سکھائے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ کسی امین شخص کو بھیجیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مَیں ضرور تمہارے ساتھ ایک ایسے امین شخص کو بھیجوں گا جو اس کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ھٰذَا أَمِیْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ۔ یہ اس امّت کا امین ہے۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب ابی عبیدہ بن الجَرَّاحؓ حدیث نمبر 3745)
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی عبیدہ بن الجَرَّاحؓ، حدیث نمبر 2419-2420)

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکرؓ، عمرؓ، ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ، اُسید بن حضیرؓ، ثابت بن قَیس بن شَمَّاسؓ، مُعاذ بن جَبَلؓ اور مُعَاذ بن عَمْرو بن جَمُوحؓ کتنے اچھے انسان ہیں۔(جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب معاذ بن جبل و زید بن ثابتؓ…..، حدیث نمبر 3795)یعنی آپؐ نے ایک مرتبہ ان کی تعریف فرمائی۔ ایک مجلس میں ان کا ذکرہوا ہو گا جس کی مثال حضرت ابوہریرہؓ بیان کر رہے ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی کو جانشین بناتے تو کسے بناتے؟ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت ابوبکر ؓکو۔ لوگوں نے پوچھا اور حضرت ابوبکرؓ کے بعد کسے؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت عمرؓ کو۔ لوگوں نے پوچھا حضرت عمرؓ کے بعد کسے؟ تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کو۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضائل ابی بکر الصدیقؓ حدیث نمبر 2385)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ عبداللہ بن شَقِیْق نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ میں سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ۔ اس نے پوچھا کہ حضرت ابوبکر ؓکے بعد کون؟ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا حضرت عمرؓ۔ اس نے پوچھا کہ حضرت عمرؓ کے بعد کون؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا حضرت ابوعُبیدہ بن جَرَّاحؓ۔ پھر اس نے پوچھا اس کے بعد کون؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عائشہؓ خاموش رہیں۔

(جامع ترمذی کتاب المناقب، باب مناقب ابی بکر الصدیقؓ، حدیث نمبر 3657)

’سیرت خاتم النبیینؐ‘ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ

’’حضرت عائشہ ؓکی نظر میں ابوعبیدہؓ کی اتنی قدرومنزلت تھی کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر حضرت عمرؓ کی وفات پر ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو وہی خلیفہ ہوتے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 123)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ اگر آج حضرت ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کرتا اور اگر میرا رب مجھ سے اس بارے میں پوچھتا کہ تم نے اسے کیوں نامزد کیا ہے تو مَیں عرض کرتا کہ مَیں نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ابوعبیدہؓ اس امّت کا امین ہے۔ اس لیے اسے جانشین بنایا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 315، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 2012ء)

جب حضرت ابو عبیدہؓ ایمان لائے تو ان کے والد نے ان کو بہت تکالیف پہنچائیں۔ آپؓ ہجرت حبشہ میں بھی شریک تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ مدینہ ہجرت کر کے آئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انہیں دیکھ کر تمتما اٹھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر معانقہ کیا اور آپؓ نے حضرت کلثوم بن ہِدمؓ کے گھر قیام کیا۔ امّ کلثوم نہیں بلکہ حضرت کلثوم بن ھِدْمؓ کے گھر قیام کیا۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب، جلد 2 صفحہ 11-12)

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیة بیروت، 2012ء)

حضرت ابوعبیدہؓ کی مؤاخات کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ بعض کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہؓ کی مؤاخات حضرت ابوحذیفہؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت سالمؓ کے ساتھ فرمائی۔ بعض کے نزدیک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی مؤاخات حضرت محمد بن مسلمہؓ کے ساتھ قائم فرمائی اور بعض کے نزدیک آپؓ کی مؤاخات حضرت سعد بن معاذؓ کے ساتھ قائم فرمائی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیة بیروت، 2012ء)

(الاصابة فی معرفة الصحابة جزء ثالث صفحہ 476، عامر بن عبد اللّٰہ، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان، 2005ء)

حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیة بیروت، 1990ء)

غزوہ ٔبدر کے وقت حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کی عمر41سال تھی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 316، ابوعبیدہ بن جَرَّاح، دارالکتب العملیة بیروت لبنان، 2012ء)

غزوۂ بدر کے روز حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاحؓ مسلمانوں کی طرف سے میدانِ جنگ میں آئے اور آپؓ کا باپ عبداللہ کفار کی طرف سے میدان میں آیا۔ باپ بیٹا آمنے سامنے ہوئے۔ باپ نے جنگ کے دوران بیٹے کو نشانہ بنانا چاہا مگر حضرت ابو عبیدہؓ طَرح دیتے رہے، ایک طرف نکلتے رہے، بچتے رہے مگر باپ نے پیچھا نہ چھوڑا۔ باپ کی کوشش تھی کہ آپ کو کسی طرح مار دے۔ آپؓ کو بھی موقع تھا، آپؓ بھی یہ کر سکتے تھے لیکن آپؓ یہی کوشش کرتے رہے کہ باپ سے بچتے رہیں۔ نہ اس کو ماریں اور خود بھی بچے رہیں۔ جب حضرت ابو عبیدؓہ نے دیکھا کہ باپ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تو جذبہ توحید نسبی تعلق پر غالب آیا۔ پھر رشتہ داری کوئی چیز نہیں رہی۔ جب آپؓ نے دیکھا کہ اب تو یہ پکا ارادہ کیے بیٹھا ہے کہ مجھے مارنا ہے اور صرف اس لیے مارنا ہے کہ مَیں توحید پر ایمان لے آیا ہوں اور لکھا ہے کہ جذبہ توحید نسبی تعلق پر غالب آیا اور جب یہ ہوگیا، جب دیکھا کہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو پھر عبداللہ جو اُن کا باپ تھا اپنے ہی بیٹے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آخر اُس کو پھر مجبوراً اِن کو مارنا پڑا۔

(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 124 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

غزوۂ احد کے دن عبداللہ بن قَمِئَہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زور سے پتھر مارا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ٔمبارک زخمی ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہو گئے۔ اس پر اس نے نعرہ مارا کہ یہ لو کہ مَیں ابنِ قَمِئَہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرۂ مبارک سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایا اللہ تجھے رسوا کرے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ایسا ہوا کہ اللہ نے اس پر ایک پہاڑی بکرا مسلط کر دیا جس نے اسے مسلسل سینگ مارے یہاں تک کہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔

(المعجم الکبیر للطبرانی جزء ثامن صفحہ 154 حدیث 7596، مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ، 1994ء)

اس واقعے کے بارے میں حضرت عائشہ ؓکی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ بیان فرماتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پتھر مارا گیا تو وہ اتنے زور سے لگا کہ آپؐ کے خَود کے دو حلقے ٹوٹ کر، اس کی کڑیاں جو تھیں وہ ٹوٹ کر آپؐ کے چہرۂ مبارک میں پیوست ہو گئیں۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ کہتے ہیں کہ مَیں دوڑتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا تو مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص اتنی تیزی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھ رہا تھا گویا کہ اُڑ کر آ رہا ہو۔ اس پر مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ !اس شخص کو خوشی کا موجب بنا۔یعنی یہ جو دوڑا جا رہا ہے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی، ہمارے لیے بھی خوشی کا موجب بنے۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو مَیں نے دیکھا کہ وہ ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے جو مجھ سے سبقت لے گئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا : اے ابوبکرؓ! مَیں آپؓ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسارِمبارک سے ان حلقوں کو نکالنے دیں یعنی وہ جو خَود کے اندر جبڑے میں چبھ گئے تھے ان کو نکالنے دیں۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے انہیں ایسا کرنے دیا۔ پس حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے خَود کے ان دو حلقوں میں سے ایک کو اپنے دانت سے پکڑا اور اتنے زور سے کھینچا۔ اتنے مضبوطی سے وہ اندر گڑھ گئے تھے کہ جب کھینچ کر نکالا تو آپؓ کمر کے بل زمین پر گر گئے اور آپؓ کا سامنے کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ پھر آپؓ نے دوسرے حلقے کو بھی دانتوں سے پکڑ کر زور سے کھینچ کر باہر نکالا کہ آپؓ کا سامنے کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ غزوۂ احد کے موقعے پر جب لوگ منتشر ہو گئے تھے تو حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثابت قدم موجود رہے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء ثالث صفحہ 313، دارالکتب العلمیة بیروت، 1990ء)

ذوالقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو اس معاہدے کی دو نقلیں تیار کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پر اپنے دستخط کیے۔ مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں سے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ 769)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاح ؓکو کئی سرایا، سریہ کی جمع سرایا مطلب ہے جنگوں میں بھجوایا تھا۔ جو expeditions ہوتی ہیں ان میں بھجوایا تھا۔

ذوالقَصَّہ کی طرف سریہ۔ یہ سریہ ربیع الآخر چھ ہجری میں بھجوایا گیا تھا۔ اس کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے اپنی تصنیف ’سیرت خاتم النبیین‘ میں لکھتے ہیں کہ ربیع الآخر کے مہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ انصاری ؓکو ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا جومدینہ سے چوبیس میل کے فاصلہ پر تھا جہاں ان ایام میں بنوثَعْلَبَہ آباد تھے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ اوران کے دس ساتھی رات کے وقت وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس قبیلہ کے سو نوجوان جنگ کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ صحابہ کی جماعت سے یہ پارٹی تعداد میں دس گنا زیادہ تھی۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ نے فوراً اس لشکر کے سامنے صف آرائی کرلی۔ اگر جنگ کی نیت سے گئے ہوتے تو اتنی تھوڑی تعداد میں نہ ہوتے۔ اورفریقین کے درمیان رات کی تاریکی میں خوب تیراندازی ہوئی۔ اس کے بعد کفار نے صحابہ کی مٹھی بھر جماعت پر دھاوا بول دیا اور چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ایک آن کی آن میں یہ دس فدائیان اسلام خاک پر تھے۔ یعنی شہید ہو گئے۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ کے ساتھی تو سب شہید ہوگئے مگر خود حضرت محمد بن مسلمہؓ بچ گئے کیونکہ کفار نے انہیں دوسروں کی طرح مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا اوران کے کپڑے وغیرہ اتار کر لے گئے۔ غالباً حضرت محمدبن مسلمہ ؓبھی وہاں پڑے پڑے فوت ہوجاتے مگر حسنِ اتفاق سے ایک اَور مسلمان کاوہاں سے گزر ہوا اور اس نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کوپہچان کرانہیں اُٹھا کر مدینہ پہنچا دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجب ان حالات کاعلم ہوا تو آپؐ نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاح ؓکوجو قریش میں سے تھے اورکبار صحابہ میں شمار ہوتے تھے حضرت محمد بن مسلمہؓ کے انتقام کے لیے ذوالقصہ کی طرف روانہ فرمایا اور چونکہ اس عرصہ میں یہ بھی اطلاع موصول ہوچکی تھی کہ قبیلہ بنوثعلبہ کے لوگ مدینہ کے مضافات پرحملہ کا ارادہ رکھتے ہیں اس لیے آپؐ نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کی کمان میں چالیس مستعد صحابہ کی جماعت بھجوائی اورحکم دیاکہ راتوں رات سفر کرکے صبح کے وقت وہاں پہنچ جائیں۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے تعمیلِ ارشاد میں یلغار کر کے عین صبح کی نماز کے وقت انہیں جا دبایا اوروہ اس اچانک حملہ سے گھبرا کر تھوڑے سے مقابلہ کے بعد بھاگ نکلے اورقریب کی پہاڑیوں میں غائب ہو گئے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ نے مالِ غنیمت پرقبضہ کیا اورمدینہ کی طرف واپس لَوٹ آئے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 668)

یہ حملہ ظلم کا بدلہ لینے کے لیے یا سزا دینے کے لیے کیا گیا تھا۔

دوسری جو ایک جنگ تھی اس کا نام ذات السلاسل تھا۔ اس سریہ کو ذات السلاسل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ دشمنوں نے اس خوف سے آپس میں ایک دوسرے کو زنجیروں سے باندھ لیا تھا کہ وہ اکٹھے ہو کر لڑ سکیں ا ور کوئی بھاگ نہ سکے۔ ایک صف بنا کر لڑ سکیں یا جس طرح بھی صفیں بنی تھیں اکٹھے اکٹھے رہیں۔ اس کی ایک اَور وجہ بھی ملتی ہے کہ اس جگہ پر ایک چشمہ تھا جس کا نام اَلسَّلْسَلْ تھا۔ بعض کے نزدیک آٹھ ہجری اور بعض کے نزدیک سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قبیلہ بنوقُضَاعَہ کے لوگ مدینے پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو تین سو مہاجرین اور انصار کے ساتھ اس کی سرکوبی کے لیے روانہ فرمایا جن کے ہمراہ تیس گھوڑے تھے۔ یہ جگہ مدینے سے دس دن کی مسافت پر تھی۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے بنو قُضَاعَہ کے علاقے میں پہنچ کر وہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے کمک بھیجی جائے، مزید فوج بھیجیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام ملتے ہی دو سو مہاجرین اور انصار کی جماعت حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کی قیادت میں مدد کے لیے روانہ فرما دی اور ہدایت فرمائی کہ عمرو کے ساتھ جا کر ملیں اور اختلاف نہ کریں۔ یعنی جو بھی فیصلہ کرنا ہے ایک ہو کےکیا جائے۔ جب یہ فوج حضرت عمرو بن عاصؓ کی فوج سے مل گئی تو تمام لشکر کی امارت کا سوال پیدا ہوا۔ حضرت ابو عبیدہؓ اگرچہ اپنے مرتبہ کے لحاظ سے امارت کے مستحق تھے مگر جب حضرت عمرو بن عاصؓ نے اصرار کیا کہ مَیں ہی ساری فوج کی قیادت کروں گا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے خوش دلی سے ان کی قیادت قبول کر لی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی تھا کہ اختلاف نہیں کرنا اور ان کی زیرِ امارت نہایت بہادری سے دشمنوں کے خلاف لڑائی لڑے یہاں تک کہ دشمن کو شکست ہو گئی۔ جب کامیابی کے بعد مدینہ واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاح ؓکی اطاعت کی کیفیت سنی تو فرمایا رَحِمَہُ اللّٰہُ اَبَا عُبَیْدَہ۔ کہ ابوعبیدہ پر اللہ کی رحمت ہو کہ اس نے یہ اطاعت کا معیار قائم کیا۔

(ماخوذ از رحمت دارین کے سو شیدائی از طالب ہاشمی، صفحہ 33، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2003ء)

(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 357 تا 360 ، سریہ ذات السلاسل، دارالکتب العلمیة بیروت، 1996ء)

پھر ہے سریہ سِیْفُ الْبَحْر۔ یہ وہ ساری جنگیں ہیں جن کی فوجوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں ہوتے تھے۔ یہ سریہ ہیں۔ یہ سریہ آٹھ ہجری میں ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوا جہاں بنو جُہَیْنَہ کا ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس سریہ کو جَیْشُ الْخَبَطْ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نام کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث صحابہ ایسے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے جنہیں خَبَطْ کہا جاتا تھا۔ خَبَطْ کے ایک معنی پتے جھاڑنے کے بھی ہے۔ اس سریہ کا ذکر صحیح بخاری میں ہے اور وہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا۔ ہم تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے۔ قریش کے تجارتی قافلے کی نگرانی میں بیٹھ گئے۔ یہاں کوئی جنگ کا ارادہ نہیں تھا۔ قریش کے قافلے کی نگرانی کرنی تھی۔ سمندر کے کنارے ہم آدھا مہینہ ٹھہرے رہے اور ہمیں سخت بھوک لگی۔ یہاں تک کہ ہم نے پتے بھی کھائے۔ بعض مواقع پر جب سریہ میں جاتے تھے تو ان میں جنگوں کی نیت سے نہیں جاتے تھے بلکہ اَور مقصد ہوتے تھے اور بعض دفعہ پھر جنگوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا اس لیے دونوں لحاظ سے یہ سریہ ایسی مہم کہلاتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہیں تھے۔ بہرحال کہتے ہیں یہاں تک کہ ہم نے پتے بھی کھائے۔ اس لیے اس فوج کا نام جیش الخبط رکھا گیا۔ اس اثنامیں سمندر نے ہمارے لیے ایک جانور جس کو عنبر کہتے ہیں پھینک دیا یعنی سمندر سے ایک جانور مرکے باہر آیا یا ویسے ہی باہر آیا اور خشکی میں آکر وہ پانی کے بغیر رہ نہیں سکا تو مر گیا۔ بہرحال کہتے ہیں سمندر سے ایک جانور آیا۔ وہ مچھلی ہی تھی، بہت بڑی مچھلی۔ ہم اس کا گوشت آدھا مہینہ کھاتے رہے اور اس کی چربی بدن پر ملا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمارے جسم پھر ویسے کے ویسے تازہ ہو گئے جیسے پہلے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی اور اس کو کھڑا کیا اور سب سے لمبا شخص جو اُن کے ساتھ تھا اس کو لیا اور سفیان بن عُیَیْنَہ نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ ایک بار انہوں نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی، اس کو کھڑا کیا پھر ایک آدمی بمع اونٹ کے لیا جو اس کے نیچے سے گزر گیا۔ حضرت جابرؓ نے یہ بھی کہا کہ لشکر میں ایک شخص تھا جس نے لوگوں کے کھانے کے لیے تین دن تین تین اونٹ ذبح کیے۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کو روک دیا۔ اور عمرو بن دِینار کہتے تھے کہ ابو صالح ذَکْوَان نے ہمیں بتایا کہ قَیْس بنِ سعد نے اپنے باپ سے کہا میں بھی اسی فوج میں تھا اور ان کو بھوک لگی تو حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اونٹ ذبح کر لو۔ میں نے اونٹ ذبح کر لیا۔ کہتے تھے پھر ان کو بھوک لگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اونٹ ذبح کر لو۔ میں نے اونٹ ذبح کر لیا۔ کہتے پھر ان کو بھوک لگی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا اونٹ ذبح کر لو۔ سواریوں والے جو اونٹ تھے اور ساتھ لے کے گئے تھے۔ ان پر سامان بھی کچھ ہو گا اب ایسے حالات آ گئے کہ انہی کو ذبح کر کے کھا رہے تھے۔ کہتے ہیں مَیں نے اونٹ ذبح کر لیا۔ قیس کہتے تھے پھر ان کو بھوک لگی۔ حضرت ابوعبیدہ ؓنے کہا کہ اونٹ ذبح کر لو۔ کہتے تھے اس کے بعد پھر مجھے روک دیا گیا کہ اب اونٹ نہیں ذبح کرنے۔

دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ جَیْشُ الْخَبَط کے ساتھ حملے میں ہم نکلے اور حضرت ابو عبیدہؓ کو امیر بنایا گیا تھا۔ ہمیں سخت بھوک لگی اور سمندر نے ایک مردہ مچھلی پھینک دی۔ زندہ نہیں آئی تھی بلکہ مردہ ہی آئی تھی اور ہم نے ایسی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ بڑی مچھلی تھی۔ جس طرح اس کا حلیہ بیان کیا جاتا ہے یہ وہیل مچھلی ہو گی۔ اسے عنبر کہتے ہیں۔ ہم اس کا گوشت آدھا مہینہ کھاتے رہے۔ پھر حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی لی اور سوار اس کے نیچے سے گزر گیا۔ ابن جُرَیْجنے کہا: ابو زبیر نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حضرت جابرؓ سے سنا ہے۔ کہتے تھے کہ حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا کھاؤ۔ مچھلی کو کھاؤ۔ بےشک یہ مردہ ہے لیکن کھاؤ کوئی ہرج نہیں۔ جب ہم مدینہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اس کا ذکر کیا کہ اس طرح ایک مردہ مچھلی آئی تھی اور ہم اس کو کھاتے رہے، ضرورت تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو رزق اللہ تعالیٰ نے نکالا ہو اسے تم کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری حالت دیکھ کر تمہیں بھیجا تھا۔ اسے تم نے کھایا تو کوئی ہرج نہیں۔ اور اگر کچھ ہے ،اگر اپنے ساتھ کچھ لائے ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ۔ ان میں سے کسی نے آپؐ کو ایک حصہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھایا۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ سیف البحر حدیث 4361-4362)واپسی پر اس کا بچا ہوا گوشت کچھ لے بھی آئے تھے، وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوش فرمایا۔

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اس سریہ سِیْفُ البحر کے ضمن میں اپنی شرح میں لکھتے ہیں سِیف البحر یعنی وہی جس کو خبط بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا غزوہ ان غزوات میں سے ہے جن میں کسی سے جنگ کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ اس غزوہ میں شامل لوگ قافلہ تجارت کی حفاظت کی غرض سے بھیجے گئے تھے۔ یہ مہم بقول ابن سعد تین سو مہاجر و انصار پر مشتمل تھی۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ اس کے امیر تھے اور غزوہ سِیف البحر کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں بحیرہ قلزم کے قریب کاروان چلتے تھے تو کاروانی راستہ کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی۔ قافلوں کا جو رستہ چلتا تھا ان کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے ایک حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی اس لیے غزوۂ سیف البحر سے موسوم ہے۔ یہ فوج بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہاں ایک چوکی قائم کی جائے جو حفاظت کی غرض سے ہو اور آگے پتہ لگے گا کہ حفاظت کس کی کرنی تھی۔ سِیْف کے معنی ساحل کے ہیں۔ ابنِ سعد نے سریة الخَبْط کے عنوان سے اس کا مختصر ذکر کیا ہے۔ خَبْط کے معنی ہیں درخت کے پتے۔ زادِ راہ ختم ہونے کی وجہ سے مجاہدین کو پتے کھانے پڑے تھے۔ ابن سعد نے تاریخ وقوع رجب آٹھ ہجری بتائی ہے اور یہ زمانہ ھُدنہ یعنی صلح حدیبیہ کا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دور اندیشی سے کام لیا اور بطور احتیاط مذکورہ بالا حفاظتی دستہ علاقہ سِیف البحر میں بھیجا تھا۔ جو چوکی قائم کروائی گئی تھی وہاں حفاظتی دستہ کے طور پہ بھیجا تا شام سے آنے والے قریشی قافلے سے تعرض نہ ہو، شام سے جو قریش کا تجارتی قافلہ آ رہا تھا اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو اور قریش کے ہاتھ میں نقض معاہدہ کا کوئی بہانہ نہ مل جائے۔ صلح حدیبیہ ہو چکی تھی۔ اب یہ تھا کہ یہ نہ ہو وہاں کوئی ان کو چھیڑ دے اور قریش بہانہ بنا دیں کہ دیکھو مسلمانوں نے ہم پر حملہ کیا اس لیے حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہو گیا۔ تو اس لیے آپؐ نے وہ بھیجا تھا۔ وہاں چوکی قائم کر دی تا کہ قریش کے اس قافلے کی حفاظت کرے اور کوئی بہانہ نہ ملے ۔پھر لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا جگہ بقول ابنِ سعد مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر ہے۔

(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ سیف البحر جلد 9 صفحہ 239 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

پس یہ جنگ کے لیے نہیں تھا بلکہ کافروں کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا تھا جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا اور یہ ہے امن کے قیام کی کوشش کہ جب وہاں معاہدہ ہو گیا تو دشمن کی حفاظت کے بھی سامان کیے جائیں تاکہ معاہدہ توڑنے کا کسی قسم کا بہانہ کفار کے ہاتھ نہ آئے لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کام کرنا تھا۔ معاہدہ اگر ٹوٹا تو کفار کی طرف سے توڑا گیا اور پھر وہ فتح مکہ پر منتج ہوا۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے۔ حضرت زبیر ؓکو لشکر کے ایک پہلو پر اور حضرت خالد بن ولید ؓکو لشکر کے دوسرے پہلو پر مقرر فرمایا اور حضرت ابوعبیدہ ؓکو پیادہ لوگوں اور وادی کے نشیب کا سردار بنا دیا۔

(صحیح مسلم کتاب الجہاد باب فتح مکہ حدیث 1780)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے جزیہ کی شرط پر صلح کی تھی اور ان پر حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کو امیر مقرر فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہؓ کو وہاں جزیہ لینے کے لیے بھیجا۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ جزیہ لے کر واپس آئے اور لوگوں کو ان کی واپسی کا علم ہوا تو صبح فجر کی نماز سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھا کر جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ لگتا ہے تمہیں معلوم ہوگیا ہے کہ ابوعبیدہؓ کچھ لائے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: جی یا رسول اللہؐ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس خوش ہو جاؤ اور اس کی امید رکھو جو تمہارے لیے بہتر ہے۔ مَیں تمہارے بارے میں محتاجی سے نہیں ڈرتا بلکہ مَیں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے اور پھر تم بڑھ چڑھ کر حرص کرنے لگ جاؤ۔(صحیح بخاری کتاب الجزیہ و المواعدہ باب الجزیة و المواعدة مع اہل الذمة و الحرب، حدیث نمبر 3158) جوں جوں دنیاداری میں پڑو گے، دنیاوی آسائشیں تمہیں مہیا ہوں گی میسر آئیں گی تو حرص میں پڑ جاؤ گے اور وہ تمہیں ہلاک کر دے۔ یہ خوف ہے مجھے۔ بھوکے رہنے کا خوف کم ہے۔ یہ خوف ہے کہ دنیا داری میں پڑ کے، حرص کر کے تم کہیں اپنے آپ کو ہلاک نہ کرلو۔ پس یہ تنبیہ ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور اس کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت جن کے پاس پیسہ آتا جن میں ہمارے لیڈر بھی شامل ہیں وہ اس لالچ میں پیش پیش ہیں۔ ان کی دنیا کی لالچ بےشمار بڑھ چکی ہے۔ خدا کا نام تو لیتے ہیں لیکن فوقیت دنیاوی مال و حشمت کو ہے۔ پس ہمیں اس لحاظ سے اپنی حالتوں کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مال تو آئیں گے لیکن ہمیں اس مال کی وجہ سے اپنے دین کو نہیں بھول جانا چاہیے۔

دس ہجری میں حجة الوداع کے موقعے پر حضرت ابوعبیدہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا۔

(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 801، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگوں میں بحث ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر لحد والی ہونی چاہیے یا لحد کے بغیر۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ اور حضرت ابوطلحہ ؓکی طرف ایک ایک آدمی بھجوایا اور فیصلہ ہوا کہ ان میں سے جو آدمی پہلے آئے گا جو وہ بتائے گا ویسی قبر تیار کی جائے گی۔ حضرت ابوعبیدہؓ اہلِ مکہ کی طرز کے مطابق لحد کے بغیرقبر تیار کرتے تھے جبکہ حضرت ابوطلحہؓ اہلِ مدینہ کی طرز کے مطابق لحد والی قبر تیار کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوطلحہ ؓکی طرف بھیجے ہوئے آدمی کو حضرت ابو طلحہؓ مل گئے جبکہ حضرت ابو عبیدہؓ کی طرف بھیجے ہوئے آدمی کو حضرت ابوعبیدہؓ نہ ملے۔ چنانچہ حضرت ابوطلحہ ؓآئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد والی قبر تیار کی۔

(سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 663، حفر القبر، مطبع مصطفٰی بابی الحبلی و اولادہ، مصر، 1955ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد خلافت کے لیے انصار اور مہاجرین کے درمیان جو اختلاف ہوا اس کے بارے میں صحیح بخاری میں بیان ہے۔ یہ پہلے بھی میں ایک صحابی کے ذکر میں بیان کرچکا ہوں لیکن یہاں حضرت ابوعبیدہؓ کے ذکرمیں بھی بیان ہو جائے تو بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصار حضرت سعد بن عُبَادہؓ کے گھر میں جمع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے اور ایک امیر تم یعنی مہاجرین میں سے ہو گا۔ ان کی طرف حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ گئے۔ حضرت عمرؓ کچھ کہنے لگے مگر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں خاموش کروا دیا۔ حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اس وقت صرف اس لیے بولنا چاہتا تھا کیونکہ مَیں نے ایک تقریر تیار کی تھی جو مجھے بہت پسند تھی اور مجھے ڈر تھا کہ حضرت ابوبکرؓ ویسی بات نہ کہہ سکیں گے لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کی تو ایسی شاندار اور فصیح تقریر کی جو تمام تقاریر سے بڑھ کر تھی۔ اسی تقریر میں حضرت ابوبکرؓ نے یہ فرمایا کہ ہم یعنی مہاجرین امیر ہیں اور تم یعنی انصار وزیر ہو۔ اس پر حضرت حُبَاب بن مُنْذِرؓ نے کہا ہرگز نہیں۔ بخدا ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ ایک امیر تم میں سے ہو گا اور ایک امیر ہم میں سے ہو گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: نہیں ہم امیر ہیں اور تم وزیر ہو کیونکہ قریش حسب نسب کے لحاظ سے تم عربوں سے اعلیٰ اور قدیمی ہیں۔ پس حضرت ابوبکرؓ نے دو نام پیش کیے کہ عمرؓ یا ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو، خلیفہ بنا لو۔ اس پر حضرت عمر ؓنے کہا نہیں ہم تو آپؓ کی بیعت کریں گے۔ ابوبکر ؓکو کہا کہ ہم تو آپؓ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپؓ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سے سب سے بہتر ہیں اور ہم میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓنے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کی بیعت کی اور اس کے بعد لوگوں نے بھی حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کی۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب قول النبیؐ لو کنت متخذا خلیلا، حدیث نمبر 3668)

بہرحال حضرت ابوبکر ؓکی نظر میں حضرت ابوعبیدہؓ کا یہ مقام تھا کہ آپؓ کا نام خلافت کے لیے تجویز فرمایا۔ اسی طرح جس طرح پہلےحضرت عمر ؓکے حوالے سے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ فرمایا کہ اگر ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو مَیں انہیں اگلے خلیفہ کے لیے نامزد کرتاکیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق امین تھے۔ جب خلافت کے بارے میں بحث ہوئی تو حضرت ابوعبیدہ ؓنے انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے انصار کے گروہ !تم تو وہ لوگ ہو جنہوں نے سب سے پہلے مدد کی تھی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب تم ہی سب سے پہلے اختلاف پیدا کرنے والے ہو جاؤ۔

(ماخوذ از سیر الصحابہ از شاہ معین الدین ندوی جلد 2 صفحہ 126-127، دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو انہوں نے بیت المال کا کام حضرت ابوعبیدہؓ کے ذمے لگایا۔ 13؍ ہجری میں حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو شام کی طرف امیرِ لشکر بنا کر بھیجا۔ حضرت عمر ؓنے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ کو بطور سپہ سالار معزول فرما کر حضرت ابوعبیدہؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔

(سیر اعلام النبلاء جلد 1 صفحہ 15، ابوعبیدہ بن الجَرَّاح، مطبوعہ دار الرسالہ العالمیہ دمشق 2014ء)

فتح شام کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ 13؍ ہجری میں رومیوں میں کئی اطراف سے لشکر کشی کی گئی۔ ایک دستہ کے قائد حضرت یزید بن ابوسفیان تھے۔ ابوسفیان کے ایک بیٹے کا نام بھی یزید تھا،یہ پہلے فوت ہو گئے تھے، جو اردن کے مشرق کی طرف سے حملہ آور ہوئے۔ دوسرے کے حضرت شُرَحْبِیْل بن حَسَنَہ تھے جو بَلْقَاءکی طرف سے آگے بڑھے۔ تیسرے کے قائد حضرت عمرو بن عاصؓ تھے جو فلسطین کی طرف سے شام میں داخل ہوئے۔ چوتھے دستے کے قائد حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے جو حِمص کی طرف بڑھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ جب یہ سب ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ سپہ سالار ہوں گے۔ ہر لشکر چار ہزار پر مشتمل تھا جبکہ حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر آٹھ ہزار کا تھا۔ جب لشکر روانہ ہونے لگے تو حضرت ابوبکرؓ نے قائدین لشکر کو فرمایا دیکھو! نہ اپنے پر تنگی وارد کرنا نہ اپنے ساتھیوں پر۔ اپنی قوم اور ساتھیوں پر ناراضگی کا اظہار نہ کرنا۔ ان سے مشورے کرنا اور انصاف سے کام لینا۔ ظلم و جور سے دور رہنا کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتا اور کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتا۔اور جب تمہاری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو جائے تو دشمن کو پیٹھ نہیں دکھانا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اس دن پیٹھ پھیرے گا اس پر خدا کا غضب ٹوٹے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا سوائے اس کے کہ جو لڑائی کے لیے جگہ بدلتا ہے یا اپنے ساتھیوں سے رابطہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۂ انفال میں آیت سترہ میں یہ لکھا ہوا ہے۔ پھر فرمایا کہ دیکھو! جب تم دشمن پر غلبہ پاؤ تو کسی بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا،کسی جانور کو ہلاک نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا، معاہدہ کر کے اسے خود نہ توڑنا۔

حضرت ابوعبیدہؓ نے سب سے پہلے شام کے شہر مآب کو فتح کیا۔ وہاں کے باشندوں نے جزیہ کی شرط پر صلح کر لی۔ اس کے بعد آپؓ نے جَابِیَہکا رخ کیا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں کا بڑا لشکر مقابلے کے لیے تیار ہے۔ اس پر حضرت ابوعبیدہ ؓنے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں مزید مدد کے لیے درخواست کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ جواس وقت عراق کی مہم پر مامور تھے ان سے فرمایا کہ نصف لشکر حضرت مثنّٰی بن حارث ؓکی قیادت میں چھوڑ کر تم حضرت ابوعبیدہؓ کی مدد کو پہنچ جاؤ اور حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط لکھا کہ مَیں نے خالد کو امیر مقرر کیا ہے اور مَیں خوب جانتا ہوں کہ تم اس سے بہتر اور افضل ہو۔ پورے خط کا متن یہ ہے کہ اللہ کے بندے عتیق بن ابوقُحَافہ ۔ عتیق حضرت ابوبکرؓ کا اصل نام تھا اور ابوقحافہ ان کے والد کا نام تھا۔

اللہ کے بندے عتیق بن ابو قحافہ کا خط ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ کے نام۔ تجھ پر خدا کی سلامتی ہو۔ مَیں نے شام کی فوجوں کی کمان خالد کے سپرد کی ہے۔ آپ اس کی مخالفت نہ کرنا اور سننا اور اطاعت کرنا۔ مَیں نے تمہیں اس پر والی مقرر کیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ تم اس سے افضل ہو لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں ، خالد بن ولیدؓ میں ،فنِ حرب کی صلاحیت یعنی جنگی معاملات کی صلاحیت تمہاری نسبت بہت زیادہ ہے۔ اللہ مجھے اور تمہیں صحیح راہ پر گامزن رکھے۔حضرت ابوبکرؓ نے یہ لکھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے حِیرہ ،عراق میں ایک شہر کا نام ہے وہاں سے حضرت ابوعبیدہؓ کو خط لکھا کہ اللہ کی آپؓ پر سلامتی ہو۔ مجھے حضرت ابوبکرؓ نے شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا ہے اور فوجوں کی قیادت میرے سپرد فرمائی ہے۔ خدا کی قسم! مَیں نے اس کا کبھی مطالبہ نہیں کیا اور نہ میری خواہش تھی۔ آپؓ کی وہی حیثیت ہو گی جو پہلے ہے۔ ہم آپؓ کی نافرمانی نہیں کریں گے اور نہ آپؓ کو نظر انداز کر کے کوئی فیصلہ کریں گے۔ آپؓ مسلمانوں کے سردار ہیں۔ آپؓ کی فضیلت کا ہم انکار نہیں کرتے اور نہ آپؓ کے مشورے سے مستغنی ہو سکتے ہیں۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 19تا 21)(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 804، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)(سیر الصحابہ جلد 4 صفحہ 457، 459 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)(فرہنگ سیرت صفحہ 110 زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی 2003ء)

یہ دیکھیں۔ یہ ہے مومنانہ شان۔ دونوں طرف سے کس طرح عاجزانہ طور پر اطاعت کا اظہار کیا گیا ہے۔

جنگ اَجنادَین۔ جمادی الاول تیرہ ہجری میں اَجنادَین فلسطین کے نواحی علاقے میں سے ایک بستی کا نام ہے۔ اس مقام پر ایک لاکھ رومی فوج سے مسلمانوں کا یہ مقابلہ ہوا۔ روایات میں آتا ہے کہ اجنادَین فوج کا سپہ سالار قیصر روم ہرقل کا بھائی تھیوڈور (Theodore) تھا۔ پینتیس ہزار کے قریب مسلمانوں نے ایک لاکھ کی فوج کو شکست دے کر اجنادَین کو فتح کر لیا۔

(ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 805، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)

(معجم البلدان جلد 1 صفحہ 129 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اجنادین کی فتح کے بعد مسلمانوں نےدمشق کا محاصرہ کر لیا اور پھر اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ یہ شام کا دارالحکومت ہے اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ دمشق کا مسلمانوں نے محاصرہ محرم 14؍ہجری میں کیا اور یہ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا۔ دوسری پارٹی، جو مخالفین تھے، دوسری طرف کی فوج وہ قلعہ بند ہو گئے۔ اپنے علاقے میں تھے اس لیے اپنے قلعے بند کر لیے۔ مسلمانوں کے پانچوں سالار اپنی فوجوں سمیت اس شہر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ اپنی فوج کے ساتھ مشرقی دروازے پر تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ ان کے بالمقابل مغربی دروازے پر تھے اور باقی تین سالار بھی، کمانڈر جو تھے مختلف دروازوں پر متعین تھے۔ رومی گاہے بگاہے نکل کر جنگ کرتے مگر پھر واپس چلے جاتے اور قلعہ بند ہو جاتے تھے۔ انہیں امید تھی کہ قیصر روم کمک بھیجے گا مگر اسلامی افواج کی چوکسی نے ان کی امیدیں خاک میں ملا دی تھیں۔ ایک رات جبکہ شہر میںکوئی جشن ہو رہا تھا اور فصیل کے پہرے دار بھی اس جشن کی خوشی میں پہرے داری سے غافل تھے تو حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے کچھ ساتھیوں سمیت شہر کی فصیل پھلانگ کر شہر میں داخل ہو گئے اور دروازہ کھول دیا۔ اس طرح ان کی فوج شہر میں داخل ہو گئی۔ یہ دیکھ کر شہر والوں نے حضرت ابوعبیدہؓ سے صلح کرلی جو کہ شہر کے دوسری طرف تھے مگر حضرت خالد ؓکو یہ خبر نہیں ہوئی اور مسلسل جنگ کر رہے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس لوگ گئے اور ان سے التجا کی کہ ہمیں خالدؓ سے بچائیے۔ شہر کے درمیان میں ان دونوں سرداروں کا آمنا سامنا ہوا اور پھر جب خالد بن ولیدؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ شہر کے درمیان میں آ کے شہر والوں کے ساتھ ملے تو پھر شہر والوں کے ساتھ صلح کر لی گئی کیونکہ معاہدہ حضرت ابوعبیدہؓ کر چکے تھے۔

(ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 805-806، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء

معرکہ فِحْل۔ یہ شام کا ایک شہر ہے۔ دمشق فتح کرنے کے بعد مسلمان آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ رومی بَیْسَانمقام میں جمع ہو کرمسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مسلمان ان کے بالمقابل فحل مقام میں خیمہ زن ہوئے۔ رومی فوج کے سپہ سالار نے صلح کی پیشکش کی خاطر اپنے سفیر کو حضرت ابوعبیدہؓ کی طرف بھیجا۔ وہ جب اسلامی لشکر میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک ہی طرح ادنیٰ اور اعلیٰ، افسر و ماتحت، سپہ سالار اور سپاہی بیٹھے ہیں اور کوئی امتیاز اور فرق دکھائی نہیں دیا۔ آخر اس نے مجبور ہو کر کسی سے پوچھا کہ آپ کا سپہ سالار کون ہے۔ لوگوں نے ایک سیدھے سادھے شخص کی طرف اشارہ کیا جو زمین پربیٹھا ہوا تھا۔ سفیر نے قریب جا کر کہا کہ آپ ہی اس کے سپہ سالار ہیں؟ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا کہ ہاں۔ سفیر نے پیشکش کی کہ اپنی فوج کو یہاں سے واپس لے جائیں اور اس کے بدلے میں آپ کے ہر سپاہی کو فی کس دو اشرفیاں سونے کی ملیں گی۔ سپہ سالار کو ایک ہزار دینار ملیں گے اور تمہارے خلیفہ کو دو ہزار دینار دیے جائیں گے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا ہم پیسے لینے نہیں آئے۔ مال و دولت کی غرض سے نہیں آئے۔ ہم اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے نکلے ہیں۔ سفیر ان کو دھمکیاں دیتا ہوا وہاں سے واپس چلا گیا۔ اس کے یہ تیور دیکھ کر حضرت ابوعبیدہؓ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا اور اگلی صبح دونوں فوجوںمیں جنگ ہوئی۔ حضرت ابوعبیدہؓ خود فوج کے قلب یعنی درمیان میں تھے اور بڑی حکمت سے فوج کو لڑا رہے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں نے باوجود قلیل تعداد ہونے کے رومیوں کو شکست دے دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردن کا تمام علاقہ مسلمانوں کے پاس آ گیا۔

(ماخوذ از عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 807-808 ، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)

(ماخوذ از سیر الصحابہ از شاہ معین الدین ندوی جلد 2 صفحہ 128، دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان)

فتح حِمْص۔ فِحْلکی فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ نے حِمْص کی طرف پیش قدمی کی جو شام کا ایک مشہور شہر تھا اور جنگی اور سیاسی اہمیت رکھتا تھا۔ راستے میں بَعلبکشہر،جو لبنان کا ایک قدیم شہر ہے، دمشق سے تین راتوں کی مسافت پر ہے۔ وہاں سے گزر ہوا جو ایک قدیم شہر تھا اوریہ بَعل بت کی پرستش کا بہت بڑامرکز رہ چکا تھا۔ وہاں کے رہائشیوں نے حضرت ابوعبیدہؓ کا مقابلہ کرنے کی بجائے صلح کی درخواست کی جو جزیہ کی شرط کے ساتھ منظور کر لی گئی۔ ان سے کوئی لڑائی، جنگ نہیں ہوئی۔ اور قبول ہو گیا کہ وہ جزیہ دیں اور بےشک اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حمص کا رخ کیا اور اس کا محاصرہ کر لیا ۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی آپؓ کے ساتھ تھے۔ شہر والوں کو قیصر سے فوجی امداد کی امید تھی۔ اس لیے وہ مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے ۔مگر جب وہ امداد سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور صلح کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی۔ صلح کے ساتھ انہیں جان و مال کی امان دی گئی اور ان کے عبادت خانے اور مکانات محفوظ قرار دیے گئے۔ مکان بھی محفوظ، عبادت خانے بھی محفوظ اور جو اپنے مذہب پر قائم رہے ان پر جزیہ اور خراج عائد کیا گیا۔ یعنی اپنے مذہب پر بےشک قائم رہو لیکن جزیہ اور خراج دینا پڑے گا جو ایک ٹیکس ہے۔

فتح لَاذِقِیّہ۔اس کے بعد اسلامی لشکر نے لَاذِقِیّہ جو شام کا ایک شہر ہے اور ساحلِ سمندر پر واقع ہے۔ حمص کے نواحی علاقوں میں ا س کو شمار کیا جاتا ہے۔ بہرحال اس کامحاصرہ کر لیا۔ حفاظتی انتظامات کے لحاظ سے لَاذِقِیّہ بہت مستحکم تھا۔ شہر والوں کے پاس رسد کے ذخائر کثرت کے ساتھ موجود تھے جن کی وجہ سے ان کو محاصرہ کی کوئی پروا نہیں تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے اس کو فتح کرنے کی ایک نئی تدبیر نکالی۔ آپؓ نے ایک رات میدان میں بہت سے گڑھے کھدوائے اور انہیں گھاس سے ڈھانک دیا اور صبح محاصرہ اٹھا کر حِمْص کی طرف روانہ ہو گئے۔ ظاہر یہ کیا کہ ہم واپس جا رہے ہیں ۔گڑھے کھودنے کے بعد گھاس سے ڈھانکنے کے بعد محاصرہ اٹھا لیا اور ساری فوج واپس ہوگئی۔ شہر والوں نے اور شہر میں موجود فوجوں نے محاصرہ اٹھتے دیکھا تو خوش ہوئے اور اطمینان سے شہر کے دروازے کھول دیے۔ دوسری طرف حضرت ابوعبیدہؓ راتوں رات اپنی فوج سمیت واپس آ گئے۔ رات کو ہی واپس آ گئے اور ان غار نما گڑھوں میں چھپ گئے۔ جو غاریں بنائی تھیں۔ tunnels بنائی تھیں۔ یا ٹرینچز (Trenches)بنائی تھیں ان میں چھپ گئے اور صبح جب شہر کے دروازے کھلے تو آپؓ نے یک دفعہ حملہ کر دیا اور شہر میں داخل ہو کر شہر کو فتح کر لیا۔

(ماخوذ از سیر الصحابہ از شاہ معین الدین ندوی جلد 2 صفحہ 128، دارالاشاعت اردو بازار کراچی پاکستان)
(عشرہ مبشرہ از بشیر ساجد صفحہ 809، البدر پبلیکیشنز اردو بازار لاہور، 2000ء)

(معجم البلدان جلد 5 صفحہ 6 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

باقی ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ یہ ذکر چلے گا، بیان کروں گا۔

پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی آج کل بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مولویوں اور حکومت کے اہلکاروں کے شر سے محفوظ رکھے۔ وہاں پھر مخالفت کی شدید لہر آئی ہوئی ہے۔ قانون کے محافظ نہ صرف یہ کہ انصاف کو نہیں جانتے بلکہ اس کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں اور جو مولوی کہتا ہے اس کے پیچھے چل رہے ہیں۔ میرا خیال ہے اپنی جان بچانے کے لیے کہ شاید ان کو اسی طرح سیاسی استحکام مل جائے لیکن یہ ان کی بھول ہے۔ یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہی چیز ان کی تباہی کا ذریعہ بنے گی۔ ہم تو پہلے بھی ان تکلیفوں سے گزرتے رہے ہیں، اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کی مدد سے گزر جائیں گے لیکن ان کی یہ حرکتیں اگر یہ ان سے باز نہ آئے تو ان کی تباہی یقینی ہے۔ پس احمدی آج کل بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ یہ مشکلات دُور فرمائے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق میں بڑھیں خاص طور پر پاکستان میں رہنے والے احمدی، باہر رہنے والےاحمدی بھی جو پاکستان سے آئے ہوئے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت جلد آئے اور ان مشکلات سے وہاں کے رہنے والے احمدی چھٹکارا پا سکیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 23؍اکتوبر2020ءصفحہ 5تا9)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button