سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پاکیزہ اور مقدّس و مطہرجوانی

وَالفَضْلُ مَا شَہِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ

(حصہ دوم)

مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب اوران کاریویو!

بعض مخالفین کی طرف سے یہ کہہ دیا جاتاہے کہ مولوی صاحب کی یہ گواہی اس وقت کی ہے جب وہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے… حالانکہ یہ تو ایک بچگانہ سی بات ہے۔ بات حسن ظن یا کسی بدظنی کی نہیں۔ بات تو سیدھی سی ہے کہ مولوی صاحب حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی گزری ہوئی زندگی کے بارہ میں کیاگواہی دے رہے ہیں۔ اور زندگی بھی وہ جو بقول ان کے‘‘ مولف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے’’ (اشاعۃ السنۃ جلد 7نمبر6صفحہ 176) اس میں جو کچھ انہوں نے مشاہدہ کیا وہ بیان کرنا تھا اورتوکوئی بات نہیں تھی۔ اس میں حسن ظنی کا تو نہ ذکر ہے اور نہ ضرورت اورنہ ہی اس کی کوئی یہاں امکانی جگہ ہے۔ اور جہاں تک کسی بھی مصلح اورمامور کے دعویٰ کے بعد کی بات ہے تو وہ مخالفت تو ہواہی کرتی ہے اورتاریخ انبیاء کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ جو ہر نبی پر ایک الزام مشترکہ لگا وہ یہ تھا کہ ھذا ساحر کذاب یہ جھوٹا ہے۔ تو بعد میں تو ہر مخالف کچھ نہ کچھ کہتاہی ہے۔ وہ اسے جھوٹا بھی کہتا ہے، ساحر اور جادوگر بھی کہتا ہے۔ دیوانہ اور مجنون بھی کہتاہے۔ بات تو اس پہلی زندگی کے بارہ میں ہواکرتی ہےجواس نے اپنی قوم میں گزاری ہوتی ہے کہ وہ کیسی گزری تھی۔ اس گواہی کے بارہ میں دوہی باتیں ہیں کہ اہل حدیث کے چوٹی کے رہنمااورعالم دین مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے یا تو اس وقت ریویوکرتے وقت آپ کی زندگی کے بارہ میں جو گواہی دی وہ جھوٹ اور خوشامد پر مبنی تھی یا پھر بعدمیں اگر اس گواہی سے انکارکیاتو پھر جھوٹ بھی بولا اور سچی شہادت کو چھپانے کا گناہ بھی اپنے سرلیا۔

انہی مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے دعویٰ کے کچھ سالوں بعد ایک چیلنج بھی دیا تھا جس سے مولوی صاحب کی اورحضرت اقدسؑ کی راستبازی کا امتحان ہوجاتا۔ اور اس وقت حضرت اقدسؑ نے اپنی گزشتہ زندگی کے راستبازی کے چند واقعات بھی درج فرمائے تھے لیکن مولوی صاحب کو ساری زندگی نہ تو چیلنج قبول کرنے کی ہمت ہوئی اور نہ ہی کبھی کوئی ایسی بات بتاسکے کہ جس سے یہ پتہ چل سکے کہ مولوی صاحب کی پہلی شہادت محض حسن ظن ہی تھی۔ چیلنج کی یہ تفصیلات حضرت اقدسؑ کی تصنیف لطیف ‘‘آئینہ کمالات اسلام’’، روحانی خزائن جلد5صفحہ 292تا 304پر موجودہیں۔ آپ نے ان صفحات میں مولوی صاحب موصوف کوچیلنج دیتے ہوئے فرمایا:

‘‘اب آپ کو اللہ جلّ شانہ کی قسم ہے کہ حسب طریق مذکورہ بالا میرے مقابلہ پر فی الفور آجاؤ تا دیکھا جائے کہ قرآن کریم اور فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رو سے کون کاذب اور دجّال اور کافر ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر اس تبلیغ کے بعد ہم دونوں میں سے کوئی شخص متخلف رہا اور باوجود اشد غلو اور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق کے میدان میں نہ آیا اور شغال کی طرح دم دبا کر بھاگ گیا تو وہ مندرجہ ذیل انعام کا مستحق ہوگا:(1)لعنت (2)لعنت (3)لعنت (4)لعنت (5)لعنت (6)لعنت (7)لعنت (8)لعنت (9)لعنت (10)لعنت تِلک عشرةٌ کَامِلۃ

یہ وہ فیصلہ ہے جو خدائے تعالیٰ آپ کردے گا۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ مومن بہرحال غالب رہے گا چنانچہ وہ خود فرماتا ہے

لَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا(النساء:142)

یعنے ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ کافر مومن پر راہ پاوے اور نیز فرماتا ہے کہ

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا(الانفال:30)۔ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ( الحدید:29)۔

یعنے اے مومنو اگر تم متقی بن جاؤ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا تعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق کیا ہے کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا یعنے نور الہام اور نور اجابت دعا اور نور کرامات اصطفاء۔

اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اس سے کرامات صادر ہوسکتی ہیں۔ غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریمہ لھم البشرٰی اور حدیث نبوی اصدقکم حدیثًا کے صادق ثابت ہوتا ہے۔ مع ہذا ایک اور بات بھی ذریعۂ آزمائش صادقین ہوجاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اس کو نظر نہیں آتا۔ تب اس وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی سرشت میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ اس قسم کے نمونے اس عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل بیان کرنا موجب تطویل ہے تاہم تین نمونے اس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر ان کے برابر بھی آپ کو کبھی آزمائش صدق کے موقع پیش آئے ہیں تو آپ کو اللہ جلّ شانہٗ کی قسم ہے کہ آپ ان کو معہ ثبوت ان کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آکر آپ نے صدق نہیں توڑا۔ ’’

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ 295، 296)

اپنی اسی پاکیزہ اور بے عیب زندگی کے بارہ میں جو کہ راستبازوں کا ایک معیارہواکرتی ہے۔ جسے وہ

فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ

کہہ کر ایک چیلنج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اورحضرت اقدس علیہ السلام کی یہی وہ پاکیزہ اور مقدس اور بے عیب زندگی تھی جسے آپؑ نے تمام مخالفین کے سامنے پیش کرتےہوئے یوں فرمایا:

‘‘اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔ ’’

(تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 64)

اورکبھی بھی محمدحسین بٹالوی صاحب سمیت کسی کویہ جرأت نہ ہوسکی کہ وہ مردِمیدان بن کرسامنے آتا۔

آنحضرتﷺ کی زیارت

آپؑ کی یہ پاکیزہ جوانی اور اس جوانی میں خدا اور اس کے رسولﷺ سے اظہارمحبت ہی توتھا کہ

فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقُبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا

کے تحت خدانے بھی آپ کو اپنی بارگاہ میں قبول کیا اور خوب قبول کیا اور نوازا اور خوب نوازا۔ اور اس شرفِ قبولیت کا آغاز اور عنوان اتنا خوبصورت تھا کہ ساری زندگی اس پر نثار۔ اور وہ یہ کہ آپؑ کو اس جوانی کے آغاز میں ہی دونوں جہانوں کے نور اور فخرلولاک حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ زیارت کیا وہ رفاقت نصیب ہوئی کہ عشق ومحبت اور تعلق کا یہ دامن پھر کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پایا۔ اور یہ محبت تو پھر روز افزوں بڑھتی رہی اور یہ تعلق یہاں تک بڑھا کہ بقول شاعر ؂

من تُو شُدم تو من شُدی من تن شُدم، تُو جاں شدی

تا کَس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری

ترجمہ: مَیں تُو ہو گیا اور تُو مَیں ہو گیا۔ مَیں تن ہو گیا اور تُو جان بن گیا۔ تاکہ اس کے بعد کوئی یہ نہ کہے کہ مَیں اور ہوں اور تُو اور ہے۔

آپؑ اپنی اس مبارک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تصنیف ‘‘براہین احمدیہ’’ میں فرماتے ہیں :

‘‘اِس اَحقر نے 1864ء یا 1865ء عیسوی میں یعنے اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حِصّہ میں ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھا، جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اوراُس وقت اِس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اِس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پُوچھا کہ تُو نے اِس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام مَیں نے قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اَب اِس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اورمستحکم ہے۔ جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس10 ہزارروپیہ کا اِشتہار دیاگیا ہے۔

غرض آنحضرتؐ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی۔ اورجب وہ کتاب حضرت مقدس نبی کے ہاتھ میں آئی تو آنجنابؐ کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اورخوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدرِ تربُوزتھا۔ آنحضرتؐ نے جب اُس میوہ کو تقسیم کرنے کیلئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے بھر گیا۔ تب ایک مُردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا۔ آنحضرتؐ کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا۔ اور یہ عاجز آنحضرتؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔

پھر خلاصۂ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرتؐ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا۔ اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی۔ اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھاچکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرتﷺ کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی۔ اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ‘‘ایسا ہی آنحضرتؐ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی۔ کہ جو دین ِ اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی۔ تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھُل گئی۔ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِک۔ ’’

اللّٰھم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ

وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button