خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ستمبر2020ء
تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو حالانکہ جب وہ اذان دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ عرش پر خوش ہوتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلالؓ کیا ہی اچھا انسان ہے۔ وہ تمام مؤذنوں کا سردار ہے۔ اس کی پیروی کرنے والے صرف مؤذن ہی ہوں گے اور قیامت کے دن سب سے لمبی گردنوں والے مؤذن ہی ہوں گے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت تین لوگوں سے ملنے کی بہت مشتاق ہے۔ علیؓ، عمارؓ اور بلالؓ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مجھے جنت کی طرف رات کو لے جایا گیا تو مَیں نے قدموں کی چاپ سنی۔ مَیں نے کہا اے جبرئیلؑ! یہ قدموں کی چاپ کیسی ہے؟ جبرئیل نے کہا یہ بلالؓ ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلالؓ کتنا ہی اچھا انسان ہے کہ شہداء اور مؤذنوں کا سردار ہے
کیا اعلیٰ مقام ہے اس بلالؓ کا جسے ایک وقت میں حقیر سمجھ کر پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ خواہش کر رہے ہیں کہ کاش مَیں بلال ہوتا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کی مثال تو شہد کی مکھی جیسی ہے جو میٹھے پھلوں اور کڑوی بوٹیوں سے بھی رَس چوستی ہے مگر جب شہد بنتا ہے تو سارے کا سارا شیریں ہو جاتا ہے
یہ تھے ہمارے سیدنا بلالؓ جنہوں نے اپنے آقا و مطاع ؐسے عشق و وفا کے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنے دل میں بٹھانے اور پھر اس کے عملی اظہار کے وہ نمونے قائم کیے جو ہمارے لیے اسوہ ہیں، ہمارے لیے پاک نمونہ ہیں
مؤذنِ رسولﷺ، سَابِقُ الْحَبَشَۃ، اہلِ جنت میں شامل عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
پانچ مرحومین مولانا طالب یعقوب صاحب مبلغ سلسلہ ٹرینی ڈاڈ ٹوباگو، مکرم انجنیئر افتخار علی قریشی صاحب سابق وکیل المال ثالث ربوہ،نائب صدر مجلس تحریکِ جدید، محترمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ حکیم خورشید احمد صاحب سابق صدر عمومی ربوہ ، مکرم محمد طاہر احمد صاحب نائب ناظر بیت المال قادیان اور عزیزم عقیل احمد ابن مرزا خلیل احمد بیگ صاحب استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کا ذکرِخیر اور نمازِجنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ستمبر2020ء بمطابق 25؍تبوک1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ اس بارے میں عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو بلایا اور پوچھا۔ اے بلال!کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں مجھ سے آگے رہتے ہو۔ جب کل شام مَیں جنت میں داخل ہوا تو مَیں نے اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ مَیں جب بھی اذان دیتا ہوں تو دو رکعت نفل نماز پڑھتا ہوں اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو مَیں وضو کر لیتا ہوں اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر دو رکعت ادا کرنا واجب ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر یہی وجہ ہے۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب اتیت علی قصر مربع …… الخ حدیث 3689)
ایک دوسری روایت میں یوں مذکور ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے صبح کی نماز کے وقت فرمایا : بلال مجھے بتاؤ جو سب سے زیادہ امید والا عمل تم نے اسلام میں کیا ہو کیونکہ مَیں نے بہشت میں اپنے آگے تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلالؓ نے کہا اپنے نزدیک تو مَیں نے اس سے زیادہ امید والا عمل اَور کوئی نہیں کیا کہ جب بھی مَیں نے رات کو یا دن کو کسی وقت وضو کیا تو مَیں نے اس وضو کے ساتھ نماز ضرور پڑھی ہے جتنی بھی میرے لیے پڑھنا مقدر تھی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔
(صحیح البخاری کتاب التہجد باب فضل الطہور باللیل والنہار حدیث 1149)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر آپؓ ہو گئے بلکہ صرف یہ کہ پاکیزگی اور مخفی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دیا کہ وہ جنت میں بھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جس طرح دنیا میں تھے جیسا کہ گذشتہ ایک روایت میں بھی ذکر ہوا تھا کہ عید کے روز حضرت بلالؓ نیزہ پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلتے تھے اور پھر قبلہ رخ نیزہ گاڑتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں عید پڑھاتے تھے تو بہرحال ان کا یہ اعزاز ان کی پاکیزگی اور عبادت کی وجہ سے جنت میں بھی اللہ تعالیٰ نے قائم رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے ساتھ ایک نظارے میں دیکھا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مجھے جنت کی طرف رات کو لے جایا گیا تو مَیں نے قدموں کی چاپ سنی۔ مَیں نے کہا اے جبرئیلؑ! یہ قدموں کی چاپ کیسی ہے؟ جبرئیل نے کہا یہ بلالؓ ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ اے کاش! مَیں بلال کی ماں کے بطن سے پیدا ہوتا۔ اے کاش! بلال کا باپ میرا باپ ہوتا اور مَیں بلالؓ کی طرح ہوتا۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد جلد 9صفحہ 363کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذنؓ حدیث 15635)کیا اعلیٰ مقام ہے اس بلالؓ کا جسے ایک وقت میں حقیر سمجھ کر پتھروں پر گھسیٹا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ خواہش کر رہے ہیں کہ کاش مَیں بلال ہوتا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابتدائی صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ اس طرح تحریر فرمایا ہے کہ ’’بلال بن رَبَاحؓ …… جو امیہ بن خَلَف کے حبشی غلام تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اذان دینے کا کام انہی کے سپرد تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہوں نے اذان کہنا چھوڑ دیا تھا لیکن جب حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں شام فتح ہوا تو ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے اصرار پر انہوں نے پھر اذان کہی جس پر سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آگیا چنانچہ وہ خود اور حضرت عمرؓ اور دوسرے اصحاب جو اس وقت موجود تھے اتنے روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ حضرت عمرؓ کو بلالؓ سے اتنی محبت تھی کہ جب وہ فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا آج مسلمانوں کا سردار گذر گیا۔ یہ ایک غریب حبشی غلام کے متعلق بادشاہِ وقت کا قول تھا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 124۔125)
ایک موقعے پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے احمدی مستورات سے خطاب فرماتے ہوئے یہ جو آیتِ قرآنی ہے کہ
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ أَمَلًا۔
یہ بیان فرمائی اور اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت بلالؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ‘‘ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے
الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ۔
وہ کام جو خدا کے لیے کرو گی باقی رہے گا۔‘‘ پھر آپؓ نے فرمایا کہ ’’آج ابوہریرہؓ کی اولاد کہاں ہے، مکان کہاں ہیں؟‘‘ کوئی جائیداد نہیں، اولاد نہیں۔ ہم نہیں جانتے اولاد کہاں ہے کہ نہیں ہے۔ ’’لیکن ہم جنہوں نے نہ ان کی اولاد دیکھی، نہ مکان دیکھے، نہ جائیداد دیکھی ہم جب ان کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’چند دن ہوئے ایک عرب آیا اس نے کہا کہ مَیں بلالؓ کی اولاد میں سے ہوں۔ اس نے معلوم نہیں سچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چمٹ جاؤں کہ یہ اس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی۔ آج بلالؓ کی اولاد کہاں ہے؟‘‘ ہم نہیں جانتے کوئی اولاد ہے بھی کہ نہیں اور ہے تو کہاں ہے۔ ’’اس کے مکان کہاں ہیں؟‘‘ کوئی جائیدادیں ہمیں نظر نہیں آتیں۔ ’’اس کی جائیداد کہاں ہے؟ مگر وہ جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی۔‘‘
(مستورات سے خطاب ، انوار العلوم جلد 16صفحہ 457۔458)
اور یہ وہ نیکیاں ہیں جو باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔
حضرت بلالؓ سے چوالیس احادیث مروی ہیں۔ صحیحین میں چار روایات آئی ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 360، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالة 2014ء)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت تین لوگوں سے ملنے کی بہت مشتاق ہے۔ علیؓ، عمارؓ اور بلالؓ۔
(سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 355، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالة 2014)
ایک دفعہ حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کر رہے تھے۔ آپ نے حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کرتے ہوئے حضرت بلالؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ بلالؓ جو ہیں ہمارے سردار ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے فضائل بیان کر رہے ہیں اور وہاں حضرت بلالؓ بیٹھے ہوئے تھے تو آپؓ نے ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ بلالؓ جو ہیں ہمارے سردار ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 10 صفحہ 363، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء) کیونکہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خرید کر غلامی سے آزاد کروایا تھا۔
عائذبن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت سلمانؓ، حضرت صہیبؓ اور حضرت بلالؓ کے پاس جو ایک مجمع میں تھے ابوسفیان آئے تو اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنی جگہ پر نہ پڑیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیا تم قریش کے معزز اور ان کے سردار کے بارے میں ایسا کہتے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے جب ان کو یہ باتیں کرتے سنا کہ صحیح طرح ہم نے ان سے بدلہ نہیں لیا تو حضرت ابوبکرؓ کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ آپؓ نے فرمایا کہ تم قریش کے سردار کے بارے میں ایسی بات کہتے ہو؟ اور اس کے بعد پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکرؓ! شاید تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے۔ اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو یقیناً تم نے اپنے رب کو ناراض کیا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ ان کے پاس آئے اور کہا اے پیارے بھائیو! مَیں نے تمہیں ناراض کر دیا؟حضرت ابوبکرؓ تو یہ بات لے کر گئے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ان کو کچھ روکیں گے، ٹوکیں گے لیکن الٹا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ان لوگوں کو ناراض کر دیا اور حضرت ابوبکرؓ کا بھی دیکھیں کیا مقام تھا فوری طور پر ان غریب لوگوں کے پاس واپس گئے اور انہیں کہا پیارے بھائیو! مَیں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں نہیں اے بھائی! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپؓ نے ہمیں ناراض نہیں کیا۔
(صحیح مسلم كتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل سلمان و صہیب و بلال حدیث 2504)
حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جبکہ آپ جِعِرَّانَہ میں قیام فرما تھے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ حضرت بلالؓ آپ کے ساتھ تھے۔ ایک اعرابی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا آپؐ مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہ فرمائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو۔ اس پر بدوی کہنے لگا کہ مجھے اَبْشِرْیعنی تمہیں خوشخبری ہو آپ بڑی دفعہ کہہ چکے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوموسیٰؓ اور حضرت بلالؓ کی طرف متوجہ ہوئے جیسے کوئی ناراض ہو۔پھر اس بدوی کی طرف نہیں دیکھا۔ ان دونوں کی طرف متوجہ ہو گئے اور فرمایا کہ اس نے بشارت کو ردّ کر دیا۔ میں اس کو خوشخبری دے رہا ہوں۔ اس نے خوشخبری کو ردّ کیا ہے۔پس تم دونوں یہ بشارت قبول کر لو۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ! ہم نے قبول کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ اس پانی سے اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا اور اس سے کلی کی۔ پھر فرمایا تم دونوں اس میں سے پی لو اور دونوں اپنے چہروں اور سینوں پر انڈیل لو اور خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ ان دونوں نے وہ پیالہ لیا اور ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کرنے کا حکم فرمایا تھا تو پردے کے پیچھے سے حضرت ام سلمہؓ نے انہیں پکارا کہ جو تم دونوں کے برتن میں ہے اس میں سے کچھ اپنی ماں کے لیے یعنی حضرت ام سلمہؓ، ام المومنین کے لیے بھی بچاؤ تو ان دونوں نے ان کے لیے اس میں سے کچھ بچا دیا۔
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل ابی موسیٰ و ابی عامر الاشعریین رضی اللّٰہ عنھما حدیث 2497)
حضرت علی بن ابوطالبؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرنبی کو اللہ تعالیٰ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں اور مجھے چودہ یعنی دوگنے نقیب عطا ہوئے ہیں۔ ہم نے عرض کیا وہ کون ہیں؟ حضرت علیؓ نے کہا۔ مَیں، میرے دونوں بیٹے اور جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حمزہؓ اور ابوبکرؓ اور عمرؓ اور مصعب بن عمیرؓ اور بلالؓ اور سلمانؓ اور مقدادؓ اور ابوذرؓ اور عمارؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب حدیث: 3785)
حضرت زید بن ارقم ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلالؓ کیا ہی اچھا انسان ہے۔ وہ تمام مؤذنوں کا سردار ہے۔ اس کی پیروی کرنے والے صرف مؤذن ہی ہوں گے اور قیامت کے دن سب سے لمبی گردنوں والے مؤذن ہی ہوں گے۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، ذکر بلال بن رباح، حدیث: 5244جلد 03 صفحہ 322 ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت زید بن ارقمؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلالؓ کتنا ہی اچھا انسان ہے کہ شہداء اور مؤذنوں کا سردار ہے اور قیامت والے دن سب سے لمبی گردن والے حضرت بلالؓ ہوں گے یعنی بڑی عزت کا مقام ان کو ملے گا۔
(مجمع الزوائد کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذن جلد 09 صفحہ 363حدیث15636، دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلالؓ کو جنت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی دی جائے گی اور وہ اس پر سوار ہوں گے۔
(سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی جلد 01 صفحہ 355، ’’بلال بن رباح‘‘ مؤسسہ الرسالة 2014ء)
حضرت بلالؓ کی اہلیہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور سلام کیا۔ فرمایا کیا بلالؓ یہاں ہیں؟ مَیں نے جواب دیا کہ گھر نہیں آئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لگتا ہے تم بلالؓ سے ناراض ہو۔ مَیں نے کہا وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہر بات پر یہی کہتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کی بیوی کو فرمایا کہ بلالؓ مجھ سے جو بات تم تک پہنچائیں وہ یقینا ًسچی ہو گی اور بلالؓ تم سے غلط بات نہیں کرے گا۔ پس تم بلالؓ پر کبھی ناراض نہ ہونا ورنہ اس وقت تک تمہارا کوئی عمل قبول نہ ہو گا جب تک تم نے بلالؓ کو ناراض رکھا۔
(تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جلد 10 صفحہ 356، ذکر من اسمہ بلال بن رباح، دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلالؓ کی مثال تو شہد کی مکھی جیسی ہے جو میٹھے پھلوں اور کڑوی بوٹیوں سے بھی رَس چوستی ہے مگر جب شہد بنتا ہے تو سارے کا سارا شیریں ہو جاتا ہے۔ سب میٹھا ہو جاتا ہے۔
(مجمع الزوائد کتاب المناقب باب فضل بلال المؤذن جلد 09 صفحہ 364حدیث 15639، دار الکتب العلمیة بیروت 2001ء)
حضرت بلالؓ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت بلالؓ جب بستر پر لیٹتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ اَللّٰهُمَّ تَجَاوَزْ عَنْ سَيِّئَاتِيْ وَاعْذُرْنِيْ بِعِلَّاتِيْ۔ اے اللہ! تو میری خطاؤں سے درگذر فرما اور میری کوتاہیوں کے بارے میں مجھے معذور سمجھ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی باب بلال بن رباح جلد 01 صفحہ 337 حدیث 1009، دار احیاء التراث العربی 2002ء)
حضرت بلالؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے بلالؓ! غریبی میں مرنا اور امیری میں نہ مرنا۔ مَیں نے عرض کیا کہ وہ کیسے؟ یہ کس طرح ہو کہ میں غریبی میں مروں اور امیری میں نہ مروں۔ اس کی سمجھ نہیں آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رزق تمہیں عطا کیا جائے اسے سنبھال کر نہ رکھنا اور جو چیز تم سے مانگی جائے اس سے منع نہ کرنا۔ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہؐ! اگر مَیں ایسا نہ کر سکا تو کیا ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا ہی کرنا ہو گا ورنہ آگ ٹھکانہ ہو گی۔
(المعجم الکبیر للطبرانی باب بِلَالُ بْنُ رَبَاح جلد 01 صفحہ 341 حدیث 1021، دار احیاء التراث العربی 2002ء)
یعنی کسی سائل کو دھتکارنا نہیں اور یہ نہیں کہ صرف جوڑتے رہو اور خرچ نہ کرو۔ خرچ کرنا بھی ضروری ہے۔
حضرت بلالؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بیس ہجری میں دمشق شام میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک آپؓ کی وفات حلب میں ہوئی۔ اس وقت حضرت بلالؓ کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت بلالؓ کی وفات اٹھارہ ہجری میں ہوئی۔ آپؓ کی تدفین دمشق کے قبرستان میں باب الصغیر کے پاس ہوئی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 180 ’’بلال بن رباح‘‘، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2017ء)
(تاریخ الدمشق لابن عساکر جلد 10 صفحہ 335 ذکر من اسمہ بلال بن رباح دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ حضرت بلالؓ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس حوالے میں سے بعض باتیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن بات کا جو تسلسل ہے اس کی وجہ سے شاید یہاں دوبارہ شروع کی ایک دو باتیں آ جائیں۔
حضرت بلالؓ حبشی تھے عربی زبان نہیں جانتے تھے اور عربی بولتے ہوئے وہ بہت سی غلطیاں کر جاتے تھے مثلاً حبشہ کے لوگ شین کو سین کہتے تھے۔ چنانچہ بلال جب اذان دیتے ہوئے اَشْھَدُ کو اَسْھَدُ کہتے تو عرب لوگ ہنستے تھے کیونکہ ان کے اندر قومی برتری کا خیال پایا جاتا تھا حالانکہ دوسری زبانوں کے بعض الفاظ خود عرب بھی نہیں ادا کر سکتے۔مثلاً وہ روٹی کو، عرب جو ہیں روٹی کو روٹی نہیں کہہ سکتے، روتی کہیں گے۔ ت بولیں گے ٹ کی بجائے اور چُوری کو جُوری کہیں گے چ نہیں بول سکتے ج بولیں گے۔ فرمایا کہ جس طرح غیر عرب عربی کے بعض الفاظ ادا نہیں کر سکتے اسی طرح عرب بھی غیر زبانوں کے بعض الفاظ نہیں ادا کر سکتے لیکن ان میں قومی برتری کا جو نشہ ہے تو وہ یہ بات سوچتے نہیں کہ ہم بھی تو دوسری زبانوں کےبعض الفاظ نہیں استعمال کر سکتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کے اَسْھَدُ پر دوسرے لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو حالانکہ جب وہ اذان دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ عرش پر خوش ہوتا ہے اور تمہارے اَشْھَدُ سے اس کا اَسْھَدُ کہنا خدا تعالیٰ کو زیادہ پیارا لگتا ہے۔ بلال حبشی تھے اور حبشی اس زمانے میں غلام بنائے جاتے تھے بلکہ گذشتہ صدیوں میں بھی، قریب کی صدیوں میں بھی غلام بنائے گئے بلکہ آج تک بنائے جا رہے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیر قوم مقہور و ذلیل ہوتی ہے۔ آپؐ کے نزدیک سب قومیں یکساں طور پر خدا تعالیٰ کی مخلوق تھیں۔ آپؐ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسے عربوں سے۔ کوئی فرق نہیں تھا۔ عرب بھی ویسے تھے، اسی طرح پیارے تھے۔ آپؐ کو افریقی بھی اسی طرح پیارے تھے جیسے عرب پیارے تھے، جیسے یونانی پیارے تھے۔ یہی محبت تھی جس نے ان غیر قوموں کے دلوں میں آپؐ کا وہ عشق پیدا کر دیا تھا جس کو عرب کے بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے۔ آپؐ کی اسی محبت کی وجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عشق پیدا ہو گیا تھا جس کی ان لوگوں کو جن کو فراست نہیں تھی، جن کواس محبت کا ادراک نہیں تھا، جن کو وفا اور محبت کے اسرار و رموز کا پتہ نہیں تھا ان کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ کس طرح ہو رہا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عربوں سے بھی قریش کے قبیلہ میں پیدا ہوئے جو دوسری عرب قوموں کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھتا تھا۔ سب سے اچھا قبیلہ آپؐ کا تھا۔ آپؐ کو حبشیوں سے کیا جوڑ تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قوم یا قبیلے کو محبت ہونی چاہئے تھی تو بنو ہاشم کو ہونی چاہئے تھی۔ آپؐ سے کسی کو محبت ہونی چاہئے تھی تو قریش کو ہونی چاہئے تھی یا پھر عرب کے لوگوں کو ہونی چاہئے تھی کہ وہ آپؐ کے ہم قوم تھے اس لیے ان لوگوں کو بھی آپؐ سے محبت ہونی چاہئے تھی۔ غیر قوموں کے دلوں میں جن کی حکومتوں کو آپؐ کے لشکروں نے پامال کر دیا تھا جن کی قومی سرداری کو اسلامی سلطنت نے تباہ کر کے رکھ دیا تھا محبت ہو ہی کیسے سکتی تھی۔ غیر قوموں سے جنگیں ہوئیں، ان کو شکست ہوئی اور ان کی حکومتیں ختم ہو گئیں لیکن اس کے باوجود ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک محبت پیدا ہو گئی۔ وہ کس طرح پیدا ہو سکتی تھی؟ انہیں تو آپ سے دشمنی ہونی چاہئے تھی ۔لیکن واقعات کیا ہیں۔ اس کے لیے ہم پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی اس محبت کا جائزہ لیتے ہیں جو اسے اپنے آقا کے ساتھ تھی۔ جب آپ پکڑے گئے یعنی حضرت مسیح علیہ السلام جب پکڑے گئے اور آپ کے خاص حواری پطرس کو جسے آپ نے اپنے بعد خلیفہ بھی مقرر کیا تھا، پولیس نے کہا کہ تم اس کے پیچھے پیچھے کیوں آ رہے ہو؟ معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ ہو۔ پولیس کو شک گزرا کہ تم اس کے پیچھے آرہے ہو۔ تم بھی اس کے ساتھ ہو تو ڈر گیا۔ اس نے فوراً کہا کہ میں اس کا مرید نہیں ہوں۔ میں تو اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔ نہ صرف انکار کر دیا بلکہ لعنت بھی بھیج دی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ علیہ السلام کے حواری آپؑ سے محبت ضرور کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کے جو حواری تھے وہ تھے ایسے اور آپؑ سے محبت بھی کرتے تھے۔ بعد میں پطرس بھی روما میں صلیب پر لٹکایا گیا اور اس نے بڑی دلیری کے ساتھ موت کو قبول کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی محبت اور اطاعت سے انکار نہیں کیا لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا تو اس وقت اس کا ایمان پختہ نہیں تھا۔ اس وقت وہ دو چار تھپڑوں سے ڈر گیا مگر بعد میں اس نے صلیب کو بھی نہایت خوشی سے قبول کیا۔ بہرحال یہ ایک نظارہ تھا اس محبت کا جو مسیح علیہ السلام سے آپؑ کی قوم کو تھی۔
اب آپؑ کی قوم کے مقابلے میں ہم ان غلاموں کو دیکھتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور پھر وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ بلالؓ جو حبشی غلام تھے اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو محبت تھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا بلالؓ پر کیا اثر تھا۔ بعض لوگوں کو ظاہری طور پر اپنے محبوب سے گہری محبت ہوتی ہے لیکن حقیقتاً ان کی محبت ایک دائرے کے اندر محدود ہوتی ہے۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ سے، جس کے حبشی غلام ہونے کی وجہ سے قریش ہی نہیں بلکہ سارے عرب نفرت کا اظہار کرتے تھے، جس محبت کا اظہار کیا آیا وہ ایک عام رواداری کی رو ح کی وجہ سے تھا۔ یہ رواداری تھی کہ محبت کرنی ہے، اس کا دل رکھنا ہے یہ اس لیے تھا یا حقیقی محبت کا مظاہرہ تھا۔ دکھاوے کی محبت تھی یا حقیقی محبت تھی۔ اس کا جائزہ بلالؓ ہی لے سکتے ہیں ہم نہیں لے سکتے۔ اگر جائزہ لینا ہے تو پھر حضرت بلالؓ کے پاس جانا پڑے گا کیونکہ وہی صحیح جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس واقعہ پر تیرہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم اس کا جائزہ کیا لے سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلالؓ نے آپؐ کی محبت کے اظہار کو کیا سمجھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلالؓ سے جو حقیقی محبت تھی انہوں نے اسے کیا سمجھا؟ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ میں نے کیا سمجھا۔ یہاں یہ سوال نہیں ہے کہ ہم سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ اس سے پہلی صدی کے لوگوں نے کیا سمجھا۔ یہاں یہ سوال بھی نہیں کہ خود صحابہ نے کیا سمجھا۔ ان باتوں کو چھوڑو کہ دوسروں نے کیا سمجھا بلکہ سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں نے، صحابہ نے بھی کیا سمجھا بلکہ دیکھنا ہم نے یہ ہے کہ بلالؓ نے کیا سمجھا اور اس کو دیکھنے کے لیے ایک چھوٹا سا یہ فقرہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ تم اَسْھَدُ کہنے پر ہنستے ہو۔ آپؐ نے لوگوں کو کہا حالانکہ اس کی اذان سن کر خدا تعالیٰ بھی عرش پر خوش ہوتا ہے۔ وہ تمہارے اَشْھَدُ سے اس کے اَسْھَدُ کی زیادہ قدر کرتا ہے۔ یہ صرف دلجوئی اور دفع الوقتی کے لیے تھا یا گہری محبت کی بنا پر تھایا وقتی طور پر اس بات کو ٹالنے کے لیے آپؐ نے کوئی بات کی تھی یا یہ گہری محبت کی بنا پر بات کی تھی۔ یہی چھوٹا سا فقرہ جوآپؐ نے کہا تھا کہ اَشْھَدُ سے زیادہ اللہ کو اَسْھَدُ پسند ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس فقرے سے بلالؓ نے کیا سمجھا۔ بلالؓ نے اس فقرے سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپؐ کے دل میں خواہ میں غیر قوم کا ہوں اور ایسی قوم کا ہوں جو انسانیت کے دائرے سے باہر سمجھی جاتی ہے اورغلام بنائی جاتی ہے محبت اور عشق ہے۔ بلالؓ نے یہ سمجھا کہ غیر قوم کا ہونے کے باوجود اور ایسی قوم کا ہونے کے باوجود جس کو غلام بنایا جاتا ہے مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی اور عشق کیا۔
ہم اس واقعہ سے کچھ عرصہ پیچھے جاتے ہیں یہی شخص جو کہتا ہے کہ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کہ میری موت بھی اللہ کے لیے ہے جو ربّ العالمین ہے، فوت ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ نئی حکومتیں بن جاتی ہیں۔ نئے افراد آ جاتے ہیں اور نئے تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ زمانہ گزر گیا۔ نئی حکومتیں بھی آ گئیں۔ بہت ساری تبدیلیاں پیدا ہو گئیں۔ بعض صحابہ عرب سے سینکڑوں میل باہر نکل جاتے ہیں، انہی صحابہ میں بلالؓ بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ سب تبدیلیاں جو آئیں تو وہ شام چلے جاتے ہیں اور دمشق جا پہنچتے ہیں۔ ایک دن کچھ لوگ اکٹھے ہوئے۔ حضرت بلالؓ دمشق میں تھے۔ وہاں لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بلالؓ اذان دیا کرتا تھا ہم چاہتے ہیں کہ بلالؓ پھر اذان دے۔ انہوں نے بلالؓ سے کہا۔ حضرت بلالؓ نے انکار کر دیا کہ نہیں مَیں اب اذان نہیں دے سکتا۔ بلالؓ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مَیں اذان نہیں دوں گا کیونکہ جب بھی میں اذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک میرے سامنے آ جاتا ہے، میری جذباتی کیفیت ہو جاتی ہے اس لیے میں اذان نہیں دے سکتا۔ میری برداشت سے یہ بات باہر ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ بھی ان دنوں دمشق میں آئے ہوئے تھے اتفاق سے ان کا بھی دورہ تھا۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آپؓ بلالؓ سے کہیے کہ اذان دے۔ ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ ہم بلالؓ کی اذان سنیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زمانہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہمارے تصورات میں حضرت بلالؓ کی اذانیں آتی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ حقیقت میں بھی ایک دفعہ بلالؓ کی اذان سنیں اور وہ زمانہ ہمارے سامنے ذرا اچھی طرح گھوم جائے۔ ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیں۔ ایسے لوگ بھی وہاں موجود تھے ان کے دل خواہش رکھتے ہیں کہ اس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے اور آپؐ کو پسند بھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے بلالؓ کو بلایا اور فرمایا لوگوں کی خواہش ہے کہ آپؓ اذان دیں۔ آپؓ نے فرمایا آپؓ خلیفہ وقت ہیں آپ کی خواہش ہے تو میں اذان دے دیتا ہوں لیکن یہ بتا دوں مَیں کہ میرا دل برداشت نہیں کر سکتا۔ حضرت بلالؓ کھڑے ہو جاتے ہیں اور بلند آواز سے اسی رنگ میں اذان دیتے ہیں جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو یاد کر کے آپ کے صحابہ جو عرب کے باشندے تھے یہ اذان سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ حضرت بلالؓ اذان دیتے چلے جاتے ہیں اور سننے والوں کے دلوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو یاد کر کے رقت طاری ہو جاتی ہے لیکن حضرت بلالؓ جو حبشی تھے، جن سے عربوں نے خدمتیں لیں، جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا ہم نے دیکھنا ہے کہ خود ان کے دل پر کیا اثر ہوا۔ یہ تو اثر ہوا ناں ان عربوں کا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے تھے، ان کو زمانہ یاد آ گیا۔ جو اس زمانے کے عرب نہیں تھے ان کو بھی وہ باتیں یاد آ گئیں، رقت طاری ہو گئی یا ایک دوسرے کو دیکھ کے رقت طاری ہوئی لیکن حضرت بلالؓ تو جو عرب بھی نہیں تھے غلام بھی تھے ان کو اس اذان کا کیا اثر ہوا۔ کہتے ہیں کہ حضرت بلالؓ جب اذان ختم کرتے ہیں تو بیہوش ہو جاتے ہیں۔ یہ اثر ہوتا ہے اور چند منٹ بعد فوت ہوجاتے ہیں۔ یہ گواہی تھی غیر قوموں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعویٰ پر کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ محبت اور یہ عشق سب سے بڑی گواہی ہے جو غیرعرب قوموں نے آپؐ کے لیے دکھایا۔ یہ ہے وہ سچی گواہی، عملی گواہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا کہ عرب اور غیر عرب میں کوئی فرق نہیں تو یہ ہے اس کا اظہار۔ یہ گواہی تھی غیر قوموں کی جنہوں نے آپؐ کی محبت بھری آواز کو سنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے اسے یقین کروا دیا کہ ان کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کر سکتی جو محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کرتے تھے۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد 30 صفحہ 263تا 267خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اگست 1949ء)
یہ تھے ہمارے سیدنا بلالؓ جنہوں نے اپنے آقا و مطاع ؐسے عشق و وفا کے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنے دل میں بٹھانے اور پھر اس کے عملی اظہار کے وہ نمونے قائم کیے جو ہمارے لیے اسوہ ہیں، ہمارے لیے پاک نمونہ ہیں۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اپنے اس غلام سے محبت و شفقت کی وہ داستانیں ہیں جن کی نظیر ہمیں دنیا میں کہیں اَور نظر نہیں آ سکتی اور یہی وہ چیز ہے جو آج بھی محبت اور پیار کی فضاؤں کو پیدا کر سکتی ہے، بھائی چارے کو پیدا کر سکتی ہے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتی ہے۔ پس آج بھی ہماری نجات اسی میں ہے کہ توحید کے قیام اور عشقِ رسولِ عربیؐ کے ان نمونوں پر قائم ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ حضرت بلالؓ کا ذکر آج یہاں ختم ہوتا ہے۔
اس وقت مَیں چند وفات یافتگان کا بھی ذکر کروں گا۔ ان کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ ان میں سے پہلا ذکر مولانا طالب یعقوب صاحب ابن محترم طیب یعقوب صاحب مبلغ سلسلہ ٹرینی ڈاڈ اینڈ ٹوباگو کا ہے۔ ان کی 8ستمبر کو تریسٹھ سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
بچپن سے ہی ان کی طبیعت مذہب کی طرف مائل تھی۔ یہ ٹرینی ڈاڈ کے رہنے والے تھے۔ چھوٹی عمر سے ہی پنجگانہ نماز، تلاوتِ قرآن اور اسلامی کتب کے مطالعہ کے شوقین تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ان کو برٹش انشورنس میں ملازمت مل گئی لیکن او لیول کرنے کے بعد تیرہ جنوری 1979ء کو آپ نے زندگی وقف کی اور جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ لیا جہاں سے آپ نے 1989ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ 1987ء میں آپ کی شادی مکرمہ ساجدہ شاہین صاحبہ بنت مرزا منور احمد صاحب درویش اور سابق نائب ناظر اعلیٰ قادیان سے ہوئی۔ ان کی اہلیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت بھائی مرزا برکت علی صاحبؓ کی پوتی ہیں۔ جامعہ سے فراغت کے بعد ان کی پہلی تقرری زائر (افریقہ)میں ہوئی۔ وہاں 1989ء سے 1992ء تک تقریباً تین سال خدمت کی توفیق پائی۔ پھر گیانا جماعت میں 1993ء سے 1997ء تک مشنری کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔ پھر وہاں سے آپ کا تقرر گھانا کی دو مختلف جگہوں کوفواریڈوا (Koforidua) اورکماسی ریجن میں ہوا۔ 1997ء سے 2004ء تک وہاں خدمت کی توفیق پائی۔ یہاں آپ شدید بیمار ہو گئے اور صحت یاب ہونے پر آپ کا تقرر ٹرینی ڈاڈ میں ہوا جہاں آپ فری پورٹ کی جماعت میں آخر دم تک خدمت بجا لاتے رہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں نہایت اخلاص کے ساتھ خدمت کرنے کے علاوہ اپنے علم اور تجربے سے اسلامی تعلیم لوگوں میں بانٹتے رہے۔ جہاں بھی گئے جماعت کے ہر فرد کے ساتھ آپ کا ذاتی رابطہ ہوتا تھا۔ جماعتی افراد ان سے خاص محبت کا تعلق رکھتے تھے اور یہ ان سے محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ گذشتہ کئی سال سے ان کو گردے کی تکلیف تھی۔ ڈائیا لیسز (dialysis)کی وجہ سے ہفتے میں تین مرتبہ ٹریٹمنٹ (treatment)کے لیے ہسپتال جانا پڑتا تھا لیکن آپ نے جماعتی پروگراموں میں کوئی روک نہیں آنے دی۔ نہایت متقی تھے، عاجز تھے، منکسر المزاج تھے، نرم خو تھے، صابر تھے، اطاعت گزار تھے، حلیم طبع شخصیت کے مالک تھے، ہر ایک کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے۔ نمازوں کے علاوہ باقاعدگی سے نماز تہجد، قرآن کریم کی تلاوت، رات سونے سے پہلے آٹھ رکعت نفل پڑھنا آپ کا معمول تھا۔ جماعتی روایات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ اپنی فیملی کو بھی ان سب نیکیوں کی تلقین کرتے تھے۔ اپنے خاندان میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا ناصر یعقوب اور دو بیٹیاں امینہ یعقوب اور عدیلہ یعقوب شامل ہیں۔ آپ کے دو بھائی بھی ہیں۔ تین بہنیں ہیں۔ کچھ بھائی بہنیں وہاں ٹرینی ڈاڈ میں ہیں کچھ آسٹریلیا میں ہیں۔
ان کی ایک بھابھی ہیلن یعقوب ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں نے تیس سال قبل بیعت کی تھی اور مولانا صاحب ٹرینی ڈاڈ تشریف لائے تو مجھے ہر وقت بڑے پیار سے دین کی نئی نئی باتیں سکھاتے اور اس کی وجہ سے میرا دین سیکھنے کا جذبہ زیادہ پیدا ہوا۔ اس پہ بہت خوش ہوتے تھے اور طالب یعقوب صاحب کے اس رویہ کی وجہ ہی ہے میرے بیٹے طیب یعقوب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مربی بننے کی نیت کی ہے اور اب جامعہ احمدیہ کینیڈا کے دوسرے سال میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ پھر وہاں ایک احمدی ڈاکٹر تھیں جب یہ بیمار تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور ہر ڈاکٹر اور نرس جنہوں نے ان کا علاج کیا وہ ان کے اخلاق سے بڑا متاثر تھا۔ مریض تھے اور کہیں بیٹھے ہوتے اگر ہسپتال میں کم جگہ ہے اور کوئی آ گیا ہے تو خود کھڑے ہو جاتے اوردوسروں کو جگہ دیتے۔ مریضوں کے لیے بھی ، ڈاکٹروں کے لیے بھی ایک نمونہ تھے۔ لوگوں کے لیے بھی ایک نمونہ تھے۔ مشنری انچارج صاحب ٹرینی ڈاڈ اور ٹوباگو لکھتے ہیں کہ حقیقی رنگ میں ایک مربی اور مبلغ کی خصوصیات اور خصائل کو اپنائے ہوئے تھے۔ خلافت کی اطاعت میں آپ ہمیشہ آگے آگے رہتے تھے۔ اپنے نگرانوں کی ہر بات مانتے اور جو کام آپ کے سپرد کیا جاتا اسے بھرپور طور پر سرانجام دینے کی پوری کوشش کرتے۔ آپ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت اور نماز تہجد کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے۔
قاصد وڑائچ صاحب وہاں ٹرینی ڈاڈ کے مربی سلسلہ ہیں۔ یہ کہتے ہیں میری پوسٹنگ ٹرینی ڈاڈ ہوئی تو اس وقت مولاناصاحب کی صحت کمزور تھی اور عمر بھی بڑی تھی۔ یہ نوجوان ہیں ابھی دو تین سال پہلے کینیڈا جامعہ سے فارغ ہو کے گئے ہیں۔ تو کہتے ہیں کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ مولانا صاحب پچاس منٹ کا سفر طے کر کے اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ مجھے ملنے کے لیے تشریف لائے اور بڑی شفقت کا سلوک فرمایا اور پھر ہر دوسرے دن، تیسرے دن میسج (message) کر کے یا کال کر کے حال معلوم کر لیا کرتے کہ نئے نئے آئے ہو تمہاری ضروریات بھی ہوں گی ۔اورپھر نصیحتیں بھی کرتے ہوں گے، سمجھاتے بھی ہوں گے۔ ہر بڑے چھوٹے سے پیار اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ہمیشہ خلافت سے تعلق رکھنے کی تلقین کرتے اور خلیفہ وقت کے لیے دعا کرنے کی تلقین کرتے۔ ان کی بیٹی نے بھی لکھا ہے کہ مجھے ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ امتحانوں سے پہلے بھی اور ہمیشہ ہر کام کے لیے خلیفہ وقت کو لکھو، دعا کے لیے کہو۔ وہاں ایک احمدی منیر ابراہیم ہیں کہتے ہیں کہ جب ہم تبلیغ کے لیے کسی جگہ جاتے تو مولانا ہمیشہ حاضر ہوتے تھے اور پھر تبلیغ کے لیے علاقے بانٹ لیتے تھے ۔کسی کو کہتے تھے کہ تم شمال میں جاؤ مَیں جنوب میں جاتا ہوں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں احمدیت کا پیغام پہنچے۔ اور ہمیشہ مسکراتے رہتے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے اَور نوجوان مربیان بھی ہیں اور دوسرے لوگ بھی، انہوں نے بھی یہی بتایا ہے کہ جماعت کی ترقی کے لیے اور تبلیغ کے لیے چھوٹا سا کام بھی کوئی کرتا تو بہت خوش ہوتے اور اس کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے۔ اور یہ تو ہر ایک نے لکھا ہے کہ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ صلح جُو تھے۔ زمانہ طالب علمی میں بھی اگر دوستوں میں کوئی ناراضگی ہو جاتی تو ہمیشہ صلح کرواتے اور یہ کہتے کہ احمدی ہیں اور کسی بھائی کے لیے دل میں رنجش نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے بھی ہمیشہ انہیں مسکراتے دیکھا ہے۔ خلافت سے بھی بے انتہا وفا کا تعلق تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ان کے بچے بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہمیں بھی یہی کہتے تھے خلافت سے تعلق رکھو اور خط لکھتے رہا کرو۔
ایک نو مبائع ناریش صاحب کہتے ہیں کہ مَیں مختلف غیر احمدی مسجدوں میں جا کر حقیقی اسلام کی تلاش کیا کرتا تھا۔ جب میں مولانا طالب سے ملا تو اسی وقت دلیلیں سننے سے پہلے میرے ذہن پر ایک بہت اچھا اثر پڑنا شروع ہو گیا اور اسی وجہ سے پھر انہوں نے بیعت بھی کر لی۔ بہرحال طالب یعقوب صاحب نے وقف کو بھی کامل شرح صدر کے ساتھ نبھایا اورکبھی کوئی عذر نہیں کیا۔ یہی کہتے تھے کہ خلیفہ وقت جہاں بھی لگائیں کام کرنا ہے اور اگر مجھے کہیں گے کہ پاکستان میں رہو، پاکستان میں کہیں پوسٹنگ ہوتی ہے تو پھر اپنے ملک واپس نہیں جانا تو اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ اور پھر عملی طور پر اس تیاری کے لیے پاکستان کے عرصے میں یہ پنجابی بھی سیکھنے کی کوشش کرتے رہے کہ اگر یہاں لگا دیا تو پنجابی لوگوں سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے تو پنجابی سیکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔ ان کے بیوی بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان کویہ نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم انجنیئر افتخار علی قریشی صاحب کا ہے جو سابق وکیل المال ثالث بھی تھے اور نائب صدر مجلس تحریک جدید بھی تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی لمبی عمر عطا فرمائی۔ 3؍ جون کو یہ 99 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
افتخار علی صاحب کے والد کا نام ممتاز علی قریشی صاحب تھا۔ یہ پیشے کے لحاظ سے ویٹرنری ڈاکٹر تھے۔ افتخار علی صاحب میرٹھ انڈیا میں پیدا ہوئے تھے اور اپنی سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن میرٹھ میں ہی حاصل کی۔ پھر تھامسن انجنیئرنگ کالج رُوڑکی جو اَب یونیورسٹی بن گئی ہے اس میں داخلہ لیا جہاں سے آپ نے 1944ء میں سول انجنیئرنگ میں گریجوایشن مکمل کی۔ دور ِطالب علمی میں ہی جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی۔ آپ کے والد اس وقت احمدی نہیں تھے تاہم افتخار قریشی صاحب نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کر کے تحقیق کے بعد قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا۔ آپ تک احمدیت کا پیغام آپ کے پھوپھا مختار قریشی صاحب کے ذریعے اور ان کے پھوپھا کے والد جو منشی فیاض علی صاحب تھے ان کے ذریعے سے پہنچا۔ افتخار قریشی صاحب تعلیم کے سلسلہ میں زیادہ تر اپنے تایا تراب علی صاحب کے پاس رہتے تھے۔ تراب علی صاحب ابھی احمدی نہیں تھے لیکن افتخار علی صاحب کے پھوپھامختار قریشی صاحب اپنے والد کے ساتھ اکثر قصبہ سرابہ میرٹھ میں افتخار علی صاحب کے تایا کے پاس آتے رہتے تھے۔ قریشی افتخار علی صاحب کو ان بزرگوں کے ذریعے احمدیت کا لٹریچر مل جاتا تھا اور دہلی کی جماعت بھی چھوٹے چھوٹے پمفلٹس شائع کرتی رہتی تھی۔ یہ پمفلٹس بھی افتخار علی صاحب کو مطالعہ کے لیے مل جاتے۔ افتخار علی صاحب یہ تمام لٹریچر دورانِ سفر پڑھ لیتے اور پھر اپنے والد صاحب کو جا کر دے دیتے۔ افتخار صاحب نے جب تھامسن کالج میں داخلہ لیا تو آپ کے پھوپھا مختار قریشی صاحب نے انہیں باقاعدہ تفصیلی خطوط کے ذریعہ احمدیت کا پیغام دینا شروع کر دیا۔ افتخار علی صاحب بھی ان کا تفصیلی جواب دیتے۔ اس زمانے میں بھی آپ کو تہجد پڑھنے اور خوب دعائیں کرنے کا موقع ملا لیکن دل میں بے چینی اور گھبراہٹ تھی۔ اس کیفیت کا اظہار انہوں نے ایک دفعہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سے کیا اور کچھ سوال پوچھے۔ حضور نے جواب میں تحریر فرمایا کہ آپ کے سوال مختصر ہیں مگر جامع ہیں۔ ان کا جواب خط کی شکل میں دینا مشکل ہے ۔آپ میری فلاں کتاب کا مطالعہ کر لیں۔ افتخار علی صاحب نے یہ کتاب اپنے پھوپھا مختارصاحب سے حاصل کی۔ مطالعہ شروع کیا اور جوں جوں آپ کتاب پڑھتے گئے آپ کو سوالوں کے جواب ملتے گئے۔ چنانچہ نومبر 1941ء میں آپ نے بذریعہ خط تحریری بیعت کر لی۔ 1942ء میں قادیان جلسے پر تشریف لائے اور قادیان کے ماحول کو دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے۔ حضرت خلیفةالمسیح الثانی ؓکی تقاریر کو بھی آپ نے بڑے غور سے سنا اور پھر وہاں بیعت کی اور اس طرح پھر ان کو دستی بیعت کی بھی توفیق ملی۔ ہر سال جلسہ سالانہ قادیان پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سے ملاقات کا موقع بھی ملتا۔ جو سوال ان کے ذہن میں ہوتے ان کو حضور کی خدمت میں رکھتے، جواب حاصل کرتے۔ ایمان اور ایقان سے جھولیاں بھر کے واپس لوٹتے۔
آپ نے انڈیا میں ہی گورنمنٹ سروس شروع کر دی تھی۔ قیام پاکستان تک آپ وہاں کام کرتے رہے۔ 1951ء میں ہجرت کی۔ پھر پاکستان میں محکمہ آبپاشی اور توانائی میں ملازمت کی۔ گورنمنٹ سروس کے دوران کئی شہروں میں ٹرانسفر ہوئے۔ بڑی دیانتداری سے انہوں نے کام کیا۔ جونیئر انجنیئر سے ترقی کرتے ہوئے آپ چیف انجنیئر بن گئے بلکہ ایک موقعے پر کچھ عرصہ آپ کو گورنمنٹ پنجاب کا سیکرٹری آبپاشی اور توانائی کا بھی بنایا گیا۔ آپ نےسیکرٹری تک ترقی کی۔ بہت باعزت اور قابل عہدوں پر اپنے وطن پاکستان کی خدمت کرنے کی آپ کو توفیق ملی۔ 1983ء میں ریٹائر ڈہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے وقف بھی کیا لیکن اس سے پہلے 1980ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے دورہ سپین مکمل فرمانے پر واپس ربوہ تشریف لا کر انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکس اینڈ انجنیئرز (IAAAE) کا قیام کیا تو افتخار علی قریشی صاحب کو اس کا پہلا چیئرمین مقرر فرمایا۔ اس وقت یہ چیف انجنیئر کے عہدے پر تھے۔ پھر بعد میں ریٹائر ہو گئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے پیش کی۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے وقف قبول فرمایا اور 1983ء میں ان کو وکیل المال ثالث تحریک جدید کی ذمہ داری عطا ہوئی۔ اور 1980ء میں جب مقرر کیا تھا تو پہلے نامزدگی تھی۔ پھر باقاعدہ آپ منتخب ہوتے رہے اور اس کے بعد تقریباً پچیس سال تک مسلسل آپ اس ایسوسی ایشن کے صدر، مرکزی چیئرمین رہے اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے زمانے میں بھی ان کو کافی کام کی توفیق ملی۔ بیوت الحمد کوارٹرز کی تعمیر، جماعتی بلڈنگز ربوہ میں بنانے کا موقع ملا۔ ادارہ تعمیرات کے نگران بھی آپ تھے۔ پھر جو مختلف پراجیکٹس فضل عمر ہسپتال، جامعہ احمدیہ، خلافت لائبریری وغیرہ ان کے (IAAAEکے) چیئر مین بنائے گئے اسی طرح ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 2007ء میں ان کو مَیں نے نائب صدر مجلس تحریک جدید مقرر کیا۔ بڑی ایمانداری، لگن اور محنت سے خدمت کرنے والے تھے۔ چار خلفاء کا زمانہ انہوں نے دیکھا اور ہمیشہ ہر جگہ یہ اطاعت اور محبت کرنے والے پائے گئے۔ خاموش طبع تھے۔ ہمیشہ کام سے کام رکھتے تھے۔ بطور واقف زندگی بھی ان کو سینتیس سال خدمت کی توفیق ملی۔ بڑے بے نفس ہو کے کام کرنے والے تھے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ کام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور تین بیٹیاں انہیں عطا فرمائیں۔ ایک بیٹا آرکیٹکٹ ہے اور ایک بیٹی لیڈی ڈاکٹر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تیسرا جنازہ رضیہ سلطانہ صاحبہ کا ہے جو حکیم مولوی خورشید احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 81سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ مرحومہ شیخ اللہ بخش صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔ جوانی کی عمر سے ہی نماز روزے کی سختی سے پابند تھیں۔ ساری زندگی سادگی اور عاجزی سے گزاری۔ بہت مہمان نواز تھیں۔ آپ کے میاں محترم حکیم مولوی خورشید احمد صاحب صدر عمومی کی حیثیت سے خدمت بجا لا رہے تھے۔ اس دوران آپ کے گھر اجلاسات ،میٹنگز وغیرہ ہوتی تھیں تو ان لوگوں کی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں۔ مکرم مولوی صاحب کو 1984ء میں اڑھائی سال تک اسیر ِراہ ِمولیٰ رہنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ وقت بھی آپ نے اپنے خاوند کے پیچھے انتہائی صبر اور ہمت سے گزارا اور نہ صرف یہ بلکہ روزانہ کئی افراد کا کھانا تیار کر کے جیل بھجوایا کرتی تھیں اور بڑی خاموشی سے نیکی کے کام کیاکرتی تھیں۔ کئی غریب بچیوں کی شادیاں کیں۔ کئی غریب بچیوں کی پرورش کی۔ اپنے پرائے سب اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ بہت پیار کرنے والی شخصیت تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں ان کی ایک بیٹی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
اگلا جنازہ مکرم محمد طاہر احمد صاحب ابن محمد منصور احمد صاحب نائب ناظر بیت المال قادیان کا ہے۔ یہ 28؍مئی کو بعارضہ جگر کینسر ستاون سال کی عمر میں نور ہسپتال قادیان میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم حیدرآباد کے رہنے والے تھے۔ جامعہ احمدیہ قادیان سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ستمبر 1989ء سے تا دم آخرمئی 2020ءاکتیس سال تک مختلف اداروں میں خدمت بجا لاتے رہے۔ تمام عرصہ شعبہ مال میں خدمت کا موقع ملتا رہا۔ بیت المال آمد میں سات سال، نظامت مال وقف جدید میں نو سال انسپکٹر بیت المال اور پھر نائب ناظم مال وقف جدید تین سال، ناظم مال وقف جدید آٹھ سال اور نائب ناظر بیت المال دو سال خدمت کی توفیق ملی۔ نہایت مخلص، سادہ مزاج، ملنسار، ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے خادم سلسلہ تھے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کیے اور مالی نظام سے لوگوں کو آگاہی دی اور ان کو شامل کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دوروں کی وجہ سے، ان کی کوششوں کی وجہ سے وقف جدید کے مالی بجٹ میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں ضعیف والدین کے علاوہ اہلیہ اور دو بیٹے شامل ہیں۔ مرحوم مولانا محمد کریم شاہد صاحب صدر قضاء بورڈ قادیان کے بڑے داماد تھے اور انعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ قادیان کے ماموں زاد بھائی تھے۔ ان کے ایک بھائی قادیان میں مربی سلسلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ بچوں کی حفاظت فرمائے۔
اگلا جنازہ عزیزم عقیل احمد ابن مرزا خلیل احمد بیگ صاحب استاد انٹرنیشنل جامعہ گھانا کا ہے۔ عقیل احمد پاکستان گیا ہوا تھا جہاں اسےyolk sac tumor تشخیص ہوا اور مختصر علالت کے بعد تیرہ سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
بچپن سے ہی باجماعت نماز کا پابند، اپنے سے چھوٹے بچوں کا خیال رکھنے والا بہت نیک اور فرمانبردار بچہ تھا۔ مدرسة الحفظ گھانا سے چھ پارے حفظ کرنے کی بھی توفیق پائی۔ ان کے پسماندگان میں والدین کے علاوہ دو بہنیں عزیزہ عدیلہ اور عزیزہ شکیلہ شامل ہیں۔ دونوں بچیاں واقفہ نو ہیں۔ ان کے والد مرزا خلیل بیگ انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ گھانا میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ جامعہ کے ایک اَور استاد نصیر اللہ صاحب گھانا سے لکھتے ہیںکہ عقیل احمد بہت ہی پیاری اور ہر دلعزیز شخصیت کا مالک تھا۔ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ بہت ہی معصوم اور فرمانبردار بچہ تھا۔ نماز باجماعت کا عادی اور قرآن کریم سے بے انتہا لگاؤ تھا۔ اپنی روٹین کی پڑھائی کے علاوہ گذشتہ سالوں سے قرآن کریم بھی حفظ کر رہا تھا اور روزانہ نماز مغرب کے بعد کھانا کھا کر مسجد چلا جاتا اور اپنا سبق دہراتا رہتا تھا اور سکول کا کام کرنے کے بعد ہمیشہ قرآن شریف کا کچھ حصہ حفظ کر کے پھر سویا کرتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ مَیں بڑا ہو کے مربی سلسلہ بن کر جماعت کی خدمت کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے بھی درجات بلند فرمائے۔ ماں باپ اور بہنوں کو صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کل یہاں جنازے حاضر تو آتے نہیں۔ بہت سارے لوگ جنازہ پڑھانے کی درخواست کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے جنازے نہ جمعے پر پڑھائے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کے لیے وقت چاہیے۔ صرف نام ہی پڑھنے شروع ہوں تو کافی وقت لگ جاتا ہے اس لیے عمومی طور پر چند لوگوں کے تو مَیں جنازے پڑھا دیتا ہوں۔ باقیوں کی درخواستیں آ جاتی ہیں لیکن ان کو مَیں اسی طرح بغیر نام بولے ہی بتا دوں کہ جو بھی جنازے یہاں پڑھاتا ہوں ان میں وہ شامل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور جن لوگوں نے درخواستیں دی ہوئی ہیں کہ جنازے پڑھائے جائیں، اللہ تعالیٰ ان کو، لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بہرحال جمعے کے بعد یہ تمام جنازہ غائب مَیں پڑھاؤں گا۔ ان شاء اللہ۔
(الفضل انٹرنیشنل 16؍اکتوبر2020ءصفحہ5تا10)