خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍اگست2020ء

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیرؓ ہیں

آنحضرتﷺ کے حواری اور عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

تین مرحومین مکرم معراج احمد صاحب شہید(ڈبگری گارڈن پشاور)، مکرم ادیب احمد صاحب ناصر مربی سلسلہ (عہدی پور نارووال) اور مکرم حمید احمد شیخ صاحب(اسلام آباد، پاکستان حال لندن۔یوکے) کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍اگست2020ء بمطابق 21؍ظہور1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

بدری صحابہ کے ذکر میں سے آج جن صحابی کا ذکر ہو گا ان کا نام ہے حضرت زبیر بن عوامؓ۔ حضرت زبیربن عوامؓ کے والد کا نام عَوَّام بن خُوَیلِد تھا اور والدہ کا نام صَفِیَّہ بنت عبد الْمُطَّلِبْ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ حضرت زبیرؓ کا سلسلہ نسبت قُصَیّ بن کِلَابْ پر جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ حضرت زبیرؓکی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی حضرت اسماءؓ کے ساتھ شادی ہوئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی حضرت عائشہؓ کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ یوں حضرت زبیر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زلف بھی تھے۔ اس طرح حضرت زبیر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نسبتیں حاصل تھیں۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کی والدہ حضرت صفیہؓ نے آپؓ کی کنیت اپنے بھائی زبیر بن عبدالمطلب کی کنیت پر ابوطاہر رکھی تھی لیکن حضرت زبیرؓ نے اپنی کنیت اپنے بیٹے عبداللہ کے نام کی مناسبت سے رکھی جو بعد میں زیادہ مشہور ہو گئی۔ حضرت زبیرؓ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے والوں میں وہ چوتھے یا پانچویں شخص تھے۔ حضرت زبیرؓ نے بارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ بعض روایات کے مطابق آپ نے آٹھ یا سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ حضرت زبیرؓ اُن دس خوش قسمت صحابہ میں سے تھے جن کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی اور ان چھ اصحابِ شوریٰ میں سے ایک ہیں جنہیں حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے قبل اگلا خلیفہ منتخب کرنے کے لیے نامزد فرمایا تھا۔

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ307 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ457 ذکر اسمہ الزبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 67 زبیر بن العوام دار الاشاعت کراچی)

جب حضرت زبیرؓ کے والد عَوَّام کا انتقال ہوا تو نَوفَل بن خُوَیلِد اپنے بھتیجے زبیر کی پرورش کرتے تھے اور حضرت صفیہؓ جو حضرت زبیرؓ کی والدہ تھیں انہیں مارتی تھیں یا ڈانٹتی تھیں۔ اس وقت حضرت زبیر چھوٹی عمر کے تھے تو نوفل نے، ان کے چچا نے حضرت صفیہؓ کو کہا کہ کیا اس طرح بچوں کو مارا جاتا ہے، سختی کی جاتی ہے؟ تم تو ایسے مارتی ہو جیسے اس سے ناراض ہو۔ اس پر حضرت صفیہؓ نے یہ اشعار پڑھے کہ

مَنْ قَالَ إِنِّي أُبْغِضُهٗ فَقَدْ كَذَبْ

وَ إِنَّمَا أَضْرِبُهٗ لِكَيْ يَلَبْ

وَ يَهْزِمَ الْجَيْشَ وَ يَأتِيَ بِالسَّلَبْ

وَ لَا يَكُنْ لِمَالِهٖ خَبْاٌ مُخَبْ

یَأْکُلُ فِی الْبَیْتِ مِنْ تَمْرٍ وَّ حَبْ

کہ جو اس بات کا قائل ہے کہ میں اس سے ناراض ہوں تو وہ جھوٹا ہے۔ میں اس پہ اس لیے سختی کرتی ہوں اسے مارتی ہوں تا کہ یہ بہادر بنے اور لشکروں کو شکست دے اور مقتول کا سامان لے کر لوٹے اور اپنے مال کے لیے چھپ کر نہ بیٹھے کہ گھر میں بیٹھا کھجوریں اور اناج کھاتا پھرے۔

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ458 ذکر اسمہ الزبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

بہرحال یہ سوچ تھی ان کی اور اس کے مطابق ان کا تربیت کا طریقہ تھا کہ بہادر بنانے کا یہ طریقہ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم کہیں کہ یہ بڑا اچھا طریق ہے اور عموماً تو آج کل یہی دیکھا جاتا ہے کہ اس سے اعتماد میں کمی آتی ہے۔ بہرحال اس وقت جو سختی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس مار کے بداثرات سے بچایا۔ ماں کی مامتا مشہور ہے۔ پیاربھی کرتی ہوں گی۔ صرف مارتی ہی نہیں ہوں گی ۔اور بعد کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ واقعی ان میں بہادری اور جرأت پیدا ہوئی۔ کس وجہ سے ہوئی اللہ بہتر جانتا ہے لیکن بہرحال کوئی منفی اثر بچپن کی اس مار کا ان پہ نہیں ہوا۔ یہاں اگر آج کل کسی نے آزمانے کی کوشش کی تو یہاں تو سوشل سروس والے فوراً آ جائیں گے اور بچوں کو لے جائیں گے۔ اس لیے مائیں کہیں یہ طریقہ آزمانے کی کوشش نہ کریں۔

جب حضرت زبیرؓ نے اسلام قبول کر لیا تو آپؓ کے چچا آپ کو ایک چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیتے تھے تا کہ وہ اسلام چھوڑ کر کفر میں لوٹ جائیں مگر آپ یہی کہتے تھے کہ اب مَیں کفر میں نہیں لوٹوں گا۔

(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 2 صفحہ457 ذکر اسمہ الزبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے بارے میں اس واقعےکو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’زبیربن عوامؓ ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے۔ اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبردست جرنیل ثابت ہوئے۔ ان کا چچا بھی ان کو خوب تکلیفیں دیتا تھا۔ چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دھواں دیتا تھا تا کہ ان کا سانس رک جائے اور پھر کہتا تھا کہ کیا اب بھی اسلام سے بازآؤ گے یا نہیں؟ مگر وہ ان تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اس سے انکار نہیں کر سکتا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد20صفحہ196-197)

ہِشام بن عُروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر جب بچے تھے تو مکے میں ایک شخص سے لڑائی ہو گئی۔ اس شخص نے کوئی سختی کی ہو گی۔ یہ چھوٹے تھے وہ بڑا مرد تھا۔ بہرحال اس لڑائی میں انہوں نے ان شخص کا ہاتھ توڑ دیا اور سخت چوٹ پہنچائی۔ بہرحال اس شخص کو سواری پہ لاد کر حضرت صفیہ کے پاس لایا گیا کہ دکھائیں ۔ اس سے کہیں کہ آپ کے بیٹے نے اس کا یہ حال کیا ہے۔ حضرت صفیہ نے پوچھا کہ اس کو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت زبیر نے اس سے لڑائی کی ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ قصور کس کا ہے۔ بہرحال لڑائی ہوئی تو حضرت صفیہ نے حضرت زبیر کی اس دلیری پر شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ

کَیْفَ رَأَیْتَ زَبْرًا

أَ اَقِطًا حَسِبْتَہٗ اَمْ تَمْرًا

اَمْ مُشْمَعِلًّا صَقْرًا

کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا؟ کیا اسے پنیر اور کھجور کی طرح سمجھا ہوا تھا کہ آسانی سے اسے کھا جاؤ گے۔ جو چاہو گے اس سے کر لو گے۔ وہ تو تیز جھپٹنے والے عقاب کی طرح ہے۔ تم نے اس کو تیزجھپٹنے والے عقاب کی طرح پایا ہو گا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ74-75 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت زبیرؓ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شریک ہوئے اور جب آپؓ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت مُنْذِر بِن محمدؓ کے پاس ٹھہرے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ75 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت زبیر بن عوام ؓکی بیوی تھیں ان سے مروی ہے کہ جب مَیں مکے سے ہجرت کر کے روانہ ہوئی تو مَیں امید سے تھی۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں نے قبا میں پڑاؤ کیا۔ عبداللہ بن زبیرؓ وہاں پیدا ہوا۔ پھر میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپؐ نے اسے اپنی گود میں رکھا۔ پھر آپؐ نے ایک کھجور منگوائی، اسے چبایا۔ پھر اس بچے کے منہ میں پہلے لعاب ڈالا۔ پہلی چیز جو اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر آپؐ نے کھجور چبا کر اس کے منہ میں ڈالی اور اس کے لیے برکت کی دعا کی اور وہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا۔

(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرة النبیﷺ واصحابہٖ الی المدینۃ حدیث نمبر 3909)

صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کے بیٹے کا نام عبداللہ رکھا تھا۔ جب وہ سات یا آٹھ سال کے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کے لیے آئے اور انہیں اس بات کا ان کے والد حضرت زبیرؓ نے حکم دیا تھا کہ جاؤ بیعت کرو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آپؐ نے تبسم فرمایا۔ آپؐ مسکرائے اور پھر اس کی بیعت لی۔

(صحیح مسلم کتاب الآداب باب استحباب تحنیک المولود عند الولادۃ …… حدیث نمبر 2146)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکے میں مہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تو حضرت زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب مہاجرین کی انصار سے مؤاخات قائم فرمائی تو حضرت سَلَمہ بن سُلَامہؓ ان کے دینی بھائی ٹھہرے۔

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ جلد 2 صفحہ307 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

حضرت زبیرؓ نے اپنے بیٹوں کے نام شہداء کے نام پررکھے تھے تا کہ شاید اللہ انہیں شہادت نصیب کرے۔ عبداللہ کا نام عبداللہ بن جَحشؓ کے نام پر۔ مُنْذِر کا نام منذر بن عَمروؓ کے نام پر۔ عروہ کا نام عُروہ بن مسعودؓ کے نام پر۔ حمزہ کا نام حمزہ بن عبدالمطلبؓ کے نام پر۔ جعفر کا نام جعفر بن ابوطالبؓ کے نام پر۔ مُصعب کا نام مصعب بن عُمیرؓ کے نام پر۔ عُبَیدہ کا نام عبیدہ بن حارث کے نام پر۔ خالد کا نام خالد بن سعید کے نام پر اور عَمرو کا نام عمرو بن سعید کے نام پر رکھا۔ حضرت عمرو بن سعید جنگِ یرموک میں شہید ہوئے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 74 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1990ء)

اور یہ پتہ نہیں کس حد تک صحیح ہے ۔کیونکہ حضرت عبداللہ کا جو پیدائش کا وقت ہے تو اگر وہ پہلے بچے تھے تو کس سن میں پیدا ہوئے؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس وقت کسی کی شہادت ہو بھی چکی تھی کہ نہیں لیکن بہرحال ان بزرگ لوگوں کے نام پر انہوں نے یہ نام رکھے۔

عُروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ اتنے دراز قد تھے کہ جب آپؓ سوار ہوتے تو آپؓ کے پاؤں زمین پر لگتے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 458 ذکر اسمہ الزبیر: زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1995ء)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد یعنی حضرت زبیرؓسے پوچھا کہ جس طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓاور دیگر حضرات کو میں حدیث بیان کرتا ہوا سنتا ہوں۔ بہت ساری روایتیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ آپ کو نہیں سنتا اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جب سے مَیں نے اسلام قبول کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی جدا نہیں ہوا لیکن مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 451مسند زبیر بن العوامؓ حدیث 1413عالم الکتب بیروت 1998ء)

اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی جھوٹ منسوب کرتے تھے بلکہ یہ کہ میں اپنے لیے یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ احتیاط کروں۔ حالانکہ وہاں تو جان کے منسوب کی لیکن اتنے محتاط تھے کہتے تھے کہیں غلطی سے بھی کوئی ایسی بات منسوب نہ کر دوں اور پھر کہیں سزا پانے والوں میں سے نہ ہو جاؤں۔ یہ ان کی احتیاط تھی۔

حضرت سعید بن مسیّبؓ سے روایت ہے کہ حضرت زبیر بن عوام ؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی تلوار کو اللہ کی راہ میں نیام سے نکالا تھا۔ ایک دفعہ حضرت زبیرؓ مَطَابِخْ، مکہ میں ایک مقام کا نام ہے اس کی گھاٹی میں آرام کر رہے تھے کہ اچانک آواز آئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ فوراً اپنی تلوار کو نیام سے نکالتے ہوئےاپنے گھر سے نکلے اس جگہ سے جہاں وہ آرام کر رہے تھے وہاں سے نکلے۔ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور پوچھا زبیرؓ رک جاؤ، رک جاؤ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے سنا تھا، ایک آواز آئی تھی مجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اگر مجھے شہید کر دیا تو پھر تم کیا کر سکتے تھے ؟ کہنے لگے اللہ کی قسم! مَیں نے ارادہ کیا کہ تمام اہل مکہ کو قتل کر دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے لیے اس وقت خصوصی دعا فرمائی۔ ایک روایت میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تلوار کے لیے بھی دعا فرمائی۔

حضرت سعید بن مُسَیِّبْ ؓ کہتے ہیں کہ مَیں امید کرتا ہوں کہ ان کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔

(کتاب فضائل الصحابة لامام احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 733فضائل الزبیر بن العوام دار العلم الطباعة و النشر السعودیة 1983ء)
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد 2 صفحہ 512 زبیر بن العوام دار الجيل، بيروت1992ء)
(معجم البلدان جلد 5 صفحہ 171 دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت زُبیرؓ غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ غزوۂ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپؐ سے موت پر بیعت کی۔ فتح مکہ کے موقع پر مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک جھنڈا حضرت زبیرؓ کے پاس تھا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 77 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1990ء)

بدر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک پر حضرت زبیرؓ سوار تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت عُروہ سے مروی ہے کہ حضرت زبیرؓ کے جسم پر تلوار کے تین بڑے گہرے زخم تھے جن میں مَیں اپنی انگلیاں ڈالا کرتا تھا یعنی گہرے زخم تھے۔ دو زخم غزوۂ بدر کے موقع پر آئے تھے اور ایک زخم جنگِ یرموک کے موقعے پر آیا تھا۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 459ذکر اسمہ الزبیر: زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)

موسیٰ بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر بن عوامؓ زرد عمامے کی وجہ سے پہچان لیے جاتے تھے۔ زرد عمامہ باندھے ہوتے تھے۔ جنگ بدر میں حضرت زبیرؓ نے زرد عمامہ باندھا ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا کہ فرشتے زبیرؓ کے مشابہ اترے ہیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 76 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

یعنی جو اللہ تعالیٰ نے مدد کے لیے بھیجے ہیں وہ بھی اسی عمامے میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہِشام بن عُروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیرؓ کہتے تھے کہ غزوۂ بدر کے دن عُبَیدہ بن سعید سے میری مڈھ بھیڑ ہوئی اور اس نے ہتھیاروں کو پوری طرح اوپر پہنا ہوا تھا۔ اس کی صرف آنکھیں ہی نظر آتی تھیں اور اس کی کنیت اَبُو ذَات الکَرِشْ تھی۔ وہ کہنے لگا میں اَبُو ذَات الکَرِشْ ہوں۔ یہ سنتے ہی میں نے اس پر برچھی سے حملہ کر دیا اور اس کی آنکھ میں زخم لگایا تو وہ وہیں مر گیا۔ اس زور سے ماری تھی کہ ہشام کہتے تھے مجھے بتایا گیا کہ حضرت زبیرؓ کہتے تھے کہ میں نے اپنا پاؤں اس پر رکھ کر پورا زور لگایا اور بڑی مشکل سے میں نے وہ برچھی کھینچ کر نکالی تو اس کے دونوں کنارے مڑ گئے تھے۔ عروہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برچھی حضرت زبیرؓ سے طلب فرمائی۔ انہوں نے آپؐ کو پیش کر دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت زبیرؓ نے اسے واپس لے لیا۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ برچھی طلب کی۔ حضرت زبیرؓ نے انہیں دے دی۔ جب حضرت ابوبکر فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ نے آپؓ سے وہ برچھی طلب کی اور آپؓ نے انہیں دے دی۔ جب حضرت عمرؓ فوت ہوئے تو حضرت زبیرؓ نے واپس لے لی۔ پھر اس کے بعد حضرت عثمانؓ نے ان سے وہ برچھی طلب کی اور حضرت زبیرؓ نے انہیں دے دی۔ جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو وہ حضرت علیؓ کی آل کو مل گئی۔ آخر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ان سے لے لی اور وہ ان کے پاس رہی یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ شہید کر دیے گئے۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب 12حدیث 3998)

حضرت زبیر بن عوامؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 450مسند زبیر بن العوام حدیث1408 عالم الکتب بیروت 1998ء)

حضرت زبیرؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ احد کے دن ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو اچھا نہیں سمجھا کہ خاتون انہیں دیکھ سکے۔ بہت بری حالت میں مثلہ کیا گیا تھا اس لیے فرمایا کہ اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو۔ حضرت زبیرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری والدہ حضرت صفیہ ہیں۔ چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور ان کے شہداء کی لاشوں تک پہنچنے سے قبل ہی میں ان تک پہنچ گیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر ہاتھ مار کر مجھے پیچھے دھکیل دیا۔ وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو میں تم سے نہیں بولتی۔ یعنی کہ تم سے میں نے کوئی بات نہیں کرنی۔ پس تم پرے ہٹ جاؤ اور نہ میں نے تمہاری بات سننی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ ان لاشوں کو مت دیکھیں۔ یہ سنتے ہی وہ رُک گئیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا گیا تووہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا: یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لیے لائی ہوں کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے۔ تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت صفیہؓ نے کہا مجھے یہ علم ہے کہ میرے بھائی کا مثلہ ہوا ہے اور یہ خدا کی راہ میں ہی ہوا ہے اور خدا کی راہ میں جو بھی سلوک حضرت حمزہؓ کے ساتھ ہوا ہے اس پر ہم کیوں نہ راضی ہوں۔ مَیں ان شاء اللہ صبر کروں گی اور اس کا اجر خدا سے چاہوں گی۔ حضرت زبیرؓ نے ماں کا یہ جواب سنا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا عرض کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفیہ کو بھائی کی لاش پر جانے دو۔ حضرت صفیہ آگے بڑھیں، بھائی کی لاش کو دیکھا اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دفن کرنے کا حکم دیا۔ پھر آگے راوی کہتے ہیں کہ جب ہم حضرت حمزہؓ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ حضرت حمزہ کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو۔ اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں حضرت حمزہ ؓکو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی کو کفن دے دیں گے۔ اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کے تھے ہم نے قرعہ اندازی کی اور جن کے نام پر جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں دفنا دیا۔ تب بھی وہ پورا نہیں آیا تھا تو گھاس ڈالنی پڑی تھی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 452مسند زبیر بن العوام روایت 1418عالم الکتب بیروت 1998ء)

(السیرة النبویة لابن ہشام جلد 2 صفحہ 97 صفیہ و حزنھا علی حمزہ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي بمصر1955ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 10 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ خندق کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے تو حضرت زبیرؓ نے عرض کی مَیں حاضر ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے۔ حضرت زبیرؓ نے پھر جواب دیا مَیں حاضر ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے پاس بنو قریظہ کی خبر لائے۔ حضرت زبیرؓنے عرض کیا کہ مَیں حاضر ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کا حواری ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک شخص کو کہتے سنا جو کہتا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری کا بیٹا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ اگر تم حضرت زبیرؓ کی اولاد میں سے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔ دریافت کیا گیا کہ حضرت زبیرؓ کے علاوہ بھی اور کوئی تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حواری کہا جاتا تھا تو حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ میرے علم میں کوئی اَور نہیں ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 78 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت1990ء)

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ روایت کرتے ہیں کہ غزوۂ احزاب کے دن مجھے اور عُمر بن اَبِی سَلَمہکو عورتوں میں مقرر کیا گیا۔ میں نے جو نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت زبیرؓ اپنے گھوڑے پر سوار ہیں۔ میں نے بنو قریظہ کی طرف دو دفعہ یا تین دفعہ جاتے ہوئے انہیں دیکھا۔ جب میں لوٹ کر آیا تو میں نے کہا اے میرے والد! مَیں نے آپ کو اِدھر اُدھر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا بیٹا کیا تم نے واقعی مجھے دیکھا تھا؟ مَیں نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بنو قریظہ کے پاس کون جائے گا اور ان کی خبر لے کر میرے پاس آئے گا۔یہ سن کر میں چلا گیا۔ جب مَیں لوٹا، جب واپس آ کے یہ رپورٹ دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے ماں باپ دونوں کا اکٹھا نام لیا یعنی فرمایا میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب الزبیر بن العوام حدیث 3720)

غزوۂ خیبر میں یہود کا مشہور سردار مَرْحَبْ حضرت محمد بن مَسْلَمہؓ کے ہاتھوں مارا گیا تو اس کا بھائی یاسر میدان میں آیا۔ اس نے مَنْ یُّبَارِز؟کا نعرہ بلند کیا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا؟ حضرت زبیرؓ اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے۔ حضرت صفیہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول اللہؐ!معلوم ہوتا ہے کہ آج میرے بیٹے کو شہادت نصیب ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تیرا بیٹا اس کو مارے گا۔ حضرت زبیرؓ یاسر کے مقابلے کے لیے نکلے اور وہ حضرت زبیرؓ کے ہاتھوں مارا گیا۔

(سیرة النبویة لابن ہشام جلد 2 صفحہ 334 مقتل یاسر اخی مرحب شركة مكتبة ومطبعة مصطفىٰ بمصر1955ء)

حضرت زبیرؓ ان تین لوگوں میں بھی شامل تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کا پتہ کرنے بھیجا تھا جو کفار کے لیے حضرت حَاطِب بن ابی بَلْتَعہؓ کا خط لے کر جا رہی تھی۔ گو اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے لیکن اس حوالے سے یہاں بھی تھوڑا سا ذکر کر دیتا ہوں۔

حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ،حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا کہ جب تم رُوْضَہ خَاخْ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہو گا۔ تم اس سے وہ خط لے کر واپس آ جانا۔ چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے یہاں تک کہ ہم رُوْضَہ خَاخْ پہنچے۔ یہ مکے اور مدینے کے درمیان ایک جگہ ہےاس کا نام ہے۔ وہاں ہمیں واقعةً ایک عورت ملی۔ ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے۔ اس نے کہا میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ ہم نے اسے کہا کہ یا تو خود ہی خط نکال دو یا پھر ہم سختی کریں گے بلکہ تمہیں برہنہ کریں گے ۔ جس حد تک بھی ہمیں جانا پڑا جائیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا۔ ہم وہ خط لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس خط کو جو کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ وہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓکی طرف سے کچھ مشرکین ِمکہ کے نام تھا جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلےکی خبر دی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ حاطب یہ کیا ہے؟ یہ تم نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ! میرے معاملے میں جلدی نہ کیجیے گا۔ میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا۔البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں۔ میں نے سوچا کہ ان پر ایک احسان کر دوں۔ میں نےیہ کام جو ہے یہ کافر ہو کر یا مرتد ہو کر یا اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے نہیں کیا۔ صرف ان لوگوں پہ ایک احسان کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے میں نے کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سن کے فرمایا کہ تم نے سچ کہا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے بارے میں کہا کہ تم سے اس نے سچ بیان کیا ہے۔ حضرت عمرؓ اس وقت بڑے غصے میں تھے اور غصے میں مغلوب ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیں کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ غزوۂ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اور تمہیں یہ کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو کچھ کرتے رہومیں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ 251مسند علی بن ابی طالب حدیث 600 عالم الکتب بیروت 1998ء)
(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صفحہ 136)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو حضرت زبیر بن عوامؓ فوج کے بائیں طرف تھے اور حضرت مقداد بن اَسْوَدؓفوج کے دائیں حصے پر مقرر تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں داخل ہوئے اور لوگ مطمئن ہو گئے تو دونوں حضرات یعنی حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ اپنے گھوڑوں پر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ان کے چہروں سے اپنی چادرکے ساتھ غبار پونچھنے لگے اور فرمایا کہ میں نے گھوڑے کے لیے دو حصے اور سوار کے لیے ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ جو ان دونوں کو کم دے اللہ اسے کم دے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 77 زبیر بن العوام دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ حضرت زبیرؓ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبل نامی بت کے اوپر اپنی چھڑی ماری اور وہ اپنے مقام سے گر کر ٹوٹ گیا تو حضرت زبیرؓ نے ابوسفیان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ابوسفیان! یاد ہے احد کے دن جب مسلمان زخموں سے چُور ایک طرف کھڑے ہوئے تھے۔ تم نے اپنے غرور میں یہ اعلان کیا تھا کہ اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ۔ہبل کی شان بلند ہو۔ ہبل کی شان بلند ہو اور یہ کہ ہبل نے ہی تم کو احد کے دن مسلمانوں پر فتح دی تھی۔ آج دیکھتے ہو سامنے ہبل کے ٹکڑے پڑے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا زبیرؓ یہ باتیں اب جانے دو۔ آج ہم کو اچھی طرح نظر آ رہا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے سوا کوئی اور خدا بھی ہوتا تو آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس طرح کبھی نہ ہوتا۔ پس یہی خدا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہے۔

(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ346-347)

جنگ حُنَین کے دن قبیلہ ہَوَازَن کی غیر متوقع تیر اندازی سے اور اس وجہ سے بھی کہ آج لشکرِ اسلام میں دوہزار نومسلم بھی شامل تھے۔ ایسا وقت آیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے میدان میں رہ گئے۔ حضرت عباسؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام تھامے تھے۔ کافر سردار مالک بن عوف ایک گھاٹی پر شہسواروں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کچھ شہسوار ظاہر ہوئے۔ مالک بن عوف نے پوچھا یہ کیا نظر آ رہا ہے؟ اس کے ساتھیوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہیں اپنے نیزے گھوڑوں کے کانوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے کہا یہ بنو سُلَیم ہیں ان سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ چنانچہ وہ آئے اور وادی کی طرف نکل گئے۔ پھر دیکھا ایک اَور دستہ سواروں کا ظاہر ہوا۔ مالک نے پوچھا کیا دیکھتے ہو۔ اس نے کہا کچھ لوگ ہیں نیزے ہاتھ میں ہیں۔ اس نے کہا یہ اوس اور خزرج ہیں۔ اس نے کہا ان سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ وہ بھی جب گھاٹی کے قریب پہنچے تو بنو سُلَیم کی طرح وادی کی طرف چل پڑے۔ پھر ایک سوار نظر آیا۔ مالک نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا دیکھتے ہو؟ انہوں نے کہا ایک شہسوار ہے۔ لمبا قد کندھے پر نیزہ ہے۔ سر پر سرخ پٹکا باندھے ہوئے ہے۔ مالک نے کہا یہ زبیر بن عوام ہے۔ لات کی قسم! اس کی تم سے مڈھ بھیڑ ہو گی۔ اب قدم مضبوط کر لو۔ جب حضرت زبیرؓ گھاٹی پر پہنچے۔ سواروں نے انہیں دیکھا تو حضرت زبیرؓ چٹان کی طرح ان کے سامنے ڈٹ گئے اور نیزے کے ایسے وار کیے کہ گھاٹی ان کافر سرداروں سے خالی کرا لی۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 52-53)
(سیرة النبویۃ لابن ہشام جلد 2 صفحہ 456 وصیہ مالک بن عوف لقومہ و لقا زبیر لھم شركة مكتبة ومطبعة مصطفى بمصر1955ء)

عروہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جنگِ یرموک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حضرت زبیرؓ سے کہا کیا آپ حملہ نہیں کریں گے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کریں؟ حضرت زبیرؓ نے کہا اگر میں نے حملہ کیا تو تم پیچھے رہ جاؤ گے۔ انہوں نے کہا ہم پیچھے نہیں رہیں گے۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ نے کفار پر اس زور سے حملہ کیا کہ ان کی صفیں چیرتے ہوئے نکل گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ کوئی ایک بھی نہ تھا۔ پیچھے مڑ کے جب دیکھا تو کوئی ایک بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ پھر وہ لوٹے تو کفار نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور ان کے کندھے پر دو زخم لگائے جن میں وہ بڑا زخم بھی تھا جو جنگِ بدر میں ان کو لگا تھا۔ عروہ کہتے تھے کہ میں اپنی انگلیاں ان زخموں میں ڈال کر کھیلا کرتا تھا اور میں اس وقت چھوٹا تھا۔ عروہ کہتے ہیں کہ ان دنوں یرموک کی لڑائی میں حضرت زبیرؓ کے ساتھ عبداللہ بن زبیرؓ بھی تھے اور اس وقت وہ دس برس کے تھے۔ حضرت زبیرؓ انہیں گھوڑے پر سوارکر کے لے گئے تھے اور ایک شخص کو ان کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل حدیث 3975)

فتح شام کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ کی سرکردگی میں مصر پر حملہ ہوا۔ مصر کے فاتح حضرت عمرو بن عاص نے اسکندریہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا تو اسکندریہ کے جنوب میں دریائے نیل کے کنارے خیمے نصب کیے تھے اس لیے اس کو فُسْطَاط کہتے ہیں۔ یہی مقام بعد میں شہر بن گیا اور اسی شہر کا جدید حصہ آج قاہرہ کہلاتا ہے۔ جب مسلمانوں نے اس فُسْطَاط کا محاصرہ کر لیا۔ انہوں نے قلعے کی مضبوطی اور فوج کی قلّت کو دیکھا تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت عمرؓ سے کمک روانہ کرنے کے لیے درخواست کی۔ حضرت عمرؓ نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھجوائے۔ فرمایا ان میں سے ہر ایک افسر ایک ہزار کے برابر ہے۔ ان میں سے ایک حضرت زبیرؓ تھے۔ یہ پہنچے تو حضرت عمرو بن عاصؓ نے محاصرے کے انتظامات ان کے سپرد کیے۔ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر قلعے کے گرد چکر لگایا۔ فوج کو ترتیب دی۔ سواروں اور پیادوں کو مختلف جگہوں پر متعین کیا۔ منجنیقوں سے قلعے پر پتھر پھینکنے شروع کیے۔ سات ماہ تک محاصرہ جاری رہا۔ فتح اور شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ حضرت زبیرؓ ایک دن کہنے لگے کہ آج میں مسلمانوں پر فدا ہوتا ہوں۔ یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور سیڑھی لگا کر فصیل پر چڑھ گئے۔ چند اَور صحابہ نے ان کا ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کیے اور ساتھ ہی تمام فوج نے اتنے زور سے نعرہ بلند کیا کہ قلعےکی زمین دہل گئی۔ عیسائیوں نے سمجھا کہ مسلمان قلعے کے اندر گھس گئے ہیں۔ وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت زبیرؓ نے فصیل سے اتر کر قلعےکا دروازہ کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس گئی۔

(ماخوذ از روشن ستارے از غلام باری سیف صاحب جلد 2 صفحہ 54-55)
(معجم البلدان صفحہ259مطبوعہ الفیصل اردو بازار لاہور 2013ء)

حضرت عمرؓکی وفات کے وقت خلافت کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی اور وفات کے بعد خلافت کے انتخاب کا واقعہ بخاری میں جو درج ہے وہ یوں ہے کہ جب حضرت عمرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین! وصیت کر دیں، کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مَیں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپؐ ان سے راضی تھے۔ انہوں نے حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام لیا اور کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ تمہارے ساتھ شریک رہے گا اور خلافت میں اس کا حق کوئی نہیں ہو گا۔ اور پھر فرمایا کہ اگر خلافت سعدؓ کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایا جائے وہ سعدؓ سے مدد لیتا رہے کیونکہ میں نے ان کو اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ انہوں نے کوئی خیانت کی تھی۔ نیز فرمایا مَیں اس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے پہچانیں اور ان کی عزت کا خیال رکھیں۔ اور میں انصار کے متعلق بھی عمدہ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے اپنے گھروں میں ایمان کو جگہ دی۔ جو ان میں سے نیک کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے اور جو ان میں سے قصور وار ہو اس سے درگذر کیا جائے۔ اور میں سارے شہروں کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی اس کو وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے محصل ہیں اور دشمن کے کڑھنے کا موجب ہیں۔ اور یہ کہ ان کی رضا مندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے۔ اور میں اس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ عربوں کی جڑ اور اسلام کا مادہ ہیں۔ یہ کہ ان کے ایسے مالوں سے لیا جائے جو ان کے کام کے نہ ہوں اور پھر انہی کے محتاجوں کو دے دیا جائے۔ اور میں اس کو اللہ کے ذمے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمےکرتا ہوں کہ جن لوگوں سے عہد لیا گیا ہو ان کا عہد ان کے لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے ان سے مدافعت کی جائے اور ان سے بھی اتنا ہی لیا جائے جتنا ان کی طاقت ہو۔

کہتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ فوت ہو گئے اور ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ چھ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دو۔ حضرت زبیرؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت علی ؓکو دیا۔ حضرت طلحہؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عثمانؓ کو دیا۔ حضرت سعدؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو دیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ سے کہاکہ آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہو گا۔ وہ آپ میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے۔ یہ سن کر دونوں بزرگ خاموش رہے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے کہا: کیاآپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں؟ اور اللہ میرا نگران ہے جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا۔ ان دونوں نے کہا اچھا۔ پھر عبدالرحمٰن ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کر الگ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپؓ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتے کا تعلق ہے اور اسلام میں بھی وہ مقام ہے جو آپ جانتے ہی ہیں۔ اللہ آپ کا نگران ہے۔ بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے؟ اگر میں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ ان کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے؟ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ دوسرے کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی ویسے ہی کہا۔ جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو پھر عبدالرحمٰنؓ نے حضرت عثمانؓ کو کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھائیں اور ان کی بیعت کی اور حضرت علی ؓنے بھی ان کی بیعت کی اور گھر والے اندر آ گئے اور انہوں نے بھی حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃالبیعۃ حدیث 3700)

بہرحال یہ تفصیل میں کچھ عرصہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہاں بھی ان کے حوالے سے بیان کر دی ہے۔ حضرت زبیرؓ کا ابھی ذکر چل رہا ہے۔ وہ ان شاء اللہ باقی آئندہ بیان ہو گا۔

اس وقت کچھ جنازے ہیں جو پڑھانے ہیں۔ مَیں ان کے بارے میں بتاؤں گا۔ پہلا جنازہ جن مرحوم کا ہے وہ ہیں معراج احمد صاحب شہید ابن محمود احمد صاحب آف ڈبگری گارڈن ضلع پشاور۔ ان کومخالفینِ احمدیت نے 12؍اگست کو رات نو بجے ان کے میڈیکل سٹور کے سامنے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ مرحوم اپنے میڈیکل سٹور سے کام ختم کر کے رات نو بجے گھر کے لیے روانہ ہوئے تھے کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی اور وقوعے سے فرار ہو گئے۔ شہید مرحوم کو چار گولیاں لگیں جس سے موقعے پر ہی وفات ہو گئی۔ بوقت شہادت ان کی عمر تقریباً 61سال تھی۔ شہید مرحوم کا بیٹا عزیزم یاسر احمد وقوعہ سے چند منٹ پہلے سٹور سے گھر کو روانہ ہوا تھا اور مرحوم کے موبائل سے ہی بیٹے کو وقوعہ کی اطلاع دی گئی۔ بیٹا جب واپس میڈیکل سٹور پہنچا تو مرحوم کی وفات ہو چکی تھی۔

شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم احمد گل صاحب اور ان کے بھائی مکرم صاحب گل صاحب کے ذریعے سے 1912ء میں ہوا تھا جو پشتو کے مشہور شاعر بھی تھے۔ اور اس خاندان کا تعلق شیخ محمدی پشاور سے تھا۔ تاہم بعد میں یہ خاندان غیر مبائعین سے وابستہ رہا یعنی لاہوری جماعت، پیغامی جو ہم کہتے ہیں ان سے وابستہ ہو گئے تھے۔ خلافت کی بیعت نہیں کی تھی۔ مکرم معراج صاحب نے اپنے تین بھائیوں کے ہمراہ خود 91-1990ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ مبائعین میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد سے ان کی مخالفت کا سلسلہ شہادت تک جاری رہا۔ ان کے پاس کام کرنے والے ملازمین بھی محض مذہبی مخالفت کی وجہ سے ان کے پاس کام کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی گذشتہ کچھ عرصے سے شدید مخالفانہ مہم جاری تھی جس میں طاہر نسیم کے واقعہ قتل کے نتیجے میں مزید اضافہ ہوا اور اسی پس منظر میں علاقے میں یہ مہم چلائی جا رہی تھی کہ عید کے بعد قادیانیوں کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جائے گی اور ان کا علاقے سے خاتمہ کر دیں گے اور اگلا ٹارگٹ انہی کا علاقہ تھا جس میں شہید مرحوم رہائش پذیر تھے۔

شہید نمایاں خصوصیات کے حامل تھے۔ باقاعدہ گھر میں نماز باجماعت کا انتظام تھا۔ خلافت سے بےانتہا عقیدت تھی۔ ایم ٹی اے پر خطبات سننے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جماعتی پروگرام میں شمولیت کے علاوہ مہمان نوازی، ہمدردی خلق اور غریبوں کی امداد نمایاں وصف تھے۔ ضرورت مندوں کو مفت دوائیاں دیا کرتے تھے۔ خاندان کے ہر فرد سے ہمدردی کا تعلق تھا۔ بھائیوں کی فیملیوں سے بہت محبت کا تعلق تھا اور یہ جو بھائیوں سے محبت ہے وہ احمدیت قبول کرنے کے بعد اور بھی بڑھ گئی تھی۔ دعوت الی اللہ بہت بڑھ چڑھ کر کرتے تھے۔ تحریک جدید کے نئے مالی سال کے اعلان کے موقعے پر عہدے دار جب ان کے پاس آئندہ وعدے کے لیے پہنچتے تو جیب میں ہاتھ ڈالتے اور جتنی رقم ہوتی وہ چندے میں دے دیتے۔ اس سال بھی انہوں نے یہی کیا کہ جو بھی رقم تھی چندے میں ادا کر دی۔ ان کے بیٹے یاسر2012ء میں آسٹریلیا ہجرت کر گئے تھے۔ 2013ء میں شہید بھی اپنے بیٹے کے پاس آسٹریلیا چلے گئے لیکن پھر2014ء میں اپنے بیٹے کو لے کر واپس پاکستان آ گئے اور بتایا کہ میری خواہش ہے کہ اپنے علاقے اور ملک میں رہ کر غریب عوام کی خدمت کروں اور وطن کی محبت مجھے مجبور کر رہی ہے کہ مَیں پاکستان میں رہائش رکھوں۔ آسٹریلیا میں جب مَیں دورے پہ گیا ہوں تو اس وقت یہ مجھے ملے بھی تھے۔

طویل عرصے سے جماعت پشاور کے سیکرٹری ضیافت تھے۔ احمدی تو وطن کی محبت میں ہر قربانی کے لیے تیار ہیں اور یہ لوگ جو نام نہاد وطن کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، ان کا احمدیوں پر الزام لگانے اور ان کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیکن بہرحال جو احمدی کی سرشت میں ہے وہ تو اس کے مطابق ہی کام کریں گے۔ طویل عرصے سے جماعت پشاور کے سیکرٹری ضیافت تھے اور تاحیات اس عہدے پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ گذشتہ رمضان میں اعتکاف بھی بیٹھے تھے ۔ ان کے ایک بھائی فاروق احمد صاحب ٹریفک حادثے میں پہلے فوت ہو گئے تھے اور دوسرے بھائی کا سٹور ان سے قریب ہی ہے ان کو بھی خطرہ ہی رہتا ہے۔ دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ شہید مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ رشیدہ معراج صاحبہ اور تین بیٹے یاسر27سال اور مصور احمد 25سال اور جاذب 14سال ہیں۔ ایک بیٹی عائشہ ہے جو ایم بی بی ایس کی طالبہ ہیں۔ جاذب کو بھی اپنے سکول میں کافی مخالفت کا سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی شریروں کے شر سے محفوظ رکھے۔

آج کل پاکستان میں مخالفت پھر زوروںپر ہے بلکہ ممبران اسمبلی بھی جھوٹی باتیں ہماری طرف منسوب کر کے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غلط طور پر ان لوگوں کی غلط حرکات کو پیش کیا جاتا ہے جن کا جماعت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور پھر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ احمدی تھے حالانکہ ان حرکت کرنے والوں کا جماعت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اسی طرح آج کل سستی شہرت کے لیے ہر گِھسا پٹا انسان جو ہے وہ یوٹیوب پر جماعت کے خلاف اپنے پروگرام بنا کر اور غلط باتیں منسوب کر کے سمجھتا ہے کہ مَیں بڑے ثواب کا کام کر رہا ہوں حالانکہ وہ لوگ نیک نیت نہیں ہیں۔ صرف اپنی سستی شہرت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان شریروں کے شر ان پر الٹائے۔

ان دنوں میں خاص طور پر پاکستان کی جماعت کو بھی اور دنیا میں بھی، ہمیں بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں۔

رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِی

بہت پڑھیں۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ

بہت پڑھیں۔ درود شریف بہت پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان شریروں کے شر سے محفوظ رکھے۔ جوں جوں یہ دشمنی بڑھ رہی ہے توں توں ہمیں زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہیے۔

شہید کے بیٹے یاسر صاحب کہتے ہیں میرے والد صاحب اللہ کے فضل سے موصی تھے اور چندوں میں ہمیشہ بڑھ کر خلوص سے حصہ لیتے تھے اور اس کے علاوہ بھی لوگوں کی فکر میں لگے رہتے تھے اور مالی مدد کرتے تھے۔ میرے والد صاحب بہت بہادر اور نڈر انسان تھے۔ مخالفت کے باوجود ہمیشہ بے خوف رہتے اور اللہ پر بھروسا کرتے اور ہمیشہ یہی کہتے کہ مجھے کسی مخالفت کی پروا نہیں۔ میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ کہتے ہیں نہایت سادہ، عاجز اور سخی انسان تھے۔ ہمیشہ لوگوں کی کھلے دل سے مدد کیا کرتے تھے۔ بہت متقی تھے۔ ذکر الٰہی میں مصروف رہنے والے، اللہ سے بہت مضبوط تعلق اور بھروسہ رکھنے والے تھے۔ نمازوں کی پابندی اور تہجد میں باقاعدگی معمول تھا۔ صبح شام تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو اس کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔ اس دفعہ رمضان میں یہ اعتکاف بھی بیٹھے تھے اور کہتے تھے کہ مَیں نے خواب میں ان بدکردار اور منافق لوگوں کا بہت برا انجام دیکھا ہے۔ اور بڑی تسلی سے کہتے تھے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔

امیر صاحب آسٹریلیا نے بھی بیان کیا ہے اور اسی طرح اَور بھی وہاں آسٹریلیا میں رہنے والے لوگوں نے بھی لکھا ہے کہ کچھ عرصہ یہاں آسٹریلیا میں رہے ہیں۔ جماعت کے بہت فدائی ممبر تھے اور مستعد کارکن تھے۔ بہت ملنسار تھے۔ محبت کرنے والے تھے۔ بہت مہمان نواز تھے اور عاجز انسان تھے۔ بہت نڈر اور جوشیلے احمدی تھے۔ بہت کم گو اور نرم زبان تھے اور جب یہ واپس جانے کا انہوں نے فیصلہ کیا تو دوستوں نے انہیں پاکستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے جانے سے روکا، بچوں نے بھی روکا مگر وہ کہنے لگے کہ جماعت کی راہ میں اگر جان چلی جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا خوش بختی ہو گی اور یہ اعزازہو گا۔ پھر واپس چلے گئے۔ اور وہاں زعیم انصار اللہ ملبرن ہیں وہ کہتے ہیں کہ شہادت سے دو روز قبل مجھے ان کا فون آیا تھا کہ مخالفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے لیکن میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔

دوسرا جنازہ جو ہے وہ عزیزم ادیب احمد ناصر مربی سلسلہ کا ہے جو محمد ناصر احمد ڈوگر صاحب عہدی پور نارووال کے بیٹے تھے۔ 9؍اگست کو ستائیس سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ جامعہ میں یہ داخل ہوئے اور جولائی 2017ء میں انہوں نے جامعہ کی تعلیم مکمل کی۔ میدان عمل میں آئے اور اصلاح و ارشاد مقامی کے تحت یہ کام کر رہے تھے۔ ان کا رشتہ بھی طے ہو چکا تھا اور شادی ہونے والی تھی۔ ان کو بخار چڑھا، ٹائیفائیڈ ہوا۔ پھر ٹائیفائیڈ بگڑ گیا اور سرسام ہو گیا اور اس دوران میں انہوں نے احتیاط بھی نہیں کی۔ اپنے کام بھی کرتے رہے اور سفر بھی کرتے رہے اور بہرحال دو تین دن مختصر علالت کے بعد اس بخار کی وجہ سے ان کی وفات ہو گئی۔

ان کے والد ناصر ڈوگر صاحب کہتے ہیں کہ میرا بیٹا بطور واقفِ زندگی ہم والدین کے لیے باعث فخر تھا۔ نہایت نیک اور صالح بیٹا، صوم و صلوٰة کا پابند، سادہ طبیعت، نرم لہجہ، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ۔ اور یہ خصوصیات ان کے اَور دوستوں نے بھی لکھی ہیں جو مربیان تھے یا ان سے رابطہ رکھنے والے تھے۔ ہمیشہ مسکرانے والے تھے۔ جماعت کی محبت اور خدمت کا بہت زیادہ جذبہ رکھنے والے تھے۔ بڑے ہر دلعزیز وجود تھے۔ چینیکی جماعت جہاں آج کل خدمت کی توفیق پا رہے تھے وہاں تقرر سے پہلے ہی بیت الذکر اور مربی ہاؤس بنانے کے لیے بہت جوش اور جذبے سے کام کیا اور اپنے ماہانہ الاؤنس میں سے رقم جمع کر کے، حالانکہ معمولی الاؤنس ہوتا ہے، تیس ہزار روپے مسجد کے بنوانے کے لیے بھجوائے اور کام شروع کرنے کی بار بار تاکید کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی زبان سے یہی سنا کہ کام شروع کریں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔

ان کی والدہ ناصرہ صاحبہ کہتی ہیں کہ ادیب احمد کی پیدائش اس لیے ہمارے لیے خوشی کا دن تھا کہ ہم نے اس کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا ہوا تھا۔ چار بیٹیوں کے بعد خدا نے بیٹا دیا تو خوشی کی انتہا نہ رہی اور خوشی تھی کہ یہ بڑا ہو کر مربی بنے گا اور دوسرا خوشی کا دن تب آیا جب ہمیں جامعہ بلا کر ادیب کو شاہد کی سند دی گئی۔ انتہائی نیک اور اطاعت گزار بچہ تھا۔ فیلڈ سے روزانہ فون کر کے دوائیوں وغیرہ کا پوچھتا۔ ماں کی صحت کے بارے میں پوچھتا اور ہمیشہ کہتا صحت کاخیال رکھا کریں ۔ بڑا خدا ترس وجود تھا اور یہ زمیندارہ گھرانہ ہے۔ جب گندم کا سیزن آتا تو اپنی ماں کو کہتے کہ زیادہ گندم رکھیں کیونکہ ضرورت مند لوگ بھی آ جاتے ہیں، غریبوں کی مدد بھی کرنی ہوتی ہے ان کو دینی ہوتی ہے۔

چینیکیجماعت جو عہدی پور کا ایک مقام ہے اس میں (مربی ہاؤس) ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ وہاں مکمل سامان وغیرہ میسر نہ ہونے کے باوجود بڑے حوصلے کے ساتھ ڈیوٹی دی۔ جاوید لنگاہ صاحب مربی ضلع فیصل آباد بیان کرتے ہیں کہ مرحوم وقف کی حقیقی روح کو سمجھ کر زندگی بسر کرنے والے تھے۔ بہت جاںفشانی سے کام کیا۔ جماعت کی بہترین تربیت کے ساتھ عہدے داران سے بھرپور تعاون کیا۔ تربیتی حوالے سے بطور خاص خلفائے کرام کے کلپس احباب جماعت کو سناتے۔ کسی میں کوئی عیب دیکھتے تو اس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے علیحدگی میں سمجھاتے۔ ہر ایک کے کام آتے۔ خلافت سے محبت، اطاعتِ نظامِ جماعت، ملنساری، خوش اخلاقی، نرم مزاجی، عاجزی اور انکساری مرحوم کے نمایاں اوصاف تھے۔ بڑے مؤدب اور ہر حال میں خدا کی رضا پر راضی رہنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ماں باپ کو بھی سکون اور صبر عطا فرمائے۔ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بہنوں کو بھی حوصلہ عطا فرمائے۔ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔

اگلا جنازہ جو پڑھنا ہےجس کا ذکر کروں گا وہ مکرم حمید احمد شیخ صاحب کا ہے جو شیخ محمد حسین صاحب کے بیٹے تھے۔ 12؍اگست کو ہارٹ اٹیک کے باعث پچاسی سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ کے پوتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ ان کے والد مکرم شیخ محمد حسین صاحب نے بطور امیر جماعت چنیوٹ خدمت کی توفیق پائی۔ بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت شیخ نور احمد صاحب کو ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو تعلیم کے لیے قادیان بھیجیں چنانچہ مکرم حمید احمد شیخ صاحب کے والد شیخ محمد حسین صاحب نے قادیان سے میٹرک کیا جہاں آپ کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا کلاس فیلو ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔حمید احمد شیخ صاحب کے نانا حضرت مولوی عبدالقادر صاحبؓ لدھیانوی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 313 اصحاب میں شامل تھے۔

حمید شیخ صاحب کی شادی کپورتھلے کے حضرت منشی ظفر احمدؓ صاحب کی پوتی سے ہوئی۔ مکرم حمید شیخ صاحب چارٹرڈ آرکیٹکٹ تھے۔ اپنی تعلیم یہاں لندن میں 1973ء میں مکمل کی تھی۔ رشید احمد صاحب ومبلڈن والے جو ہیں جو ہمارے روٹی پلانٹ کے سابق انچارج تھے یہ ان کے بھائی تھے۔ مرحوم کے پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ مرحوم کے ایک بیٹے عبدالرزاق شیخ صاحب یہاں ہماری آرکیٹیکٹ ایسوسی ایشن جو ہے IAAAE اس کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔ عبدالرزاق شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد ایک پیار کرنے والے اور عقیدت مند بیٹے، خاوند، باپ اور دادا تھے۔ تمام خاندان کے افراد ان سے محبت کرتے تھے۔ آپ جماعت احمدیہ کے بہت ہی نیک اور مخلص فرد تھے۔ کبھی بھی کسی بھی رنگ میں جماعت کی خدمت کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ خلیفۂ وقت کو خط لکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی کہتے تھے کہ خط لکھا کریں۔ بچوں کو ہر جگہ مقامی جماعت سے رابطہ کرنے کی تاکید کرتے تھے اور بار بار اس بارے میں کہتے رہتے تھے۔ باجماعت نمازوں کے پابند تھے۔ بچوں کو توجہ دلاتے رہتے تھے۔ جماعت کی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور اپنی وفات سے دو ہفتے قبل بڑی تاکید سے اپنے تمام بقایا جات ادا کر دیے۔ نائیجیریا میں بھی یہ رہے ہیں۔ وہاں بھی مساجد اور مشن ہاؤسز کی زمینوں میں اپنے پیشے کے لحاظ سے تزئین کے عمل میں مدد دیتے رہے اور جب نائیجیریا چھوڑ کے آئے ہیں تو اپنی گاڑی وہاں جماعت کو تحفۃً دے آئے تھے۔ پاکستان میں قیام کے دوران اسلام آباد IAAAEکے چیئر مین کے طور پر بھی خدمت انجام دیتے رہے۔ بہرحال مختلف حیثیتوں سے ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مرحوم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ جمعے کے بعد ان شاء اللہ ان تینوں کی نمازِ جنازہ پڑھوں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 11؍ستمبر2020ء صفحہ 5تا10)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button