ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط 45)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

اپنی تصویر کھچوانے کی غرض

اعتراض کیا گیا کہ تصویر پر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تصویر شیخ کی غرض سے بنوائی گئی ہے۔حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:

’’یہ تو دوسرے کی نیت پر حملہ ہے۔میں نے بہت مرتبہ بیان کیا ہے کہ تصویرسے ہماری غرض کیا تھی۔بات یہ ہے کہ چونکہ ہم کو بلاد یور پ خصوصاً لنڈن میں تبلیغ کرنی منظور تھی۔ لیکن چونکہ یہ لوگ کسی دعوت یا تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتے جب تک داعی کے حالات سے واقف نہ ہوں۔اور اس کے لئے ان کے ہاں علم تصویر میں بڑی بھاری ترقی کی گئی ہے۔وہ کسی شخص کی تصویر اور ا س کے خط وخال کو دیکھ کر رائے قائم کرلیتے ہیں کہ اس میں راستبازی ،قوت قدسی کہاںتک ہے؟اور ایسا ہی بہت سے امورکے متعلق انہیں اپنی رائے قائم کرنے کا موقعہ مل جاتاہے۔پس اصل غرض اور نیت ہماری اس سے یہ تھی جس کو ان لوگوں نے جو خواہ نخواہ ہر بات میں مخالفت کرنا چاہتے ہیں۔اس کو برے برے پیرایوں میں پیش کیا۔اور دنیا کو بہکایا۔میں کہتا ہوں کہ ہماری نیت تو تصویر سے صرف اتنی ہی تھی۔اگر یہ نفس ِتصویر کو ہی برا سمجھتے ہیںتو پھر کوئی سکہ اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ بہتر ہے کہ آنکھیں بھی نکلوا دیں کیونکہ ان میں بھی اشیاء کا ایک انعکاس ہی ہوتا ہے۔

یہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ افعال کی تہَ میں نیت کا بھی دخل ہوتا ہے۔

اَلْاَعْمَالُ بِاالنِّیَّاتِ

پڑھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص محض ریا کاری کے لئے نماز پڑھے تو اس کو یہ کوئی مستحسن قرار دیں گے ؟سب جانتے ہیں کہ ایسی نماز کا فائدہ کچھ نہیں۔بلکہ وبال جان ہے تو کیا نماز بُری تھی ؟اس کے بداستعمال نےاس کے نتیجہ کو بُرا پیدا کیا۔اسی طرح پر تصویر سے ہماری غرض تو اسلام کی دعوت میں مدد لینا تھی۔جو اہل یورپ کے مذا ق پر ہو سکتی تھی۔اس کو تصویر شیخ بنانا اور کچھ سے کچھ کہنا افتراء ہے۔جو مسلمان ہیںاُن کو اس پر غصہ نہیں آنا چاہیئے تھا۔جو کچھ خدا اور رسول نےفرمایاہے وہ حق ہے۔اگر مشائخ کا قول خدا اور رسول کے فرمودہ کے موافق نہیں تو ’کالائے بد بریشِ خاوند‘۔تصور شیخ کی بابت پوچھو تو اس کا کوئی پتہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ صالحین اور فانین فی اللہ کی محبت ایک عمدہ شے ہے۔لیکن حفظ مراتب ضروری ہے۔

گرحفظ مراتب نہ کنی زندیقی

پس خدا کو خدا کی جگہ رسول کو رسو ل کی جگہ سمجھو اور خدا کے کلام کو دستور العمل ٹھہرا لو۔اس سے زیاد ہ قرآن شریف میں اور کچھ نہیں کہ

کُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ(التوبہ:119)

پس صادقوں اور فانی فی اللہ کی صحبت تو ضروری ہے اور یہ کہیں نہ کہا گیا کہ تم اسے ہی سب کچھ سمجھو۔اور یا قرآن شریف میں یہ حکم ہے۔

اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32)

اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ مجھےخدا سمجھ لو بلکہ یہ فرمایا کہ اگر خدا کے محبو ب بننا چاہتے ہوتو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع کرو۔اتباع کا حکم تو دیا ہے۔مگر تصور شیخ کا حکم قرآن میں نہیں پایا جاتا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ نمبر364-365)

*۔اس حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کی ایک ضرب المثل اور شعر کا ایک مصرع استعمال کیا ہے جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔

نمبر1۔ کَالَائے بَدْبِرِیْشِ خَاوَنْد

یہ ایک ضرب المثل ہے جس کا مطلب ہےخراب سامان کی ذمہ داری خاوند پرہے جس کی دوسری روایت یہ ہے۔

کَالَای بَدْ بِرِیْشِ صَاحِبَشْ۔

یعنی خراب سامان کی ذمہ داری بیچنے والے پر ہے نہ کہ خریدار پر۔

نمبر2 گَرْحِفْظِ مَرَاتِبْ نَہْ کُنِیْ زِنْدِیْقِیْ

عبدالرحمان جامی جن کا پورا نام مولانا نورالدین عبدالرحما ن جامی ہے اور ایک معروف صوفی شاعر ہیں کی رباعی کا یہ ایک مصرع ہے۔پو ر ی رباعی کچھ یوں ہے۔

اَےْ بُرْدِہْ گُمَانْ کِہْ صَاحِبِ تَحْقِیْقِیْ

وَنْدَرْصِفَتِ صِدْقُ ویَقِیْن صِدِّیْقِیْ

اے وہ (شخص)جو اپنے آپ کو دانشمند ومحقق، صدق اور یقین کی صفت میں کامل سمجھتا ہے۔

ھَرْمَرْتَبِہْ اَزْوُجُوْد حُکْمِیْ دَارَدْ

گَرْحِفْظِ مَرَاتِبْ نَکُنِیْ زِنْدِیْقِیْ

ہر مرتبہ اپنی ذات میں (احترام بجا لانے کا )حکم رکھتا ہے۔اگر تو حفظ مراتب نہیں کرتا ،توبے دین ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button