متفرق مضامین

قوموں کی حقیقت (قسط دوم۔ آخری)

(مقصود احمد علوی۔ جرمنی)

ماحول کے اثرات

دراصل اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو بھی محروم نہیں رکھا اور نہ کسی قوم سے امتیازی سلوک کیا ہے۔ کسی قبیلے کو بھی پیدائشی طور پر حاکم نہیں بنایا اور نہ ہی کسی کو محکوم اور نہ ہی اُس نے کسی میں کوئی ایسی خاص صلاحیتیں پیدا کیں جن سے کہ دوسری اقوام کلیتاً محروم ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی انسان بھی پیدائشی طور پر محکوم، حاکم، غلام، امیر، غریب، عالم، جاہل، خونی، دغاباز، صلح جُو وغیرہ نہیں ہوتا۔ پیدائش کے وقت وہ معصوم ہوتا ہے اور اُس کی تختی بالکل صاف ہوتی ہے۔ اِس حقیقت کو واضح کرنے کےلیے یہاں ایک حدیث درج کی جاتی ہے :

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہر بچہ فطرتِ اسلامی پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے جیسے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، کیا تمہیں اُن میں کوئی کان کٹا نظر آتا ہے؟ یعنی بعد میں لوگ اُس کا کان کاٹتے ہیں اور اُسے عیب دار بنا دیتے ہیں۔

(مسلم بحوالہ حدیقۃ الصالحین مطبوعہ 2003ءصفحہ 415)

یہ درست ہے کہ بعض صلاحیتیں انسان میں فطری ہوتی ہیں جیسا کہ ہم دیکھتے کہ ایک ہی ماں باپ کے بچے جو ایک ہی ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں بعض فطری امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ مذہب، عادات وخصائل اور علمی یا فنی صلاحیتوں کے حوالے سے جس قسم کے ماحول، موسم، حالات اور لوگوں سے بچوں کا واسطہ پڑتا ہے اُسی مناسبت سے اُن پر نقش و نگار اُبھر آتے ہیں اور اُن کی صلاحیّتیں چمک اٹھتی ہیں اور اُنہیں جِلا ملتی ہے۔ یہ بھی انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے جس پر مشاہدہ بھی گواہ ہے کہ جب ایک وقت کے بعد انسان کا ماحول اور حالات بدلتے ہیں تو وہ پہلے والے نقش و نگار بھی بہت حد تک بدل جاتے ہیں۔ اِس لیے کوئی وجہ نہیں کہ کسی انسان کو محض خارجی اور عارضی اثرات کی وجہ سے حقیر اور کم ترسمجھا جائے اور دوسرےکو اعلیٰ اور افضل۔

اِس امر سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ شعوب و قبائل اور اقوام کا وجود دنیا میں موجود ہے اور اِن کی موجودگی ضروری بھی ہے ورنہ پہچان اور تشخصِ قومی کا نظام ہی قائم نہیں رہ سکتا۔ اِسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض قبائل میں بعض عادات و اَخلاق اور خصائل خاص طور پر پائے جاتے ہیں۔ مثلا ًبعض اقوام جنگجو اور بہادر ہوئی ہیں جبکہ بعض دوسری مثلاًمہمان نوازی اور ایفائے عہد میں مشہور تھیں۔ اسی طرح پرانے طرزِ حکومت کے تحت بعض اقوام نے اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کی ہے۔ علیٰ ہذالقیاس۔ لیکن یہ حقیقت ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اِس کا سبب نظامِ دنیا، ماحول، حالات، آب و ہوا اور دیگر خارجی اثرات ہیں۔ اِس ضمن میں یہاں ذیل میں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو یہ حقیقت ذہن نشین ہو جائے کہ کس طرح ارد گرد کے حالات اور ماحول انسانی اخلاق و کردار، اندازِ فکر اور اُس کے طرزِ زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

1۔ دیہاتی اور شہری زندگی

دیہاتی اور شہری زندگی کا فرق ہمارے سامنے ہے۔ عموماً دیہاتوں کے لوگ نسبتاً زیادہ جفاکش اور محنتی ہوتے ہیں۔ وہ شہریوں کی نسبت آپس میں زیادہ پیار محبت اور بھائی چارے سے رہتے، ایک دوسرے کے کام آتے، دکھ درد غمی خوشی میں شرکت کرتے اور تعاونِ باہمی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پیدائشی طور پر اِن اوصاف کے حامل ہوتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے اِس اندازِ فکر اور طرزِ عمل پر دیہاتی ماحول اور طرزِ بودوباش کا اثر ہوتا ہے۔ بعض لحاظ سے گاؤں کی زندگی شہر کی نسبت زیادہ کٹھن ہوتی ہے اور اُس کے باسی بھی اُسی نسبت سے سخت جان ہوتے ہیں۔

سماجی دباؤ غیر محسوس طور پر لوگوں کےافعال و کردارپر اثر انداز ہوتا رہتا ہے بلکہ بعض اوقات اِس کے اثرات مذہبی تعلیمات کے اثرات سے بھی زیادہ گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں سے اسلام میں آنے والی اقوام نے باوجود اِس کے کہ اُنہیں اسلام قبول کیے سینکڑوں سال ہو چکے ہیں کئی پرانے ہندوانہ رسم و رواج آج تک ترک نہیں کئے۔ ماضی میں بعض امور دیہاتی زندگی کا لازمہ تھے۔ کاشتکاری اور لوگوں کی تمدنی ضرویات کی فراہمی کےلیے گاؤں کی زندگی میں بہت سے مددگار کارندوں کی ضرورت ہوتی تھی جو ایک لحاظ سے زمینداروں کے ملازم بھی ہوتے تھے۔ لوہار، ترکھان، کمہار، جولاہے، سقے، موچی، نائی وغیرہ۔ اُن کی تنخواہیں اُنہیں عموماً چھ ماہ بعدغلے کی صورت میں ملتی تھیں۔ اِن سب کے ساتھ زمینداروں کامعاہدہ ہوتا تھا جسے پنجابی میں ‘‘سیپ’’ کہا جاتا ہے۔ اِن کارندوں کو ‘‘کَمی’’ یعنی زمینداروں کے کام کرنے والے کہا جاتا۔ اب ظاہر ہے زمیندار زمینوں کے مالک تھےاور یہ سب ملازم جن کی زیادہ تر ضروریاتِ زندگی کا انحصار چھ ماہ بعدملنے والے اناج پر ہوتا۔ اِن کی روزمرّہ کی دیگر کئی ضروریات بھی اکثر زمینداروں سےہی پوری ہو جاتیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی ‘‘کَمی’’ نے کوئی پالتو جانور بھینس وغیرہ رکھی ہوئی ہوتی تو اُس کا چارہ بھی اپنی ‘‘سیپ’’ والے زمینداروں کے کھیتوں سے لے آتے اور عورتیں اُن کے گھروں میں کام کرتیں اور اشیائے خورو نوش وہاں سے بھی اُنہیں مل جاتیں۔ اُس زمانے میں مزدور یونین طرز کی کوئی تنظیم تو ہوا نہیں کرتی تھی جو اِن کے ‘حقوق’ کےلیے آواز اٹھاتی اِس لیے زمیندار ایک طرح سے حاکم ہوا کرتے تھے اوریہ کارندےاُن کی رعایا۔ مستزاد یہ کہ ہر طرف ہندوانہ قومی اور نسلی افتراق اور طبقاتی درجہ بندیوں کا ماحول چھایا ہوا تھا اور بالعموم ناخواندگی کا دور دورہ تھا۔ اِس تمام صورتِ حال کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ ایک طرف تو ’کَمی’ طبقہ غربت اور مسکینی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا اور دوسری طرف اُن کی اَخلاقی اقدار بھی بہت حد تک دب کے رہ گئی تھیں۔ کوئی کارندہ نہ تو زمیندار کے برابر چارپائی پر بیٹھنے کی جرأت کر سکتا تھا اور نہ ہی اُس کی اپنی کوئی رائے ہوتی تھی۔ اِسی طرح اُن میں شجاعت اور جرأت بھی بہت حد تک ناپید تھی اور وہ دیہاتی ماحول میں عام طور پردب کر زندگی گزارنے پر مجبوراً عادی ہو چکے تھے۔

یہ تھیں وہ ماحول کی زنجیریں جن میں دیہاتی معاشرہ جکڑا ہوا تھا۔ پھر علم کی روشنی پھیلنی شروع ہوئی۔ صنعتوں نے بھی ترقی کی اور دنیا ایک نئے رنگ میں آ گئی۔ زمینداری کےلیے ٹریکٹر اور نئی نئی مشینیں نکل آئیں، کپڑوں اور جوتیوں کی فیکٹریاں بن گئیں، بجلی آ گئی، ٹیوب ویل لگ گئے اور لوگوں نے گھروں میں ہینڈ پمپ لگوا لیے تو زمینداروں کو اُن کارندوں کی بھی اُس طرح ضرورت نہ رہی۔اُن لوگوں نے تعلیم حاصل کر کے ملازمتیں اختیار کر لیں یا فیکٹریوں میں مزدوریاں شروع کر دیں یا پھر ذرائع معاش کی تلاش کےلیے غیر ممالک کا رُخ کر لیا۔ اب دیہاتوں میں اُن کارندوں میں سےاکثر نے اپنےوہ آبائی پیشے چھوڑ دیے ہیں اور ‘سیپ’ اب نام کی رہ گئی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کارندوں کی اولادوں میں سے ایسے بھی ہیں جن کے مکانات بہت سے زمینداروں سےاچھے ہیں اور اُن کے پاس مال ودولت کی بھی کمی نہیں۔ اُن کے معاشی حالات اب وہ نہیں جو اُن کے آباو اجداد کے ہوا کرتے تھے۔

2۔ بعض ممالک کا عمومی ماحول

ہم جانتے ہیں کہ مثلاً پاک و ہند اور بعض دیگرمشرقی ممالک میں بعض عوامی طبقات کس قدر قانون شکنی، لوٹ مار، رشوت ستانی، اقرباپروری، ہڑتالوں، دھوکا دہی، کذب بیانی، مظاہروں، جلوسوں، دَھرنوں، توڑ پھوڑ اور خون خرابہ وغیرہ کرنے والا مزاج رکھتے ہیں۔ علماء کہلانے والوں کا مذہبی کاروبار اور متشددانہ رویہ اوراسکولوں اور مدرسوں میں اساتذہ میں سے بعض کا بچوں سے ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک ہم سب جانتے ہیں۔ آئے دن اِس قسم کی کارروائیوں میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور ملکی املاک اور معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی سڑکوں پر آ کر اُسی رنگ میں توڑ پھوڑ اور مظاہرے کرتا اور وہی طرزِ عمل اپناتا ہے جو جہلاء کا خاصا ہوتا ہے۔ قوم کے لیڈروں اور سیاستدانوں کا جھوٹ اور مکرو فریب، قومی خزانے کو لوٹنے وغیرہ کے رِجس اور غلاظت سے پُر رویّےسب کے سامنے ہیں۔ یہ گویا وہا ں کی معاشرتی زندگی میں ریڑھی والے سے لے حکمرانوں تک معمول کی باتیں ہیں اور اُن کا قومی مزاج ہے۔

اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب عادات و خصائل اور اَخلاق و کردار اُن میں پیدائشی طور پر پائے جاتے ہیں؟ ایسا نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ اِس تمام صورتِ حال کی وجوہات خارجی ہیں۔ مثلاً مناسب قوانین کا فقدان اور اُن کے نفاذ میں کمزوری، عدلیہ کا انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا، غربت و افلاس، تعلیم کی کمی اور عالمی سیاست کے اثرات وغیرہ۔ اگر اِن عوامل کو دور کر دیا جائے تو اِنہی لوگوں کے رویّے میں بھی لازماً تبدیلی آ جائے گی۔

3۔ بنتی گرتی حکومتیں

جن اقوام نے کچھ عرصہ حکومت کی ہے تو اِس کی وجہ یہ نہیں کہ خدا نے اُنہیں حکومت کرنے کےلیے اور دوسروں کو پیدائشی طور پر محکوم پیدا کیا تھا۔ اگر ایسی بات ہوتی تو اُن کی حکومتیں کبھی نہ مٹتیں۔ لیکن تاریخِ اقوامِ عالَم گواہ ہے کہ قومیں ابھرتی اور گرتی رہتی ہیں۔ حکومتیں بنتی اور مٹتی رہتی ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ملکوں میں انقلابات آتے ہیں تو شکست کھانے والے اور زیر نگیں ہونے والے بڑے بڑے جابر بادشاہ اور اُن کے خاندانوں کے سب افراد کو فاتحین نے یا تو صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالا اور یا پھر ہمیشہ کےلیے ملک بدر کر دیا جہاں وہ کس مپرسی کی حالت میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ جن اقوام کی ہندوستان میں حکومتیں تھیں آج وہ کہاں ہیں؟ کیا اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نہ تو کسی قوم کے افراد پیدائشی طور پر حاکم پیدا کیے گئے ہیں اور نہ محکوم۔

4۔ مخصوص علاقوں کے ماحولیاتی اثرات

جنگلوں اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے نسبتاً زیادہ سخت جان، نڈر اور بہادر ہوتے ہیں۔ اِس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں پیدائشی طور پر ایسا پیدا کیا ہےبلکہ اِس لیے کہ جس ماحول اور حالات میں وہ اور ان کے بزرگ رہتے چلے آئے ہیں وہ اُنہیں ایسا بنا دیتے ہیں۔ اُنہیں سخت محنت کر کے اپنی روزی کمانی پڑتی ہے۔ جنگلی جانوروں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہےاور اُن کا وہ شکار بھی کرتے ہیں۔ پھر موسمی اثرات کا جس طرح وہ مقابلہ کرتے ہیں شہروں میں بسنے والوں کو اُس صورتِ حال سے دوچار ہونا نہیں پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سخت جان، بہادر، جنگجو اور نڈر ہوتے ہیں۔ خدا اُنہیں پیدائشی طور پر زائد اعضاء نہیں عطا فرماتا کہ وہ ایسے ہو جائیں بلکہ حالات اور ارد گرد کے ماحول نے اُنہیں ایسا بنا دیا ہے۔

اِس پہلوکی مزید وضاحت کےلیے پالتو اور جنگلی جانوروں کی زندگی پر غور کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ نہ صرف اِن کے اجسام بلکہ خصائل میں بھی عظیم الشان فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جنگلی گدھے، گھوڑے، گائے یا بیل، ہرن، شتر مرغ وغیرہ اپنے ہم جنس گھریلو اور پالتو جانوروں کی نسبت کہیں زیادہ خوبصورت اورسڈول جسم والے، صحت مند، چاک و چوبند اور چست ہوتے ہیں۔ آجکل بعض شوقین امراء بعض درندوں مثلاً شیروں اور چیتوں کے بچوں کو گھروں میں پالتے ہیں۔ جب یہ پل کر جوان ہو جاتے ہیں تو اُن میں سے اکثر میں اپنے ہم جنس جنگلی شیروں اور چیتوں والی کوئی بھی بات نہیں ہوتی۔ اِسی طرح بعض گھروں میں کتا، بلی، خرگوش اور پرندے اکٹھے پیار سے ایک ساتھ رہتے اور آپس میں کھیلتے ہیں۔ اِسی پر ہم انسانوں کے اخلاق و کردار پر مختلف اقسام کے ماحول کےاثرات کو بھی قیاس کر سکتے ہیں۔

5۔ماحول کی تبدیلی سے اخلاقی اقدار میں تبدیلی

پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی اقوام پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اِن میں سے جو لوگ مغربی ممالک میں آ بسے ہیں کیا مختلف امور کے بارے میں اُن کا وہی رویّہ ہے جو یہاں آنے سے قبل اپنے ممالک میں تھا؟ کیا حالات اور ماحول کی تبدیلی سے اُن کے اندازِ فکرمیں واضح تبدیلی نہیں آئی؟ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات اور روابط کے حوالے سے وہاں کیسا رویّہ تھااور یہاں کیسا ہے؟ کیا اُن ممالک میں عیسائیوں یا بعض دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اکٹھا کھانا کھایا کرتے تھے؟ وہاں تو لوگ کہا کرتے تھے کہ سؤر کا نام لے لیں تو چالیس دنوں تک زبان پلید رہتی ہے۔ کیا مغربی دنیا میں بھی اُن کی وہی سوچ ہے؟ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے سلوک اور گھریلو زندگی میں اُن کا رول اور کردار،کیا مغربی دنیا میں بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ وہاں اپنے ممالک میں تھا؟ کیا بچوں کو یہاں بھی ویسے ہی سرزنش کی جاتی ہے جیسے وہاں بے دریغ کی جاتی تھی؟ اِسی طرح کیا ہمارے صفائی کے معیار بھی نہیں بدل گئے؟ یہاں تو ایسے انتظام ہیں کہ ایک مکھی بھی کمرے میں داخل نہ ہو سکے اور وہاں جو حالات تھے اس سے کون ناآشنا ہے۔

جانوروں تک کے معاملے میں ہماری سوچ اور طرز عمل بدل چکے ہیں۔ شہروں اور گاؤں میں سے پانی کے نالے گزرتے ہیں جہاں بے شمار جنگلی آبی جانور تیرتے نظر آتے ہیں۔ لوگ اُنہیں دیکھتے اور خوش ہوتے ہیں اور اگر انتظامیہ کی طرف سے اجازت ہو تو کھانا بھی ڈالتے ہیں۔ نہ تو کوئی اُنہیں پتھر مارتا ہے اور نہ ہی کبھی ہم نے کسی کو اُن کا شکار کرتےدیکھا ہے۔ بازاروں میں جنگلی کبوترلوگوں کے بیچوں بیچ دانے دنکے کی تلاش میں بغیر کسی ڈر کے چلتےپھرتے ہیں اور کوئی اُنہیں کچھ نہیں کہتا۔ اپنے ملکوں میں عمومی طور پر کتوں کے معاملے میں ہمارے کیا رویّے تھے اور یہاں کیا ہیں؟ یہاں پر لوگوں نے کتوں کو فردِ خانہ کی طرح رکھا ہوتا ہے اوراپنے بچوں کی طرح اُن کے کھانے اور صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ کسی کتے کو مارنا تو درکنار آپ کسی کے کتے کو جھڑک تک نہیں سکتے۔ اگر کوئی شخص کسی جانور کو مارتا ہوا بھی پکڑا جائے تو اسے قانونی طور پر سزا ہو سکتی ہے۔ خاکسار راقم الحروف نے یہاں جرمنی کے شہر Mannheim میں پہلی دفعہ کتوں کا باقاعدہ قبرستان دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اِس میں عام قبرستانوں کی طرح خوبصورت درخت، گملوں میں لگے پھول،کیاریاں اور ہری بھری گھاس کے بیچوں بیچ باقاعدہ قبریں بنی ہوئی تھیں۔ ماحول کی اِس صورتِ حال کا ظاہر ہےہم پر بھی اثر ہے اور اب ہم بھی جانوروں کے بارے میں کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ہماری سوچ اور طرز عمل اِس کے مطابق ڈھل چکا ہے۔

مذہبی و نسلی منافرت یہاں قانوناً جرم ہے اور اِس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ کوئی بھی کسی دوسرے مذہب والے سےنہ تو قولاً اور نہ ہی فعلاً نفرت کا اظہار کر سکتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کے سوشل بائیکاٹ یا مذہب اور عقیدے کی بنا پرکسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے سے انکار کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے مختلف رنگ و نسل اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف عقائد رکھنے کے باوجود انسانیت کے ناطے پُر امن طریق سے رہتے ہیں۔ ماحول کی اِس صورتِ حال کا ہماری سوچوں اور طرز عمل پربھی اثر ہے اورمذہب کے حوالے سے وہ شدّت پسندی ہرگز نہیں رہی جو اپنے ممالک میں ہوا کرتی تھی۔

وہ لوگ جو وہاں بڑے جوشیلے اور ذرا ذرا سی بات پر مار دھاڑ کرنے والے اور فسادی تھے کیا اُنہیں یہاں کے قوانین کی پابندیوں نے بہت حد تک صلح جُو اور حلیم طبع نہیں بنا دیا؟ ہم نے یہاں مغربی ممالک میں پاک و ہند کی بڑی بڑی ‘اعلیٰ قوموں’ کے بعض لوگ روزی کمانے کی خاطر ایسے ایسے کام کرتے دیکھے ہیں جو وہاں اُن کے ’’کَمیکمین’’یا چوہڑے چمار کیا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہی لوگ چھٹیاں گزارنے اپنے ملکوں کو لوٹتے ہیں تو وہاں اُس ماحول میں چند دنوں کےلیے یہ پھر سے اپنی پرانی ڈگر کے مطابق وقت گزارتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماحول اور حالات نے ہمارےپرانے مزاج بدل نہیں دیے ؟

6۔ نوزائیدہ بچے کی پرورش کا تجربہ

کسی ایسے شخص کا نوزائیدہ بچہ لیں جو بڑا قانون شکن، قتل و غارت کرنے والا، جاہل اور فسادی مشہور ہو یا پھر کسی ’کَمیکمین’ کا بچہ لیں اور اُس کی پرورش کسی ترقی یافتہ ملک میں کریں۔ اُسے اچھا اور مہذّب ماحول مہیّا کریں، اعلیٰ اخلاقی اقدارسے مزیّن کریں اور اُسے اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ یہ بچہ بڑا ہو کر لازماً مہذّب اور قوانینِ ملکی کی پابندی کرنے والاایک پُرامن اور اچھا شہری ہو گا اور اُس میں اپنے والد کے منفی کِردار کی شاید ہی کوئی جھلک نظر آئے۔ اِس عنوان کے تحت شروع میں صحیح مسلم کی مشہور حدیث درج کی جا چکی ہے جس میں بچے کے فطرت صحیحہ پر پیدا ہونے اور بعد میں اُس پر والدین اور ماحول کے اثرات کا ذکر ہے۔ یعنی جس مذہب یا ماحول میں اُس کی پرورش ہوتی ہے وہ وہی بن جاتا ہے۔ پس دراصل اَخلاق و کردار اور اندازِ فکر و عمل میں یہ تبدیلیاں ماحول اور حالات کے اثرات کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ذات، قوم اور نسل کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

7۔ خوراک کے اثرات

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ خوراک کے نہ صرف انسان کے جسم پر اثرات ہوتے ہیں بلکہ یہ اُس کے اخلاق و کردار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جنہیں مرغن اور زیادہ مقدار میں غذائیں کھانے کےلیے میسّر نہیں ہوتیں اور وہ صرف اپنے پالتو جانوروں کا دودھ اور گوشت اور دیگر سادہ اغذیہ استعمال کرتے ہیں اُن کے نہ صرف جسم صحت مند، موزوں، خوبصورت اور سمارٹ ہوتے ہیں بلکہ‘صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے’ کے مقولے کے مطابق اُن کے اخلاق بھی معتدل اور دل و دماغ روشن اور تازہ دم اور زرخیز ہوتے ہیں اور وہ شجاع، بہادر اور نڈر ہوتے ہیں الّا ماشاء اللہ۔

اِن کے مقابل پر ایسے لوگ جنہیں ہر طرح کی اغذیہ کثرت سے میسّر ہوتی ہیں چاہے وہ شہروں میں رہتے ہوں یا دور دراز کے دیہات وغیرہ میں اگر وہ احتیاط نہ برتیں اور سہل پسندی کی طرف مائل ہوں تو اُن کے جسم زیادہ جلدی موٹاپے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ مرغّن کھانوں کی کثرت سےاُن کے جسموں میں فاسد رطوبتیں اور فضلات پیدا ہو کر اُن کے بخارات اُن کے ذہنوں اور افکار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ غذاؤں کے دل و دماغ اور اِن کی قوتوں پر اثرات کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ایسا ہی تجربہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ طرح طرح کی غذاؤں کا بھی دماغی اور دلی قوتوں پر ضرور اثر ہے۔ مثلاً ذرا غور سے دیکھنا چاہئے کہ جو لوگ کبھی گوشت نہیں کھاتےرفتہ رفتہ اُن کی شجاعت کی قوت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نہایت بزدل ہو جاتے ہیں اورایک خدا داد اور قابلِ تعریف قوت کو کھو بیٹھتے ہیں۔ اِس کی شہادت خدا کے قانونِ قدرت سے اِس طرح پر بھی ملتی ہے کہ چارپایوں میں سے جس قدر گھاس خور جانور ہیں کوئی بھی اُن میں سے وہ شجاعت نہیں رکھتا جو ایک گوشت خور جانور رکھتا ہے۔ پرندوں میں بھی یہی بات مشاہدہ ہوتی ہے۔ پس اِس میں کیا شک ہے کہ اخلاق پر غذاؤں کا اثر ہے۔ ہاں جو لوگ دن رات گوشت خوری پر زور دیتے ہیں اور نباتی غذاؤں سے بہت ہی کم حصہ لیتے ہیں وہ بھی حلم اور انکسار کے خلق میں کم ہو جاتے ہیں اور میانہ روش کو اختیار کرنے والے دونوں خُلق کے وارث ہوتے ہیں۔ اِسی حکمت کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ قرآنِ شریف میں فرماتا ہے :

کُلُوْا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوْا (الاعراف 32)

یعنی گوشت بھی کھاؤ اور دوسری چیزیں بھی کھاؤ مگر کسی چیز کی حد سے زیادہ کثرت نہ کروتا اس کا اخلاقی حالت پر بد اثر نہ پڑےاور تا یہ کثرت مضر صحت بھی نہ ہو۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 320)

8۔ مغربی ممالک کے ماحول کے اثرات

ماحول اور حالات کے انسانی سوچ اور اندازِ فکر کے حوالے سے آخری اور فیصلہ کُن بات یہ ہے کہ نسلی تفاخر کا وہ جن جو سینکڑوں سالوں سے کسی طور نکلنے کا نام نہیں لیتا تھااِس مغربی معاشرے اور ماحول کے اثرات کے تحت یہاں پر پلنے بڑھنے والی ہماری نسلوں کے دلوں اور دماغوں سے بہت حد تک نکل چکا ہے۔ اِنہیں خیال تک نہیں آتا کہ ہم فلاں قوم یا ذات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ایسی باتوں کو وہ بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کے والدین اب بھی ‘نسلی تفاخر’ کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اور اُن کے بس میں ہی نہیں کہ وہ اس چیز کے جراثیم کو یہاں پر پلنے بڑھنے والی اپنی اولادوں میں منتقل کر سکیں الا ماشاء اللہ۔

اِس ترقی یافتہ مغربی دنیا کے ماحول میں اور کئی طرح کی خرابیاں تو موجود ہیں لیکن یہاں خاندانی تفاخر کی بیماری بہت حد تک ناپید ہے۔ اگرچہ نسلی امتیاز کے بعض واقعات یہاں ہوتے رہتے ہیں لیکن ثابت ہو جانے پر یہ چیز بہت سخت جرم شمار کی جاتی ہے۔

یہاں قوموں یا پیشوں کی وجہ سے کوئی بڑا یا چھوٹا نہیں بلکہ قومیں یہاں زیرِ بحث ہی نہیں۔ یہاں بھی لوگوں کے فیملی نام ہوتے ہیں بلکہ یہاں پر رائج قانون کے مطابق ہر شخص کا فیملی نام ہوتا ہے جو ہمیشہ اُس کے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ اس کا تعلق اس فردِ واحد کے قوم قبیلے سے کوئی تعلق ہو۔ یہ فیملی نام اُسی طرح کے ہیں جیسے ہمارے ہاں کسی وجہ سے کسی کی ’’اَل‘‘ پڑ جاتی ہے۔ مثال کے طور بعض لوگ اپنی کسی صفت، قد، جسامت یا کسی اور خصوصیت کی وجہ سےمشہور ہوجاتے ہیں۔ اِسی طرح یہاں پر بعض نام کسی کے کام یا پیشے کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب فیملی نام یہاں پر صرف اور صرف پہچان کےلیے استعمال ہوتے ہیں اور قطعی طور پرکسی قسم کے تفاخر یا تحقیر کا باعث نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سورۃ الحجرات کی جس آیت کا قبل ازیں ذکر کیا گیا ہے اُس پر کما حقہٗ اِس مغربی دنیا میں عمل ہوتا ہے۔ اِسی ماحول کا اثر ہماری نسلوں نے قبول کیا ہے اور وہ بیماری جو پشت در پشت چلی آ رہی تھی آگے اِن میں منتقل نہیں ہوئی۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ بیماری پیدا بھی ماحول کے اثرات کی وجہ سے ہوئی تھی اور دور بھی ماحول ہی کے اثرات سے ہوئی ہے۔

مساوات کی حقیقت

اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں فرماتا ہے :

نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰو ۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضَھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا۔
(الزخرف 33)

ترجمہ: ہم ہی ہیں جنہوں نے اُن کی معیشت کے سامان اُن کے درمیان اِس ورلی زندگی میں تقسیم کیے ہیں اور اُن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسروں پر فوقیت بخشی ہے تاکہ اُن میں سے بعض، بعض کو زیرِ نگیں کر لیں۔

پس مساوات کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کے تمام انسان ہر پہلو اور ہر لحاظ سے ایک جیسے ہو جائیں اورنہ ہی ہمارے اِس مضمون کا یہ مقصد ہے۔ یہ بات تو قانونِ فطرت ہی کے خلاف ہےاور ایسا ہوناممکن ہی نہیں۔ انتظاماتِ دنیا کے چلانے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ تقسیمِ کار ہو اور اِس لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ لوگ مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اُن کے معاشی حالات بھی مختلف ہوں اور وہ مختلف کام اور ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ دنیا میں حاکم بھی ہوتے ہیں اور رعایا بھی، مالک بھی اور نوکر بھی، کاشتکار، مزدور، افسر، ماتحت، ڈاکٹر، پروفیسر، تاجر وغیرہ انسانی معاشرتی زندگی کا لازمہ ہیں۔ پس اصل مقصد یہ واضح کرنا ہے جس کی فطرتِ انسانی بھی تقاضا کرتی ہے اور اسلامی تعلیم بھی یہی ہے کہ انسانوں میں اِس فطری فرقوں کے باوجود احترامِ آدمیّت ہو اور کسی بھی انسان کو اُس کے خاندان، مفلسی یا کام کی وجہ سے کم تر اور حقیر نہ سمجھا جائےورنہ نظامِ دنیا چلانے کےلیے تو یہ لازم اور ضروری ہے کہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے بعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہو۔

احمدیت کے اثرات

سورۃ الجمعہ کی پانچویں آیت :

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ۔ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔

یعنی ’’یہ اللہ کا فضل ہے وہ اِس کو جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘ سے استنباط ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے مسیح و مہدی نے قریشیوں میں سے نہیں ہونا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بھی اِس آیت سے یہی استنباط فرمایا ہے۔ اِس حوالے سے آپ کا ایک ارشاد ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔ اسلام کے اوّل دَور میں اللہ تعالیٰ نے قریشیوں کو سیّد یعنی سردار بنایا تھا لیکن آخری زمانے کی سرداری فارسیوں کے حصے میں آئی ہےاور آج خدا نے اُنہیں سیّد بنا دیا ہے۔ اِس آیت کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اپنے ترجمۃ القرآن کے فٹ نوٹ میں فرماتے ہیں :

’’اِس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات رسول اللہﷺ کی بعثت سے متعلق نہیں ورنہ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآء کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ اِس سے مراد آپ کی بعثتِ ثانیہ ہےجو آپ کی غلامی میں ظاہر ہونے والے ایک امّتی نبی کی صورت میں ہو گی اور یہ اعزاز ایک فضل ہے جو اللہ جسے چاہے گا عطا کرے گا۔ وہ بہت فضل اور احسان کرنے والا ہے۔ اِس استنباط کی تائید صحیح بخاری کی اُس حدیث سے بھی ہوتی ہےکہ اِس آیت کی تلاوت پر صحابہ ؓ نے سوال کیا کہ مَن ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ۔ یہ نہیں پوچھا کہ وہ کون نازل ہو گابلکہ یہ پوچھا کہ وہ کن کی طرف مبعوث ہو گا۔ اِس پر آنحضورﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائےتو اِن لوگوں میں سے ایک مَرد یا بعض مَرد ہوں گے جو اُسے واپس ثریا سے زمین پر لے آئیں گے۔ اِس سے قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اللہﷺ بنفسہ دوبارہ مبعوث نہیں ہوں گے بلکہ آپ کا ایک غلام مبعوث ہو گا جو رجل فارسی الاصل یعنی اہلِ عجم میں سے ہو گا۔ ‘‘

اِس میں قریشی سادات کی ہرگز کوئی تحقیر نہیں بلکہ ایک حقیقتِ حال کا بیان ہے۔ ہزاروں قریشی سادات نے اِس زمانے کے امام اور مسیح و مہدی کے قدموں میں اپنے سَر رکھ دیے ہیں۔ اِن میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خود پیر و مُرشد تھے اور جن کے اپنےلاکھوں مرید تھے لیکن اُنہوں نے یہ سب عزّتیں چھوڑ چھاڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا پیرو مُرشد اور پیشوا مان لیا۔ اِس پہلو سے آپؑ سید السادات قرار پاتے ہیں۔

ہم ذکر کر آئے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی قوتِ قدسیہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگیوں میں اِس قدر عظیم الشان انقلاب پیدا ہواکہ جس کی کوئی نظیر تاریخِ انسانی میں پائی نہیں جاتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے عربی قصیدہ در مدح حضرت خاتم الانبیاءﷺ فرماتے ہیں :

صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرَوْثٍ ذِلَّۃً

فَجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانٖ

ترجمہ: تو نے اُنہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا پھر تُو نے اُنہیں خالص سونے کی ڈلی کی مانند بنا دیا۔

بعینہٖ آپ کے غلام اور عاشقِ صادق مسیح ِآخرالزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پاک تاثیرات کی بدولت آپ کی جماعت میں بھی بے شمار امتیازی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے آپ کے ماننے والے دوسروں سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ قبل اِس کے کہ افرادِ جماعت احمدیہ کی اِن خصوصیات کا مختصراً ذکر کیا جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کی مناسبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند ارشاداتِ عالیہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دیے جائیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:

٭…’’یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ وجہ شرافت نہیں۔ خدا تعالیٰ نے محض عُرف کیلئے یہ ذاتیں بنائیں۔ اور آجکل تو صرف بعد چار پشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی مشکل ہے۔ متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ میرے نزدیک ذات کی کوئی سند نہیں۔ حقیقی مکرّمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 23، مطبوعہ 2003ء)

ایک شخص نے بعض لوگوں کا اعتراض پیش کیا کہ سیّد ہو کر اُمّتی کی بیعت کرتے ہو۔ اِس پر آپؑ نےفرمایا:

٭…’’خدا تعالیٰ نہ محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے۔ اُس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے۔

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔

یعنی اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔ یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں کہ مَیں سیّد ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں۔ اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے۔ مَرنے کے بعد سب قومیں جاتی رہتی ہیں۔ خداتعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پا سکتا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو کہا ہے کہ اے فاطمہؓ تُو اِس بات پر ناز نہ کر کہ تُو پیغمبر زادی ہے۔ خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں۔ وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں۔ یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام ہیں۔ خدا تعالیٰ سے اِن کا کوئی تعلق نہیں۔ خدا تعالیٰ کی محبت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ ہی مدارجِ عالیہ کا باعث ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیّد ہو اور وہ عیسائی ہو کر رسول اللہﷺ کو گالیاں دے اور خدا کے احکام کی بے حرمتی کرے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو آل ِرسول ہونے کی وجہ سے نجات دے گا اور وہ بہشت میں داخل ہو جائے گا؟……خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑا دیا ہے۔ یہ دنیا کے انتظام اور عرف کے لئے قبائل ہیں……پھر یہ جو فرمایا :

اِنّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔

کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ مِنَ السَّیِّدِ یْن……اب بتاؤ کہ یہ وعدہ سیّدوں سے ہوا ہے یا متقیوں سے۔ اور پھر یہ فرمایا کہ متقی ہی اللہ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔ یہ وعدہ بھی سیّدوں سے نہیں ہوا……پھر فرمایا :

ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہ۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ھُدًی لِّسَّیِّدِ یْنَ

نہیں کہا۔ غرض خدا تعالیٰ تقویٰ چاہتا ہے۔ ہاں سیّد زیادہ محتاج ہیں کہ اِس طرف آئیں کیونکہ وہ متقی کی اولاد ہیں۔ اِس لئے اُن کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے آئیں نہ یہ کہ خدا تعالیٰ سے لڑیں کہ یہ سادات کا حق تھا۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَّشَاءُ۔ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمٌ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 260-261، مطبوعہ 2003ء)

٭…‘‘بعض نادان ایسے بھی ہیں کہ جو ذاتوں کی طرف جاتےہیں اور اپنی ذات پر بڑا ناز اور تکبر کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی جن میں نبی اور رسول آئےلیکن کیا اُن کی اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا۔ جب اس کی حالت بد ل گئی۔ ابھی مَیں نے کہا ہے کہ اُن کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اِس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے خصوصاً سادات اِس مرض میں بہت مبتلا ہیں۔ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات پر ناز کرتے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ذات کچھ بھی چیز نہیں ہے اور اِسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے۔ آنحضرتﷺ جو سیّد ولدِ آدم اور افضل الانبیاء ہیں۔ اُنہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہ ؓتُو اِس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ مَیں پیغمبر زادی ہوں قیامت کو یہ ہرگز نہیں پوچھا جائے گا کہ تیرا باپ کون ہے۔ وہاں تو اعمال کام آئیں گے۔ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قرب سے دور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اِس سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر ایسی شئے ہے کہ وہ محروم کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات سمجھتا ہے کہ مَیں گیلانی ہوں یا فلاں سیّد ہوں۔ حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ چیزیں وہاں کام نہیں آئیں گی۔ ذات اور قوم کی بات تو مرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے۔ مرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ اِس لئے اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں فرماتا ہے :

مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہْ۔

کوئی برا عمل خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اُس کی پاداش اُس کو ملے گی۔ یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں اور پھر دوسری جگہ فرمایا:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرّم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کروکہ یہ نیکی کیلئے روک کا باعث ہوتا ہے۔ ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو۔ خدا کے فضل اور برکات اِسی راہ سے آتے ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 145-146، مطبوعہ 2003ء)

٭…’’اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ نہیں۔ اُس کے ہاں اِس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی سیّد ہے یا کون ہے۔ آنحضرتﷺ نے خود فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ کسی نے پوچھا کیا آپ بھی؟ فرمایا ہاں مَیں بھی۔ مختصر یہ کہ نجات نہ قوم پر ہےنہ مال پر بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے۔ اور اُس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرتﷺ کی کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔ قوم کا ابتلاء بھی مال سے کم نہیں۔ بعض لوگ دوسری قوموں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اِس ابتلاء میں سیّد سب سے زیادہ مبتلا ہیں۔ ایک گدا گر ہمارے ہاں آئی۔ وہ کہتی تھی مَیں سیّدانی ہوں۔ اُس کو پیاس لگی اور پانی مانگا تو کہا کہ پیالہ دھو کر دینا کسی اُمّتی نے پیا ہو گا۔ اِس قسم کے خیالات اِن لوگوں میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور اِن باتوں کی کچھ قدر نہیں۔

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 445، مطبوعہ 2003ء)

٭…’’ہماری قوم میں یہ بھی ایک نہایت بد رسم ہے کہ دوسری قوم کو لڑکی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سرا سر تکبر اور نخوت کا طریق ہے جو سرا سر احکامِ شریعت کے برخلاف ہے۔ بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں۔ رشتہ ناطہ میں صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجبِ فتنہ ہواور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔

یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیزگار ہے۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 113، مطبوعہ 2018ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےٰﷺ کی کامل اتباع کی اور اپنے ماننے والوں کی بھی اِس رنگ میں تربیت کی کہ جس طرح آنحضرتﷺ کی روحانی توجہ سے اوّلین میں عظیم الشان تبدیلی رونما ہوئی اُسی طرح آپ کی پاک تاثیرات سے آخرین بھی دوسروں سے منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں۔ افرادِ جماعتِ احمدیہ کے مزاج، اندازِ فکر، طرزِ زندگی، دین کی سمجھ اور عبادات کا معیار، دعاؤں پر یقینِ کامل اور سجدات میں الحاح کی کیفیات اور بھیگی ہوئی آنکھیں، بے مثال اِطاعت اور قربانی کی روح، رواداری، شعارِ اسلام کی حفاظت، محبتوں کا پرچار، امن و سلامتی کی فضا، قوانینِ ملکی کی پابندی وغیرہ امور میں غیروں سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جماعتِ احمدیہ ایک عالمگیر جماعت ہے اور تمام برِّ اعظموں سے تعلق رکھنے والے مختلف رنگ و نسل کے باشندے اِس میں شامل ہیں۔ یہ تمام اخلاقی اقدار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدیوں میں قدرِ مشترک ہیں اور ہر ملک میں احمدی مسلمان پُر امن اور اپنے اپنے ملکوں کے وفادار شہریوں کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔

پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ اِس ملک کی پیدائش سے لے کر کم و بیش ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن یہ احمدی عجیب لوگ ہیں جو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے اور خلافت کے آسمانی نظام سے بندھے ہوئے ہیں۔ اِن کے خلاف ظلم و تشدد اور بربریّت کی کارروائیوں پر خلیفۃٔ وقت اِنہیں ہمیشہ صبر اور پُر امن رہنے کی ہی تلقین کرتے ہیں اور دعاؤں کے ذریعے اپنے معاملے کو اپنے مولا کی آسمانی عدالت میں پیش کرنے کی نصیحت فرماتے ہیں۔

خلیفۂ وقت کی تقاریر اور خطباتِ جمعہ سنیں۔ آپ کی طبیعت میں سمندر کا سا سکون ہےاورآپ کا پہاڑوں جیسا پُر عزم اور پُروقار لہجہ ہے۔ کاروانِ احمدیت کا یہ عظیم سالار مخالفین کی متشددانہ کارروائیوں اور ہرزہ سرائیوں سے مستغنی ہر آن سوئے منزل رواں دواں ہے۔ آپ کے اندازِخطابت میں نہ کوئی لفّاظی ہے، نہ تصنّع اور بناوٹ اور نہ ہی پیشہ وروں کی طرح زورِ خطابت دکھانے کا شوق۔ محبتوں کا سفیر، امن و سلامتی کا شہزادہ اور اپنی جماعت کو ہر مشکل اور امتحان کے وقت صبر اور دعاؤں کی تلقین کرنے والا عظیم انسان بھلا دنیا نے اور بھی کہیں دیکھا ہے؟ یہ ہیں خلافتِ حقہ احمدیہ کے خدّ و خال۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے

ذات پات کے حوالے سے بھی دوسرے مسلمانوں اور احمدیوں میں بڑا ہی واضح فرق نظر آتا ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ احمدیوں کاامام الزمان مسیح و مہدی علیہ السلام پر ایمان لانے کی بدولت دینی و دنیوی تعلیمی معیار دوسروں کی نسبت کہیں بلند ہے اور وہ اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے شرف اور عزت کا معیار نیکی اور تقویٰ ہے نہ کہ قوم اورقبیلہ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے نیکی اور تقویٰ کے معیاروں کو بڑھاتا چلا جائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کہ اُس کے نزدیک حقیقی مکرّمت کا یہی معیار ہے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button